اعمال صالحہ کا وسیلہ پکڑنا مسنون ہے
681۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ محمد رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
)) بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ أَخَذَهُمْ الْمَطَرُ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنْ الْجَبَلِ فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ قَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِيَّ وَإِنِّي اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ فَفَرَجَ اللَّهُ فَرَأَوْا السَّمَاءَ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ عَلَيَّ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً فَفَرَجَ وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَرَغِبَ عَنْهُ فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا فَجَاءَنِي فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ فَأَخَذَهُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ ما بقي))
)أخرجه البُخَارِي: 2333، ومُسْلِمٌ:2743)
’’تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انھوں نے ایک پہاڑ کی نفار میں پناہ لی۔ غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر آگرا جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے اپنے اعمال پر نظر دوڑاؤ کہ کس نے کیا کیا نیک عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے۔ پھر اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو تم سے دور کر دے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے بوڑھے والدین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں لوٹتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن مجھے دیر ہو گئی اور رات گئے تک گھر نہ آیا۔ جب آیا تو دیکھا کہ میرے والدین ہو گئے ہیں۔ میں نے دودھ دوہا جیسا کہ میں دوہتا تھا اور اسے لیے ان کے سرہانے کھڑا رہا لیکن انھیں جگانا مجھے اچھا نہ لگا اور یہ بھی مجھے مناسب معلوم نہ ہوا کہ والدین سے پہلے ) بچوں کو دودھ پلا دوں، حالانکہ وہ میرے پاؤں کے پاس بلبلا رہے تھے یہاں تک کہ اس حالت میں فجر ہوگئی۔ (اے میرے رب !) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر دور کر دے کہ ہمیں آسمان نظر آئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پتھر کچھ ہٹا دیا جس سے انھوں نے آسمان دیکھا۔ دوسرے نے عرض کی: اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی ہن تھی۔ میں اس سے بہت محبت کرتا تھا جیسا کہ مرد عورتوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ میں نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے انکار کر دیا الا یہ کہ میں سو دینار اسے دوں، چنانچہ میں نے کوشش اور محنت کی یہاں تک کہ سو دینار جمع کر لیے۔ جب میں برے کام کے لیے اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور حق کے بغیر اس مہر کو نہ توڑ تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ (اے اللہ!) تو جانتا ہے کہ اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر بنا دے۔ وہ پتھر تھوڑا سا مزید اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور چاولوں کے ایک فرق (تقریباً 8 کلو 3 سوگرام) کے عوض مزدوری پر رکھا تھا۔ جب اس نے اپنا کام کر لیا تو اس نے کہا: مجھے میری اجرت دو۔ میں نے اسے اجرت پیش کی تو اس نے بے رغبتی سے کام لیا اور چلا گیا۔ میں ان چاولوں کو کاشت کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے اس سے گائیں خریدیں اور چرواہے بھی رکھ لیے۔ آخر کار وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر۔ میں نے کہا: جاؤ وہ گائیں اور چرواہے سب تمھارے ہیں، انھیں لے جاؤ۔ اس نے دوبارہ کہا: اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، انھیں لے جاؤ تو وہ لے گیا۔ (اے اللہ !) تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل اگر تیری خوشنودی کے لیے کیا تھا تو باقی ماندہ پتھر بھی ہٹا دے، چنانچہ اللہ تعالی
نے وہ پتھر ہٹا دیا۔‘‘
682۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا، وہ کہ ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ)) .
’’اے اللہ! میں تجھ سے اس وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ بلاشبہ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو یکتا ہے، بے نیاز ہے، جس نے کسی کو جنا نہ وہ جنا گیا اور نہ اس کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ ہی ہے۔‘‘
تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِیدِه)) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!‘‘
یا یہ فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ، الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطٰى وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ))
(أخرجه أحمد: 22952، والترمذي:3475)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! یقینًا اس نے اللہ تعالی سے اس کے اہم اعظم کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جب اس سے اس کا واسطہ دے کر مانگا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے اور جب اسے اس کے وسیلے سے پکارا جائے تو وہ دعا قبول فرماتا ہے۔“
توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار عمل صالح ہے۔ اس حدیث میں اس عمل صالح کو وسیلہ بنایا گیا ہے، مزید برآں اس میں اسمائے حسنیٰ کا واسطہ بھی ہے۔