اچھے انسان کا معیار معاشرے کے لیے مفید و مددگار

﴿ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ۝۱۷ ﴾(الرعد:17)
’’پس جو جھاگ ہے وہ ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے لیکن وہ چیز جو لوگوں کو نفع دیتی ہے سو وہ زمین میں رہ جاتی ہے اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔‘‘
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص انسانی معاشرے کا ایک فردہ حصہ اور جزو ہے اور جزولاینفک ہے یعنی اس سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا، یہ انسان کی خواہش بھی ہے اور اس کی ضرورت و مجبوری بھی، چنانچہ جب حقیقت حال یہ ہو کہ لوگوں کا آپس میں ایک ساتھ اور مل جل کر رہنا ناگزیر ہو تو پھر طبعی امر ہے کہ اُس کے کچھ فوائد بھی ہوں گے اور کچھ نقصانات بھی۔
فوائد و منافع مادی بھی ہوتے ہیں اور معنوی بھی، پیدائش سے لے کر موت تک انسان کو زندگی کے بہت سے معاملات میں دوسروں سے مادی و معنوی مدد اور تعاون کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔
مادی لحاظ سے یوں کہ انسان کو زندگی میں بہت سے معاملات میں بشمول کھانے پینے، رہنے سہنے، لینے دینے اور کاروبار کرنے کے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کے مادی اور ظاہری وجود کے لحاظ سے بھی ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب اور آس پاس رہیں کہ اس سے وحشت ، گھبراہٹ اور اداسی دور ہوتی ہے۔
اگر لوگ آس پاس، آمنے سامنے اور ایک دوسرے کے قریب نہ ہوں تو انسان کو وحشت و اداسی اور گھبراہٹ کی ہونے لگتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
(سمع حذيفة رَجُلا يَقُولُ: اللّٰهُم أَهْلِكِ الْمُنَافِقِينَ))
’’ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا کہ: اے اللہ! منافقوں کو ہلاک و تباہ برباد کر دے‘‘
تو یہ سن کر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اسے فرمایا:
((فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي لَوْ هَلَكَ الْمُنَافِقُونَ لَاسْتَوحَشْتُمْ فِي طُرُقَاتِكُمْ مِنْ قِلَّةِ السَّالِكِ)) (مدارج السالكين ، ص:339)
’’بیٹا (اے بھتیجے!) اگر سارے منافق ہلاک ہو جا ئیں تو تمہیں رستوں پر چلنے والوں کی قلت کی وجہ سے وحشت ہونے لگے ۔‘
گویا کہ لوگوں کا قرب ایک دوسرے کے لیے وحشت و تنہائی دور کرنے کا باعث ہوتا ہے اور یہ انسان کی ضرورت ہے۔
اسی طرح انسان کو معنوی لحاظ سے بھی دکھ، درد، مصیبت اور پریشانی کے وقت کسی انیس، ہمدرد، ہمدم، خیر خواہ اور غم گسار کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس سے بات کر کے اُس کے غم کا بوجھ ہلکا ہو جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ جب غزوۂ احد سے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ گھروں سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں، عورتیں اپنے اپنے مقتولین کو رورہی ہیں۔
حدیث میں ہے کہ: ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ لَمَّا رَجَعَ مِنْ أَحَدٍ سَمِعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ يبْكِينَ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ ))
’’جب آپ ﷺ غزوہ احد سے واپس تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو اپنے خاوندوں پر ، اور ایک حدیث میں ہے کہ اپنے مقتولین پر روتے ہوئے سنا۔‘‘
((فَقَالَ: لَكِنَّ حَمْزَةَ لَا بَوَاكِي لَهُ))
’’اور فرمایا: لیکن حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والے بھی نہیں ہیں۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تو مدینہ میں بہت زیاد و قرابت داری نہیں ہے کہ جس کی تعزیت اور غم گساری کرنے والے بھی ہوتے۔ حضرت سعد بن عبادة بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ لے اور بعض دوسرے صحابہ نے جب یہ سنا تو انہوں نے اپنی عورتوں کو جا کر رونے سے روکا اور کہا کہ کوئی عورت اپنے مقتولین پر اس وقت تک نہ روئے جب تک وہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر نہ رولے، چنانچہ عورتیں دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کے پاس جمع ہو گئیں، تب تک آپ ﷺ سوچکے تھے، بیدار ہوئے تو افسوس کا اظہار کیا، اور فرمایا:
