اچھے دوست کا انتخاب

الحمد لله الهادي إلى طريق السلامة، من على من شاء من عباده فوفقهم للاستقامة، أحمده سبحانه وأشكره على فضله وإحسانه. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله المصطفى المختار، اللهم صل وسلم على عبدك محمد وعلى آله وأصحابه الأخيار
تمام تعریف کا سزاوار اللہ ہے۔ جو عافیت و سلامتی کی راہ دکھاتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔ احسان کرتا اور صبر و استقامت کی توفیق دیتا ہے، میں اس اللہ سبحانہ کی تعریف کرتا اور اس کے فضل و احسان پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک و سیم نہیں اور سید نا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے منتخب اور برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے پاکباز آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور خالص اسی کی عبادت کرو تمام حالات میں استقامت کی راہ اپناؤ ایسے کاموں سے بچو جو اللہ کی رضا و خوشنودی سے روکنے والے اور اس کی ناراضگی و غضب اور درد ناک عذاب کا سبب ہوں۔
اللہ اور اس کی رضا و خوشنودی سے دور کرنے والے اسباب ہر جگہ اور ہر دور میں پائے گئے لیکن موجودہ زمانہ میں ایسے اسباب کی بہتات ہے۔ فتنہ و فریب کے نوع بنوع سامان اور لہو و لعب کے وسائل و ذرائع کی افراط ہے۔ رشد و ہدایت اور خیر و فلاح کی راہ سے روکنے اور بغاوت و سرکشی کی طرف بلانے والوں کی کثرت ہے۔ برائی کی طرف بلانے والوں نے بہت سے لوگوں کو اپنے پھندے میں لے کر راہ ہدایت سے روک رکھا ہے۔ شر و فساد، فسق و فجور، لہو و لعب، شهوت و نفسانیت اور شکوک و شبہات کے ان علمبرداروں کی وجہ سے بہت سے لوگ جادۂ حق سے منحرف ہو گئے ہیں۔ جو ہر آواز لگانے والے کے پیچھے چلتے اور ہر منافق کا ساتھ دیتے ہیں۔
ایک آدمی کے لئے اس سلسلہ میں سب سے زیادہ جو چیز مضر ہو سکتی ہے۔ وہ بروں کی صحبت ہے۔ خاص طور سے اس نو خیز نسل کے لئے جو ابھی سن شعور کو نہ پہنچی ہو یا وہ نوجوان جو علم نافع سے آراستہ اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک تعلیمات سے واقف نہ ہوں اور دشمنانِ دین کے گندے مقاصد اور ناپاک عزائم کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔ وہ دشمنان دین جو اعلیٰ اخلاق و آداب کے بھی دشمن ہیں۔ اور جن کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے۔ کہ نوجوانان اسلام کو اچک لیں اور انہیں ان کے دین و عقیدہ اور پاکیزہ اخلاق سے منحرف کر کے حیوانیت یا اس سے بھی بدتر مقام پر پہنچا دیں جس کے بارے میں رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿إِنْ هُمْ إِلَّا كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيْلًا﴾ (الفرقان: 44)
’’یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ اور موثر ترین اسلوب میں نہایت ہی جامع اور واضح کلمات میں ہمارے لئے مثال پیش کرتے ہوئے بروں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اور بروں کو ایک ایسی محسوس چیز سے تشبیہ دی ہے۔ جسے ہر شخص خواہ پڑھا ہو یا ان پڑھ بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوستوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک وہ صالح دوست جس کے پاس بیٹھنے والا اس سے ہر طرح کا فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ وہ صالح دوست اس کی تعلیم دیتا ہے۔ اور دوسرا برا دوست جس کے پاس بیٹھنے والا ہر برائی سیکھتا ہے۔ کیونکہ وہ برا شخص ذلالت ہی کی تلقین کرتا ہے، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(مثل الجليس الصالح والسوء كحامل المسك ونافخ الكير. فحامل المسك إما أن يحذيك، وإما أن تبتاع منه، وإما أن تجد منه ريحا طيبة، ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه ريحاً خبيثة) [صحیح بخاری: کتاب الذبائح، باب المسک (5534) و صحیح مسلم: کتاب البر، باب استحباب مجالسة الصالحين (2628)]
’’صالح ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال ایسی ہی ہے۔ جیسے خوشبو بیچنے والا عطار اور بھٹی پھونکنے والا لوہار، عطار یا تو ویسے ہی تمہیں خوشبو ہدیہ کر دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا کم از کم اس کے پاس سے اچھی خوشبو پا جاؤ گے لیکن اس کے بر خلاف لوہار کا معاملہ ہے۔ کہ اگر تم اس کے پاس بیٹھو گے تو وہ یا تو تمہارا کپڑا جلا دے گا یا اتنا تو ہو گا ہی کہ اس کے پاس سے تمہیں بد بو ملے گی۔
اس حدیث کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صالح دوست کی صحبت اختیار کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے۔ اور بروں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے۔ کہ صالح دوست کی صحبت سے ہر طرح کی خیر و سعادت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے قول و فعل اور ارشادات و توجیہات کے ذریعہ ہمیشہ خیر و بھلائی کے کاموں کی طرف بلاتا اور اس کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے اچھے انجام سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے، خود بھی اچھے کام کرتا ہے۔ اور دوسروں کو بھی زبانی اور عملی طور پر اس کی دعوت دیتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ ایسے صالح اور پاکباز شخص کی صحبت سے ایک آدمی کو اچھی شہرت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور اس کے اور اوصاف حمیدہ سے وہ اپنے آپ کو سنوار لیتا ہے۔
