صبر وشکر لوازمات زندگی ہے
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠۱۵۲﴾ (البقرة:152)
گذشتہ خطبات میں ہم نے بندوں کے شکر کے حوالے سے تھوڑا بہت جانا، اس کی ضرورت ، اس کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں جانا کہ بندوں کا شکر ادا کرنا کتنا لازمی اور ضروری ہے اور کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور اس کے کتنے دنیوی اور آخری فوائد ہیں۔
تو جب یہ معلوم ہو گیا کہ بندوں کا شکر ادا کرنا نہایت لازمی اور ضروری ہے، تو پھر یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ پھر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا یقینًا لازمی اور ضروری ہے اور بالا ولی لازمی اور ضروری ہے، کیونکہ لوگوں کے احسانات کا اللہ تعالی سے کوئی مقارنہ اور موازنہ ہے ہی نہیں، اگر دنیا بھر کے احسانات ایک طرف ہوں اور اللہ تعالی کی دی ہوئی زندگی ایک طرف ہو تو آپ یقینًا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صرف اس ایک احسان کے مقابلے میں پوری دنیا کے احسانات کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔
اور جو انعامات واحسانات اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لئے آخرت میں رکھ رکھے ہیں ان کے مقابلے میں پوری دنیا و مافیہا کی حیثیت کیا ہے، وہ آپ سے ہم نے یوں بیان فرمائی ہے، فرمایا: ((مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ فلينظر بِمَ يَرْجِعُ)) (سنن ترمذی: 2323)
’’دنیا آخرت کے مقابلے میں بس ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈالے، پس وہ دیکھے کہ وہ ساتھ کیا لائی ہے۔‘‘
انگلی پانی میں ڈبو کر نکالیں تو انھی کے ساتھ کتنا پانی لگ کر آتا ہے، کوئی بہت زیادہ ہوگا تو شاید ایک آدھ قطرہ لگ جائے ورنہ تو انگلی صرف گیلی ہی ہوتی ہے اور پھر انگلی کے ساتھ لگے پانی کی اگر کوئی حیثیت ہو بھی تو بتلائیے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت ہوگی؟
تو لوگوں کے احسانات اگر اتنے بھی بڑھ جائیں کہ ان کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں انگلی کے ساتھ لگے پانی کی ہو جائے جو کہ ممکن ہی نہیں ہے اور ان احسانات پر شکر ادا کرنا شدت کے ساتھ متلی، اخلاقی اور شرعی طور پر لازم اور واجب ٹھہرایا گیا تو پھر اللہ تعالی کے احسانات پر اس کا شکر ادا کرنا کس شدت کے ساتھ لازمی اور ضروری ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا حق شکر اور حق عبادت کسی شدت کے ساتھ بندوں پر واجب ہوتا ہے، آیئے اس شدت کا انداز ہ ایک حدیث کی روشنی میں کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے محمد بن ابی عمیرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَوْ أَنَّ عَبْدًا خَرَّ عَلَى وَجْهِهِ مِنْ يَوْمَ وُلِدَ إِلَى أَنْ يَّمُوْتَ هَرَمًا في طَاعَةِ اللهِ لَحَقَّرَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَوَدَّ أَنَّهُ رُدَّ إِلَى الدُّنْيَا كَيْمَا يَزْدَادَ مِنْ الْأَجْرِ وَالثَّوَاب)) (مسند احمد:17650)
’’ اگر کوئی شخص پیدا ہونے کے دن سے لے کر بوڑھے ہو کر فوت ہونے کے دن تک اللہ تعالی تعالی کی عبادت و فرمانبرداری میں منہ کے بل گرا رہے، یعنی سجدے میں پڑا رہے، تو قیامت کے روز اپنی اس عبادت کو بھی حقیر جانے گا اور خواہش کرے گا کہ وہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے تا کہ وہ مزید اجر و ثواب حاصل کر سکے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کے مکرم فرشتے جو صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں اور ہر آن اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ۱۹﴾ (الانبياء:19)
’’زمین و آسمان میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے، اور جو فرشتے اُس کے پاس ہیں وہ عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور نہ جھکتے ہیں۔
﴿یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ۲۰﴾ (الانبياء:20)
’’دن رات تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ذرا سا بھی وقفہ نہیں کرتے ۔‘‘
اور حدیث میں ہے کہ کچھ فرشتے ایسے ہیں کہ جب سے اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے تب سے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں انہوں نے کبھی سر نہیں اٹھایا اور قیامت تک سجدے میں بیمار ہیں گے، اور کچھ فرشتے ایسے ہیں جو تب سے رکوع میں ہیں اور قیامت تک رکوع میں ہی رہیں گے اور جب سر اٹھا ئیں گے تو عرض کریں گے۔
((سبْحَانَكَ مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِك)) (تفسير ابن كثير / سورة المدثر ، معرفة الصحابة لأبي نعيم: 1403، الطبراني:1751)
’’ اے اللہ تو پاک ہے، ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔‘‘
تو اللہ تعالی کا شکر اس حد تک شدت کے ساتھ واجب ہوتا ہے کہ کسی صورت میں اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا، جنت میں لوگ اللہ تعالی کا حق شکر ادا کرنے سے نہیں، بلکہ خالص اس کی رحمت سے جائیں گے، یہ اس کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ تھوڑے سے شکر کو قبول کر کے جنت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ حدیث میں ہے: آپ ﷺنے فرمایا:
((لنْ يُنجِّيَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ))
’’ کسی کا عمل اس کو ہرگز نجات نہیں دے گا۔‘‘
((قَالُو وَلَا أَنتَ يَا رَسُولَ الله!))