((مُرُوهُنَّ فليرجعن ولا يبكينَ عَلَى هَالِكِ بَعْدَ الْيَوْمِ))
(مسند احمد:368/7)
’’ان سے کہو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی فوت ہونے والے پر نہ روئیں ۔‘‘
تو بتلانا مقصود یہ تھا کہ انسان کو زندگی میں غم گساری کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی حوصلہ اور تسلی دینے والا اور کوئی تعزیت کرنے والا ہو تو غم ہا کا ہو جاتا ہے۔ اس تمہید اور ابتدائیے سے یہ تو معلوم ہوا کہ لوگوں کا آپس میں مل جل کر رہنا انسان کی خواہش بھی ہے اس کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی اور یہ کہ اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں معاشرے میں کسی طرح رہتا ہے اور کس طرح زندگی گزارنا ہے؟ دنیا میں اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے مختلف اور متعدد خود ساختہ نظام موجود ہیں، جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، صرف اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ لوگوں کے بنائے ہوئے انتظام یا تو ناقص اور ادھورے ہیں، یا شریعت اور فطرت سے متصادم ہیں اور جو قوانین و ضوابط جزوی طور پر صحیح ہیں وہ اُس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے جب تک وہ ایک مکمل صحیح نظام کے اندر استعمال نہ ہوں۔
صرف اسلام ہی ایک ایسا انتظام ہے کہ جو انسان کی معاشی ، معاشرتی اور زندگی کے ہر شعبے میں ہر پہلو سے ٹھیک ٹھیک اور کامل و مکمل اور عین ضرورت و فطرت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔
اسلام نے انسانوں کے لیے معاشرتی نظام کے جو اصول مقرر فرمائے ہیں، ان کی بنیاد خیر خواہی پر رکھی ہے اور سراسر خیر خواہی پر ہے، ملاحظہ فرمائیں کہ سب سے پہلے تو دین اسلام کو دین خیر خواہی قرار دیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((الدين النصيحة)) (صحیح مسلم ، کتاب الايمان:55)
’’دین نصیحت و خیر خواہی ہے۔‘‘
اور پھر انسان کے اچھے ہونے کی علامت اور معیار بھی خیر خواہی قرار دیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ)) (معجم الأوسط للطبراني:6026)
’’لوگوں میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ نافع اور فائدہ مند ہیں۔‘‘
کسی بھی انسان کو دنیا میں جو سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے وہ دین کے حوالے سے ہے یعنی لوگوں کو دینی لحاظ سے فائدہ پہنچانا اور ان کی رہنمائی کرتا۔ دینی لحاظ سے کسی کو فائدہ پہنچانا یقینًا سب سے بڑا فائدہ بھی ہے اور سب سے مشکل کام بھی ، چنانچہ اسی لیے اللہ تعالی نے انبیاء ورسل علیہم السلام کو اس کی ذمہ داری سونپی۔
اور پھر جو انبیاء علیہم للسلام کے وارث بنے وہ اپنے اخلاص اور اپنی کوششوں کے حساب سے اس خیریت میں سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔
اور یہ میدان سب کے لیے کھلا ہے، کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے، البتہ اس کی کچھ شرطیں، کچھ تقاضے اور کچھ اصول وضوابط ہیں۔ جن کی پاسداری اور پابندی کرنا لازم ہے۔
