اسلام میں نظام کی پابندی کی اہمیت

﴿وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ (الفرقان:2)
اللہ تعالی نے کائنات کو پوری طرح درست طریقے سے اور ایک نہایت ہی مضبوط اور دقیق نظام کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے، کائنات کی ہر چیز نہایت ہی منظم و منسق اور مناسب و موزوں پیدا فرمائی، کسی چیز میں کوئی بھی ، ٹیڑھ، دراز اور ادھورا پن نہیں چھوڑا۔
اللہ تعالی نے جہاں ایک طرف کائنات کو درست اور دقیق نظام کے تحت پیدا کرنے کا یہ کہہ کر ذکر فرمایا:
﴿وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ (الفرقان:2)
’’اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کے لئے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر فرمایا۔‘‘
یعنی کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نہایت سلیقے ، قاعدے اور ضابطے کے ساتھ اور ترتیب کے ساتھ اور مناسب اور موزوں پیدا کیا اور ایک نہایت مضبوط اور دقیق نظام کے ساتھ پیدا کیا، اسے بے ہنگم، بے ضابطہ، بے سلیقہ، بے قاعدہ، بے ڈھبا اور بے ڈھنگا پن کے ساتھ نہیں بنایا۔
اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کو درستی اور نظم و نسق کے ساتھ پیدا کرنے کے ذکر کے ساتھ اک چیلنج بھی فرمایا:
﴿مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ؕ ﴾ (الملك:3)
’’تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے رابطی، بے ترتیبی اور بد نظمی نہیں پاؤ گے۔‘‘
﴿فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ۝۳﴾ (الملك:3)
’’ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظر آتا ہے ؟‘‘
﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ۝۴﴾ (الملك:4)
’’بار بار نگاہ دوڑاؤ تمھاری نگاہ تھک کر نا مراد پلیٹ آئے گی ۔‘‘
اندازہ کریں! اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کے نظم و نسق اور رابط وضبط کو بیان کرتے ہوئے ایک ایسے انداز میں بیان فرمایا کہ جس میں ایک چیلنج بھی ہے۔
کا ئنات کے نظم و نسق اور ترتیب و آراستگی کا اگر اندازہ کرنا چاہیں تو تھوڑے سے تدبر و تفکرسے بآسانی سمجھ آسکتا ہے، اللہ تعالی نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:
﴿وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۹۱﴾ (آل عمران:191)
’’وہ آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں:‘‘
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۹۱﴾ (آل عمران:191)
’’پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے رب ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے۔‘‘
یعنی کائنات پر غور و فکر کر کے انسان بے اختیار اس نتیجے پر پہنچتا ہے، کہ یہ کائنات عبث فضول اور بے مقصد نہیں ہے، کیونکہ ایک تو عظیم الشان تخلیق ہے اور پھر اس کا نہایت دقیق نظام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کائنات یونہی بے مقصد اور محض اتفاق سے معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ باقاعدہ ایک مقصد اور منصوبے کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ کائنات کے نظام کی وقت اور باریکی کا اندازہ کیجئے کہ کوئی چیز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی اور دوسرے کے دائرہ کار میں دخل اندازی نہیں کرتی ، اپنے مدار اور اپنے محور میں رہتی ہے اور اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ اگر چیزیں اپنے مدار سے نکل جائیں تو دوسروں سے ٹکرا کر تباہ و برباد ہو جا ئیں۔ آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ اگر سورج چاند سے ٹکرا جائے یا چاند زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا۔ کائنات کے نظام میں اگر ذراسی بھی بے اعتدالی ہو جائے اور کوئی سیار و اپنے مدار سے نکل جائے تو سیارے آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جا ئیں مگر ایسے نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں اس کا اختیار نہیں دیا گیا: ﴿وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ۝﴾ (یس:38)
’’اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جاتا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کر دو حساب ہے ۔‘‘
﴿وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝﴾ (يس:39)
