انسانی زندگی پر فکر آخرت کے اثرات
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
فکر آخرت کے حوالے سے اللہ تعالی نے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ اور خبردار کرتے ہوئے کہ ﴿ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ (فاطر:5)
’’یقینًا اللہ تعالی کا وعدہ حق اور سچ ہے۔‘‘
قیامت کا برپا ہوتا، نشر یعنی مردوں کا قبروں سے اٹھایا جانا اور حشر یعنی میدان قیامت میں لوگوں کا جمع کیا جانا ایک اٹل حقیقت ہے، فرمایا:
﴿ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
’’دیکھو! تمہیں دنیا اور شیطان اس بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دیں‘‘ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم دنیا کی رعنائیوں میں کھو کر اور شیطان کی چالوں میں آکر آخرت کی حقیقت کو فراموش کر بیٹھو۔
تو اللہ تعالی نے انسان کو آخرت سے غافل کر دینے والی دو بڑی، بنیادی اور مرکزی چیزوں سے واضح اور دوٹوک الفاظ میں خبر دار کر دیا ہے۔
شیطان انسان کو بگاتا، در غلاتا اور دھوکے میں ڈالتا ہے یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہوئے:
﴿ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْ ؕ ﴾ (النساء:120)
’’وہ لوگوں سے وعدے کرتا اور انہیں امید میں دلاتا ہے۔‘‘
یعنی جب وہ کسی کو غلط راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو وہ اسے سبز باغ دکھاتا ہے، منکرات اور محترمات کو مزین کرتا اور خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے، کامیابی کے وعدے کرتا اور انہیں امیدیں دلاتا ہے۔
شیطان جو کہ ہمہ وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، جو اس کے معمولات زندگی سے واقف ہے اور دن رات ان کا مشاہدہ کرتا ہے اس کے میلان طبع ، اس کی خواہشات اور اس کی پسند اور ناپسند کو خوب سمجھتا ہے وہ اپنی ان معلومات اور مشاہدے کی بناء پر اسے مشورے دیتا۔ وعدے کرتا اور امید میں دلاتا ہے۔ ﴿وَمَا يَعِدُ هُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُوْرًا﴾ (النساء:120)
’’مگر شیطان کے سارے وعدے سراسر دھوکہ اور فریب ہوتے ہیں۔‘‘
تو شیطان کا طریقہ واردات تو سب کو معلوم ہے، مگر دنیا اور ساز و سامان زندگی انسان کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں وہ تو انسان کے دل میں وسوسے نہیں ڈالتے۔
تو دنیا انسان کو شیطان کی طرح دھوکہ نہیں دیتی اس کے دل میں وسوسے نہیں ڈالتی، مگر انسان خود ہی دنیا سے دھو کہ کھاتا ہے دنیا کی کشش انسان کے دل کو گھائل کر دیتی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ ( آل عمران:185)
’’اور دنیا کی زندگی تو محض سامان قریب ہے۔‘‘
تو یہ دنیا تو محض سامان فریب ہے، دنیا کی زینت، اس کی کشش، اس کا حسن و جمال اس کی رعنائیاں، اس کا شوق ، اس کی خواہش اور چاہت انسان کو دھوکے میں مبتلا کر دیتی ہے، انسان اس کے حصول کو اپنی حقیقی کامیابی اور سعادت سمجھنے لگتا ہے، اس ناقص، عارضی اور زوال پذیر دنیا کے حصول پر اترانے اور گھمنڈ کرنے لگتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا تو زوال پذیر دنیا کے آزمائش اور امتحان ہے۔
انسان دنیا کی نعمتوں کے ساتھ شدت لگن کے سبب اور ان کی لطف اندوزی میں مگن ہو کر اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتا ہے، نعمتوں میں کھو جاتا ہے اور منظم کو بھول جاتا ہے اور یہی بات اصل میں خرابی کا باعث ہے ورنہ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا منع نہیں ہے، وہ تو
میں ہی لطف اندوز ہونے کے لئے
﴿ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا ۚ﴾ (القصص:60)
’’ تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے دو محض متاع حیات دنیوی اور اس کی زینت ہے۔‘‘
﴿ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠۶۰﴾(القصص:60)
’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے، کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘
یعنی بات صرف اتنی ہی ہے کہ تم لوگ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہو، اسے سب سے بہتر اور دائی سمجھ بیٹھتے ہو۔ زبان سے کوئی شخص دنیا کو بہتر اور ہمیشہ رہنے والی نہ بھی کہتا ہو مگر اس کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
جب دنیا کو آخرت پر، نماز روزے پر اور دین پر ترجیح دے گا تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہوگا کہ وہ دنیا کو آخرت سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والی سمجھتا ہے۔
اللہ تعالی ایسے بندوں پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی اس زیب و زینت کو ترجیح دیتے ہوں اور تعجب کے انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں: (أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ))
’’کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟‘‘
یہ دنیا جو مصیبتوں کا گھر ہے، مسائل کا گڑھ ہے، دکھوں ، پریشانیوں، تکلیفوں، بیماریوں، آزمائشوں ، لڑائی جھگڑوں ، نفرتوں، دشمنیوں اور عداوتوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں ظلم و ستم ہے، غنڈہ گردی ہے، لوٹ مار ہے، ذہنی اور جسمانی اذیتیں ہیں، فتنے ہیں، فسادات ہیں، قدرتی آفات ہیں، یہ دنیا جہاں کی ہر چیز عارضی ہے، ناقص اور ادھوری ہے، اور زوال پذیر ہے، کوئی اسے آخرت کے مقابلے میں ترجیح دے تو کیسے عقلمند ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بے وقعتی اگر سمجھ میں آجائے تو آخرت کی حقیقت سمجھ میں آسکتی ہے۔