لیکن اس کے برخلاف ایک بر اسا تھی، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ لوہار کی مانند ہے۔ یا تو وہ تمہارا کپڑا جلادے گا یا اس کے پاس بیٹھنے سے بدلو ملے گی یہ برا شخص اپنے پاس بیٹھنے والے کسی فرد کو بھی برائی سے محفوظ نہیں چھوڑتا بلکہ اسے ہر طرح کے گناہ و معصیت اور ان کے برے نتائج سے جلا ڈالتا ہے۔ اس کی عزت و آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔ لوگوں کے درمیان اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی لوگ اس کے قریب ہونے سے گھبراتے ہیں۔ ہر ممکن اعراض کرتے ہیں۔ اس کی گندگی کے سبب اور اپنی عزت و آبرو محفوظ رکھنے کے لئے لوگ اس کے پاس بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ اس کے نقصانات اور بری عادتیں دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، جیسا کہ بری صحبت سے خود اسے حاصل ہوئی ہوتی ہیں۔ کتنی ایسی قوموں کی مثال موجود ہے۔ جو اعمال و کردار کے لحاظ سے اچھی تھیں، لیکن بروں کی صحبت و مجالست سے برباد ہو گئیں ان کے برے ساتھیوں اور ہم نشینوں نے اس انداز سے انہیں ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دیا کہ انہیں اس کا شعور و احساس تک نہ ہوا۔
بندے کے اوپر اللہ تعالی کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔ کہ اللہ اسے اچھے اور صالح لوگوں کی صحبت میں رہنے کی توفیق دیدے اور بندے پر اس کا یہ بہت بڑا عذاب ہے۔ کہ اسے بروں کی صحبت میں مبتلا کر دے کیونکہ بروں کی صحبت نہایت ہی بد ترین مقام پر پہنچا دیتی ہے۔
صالح دوست کی صحبت کی نشانی یہ ہے۔ کہ بندے اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی پر گامزن ہو” فرائض کی ادائیگی کرے مکارم اخلاق سے متصف ہو لوگوں کو تکلیف نہ دے اور معاصی سے دور رہے۔ اس کے بر خلاف بروں کی صحبت کی پہچان یہ ہے۔ کہ آدمی فرائض و واجبات کو کوئی اہمیت نہ دے، محرمات کا ارتکاب کرے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرے اور انہیں تکلیف پہنچائے۔
اللہ کے بندو! ہمارے لئے سب سے کچی نصیحت اور سب سے مؤثر پند و موعظت وہی ہے۔ جو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں برے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور اس کے برے نتائج سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔ فرمایا:
﴿وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲7 یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹﴾ (الفرقان: 27 تا 29)
’’جس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ہائے شامت آکاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے مجھ کو میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد ہرکا دیا اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغار دینے والا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، ويهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله رب العالمين، وفق من شاء من عباده بسلوك الطريق المستقيم، أحمده سبحانه وأشكره على سوابغ نعمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الداعي إلى كل خير والمحذر من كل شر، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ میں رب سبحانہ کی حمد و ثنا کرتا اور اس کی بے پایاں نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہوں نے ہر خیر کی طرف امت کو بلایا اور ہر شر سے ڈرایا۔ اے اللہ اتو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت و بندگی کر کے تقرب حاصل کرو، بھلائی و تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و سرکشی پر کسی کو مدد نہ دو، خیر و صلاح کے کام میں نمونہ بننے کی کوشش کرو اور اہل صدق و و فلاح کی راہ پر چلو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔
فرمایا
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ﴾ (التوبہ:119)
’’اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔‘‘
صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا اپنا عہد و پیمان پورا کر دکھایا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں صدق و تقویٰ کا حکم اس لئے دیا ہے۔ کہ اس کے ذریعہ ہم دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر سکیں۔ شر کی ہلاکتوں سے محفوظ رہیں اور اہل باطل اور گمراہوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کریں تاکہ ان کی بد اخلاقیاں ہم پر اپنا اثر نہ ڈال سکیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل) [سنن ابی داؤد: کتاب الادب، باب من يؤمر ان يجالس (4833) و جامع ترمذی: ابواب الزھد، باب: 45(2378) و مسند احمد: (303/2) (8015) و 334/2(8398)]
’’آدمی اپنے دوست کے راستہ پر ہوتا ہے۔ لہندا دوستی کرتے وقت یہ خیال رکھو کہ دوستی کس سے کر رہے ہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