’’صحابہ کی یہ نے عرض کیا، کیا آپ نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ؟‘‘
((قَالَ: وَلَا أَنَا إِلَّا أَن يَّتَغَمَّدَنِي الله بِرحمة)) (صحيح البخاري:6463)
’’فرمایا: میں بھی نہیں ، الا یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔‘‘
تو اللہ کا شکر ادا کرنا لازمی اور ضروری ہے، مگر یقینًا اس کے شکر کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کے احسانات ہی اتنے بڑے، اتنے زیادہ، کامل اور پائیدار ہیں کہ ان کی کوئی مثال نہیں ہے۔
اللہ تعالی کے شکر کے حوالے سے مزید تفصیلات سے پہلے میں چاہوں گا کہ شکر کی اہمیت کو ایک بار پھر مگر ایک دوسرے انداز سے سمجھ لیں۔
شکر اس دنیا میں انسان کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور وو یوں کہ اس دنیا کی زندگی میں انسان کو جتنے بھی معاملات درپیش ہوتے ہیں، جتنے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے نتیجے میں انسان سے دو باتوں میں سے ایک بات ضرور مطلوب ہوتی ہے اور وہ یہ کہ یا تو وہ صبر کرے یا شکر کرے۔
حقیقت میں انسان کو اس دنیا کی زندگی میں تمام تر مسائل کے نتیجے میں ان دو حالتوں اور کیفیتوں میں سے کسی ایک سے ضرور گزرنا پڑتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان کے مطابق عمل کرتا ہے یا نہیں، وہ صبر اور شکر سے کام لیتا ہے یا نہیں۔
اگر وہ کسی تکلیف اور مصیبت پر صبر نہیں کرتا اور کسی خوشی اور مسرت پر شکر نہیں کرتا تو وہ مسلسل بے چین و بے قرار رہتا ہے، وہ ہرگز سکون نہیں پاسکتا، بے صبری اور ناشکری کر کے وہ دنیا میں بھی پریشان رہتا ہے اور آخرت میں بھی نا کام ہوتا ہے ۔
یہ سعادت ایک بچے مسلمان کو ہی حاصل ہوتی ہے کہ وہ صبر اور شکر سے کام لیتا ہے چنانچہ اس کا ہر معاملہ اس کے لئے خیر ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((عَجَبًا لِأَمرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ))
’’بندہ مؤمن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہر معاملہ اس کے لئے خیر ثابت ہوتاہے۔‘‘
((وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ .))