’’اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے۔‘‘
﴿لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ؕ وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝﴾ (يس:40)
’’نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ، سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔‘‘
ہاں کبھی ایسے ہوتا ہے کہ یہ اجرام فلکی ، اور پہاڑ اور زمین اللہ کے حکم سے اپنے مقرر کردہ طرز اور روش سے کچھ مختلف کرنے لگتے ہیں ، مگر سبب اس کا بنی آدم کی بداعمالیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝﴾ (الروم:41)
’’برو بحر میں فساد اور بگاڑ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب پیدا ہوا ۔‘‘
زمین کہ جس کا اصل کام انسان کے لئے پر سکون قیام گاہ مہیا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ۝۶ وَّ الْجِبَالَ اَوْتَادًا۪ۙ۝۷﴾ (النبا :6۔7)
’’ کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ نہیں دیا۔‘‘
یعنی زمین کو انسان کے لئے پر سکون قیام گاہ بنایا اور اسے مزید محفوظ بنانے کے لئے اس میں پہاڑ گاڑ دیئے تا کہ کسی قسم کی جنبش پیدا نہ ہو۔
اور یہیں بس نہیں، بلکہ اس زمین میں برکتیں بھی رکھ دیں اور اس میں اس کی خوراک اور ارزاق بھی رکھ دیئے۔
﴿ بٰرَكَ فِیْهَا وَ قَدَّرَ فِیْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِیْۤ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِیْنَ۝۱۰﴾ (فصلت:10)
’’اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لئے ہر ایک کی طلب و تلاش کے مطابق ٹھیک ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا۔‘‘
اور یہی زمین ایک خوبصورت انتظام کے تحت انسان کے جینے اور مرنے کی جگہ بنادی، جیسا کہ فرمایا:
﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًاۙ۝۲۵ اَحْیَآءً وَّ اَمْوَاتًاۙ۝۲۶﴾(المرسلات:25۔26)
’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی۔‘‘
زمین کو تخلیق فرمانے کے بعد اللہ تعالی نے انسان کی رہائش اور خوراک اور اس کے آرام کے ایسے انتظامات فرمائے اور ایسا نظم ونسق مقرر فرمایا کہ جو نہایت ہی مضبوط ، دقیق اورذرا غور کریں کہ یہی ایک کرہ زمین ہے جو کروڑوں اور اربوں سال سے بے شمار مخلوقات کو اپنی گود میں لئے ہوئے ہے، ہر قسم کے نباتات ، حیوانات اور انسان اس ایک زمین پر بہتے ہیں، اس پر ضروریات زندگی پاتے ہیں اور مرنے کے بعد ان کے لاشے بھی اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور اسی زمین میں بے شمار خزانے اور بے شمار نعمتیں رکھ دی گئی ہیں۔ تو یہ زمین کہ جس کا کام تو یہ ہے کہ انسان کی خدمت کرے، جیسا کہ دیگر مخلوقات انسان کی خدمت پر مامور ہیں، مگر جب انسان خود اپنے نظم و نسق سے نکل جاتا ہے اور بد شکمی کرتا ہے تو زمین بھی اللہ کے حکم سے اپنے نظم و نسق سے نکل جاتی ہے اور اپنے اندر ایسا لرزہ طاری کرتی ہے کہ انسان کو اور اس کے مال و دولت کو، اس کے کارخانوں ، کوٹھیوں، گاڑیوں اور باغات سمیت تہس نہسں اور تہہ و بالا کر دیتی ہے۔
انسان جب بد نظمی کرتا ہے تو آسمان پانی برسانا بند کر دیتا ہے چاند اور سورج کو گرہن لگ جاتا ہے، سمندروں میں طغیانی آجاتی ہے اور پھر جن کے دلوں میں اللہ کے ڈر اور خوف کی اور ایمان کی کوئی رمق باقی ہوتی ہے تو وہ اللہ کے حضور رجوع کرتے ہیں اور گڑ گڑانے لگتے ہیں، صلاة الكسوف اور صلاة الخسوف ادا کرتے ہیں اور صلاة الاستسقاء پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں نظم و نسق اور نظام کی پابندی کی کیا اہمیت ہے، ہم نے ان چند تمہیدی باتوں میں جاتی ، ورنہ اس موضوع پر بہت سی آیات و حادیث موجود ہیں، غرضیکہ اسلام سراسر دین نظم و نسق ہے، اسلام ہر کام میں نظم کی پابندی سکھاتا اور شدت سے اس کی تعمیل کا حکم دیتا ہے، معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا۔
آئیے اس ضمن میں چند ایک احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ نظم کی پابندی یوں تو آپ کو دین کے ہر معاملے میں نظر آئے گی مگر روز مرہ کے معمولات میں سے بالخصوص عبادات میں سے نماز اس کا بہترین نمونہ ہے۔ نماز میں نظم کی پابندی کی متعدد مثالوں میں سے ایک صفوں کا سیدھا کرنا بھی ہے، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((سَوُّوْا صُفُو فَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلوةِ )) (صحیح مسلم:433)