اگر کوئی آدمی اس پر غور کرنے کی کوشش کرے تو بات سمجھ میں آسکتی ہے، مگر وہ تو دنیا کو جمع کرنے میں مگن ہے، اس کی لذتوں میں کھویا ہوا ہے، اسے اتنی ہوش اور فرصت ہی نہیں کہ وہ ایسی باتوں پر غور کر سکے۔ اسے اپنے محسن و منعم کا شکر ادا کرنے کی بھی فکر نہیں ہوئی، کیونکہ دو تو اسے اپنی محنت کی کمائی سمجھ رہا ہوتا ہے، وہ تو سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس دولت کے لئے اس نے بارہ بارہ گھنٹے کام کیا ہے، اپنا خون پسینہ بہایا ہے، یہ خالص اس کی اپنی محنت، تجربے اور علم و دانش کا نتیجہ ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے نتیجے میں اسے اس کا مستحق سمجھا ہے اور یہ مال و دولت اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہے۔
جیسا کہ قارون نے کہا تھا۔
﴿ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ؕ﴾(القصص:78)
’’یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بناء پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے۔‘‘
اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا ؕ﴾ (القصص:78)
’’کیا اُس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اُس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے،‘‘ (یعنی بغیر حساب کتاب کے جہنم میں پھینک دیاجائے گا )
یعنی مال و دولت کسی کے لئے اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی کی علامت ہوتا تو اس سے پہلے جو قو میں مال و دولت اور افرادی قوت میں اس سے بھی زیادہ طاقت ور تھیں انہیں کیوں تباہ و برباد کرتا۔
تو آدمی جب مال و دولت کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے یا دوسری نعمتوں کا خود کو حق دار سمجھتا ہے تو پھر اللہ کا شکر ادا کرنے کی طرف اس کا دھیان نہیں جاتا۔ اور اللہ کو بندے سے یہی شکوہ اور گلا ہے کہ وہ نعمتوں میں کھو گیا ہے اپنے محسن اور منعم کو بھول گیا ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ﴾ (الإنفطار:6)
’’اے انسان کسی چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘
﴿ الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَۙفِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ﴾(الانفطار:7۔8)
’’ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ کر تیار کیا۔‘‘
یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ تو اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا، مگر تو تو دنیا کے بہکاوے اور دھوکے میں ایسا آگیا کہ الٹا اپنے رب سے منہ ہی موڑ لیا۔ تجھے اپنی محنت پر ناز ہے، اپنی قابلیت پر فخر ہے، اپنے عہدہ و منصب پر غرور ہے، حالانکہ یہ سب کچھ بھی اللہ تعالی کے فضل خاص کا نتیجہ ہے، مگر چلو! کبھی اس طرف بھی سوچ لیا ہوتا کہ تجھے پیدا کس نے کیا ہے، کس نے بنایا سنوارا ہے، کس نے یہ تو تھیں، صلاحیتیں اور قابلیتیں عطا کی ہیں۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیر تک اپنے آپ کو سنوارتا اور خوش ہوتا ہے، کبھی غور کیا کہ یہ شکل تمہیں کس نے عطا کی ہے، اتنا خوبصورت اور متناسب تجھے کس نے بتایا ہے؟
﴿ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِۙ۱ وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَۙ۲ وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِۙ۳ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍؗ۴ ﴾ (التين:1۔4)
’’ ہمیں قسم ہے انجیر اور زیتون کی ، اور طور سینا کی اور اس پر امن شہر مکہ کی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔‘‘
تو پھر کیا بات ہے اور کیسی احسان فراموشی ہے﴿ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ۶﴾ ’’ تجھے اپنے رب کریم سے کسی چیز نے بہکا دیا ہے ،‘‘ یقینًا اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اگلا﴿ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ﴾ ’’تم لوگ جزا اور سزا کے دن کو جھٹلا بیٹھے ہو۔‘‘
تو یہ ہے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کہ وہ آخرت کو بھلا بیٹھا ہے، مگر سن لو! اللہ تعالی کا وعدہ یقینًا حق اور کئی ہے، قیامت کا دن آکر رہے گا اور حساب کتاب ہو کر رہے گا۔
﴿ فَلَنَسْـَٔلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْـَٔلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙفَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا كُنَّا غَآىِٕبِیْنَ﴾ (الاعراف:6۔7)
’’ہم یقینًا ان لوگوں سے باز پرس کریں گے جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور خود پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا ۔ پھر ہم ان سب کے سامنے اپنے علم سے سب کچھ بیان کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘
تو انسان کی تمام کوتاہیوں ، غفلتوں ، احسان فراموشیوں اور بے راہ رویوں کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کا آخرت پر سرے سے یقین نہیں ہے، یا پختہ یقین نہیں ہے۔
اور جب انسان کو بات سمجھ میں آجائے اور دل میں بیٹھ جائے، اور اس پر پختہ یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس کے طرز عمل میں تبدیلی آتی ہے اور فوری تبدیلی آتی ہے۔
