اچھا شگون لینا جائز ہے

848 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ((لَا طِيَرَةَ وَخَيْرُهَا الْفَالُ))

’’بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں، اس میں بہتر نیک فال ہے۔‘‘

صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! نیک فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ((الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُم)) (أخرجه البخاري: 5754، 5755، ومُسْلِمٌ :2223)

’’اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے۔‘‘

849۔ سیدنا عروہ بن عامر قرشی بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کی مجلس میں بدفالی کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:

  ((أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ، وَلَا تَرُدُّ مُسْلِمًا، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ، فَلْيَقُلْ: اَللّٰهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ)) (أخرجه أبو داود:3919، والبيهقي:139/8،وعروة هذا قيل فيه: القرشي، وقيل فيه: الجهني، وذكر البخاري وغيره أنه سمع من ابن عباس فعلى هذا يكون الحديث مرسلا.)

’’ان میں بہتر نیک شگونی ہے۔ اور یہ (بدفالی) کسی مسلمان کو (اپنے کام سے) مت روکے، اگر کوئی شخص کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو یوں کہے: ((اللَّهُمَّ لَا يَأْتِ بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ))

’’اے اللہ! تیرے سوا کوئی شخص کسی طرح کی کوئی بھلائی نہیں لا سکتا اور تیرے سوا کوئی شخص کسی برائی کو روک نہیں سکتا، برائی کا دور ہونا اور بھلائی کا حاصل ہونا تیری مدد ہی سے ممکن ہے۔‘‘

850۔  سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَفَاءَلُ وَلَا يَتَطَيَّرُ، وَيُعْجِبُهُ كُلُّ اسْمٍ حَسَنٍ)) (أخرجه أحمد:2328، 2766، 2925)

’’رسول اللهﷺ اچھا شگون لیتے تھے اور بدشگونی نہیں لیتے تھے اور آپ ہر اچھے نام کو پسند کرتے تھے۔‘‘

851۔ سیدنا انس بن مالک ﷺ بیان کرتے ہیں:

((أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَةٍ أَنْ يَسْمَعَ: يَا رَاشِدُ، يَا نَجِيحُ)) (أخرجه الترمذي: 1616)

’’نبی ﷺجب کسی ضرورت کے تحت سفر پر روانہ ہوتے تو آپ کو یہ بات اچھی لگتی کہ آپ یہ آواز سنیں: اے راشد (راست رو، ہدایت یافتہ )! اے نجيح ( کامیاب و کامران)!!‘‘

852۔ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہما اور مروان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن جب سہیل بن عمر و آیا تو اس پر نبیﷺ نے فرمایا:

((لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِ كُمْ) (أخرجه البخاري: 2731، 2732.)

’’اب تمھارا معاملہ آسان ہو گیا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: کسی کام کے لیے انسان نکلے اور اچھے الفاظ سنے کو ملیں یا کوئی اچھا آدمی ملے تو اس سے اچھا شگون لینا چاہیے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر سہیل بن عمرو کی آمد کے موقع پر فرمایا تھا کہ اب معاملہ آسان ہو جائے گا۔ آپ نے سہیل نام سے اچھا شگون لیا کہ سہیل، سہل سے ہے اور سہل کے معنی آسانی کے ہیں۔