تا ہم قرآن وحدیث میں اس کی جابجا اور بہت زیادہ فضیلت اور اجر و ثواب بتلاتے ہوئے ترغیب ضرور دی گئی ہے، جو کہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں، بالخصوص معاشرتی زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک بات ہر آدمی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے وہ امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، بڑا ہو یا چھوٹا ہو، مرد ہو یا عورت، ہر شخص کو دکھوں، تکلیفوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کا ضرور بالضرور سامنا کرنا پڑے گا، کسی کو کوئی استثنا نہیں، کوئی مفر نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ لوگوں کی غالب اکثریت سیدھی اور مستقیم چلنے والی نہیں، نظام کی اور اصول وضوابط کی پابندی کرنے والی نہیں بلکہ من مانی کرنے والی ہے، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے والی ہے، اور خواہشات اگر دین کے تابع نہ ہوں تو وہ اس کے مخالف اور اس سے متصادم ہوتی ہیں اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ تو گویا کہ آدمی کو ذہنی طور پر پوری طرح مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے، انہیں برداشت کرنے کے لیے اور لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن تیار رہنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں سوچیں گے اور ایسا نہیں کریں گے تو اس کے بہت سے منفی نتائج میں سے ایک نتیجہ ملاحظہ فرمائیے: حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمِ اسْتَهمُوا عَلَى سَفِينَةِ))
’’حدود اللہ کی پابندی کرنے والے اور ان کی پامالی کرنے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے کشتی میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی ۔‘‘
((فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعلاها، وبعضهم أسفلها))
’’تو اُس میں کچھ لوگوں کو اوپر والے حصے میں جگہ ملی اور کچھ کو نچلے حصے میں ۔‘‘
((فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُوا عَلَى مَنْ فوقهم))
’’نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو انہیں اوپر آنا پڑتا جس سے اوپر والوں کو کچھ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ۔‘‘
فَقَالُوا: ((لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِينَا خَرْفًا، وَلَمْ نُوذِ مَنْ فَوْقَنَا))
’’تو انہوں نے آپس میں کہا کہ کیوں نہ ہم کشتی کے اپنے والے حصے میں ہی سوراخ کر کے پانی حاصل کر لیں اور ہم اوپر والوں کو تکلیف نہ پہنچا ئیں ۔‘‘
((فَإِن يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اگر اوپر والے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں کہ جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں ۔‘‘
((وَإِنْ أَخَذْ وَاعَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا)) (صحيح البخاری ، كتاب الشركة:2493)
’’اور اگر وہ ان کا ہاتھ روک لیں تو وہ بھی بچ جائیں اور سارے بچ جائیں ۔‘‘
تو معاشرے کی اصلاح کی کوشش نہ کرنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ فساد اور بگاڑ ، بے حیائی، فحاشی، بدکاری، بد اخلاقی اور دیگر بہت سی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ جن سے معاشرے میں تعفن پھیلتا ہے اور تمام ماحول بد بودار ہو جاتا ہے کہ سارے کے سارے لوگ کسی نہ کسی درجے اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر شخص کا اپنی اپنی علمی استعداد اور بساط کے مطابق حصہ ڈالنا ضروری ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((بَلِّغُوا عَنِّى وَلَوْ آية)) (بخاري:3461)
’’کوئی ایک آیت بھی معلوم ہو تو میری طرف سے پہنچاؤ۔‘‘
یادر ہے کہ صرف پہنچانے کا حکم ہے منوانے کا نہیں۔ دین کے لحاظ سے کسی کی رہنمائی کرنا کسی کی خیر خواہی کرنا یقینًا سب سے بڑی خدمت اور سب سے بڑی خیر خواہی ہے، لیکن یہ ہر ایک کی استطاعت میں نہیں ہے مگر اسلام کسی شخص کو کسی قوم کو کسی طبقے کو نیکی سے محروم نہیں کرتا کسی کے لئے کسی ایک کام میں اگر بہت بڑا اجر رکھا ہے تو کسی دوسرے کے لیے کسی دوسرے کام میں اس سے ملتا جلتا اجر و ثواب رکھ دیا ہے۔
آج کی گفتگو کا اصل موضوع تو یہ تھا کہ:
( خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ )) (المعجم الأوسط للطبراني:5787)
’’لوگوں میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہیں۔‘‘
مگر اب تک کی گفتگو تمہید کے طور پر عرض کی گئی ہے تا کہ اصل موضوع اور اس کی اہمیت سمجھنے میں آسانی ہو۔
تاہم اس حدیث کی روشنی میں لوگوں کو نفع پہنچانے اور ان کی خیر خواہی کرنے کے بہت سے طریقے اور بہت سی صورتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔
مثلا: لوگوں کی خیر خواہی کرنے کی مختلف صورتیں اور اس کی اہمیت ایک حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ ))
’’اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب اور پسندیدہ لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے لیے ب سے زیادہ فائدہ مند ہوں۔‘‘
((وَ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ سُرُورٌ تُدْخِلْهُ عَلَى مُسلِم، تكشف عنه كربة، أو تقضي عنه دينا، أو تطرد عنه جوعاً))
’’اور اللہ تعالی کے ہاں سب سے پسندیدہ اعمال کسی مسلمان کو کوئی خوشی پہنچانا ہے، کسی کی کوئی تھی دور کرنا ہے کسی کا قرض ادا کرتا ہے، یا کسی کی بھوک مٹانا ہے ۔‘‘
((وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَحْ لِي فِي حَاجَةٍ أَحِبُّ إِلَيَّ مِن أَنْ أَعْتَكِفَ في هذا المسجد يعني مسجد المدينة شهرًا))
’’اور میں کسی بھائی کے ساتھ اُس کے کام سے اُس کے ساتھ جاؤں مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس مسجد میں یعنی مسجد نبوی میں پورا ایک مہینہ اعتکاف بیٹھوں ۔‘‘
((وَمَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ، وَلَوْ شَاءَ أَنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ، مَلَّا اللهُ عز وجَلَّ قَلْبَهُ رِضًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
’’ اور جس نے اپنا غصہ دبا لیا، کہ اگر وہ اسے نافذ کرنا چاہتا تو کر سکتا ہوتا۔ تو اللہ تعالی اس کے دل کو قیامت کے دن رضا سے بھر دے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے دن پھر اسے کوئی ڈر خوف اور گھبراہٹ نہیں ہوگی۔
((وَمَنْ مَشَى مَعَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ فِي حَاجَةٍ حَتَّى يُثْبِتَهَا لَهُ، أَثْبَتَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدَمَهُ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُ فِيهِ الْأَقْدَامُ))
(معجم الأوسط للطبراني:6026۔ صحيح الترغيب:2623)
’’ ’’اور جو کوئی اپنے کسی بھائی کے ساتھ، اس کے کام کے لیے اُس کے ساتھ گیا حتی کہ اس کا وہ کام پورا کر دیا، تو اللہ تعالی قیامت کے دن پل صراط پر اس کے پاؤں جمادے گا کہ جہاں لوگوں کے قدم لڑکھڑا ئیں گے۔‘‘
یہ جو حدیث میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ میں اپنی مسجد میں پورا مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کسی مسلمان بھائی کے کام کے لیے اُس کے ساتھ چل کر جاؤں، تو اس میں حکمت علماء کرام یہ بیان فرماتے ہیں کہ ہر وہ نیکی کہ جس کا فائد ہ دوسروں کو بھی پہنچے وہ زیادہ افضل ہے اس نیکی ہے کہ جس کا فائدہ صرف آدمی کی اپنی ذات تک ہی محدود ہو۔
مثلاً کوئی آدمی نفلی روزہ رکھتا ہے تو اس کا فائدہ صرف اس کی ذات کو ہے، اسی طرح نماز پڑھتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے یا تسبیحات واذکار کرتا ہے تو صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے، لیکن کوئی ایسا کام کہ جس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو زیادہ بہتر ہے، تو ایسی نیکی کہ جس کا دوسروں کو فائدہ پہنچے ایک بہترین نیکی ہے چاہے پرندے اور جانور وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لا يَغْرِسُ مُسلِمٌ غَرْساً فَيَأْكُلَ مِنْهُ إِنْسَانُ وَلَا دَابَّةٌ وَلَا طَيْرُ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))