’’ اور یہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے، صرف مؤمن کو ہی حاصل ہے۔‘‘
((إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فكَانَ خَيْرًا لَهُ ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْراً لَّهُ)) (صحیح مسلم: 2999)
’’اگر خوش حالی اور آسودہ حالی کا معاملہ پیش آئے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے چنانچہ وہ اس کے لئے خیر ہوتا ہے، اور اگر کوئی تکلیف اور مصیبت پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے چنانچہ وہ اس کے لئے خیر ہوتا ہے۔‘‘
چنانچہ صبر اور شکر حقیقت میں ایمان کی دو حالتیں اور کیفیتیں ہیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(الإِيمَانُ نِصْفَانِ نِصْفٌ صَبْرٌ وَنِصْفُ شُكْرٌ)) (عدة الصابرين و ذخيرة الشاكرين:108)
’’ایمان کے دو حصے ہیں: ایک آدھا صبر ہے اور دوسرا آدھا شکر ہے۔‘‘
تھوڑا سا غور کرنے پر یہ حقیقت انسان کو بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ زندگی میں معاملات یا تو انسان کی مرضی کے مطابق پیش آتے ہیں یعنی جو اسے پسند ہوتے ہیں، یا اس کی مرضی کے خلاف، یعنی نا پسندیدہ امور پیش آتے ہیں۔
جو امور ناپسندیدہ یا تکلیف دہ ہوتے ہیں ان پر صبر کی ضرورت ہے، اور صبر کے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا، اور جو صبر کرتا ہے وہ فائدے میں رو جاتا ہے، اسے مقصود حاصل ہو جاتا ہے، سکون بھی ملتا ہے اور اجر بھی ملتا ہے اور جو بے صبری سے کام لیتا ہے وہ اپنی پریشانی میں اضافہ کرتا ہے، اسے مقصود بھی حاصل نہیں ہوتا، بے سکونی بھی رہتی ہے اور صبر کے اجر سے بھی محروم رہتا ہے۔ بے صبری اصل میں اللہ کا شکوہ ، اس کے ساتھ بدظنی اور تقدیر کا انکار ہے جب انسان کا تقدیر پر یوں ایمان ہو جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((وَأَعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُن لِيُصِيبَكَ))
’’یہ جان لو کہ جو مصیبت تم سے دور ہوگئی ہے، جس سے تم بچ گئے ہو وہ اصل میں تمہیں پہنچنے والی تھی ہی نہیں تھی۔‘‘
((وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُن لِيُخْطِكَ)) ’’اور جو تکلیف تمہیں پہنچی ہے وہ دور ہونے والی تھی ہی نہیں، ہر حال میں تمہیں پہنچنے والی تھی‘‘
اور اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا:
((وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنفَعُوكَ بِشَيْءٍ ، لَمْ ينفعوك إلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ))
’’اور جان لو کہ پوری امت بھی اگر اکٹھی ہو کر تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہیے، تو صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جتنا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے۔‘‘
((وَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰى أَنْ يَّضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ الله عَلَيْكَ))
’’اور اگر سارے مل کر بھی تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر لکھ رکھا ہے۔‘‘
((رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصحفُ)) (سنن ترمذی:2516)
’’ قلمیں اٹھالی گئیں اور صحیفے خشک ہو گئے۔‘‘
یعنی اب کوئی چیز لوح محفوظ میں نہیں لکھی جاسکتی ہے اور نہ متائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مزید فرمایا:
((وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ وَأَنَّ مَعَ العُسْرِ يسراً)) (مسند احمد:2803، ترمذي:2516)
’’اور جان لو کہ صبر کے ساتھ مدد ہوتی ہے اور تکلیف کے ساتھ فرائی و کشادگی ہوتی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی آتی ہے۔‘‘
جب انسان کو تقدیر پر ایسا ایمان اور یقین حاصل ہو تو اسے یقیناً سکون ملتا ہے، اجر ملتا ہے اور صبر کی توفیق حاصل ہوتی ہے، اور جب اسے اللہ کی طرف سے مدد کا یقین اور اس کے ساتھ حسن ظن حاصل ہو تو اسے اللہ تعالی کی طرف سے مدد و نصرت اور مراد حاصل ہوتی ہے۔
جیسا کہ حدیث قدسی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
((أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي))
’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جس طرح کا وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ہے۔‘‘
((وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي)) (مسلم:2675)
’’ اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘
تو اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس پر حسن ظن رکھتے ہوئے اس کی طرف سے مدد آنے کی امید رکھتا ہے تو اللہ تعالی کی مدد ضرور آتی ہے اور اگر اس کے برعکس اللہ کے بارے میں گمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو اللہ تعالی اس کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہے۔
بلکہ اللہ فرماتے ہیں، کہ اگر اللہ کی مدد پر یقین نہیں رکھتا تو کوئی اور تدبیر کر کے دیکھ لے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿ مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ۱۵﴾(الحج:15)
’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا ، تو پھر اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی پر اور اس کی تقدیر پر ایمان اور اللہ تعالی پر حسن ظن اور صبر میں ہی مسائل کا حل ہے، اور ان کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اور اگر کوئی بے صبری کرنا چاہے تو کر کے دیکھ لے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صبر اور شکر ایمان کی دو شکلیں ہیں، دو کیفیتیں اور دو حالتیں ہیں، دنیا کے اندر تمام معاملات انہی کے گرد گھومتے ہیں، ان دونوں میں سے کسی ایک کے اندر کی اور کوتاہی ہو تو ایمان نا مکمل، ادھورا اور کمزور ہوگا۔
شکر کے بارے میں تو پھر بھی لوگ کچھ نہ کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں چاہے اس کا معنی مفہوم معلوم نہ بھی ہوں مگر انہیں معلوم ہے کہ ہاں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے، اگر چہ بعض شکر کا مفہوم بس اتناہی سمجھتے ہیں کہ زبان سے کہہ دیا جائے کہ اللہ کا بڑا شکر ہے تو کافی ہے جبکہ شکر کا یہ ادھورا مفہوم ہے شکر کا معنی و مفہوم ان شاء اللہ آئند و خطبہ جمعہ میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
صبر کے بارے میں شاید اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ، اس کا معنی و مفہوم نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کے صبر کی چند اقسام ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ صبر کبھی واجب ہوتا ہے کبھی مندوب ہوتا ہے، کبھی منظور ہوتا ہے، کبھی مکروہ ہوتا ہے اور بھی مباح ہوتا ہے ، (یعنی صبر کے درجات سے واقف نہیں ہیں)
صبر کی اس قسم سے تو سبھی واقف ہوں گے کہ کسی تکلیف اور مصیبت پر صبر کرنا، جیسے کسی کا عزیز رشتے دار اور قریبی فوت ہو جائے، یا کوئی بیماری یا آفت آجائے تو اس پر صبر کرنا جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے۔
((إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيْبَتَيه فَصَبَرَ، عَوَضَّتُهُ مِنْهُما الجنَّةَ)) (صحيح البخاري:5653)
’’جب میں اپنے کسی بندے کو اُس کی دو محبوب چیزوں کے بارے میں آزمائش میں ڈالتا ہوں، یعنی اسے بینائی سے محروم کرتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اسے ان کے بدلے جنت عطا کرتا ہوں ۔‘‘
آنکھیں آپ جانتے ہیں کہ آدمی دنیا کی بہت ساری نعمتوں سے انہی کے ذریعے محفوظ ہوتا ہے اور جو آنکھوں سے محروم ہو وہ بہت ساری نعمتوں سے محروم ہوتا ہے۔
تو کسی تکلیف اور مصیبت پر صبر کرنا، صبر کی ایک قسم ہے، اس کے علاوہ صبر کی دو اور قسمیں ہیں، اور ان میں سے ایک ہے نیکی پر صبر کرنا اور دوسری ہے برائی سے باز رہنے پر صبر کرنا ۔
نیکی پر صبر کرنے کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے نماز با جماعت کی پابندی کر نا، بالخصوص فجر کی نماز پر، یوں تو ہر نیکی کے کام میں کچھ نہ کچھ مشقت ضرور ہوتی ہے، مگر فجر کی نمازہ باجماعت ادا کرنے میں ایک خاص مشقت ہوتی ہے، بالخصوص جب آدمی رات کو دیر سے سوتا ہو۔ تو یہ صبر ہر حال میں مطلوب ہے۔
اسی طرح گناہ سے بچتے ہوئے صبر کرنا، آپ جانتے ہیں کہ گناہ میں بڑی کشش ہوتی ہے، اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال حصول رزق سے متعلق ہے، جب کسی حرام کاروبار میں کسی کو بہت قائدہ نظر آرہا ہو اور اسے لگے کہ وہ اس کا روبار کے ذریعے راتوں رات مالدار ہو سکتا ہے تو اس سے باز رہنا اور صبر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے بالخصوص جب وہ دوسروں کو دیکھتا ہو کہ انہوں نے سود کے ذریعے گھر خرید رکھتے ہیں، مہنگی مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، ان کی کمیونٹی میں بڑی عزت اور شان و شوکت ہے تو صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو مختصرً اصبر کی یہ تین قسمیں ہیں، آئندہ خطبہ میں صبر کے درجات کا ذکر کریں گے اور پھر شکر کا معنی و مفہوم جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………..