’’اپنی صفیں درست کیا کرو، اس لیے کہ صفوں کی درستی نماز کو پورا کرنے سے ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
(إِنَّ مِنْ حُسْنِ الصَّلوةِ إِقَامَةَ الصف)) (مسند احمد:12231) حلية الأولياء ، ج:9، ص:33 ، ابن خزيمة:1543)
’’نماز کے حسن میں سے صف کو سیدھا اور برابر کرنا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے۔
((فَإِن تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلوةِ)) (صحیح البخاری:733)
’’کہ صفوں کو برابر کرنا نماز کے قائم کرنے میں سے ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے:
((وَاللهِ لَتُقِيمَنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ )) (سنن ابی داود:633)
’’اللہ کی قسم! تمہیں صفوں کو سیدھا کرنا ہوگا ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
اور صف بندی کی اہمیت پر کچھ مزید احادیث بھی ہیں کہ جن سے نماز میں نظم کی پابندی کی اہمیت خوب واضح ہوتی ہے جن میں سے ایک یہی ہے کہ اللہ تعالی نے اس نظم کی خلاف ورزی پر ایک سزا مقرر فرمادی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں میں آپس میں پھوٹ ڈال دیتا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مشاہدہ ہے، دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے مسجد میں جاتے ہیں اور دوسرے نمازی ساتھیوں کی غیبت اور برائی کرتے ہوئے جاتے ہیں اور جب نماز پڑھنے کے بعد واپس جاتے ہیں تو بھی یہی کام کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ آتے اور جاتے گالیاں بکتے ہوئے آتے اور جاتے ہیں۔
دین کے معاملے میں نظم و نسق کی خلاف ورزی کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، ورنہ بہت سی باتوں میں اور بہت بڑی بڑی باتوں میں ہم لوگ بد نظمی کی مثال ہوتے ہیں۔
نظم وضبط کی پابندی اور اس کا احترام جو کہ ہمارا آج کا اصل موضوع ہے، اس دور کا ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے کیونکہ نظم اور نظام کی پابندی شرعا، قانونا اور اخلاقاً ہر لحاظ سے لازمی اور ضروری ہے اور اس کے بہت سے دینی اور دنیوی فائدے ہیں جبکہ اس کی خلاف ورزی ہر لحاظ سے نا جائز ہے اور اس کے بہت سے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں۔ دنیا کے معاملات میں نظام کی پابندی شرعی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے لازمی اور ضروری ہے اور دنیا میں قوموں کی ترقی کے اسباب میں سے یہ ایک بہت بڑا سبب ہے، تھوڑی بہت بد نظمی اور نظام کی خلاف ورزی تو ہر جگہ ہی پائی جاتی ہے، مگر مجموعی طور پر امت مسلمہ کا اگر غیر مسلم اقوام کے ساتھ اس معاملے میں موازنہ کیا جائے تو مسلمانوں کی حالت بہت ہی ابتر نظر آتی ہے۔
میدان اور شعبہ کوئی بھی ہو، حکومتی اداروں کا نظام ہو، پرائیویٹ اداروں کا نظام ہو، کاروباری قانون اور نظام ہو، پڑوسیوں کے حقوق کا نظام ہوتی کہ مساجد کا نظام ہو، کہیں بھی پابندی نظر نہیں آتی، البتہ بد نظمی کے ہم پابند ضرور نظر آتے ہیں۔
نظام کی خلاف ورزی رگوں میں رچ بس چکی ہے حتی کہ اس بات کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے کہ ہم کوئی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں ذرا غور کیجیے کہ اس وقت جب کہ میں یہ بات کر رہا ہوں، میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا ہم کسی کسی نظام کی خلاف ورزی کرتے ہیں جبکہ ہاشمی میں جس قدر ہم ڈوبے ہوئے ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ بھلا کسی نظام کی خلاف ورزی ہم نہیں کرتے۔
نظم وضبط کی ہم کہاں کہاں خلاف ورزی کرتے ہیں یہ یاد کرنے میں تو شاید ہمیں کچھ وقت لگ جائے اس لئے سر دست چند موٹی موٹی باتوں کا ذکر کرتے ہیں، مثلا: ٹریفک کے انتظام میں، بس اور جہاز میں سوار ہوتے ہوئے، تقریبات میں تاخیر سے آتے ہوئے اور دفتروں میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اور یقینًا اور بہت سے معاملات ہیں جن میں ہم نظام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
ٹریفک کے نظام کی خلاف ورزی کے نتائج میں ایک بڑا نتیجہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور دنیا میں کار ایکسیڈنٹ سے مرنے والوں کی تعدا سالانہ ایک ملین سے زائد ہے، صرف امریکا میں تمہیں ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔
تقریبات میں تاخیر سے پہنچنے کا ایک رواج چل نکلا ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان گویا کہ ایک قسم کی مفاہمت ہوگئی ہے، چونکہ لوگ وقت پر پہنچنے کو اپنی تو ہین سمجھتے ہیں اور تاخیر سے پہنچنے کو اپنا بڑا پن، کہ جب وہ پہنچیں تو سب لوگ ان کا استقبال کرتے نظر آئیں اور انہیں کسی کا استقبال نہ کرنا پڑے۔
چنانچہ آدمی جب کسی کو دعوت دیتا ہے تو مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے کا وقت بتاتا ہے، مثالی اگر وہ چاہتا ہے کہ تقریب کا آغاز شام آٹھ بجے ہو تو وہ لوگوں کو شام سات بجے کا دعوت نامہ بھیجے گا، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر سے پہنچنا لوگوں کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، وقت پر پہنچنے سے ان کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان امت کی اس اجتماعی خامی اور کوتاہی کے اسباب و وجوہات کیا ہیں اور اس کا حل کیا ہے ، تو اس کے اسباب و وجوہات تو بہت ہیں، مگر میں انہیں مختصر الفاظ میں عرض کر دینا چاہوں گا ورنہ اس کے لئے ایک مستقل خطبے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہمیں ہمارے گھروں میں ، سکولوں اور کالجوں میں حتی کہ دینی مدارس میں نظام کی پابندی اور اس کا احترام سکھایا نہیں جاتا اور ایک بجیکٹ کے طور پر تعلیم نہیں دی جاتی ، البتہ نظام کو توڑنے اور بائی پاس کرنے کا ایک غیر اعلانیہ اتفاق ضرور پایا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بہت سے طریقوں سے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔
جن لوگوں نے نظام کے احترام کی مثال بنا ہوتا ہے وہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ انتظام کو توڑنے کی اور خلاف ورزی کرنے کی ایک ڈائریکٹ حوصلہ افزائی اور ترغیب ہے۔
ایسی مثالیں ہمارے معاشرے میں بہت کم ملتی ہیں کہ جن سے نظام کے احترام کی ترغیب ملے اور شوق پیدا ہو، مثلا: سعودی عرب کے ایک بہت بڑے عالم شیخ ابن تیمین ہے جو چند سال قبل وفات پاگئے ہیں وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہے تھے اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے مطالعہ میں مصروف تھے۔
پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور چند ہی لمحوں میں انہیں جانے دیا۔ جب ڈرائیور وہاں سے چلا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہیں پولیس نے کیوں روکا تھا ؟ کہا او در سپیڈنگ کی وجہ سے، پوچھا تو پھر چھوڑ کیوں دیا؟ کہا: جب اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے کہا جاؤ۔ تو فرمایا کہ واپس چلو اسی آفیسر کے پاس۔ جب وہاں گئے تو اس سے پوچھا کہ اوور سپیڈنگ کا جرمانہ کیا ہے اس نے بتایا تو شیخ نے آدھے پیسے اپنی جیب سے دیئے اور کہا کہ باقی تم دو۔ اس نے کہا کہ آپ رہنے دیں، میری غلطی ہے لہٰذا جرمانہ بھی میں ہی دوں گا، فرمایا: نہیں اس میں میری بھی غلطی ہے کہ میں نے رفتار کو حد میں رکھنا یقینی نہیں بنایا۔
مختصر یہ کہ نظام کی خلاف ورزی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں کسی بھی لیول پر اس ضمن میں ہماری تعلیم اور تربیت نہیں ہوتی ، جبکہ نظام کی مخالفت پر ہر پہلو سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ترغیت ملتی ہے۔ اور اس کی ذمہ دار حکومت بھی ہے، عوام بھی ہے اور خواص بھی ہیں۔ نظام کی پابندی کو ہمارے ہاں تو ہین سمجھا جاتا ہے بالخصوص مالدار حضرات اپنے آپ کو نظام کی پابندی سے بالا سمجھتے ہیں۔
جب قوموں کی زندگی سے نظام کا احترام ختم ہو جاتا ہے تو وہ اختلاف اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں، آپس میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام رائج ہو جاتا ہے، اور قوم پستی میں چلی جاتی ہے اور خود اس کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔
آج ہمارا طرز عمل انتہائی حیران کن ہے کہ ہم اغیار کی ترقی کو تو سراہتے ہیں اور اپنے تخلف اور پستی پر آنسو بہاتے ہیں، مگر اصلاح کی کوشش نہیں کرتے ، کیونکہ اصلاح کی ابتداء اپنی ذات سے ہوتی ہے اور وہ مشکل کام ہے، البتہ تنقید آسان ہے اور دو ہم کئے جار ہے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………..