(صحیح مسلم، كتاب المساقاة:1552)
’’ کوئی مسلمان جو کوئی ایسا درخت یا ایسی کھیتی لگاتا ہے کہ جس سے کوئی انسان، کوئی جانور اور کوئی پرندہ مستفید ہو تو وہ قیامت تک اس کے لیے صدقہ ہوگا ۔‘‘
تو نیکی اور خیر خواہی کی بہت سی راہیں اور بہت سی صورتیں ہیں، ذرا تفصیل سے ان شاء اللہ پھر کبھی ذکر ہوگا۔ لوگوں کو نفع پہنچانے کی ایک معروف صورت مالی لحاظ سے کسی کو فائدہ پہنچانا ہے، اگر اس کی استطاعت ہو تو اس کو ضرور کریں بلکہ اپنی عادت بنالیں اور پابندی سے اور مستقل بنیادوں پر کریں ، اس کے دنیا و آخرت میں بہت زیادہ فوائد ہیں، اس کا ایک فائدہ ملاحظہ فرمائیے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِي الْمَاءُ النَّارَ ))
(ترمذی ، کتاب الايمان:2616)
’’صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔‘‘
صدقہ کرنا ایک مشکل کام لگتا ہے، کیونکہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ مال کے کم ہونے سے ڈرتا ہے، مگر ایک تو نبی کریمﷺ نے قسم کھا کر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ:
((مَا نَقَصَتْ صَدَقَهُ مِنْ مَالِ)) (صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة:2588)
’’صدقہ مال کو کم نہیں کرتا ۔‘‘
اور دوسرے یہ کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا اخْتَصَّهُمْ بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ، يُقِرُّهُمْ فِيهَا مَا بَدَّلُوهَا، فَإِذَا مَنْعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ فَحَولَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ ))(صحيح الجامع:2124)
’’اللہ تعالی کے کچھ بندے ہیں جنھیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے فائدے کے لیے چند نعمتوں کے ساتھ خاص کیا ہے، جب تک وہ اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالی ان کو اس میں برقرار رکھتا ہے اور جب وہ اسے روک لیتے ہیں تو اللہ تعالی اپنی نعمتوں کو ان سے چھین لیتا ہے اور انھیں دوسروں لوگوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((ثَلَاثَةٌ لَا أَكَافِئُهُمْ رَجُلٌ بَدَأَنِي بِالسَّلَامِ، وَرَجُلٌ أَوْسَعَ لِي في الْمَجْلِسِ، وَرَجُلٌ إِغْبَرَتْ قَدَمَاهُ فِي الْمَشْيِ إِلَى إِرَادَةَ التَّسْلِيم عَلَىَّ ))
’’تین قسم کے لوگوں سے میں برابری نہیں کر سکتا: اور ان کا بدلہ نہیں دے سکتا ایک وہ آدمی جو مجھ سے سلام کرنے میں پہل کرے، دوسرا وہ شخص جو مجلس میں میرے لیے (جگہ کی ) وسعت پیدا کرے اور تیسرا وہ آدمی کہ مجھ پر سلام پیش کرنے کے ارادے سے آتے ہوئے جس کے پاؤں غبار آلود ہوں ۔‘‘
((فَأَمَّا الرَّابِعُ فَلَا يُكَافِئُهُ عَنِّي إِلَّا اللَّهُ))
’’اور چوتھا آدمی جس کا اللہ تعالی ہی میری طرف سے بدلہ دے سکتا ہے ۔‘‘
((قیل ومن هو ؟))
’’آپ سے پوچھا گیا: وہ کون ہے؟‘‘
((قَالَ: رَجُلٌ نَزَلَ بِهِ أَمْرٌ فَبَاتَ لَيْلَتَهُ يُفَكِّرُ بِمَنْ يَنزِلُهُ ، ثُمَّ رَانِي أَهْلا لِحَاجَتِهِ فَأَنْزَلَهَا بِي )) (المجالسة وجواهر العلم ، ج:3، ص:69 ، في سنده ضعف)
’’فرمایا: وہ شخص کہ جسے کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو اس نے رات یہ سوچتے ہوئے گزاری کہ وہ اپنی پریشانی کس کے پاس لے کر جائے ، پھر اُس نے اپنی ضرورت کے لیے مجھے اہل جانا ، چنانچہ اس نے اپنی ضرورت مجھ پر پیش کی ۔‘‘
تو صدقہ کرنا اگر چہ فطرنا آدمی کو مشکل لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے بہت اور بڑے بڑے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک یہ بات بھی صدقہ کرنے کی ہمت بڑھانے کے لیے کافی ہے کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ کسی نہ کسی ذریعے سے آدمی کو اس کا عوض
دے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
…………..