آپ نے دیکھا نہیں کہ فرعون کے جادوگر جو موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لئے آئے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے۔
﴿ فَاَلْقٰی مُوْسٰی عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚۖ۴۵ فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۙ۴۶ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۴۷ رَبِّ مُوْسٰی وَ هٰرُوْنَ۴۸ قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ۚ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ؕ۬ لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ۴۹ قَالُوْا لَا ضَیْرَ ؗ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ۵۰ اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠۵۱﴾(الشعراء:45۔51)
’’تو موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا عصا پھینکا تو وہ ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو اور ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کر گیا۔ تو یہ دیکھ کر سارے جادو گر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ ہم ایمان لے آئے رب العالمین پر موسیٰ اور ہارون کے رب پر ۔ فرعون نے کہا: تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا، معلوم ہو گیا کہ یہی تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو گری سکھائی تھی۔ اچھا اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سولی دیتا ہوں، پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کسی کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: کچھ پرواہ نہیں ، ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں، ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیوں کہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں ۔‘‘
اور ایک دوسرے مقام پر ہے:
﴿ قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ۷۲﴾ (طه:72)
’’جادوگروں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی تجھے ترجیح دیں، تو جو کرنا چاہے کر لے ، تو زیادہ سے زیادہ بس اس دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔‘‘
تو فرعون کے جادوگروں کو جب بات سمجھ میں آگئی اور دل میں گھر کر گئی، تو کتنی دیرگی تبدیلی آنے میں؟ چند لمحے اور کتنی بڑی تبدیلی آئی؟ اندازہ کیجئے پہلے ایک انتہا پر تھے اور تبدیلی کے بعد ایکا ایک دوسری انتہاء پر چلے گئے۔
بات سمجھ میں آنے سے چند لمحے پہلے ان کی حالت کیا تھی اور کسی انتہا پر تھے؟ چند لمحے پہلے وہ فرعون سے کہہ رہے تھے:
﴿ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ﴾ (الشعراء:41)
’’اگر ہم غالب رہے تو کیا ہمیں انعام ملے گا ؟‘‘
﴿ قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ﴾ (الشعراء:42)
’’اس نے کہا: ہاں! اور پھر تم مقربین میں شامل ہو جاؤ گے۔‘‘
مگر جب بات سمجھ میں آگئی تو انعام تو گیا بھاڑ میں، وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔
اب اس واقعے کی روشنی میں اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ ہمیں کہاں تک بات سمجھ میں آئی ہے تو شاید سر شرم سے جھک جائیں کہ ہم سال ہا سال سے اللہ کا پیغام سنتے چلے آرہے ہیں اور ابھی تک ہمارے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، جو اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں بات سمجھ میں نہیں آئی۔
اب ایسے الفاظ کہاں سے لائیں اور کیسا اسلوب اختیار کریں کہ ہمیں بات سمجھ میں آجائے، قرآن وحدیث سے بڑھ کر تو کوئی بات اور کوئی اسلوب اثر انداز نہیں ہوسکتا، چنانچہ حکم ہے کہ جو اللہ تعالی کی وعید اور تنبیہ سے ڈرے اسے قرآن کے ذریعے نصیحت کرو۔
﴿ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ ۫ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۠﴾(ق:45)
’’آپ کا کام ان سے جبرابات منوانا نہیں ہے، بس آپ اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔‘‘
اور اگر قرآن کی بات بھی سمجھ نہیں آتی تو ڈر یہ ہے کہ کہیں خطرے کا الارم نہ بج چکا ہو۔
اور خطرے کا الارم کیا ہے؟ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ؕ وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ۱۴۶﴾(الاعراف:146)
’’میں اپنی آیات سے اُن لوگوں کی لگا میں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین پر تکبر کرتے ہیں اور اگر ہر نشانی دیکھ لیں تو بھی اس پر ایمان نہیں لاتے اور اگر بھلائی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیتے ہیں، یہ اس لیے کہ بے شک انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غافل تھے۔‘‘
اور خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دے دیتا ہے اور خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اللہ تعالی دل سخت کر دیتا ہے اور مخطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اللہ تعالی انسان کی بے راہ روی پر اسے مزید نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے خطرات ہیں۔ لہذا جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ عمل صالح کرے۔
﴿فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠﴾ (الكهف:110)
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور زندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔‘‘
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين …
………………