عدل و انصاف
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۹۱ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ؕ تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّةٍ ؕ اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۹۲ (سوره نحل:90 تا 92)
اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں اور ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو اور اللہ کے اقرار کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول وقرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو۔ باوجودیکہ اللہ کو اس پر ضامن ٹھہرا چکے ہو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے سوت کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے توڑ ڈالا تاکہ ٹھہراؤ تم اپنی قسموں کو آپس میں مکر کا باعث۔ اس لیے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا ہو جائے۔ اس سے اللہ تم کو آزما رہا ہے۔ یقیناً اللہ تمہارے لئے قیامت کے دن ہر چیز کو کھول کر بیان کردے گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو۔‘‘
یہ آیت کریمہ ہر قسم کے فضائل و رذائل کو محیط ہے قرآن مجید کی آیتوں میں یہ آیت خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں جاہلیت کے زمانے میں جن اخلاق حسنہ پر عمل کیا جاتا اور وہ پسند کئے جاتے تھے ان میں سے کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کا اللہ تعالی نے اس آیت میں حکم نہ دیا ہوا اور کوئی بھی بداخلاقی ایسی نہیں ہے جس کی اس آیت میں مخالفت نہ ہو (ابن جریر)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں بھلائی اور برائی کے سلسلہ کی سب سے زیادہ جامع آیت یہی ہے۔ (حاکم)
اس آیت کریمہ میں اوامر کے اعتبار سے عدل احسان، اہل قرابت کے حقوق اور ایفائے عہد اور نواہی کے لحاظ سے تھا، منکر، بغی اور نقض عہد کا بیان نہایت خصوصیت سے کیا گیا ہے منطقی اصطلاح میں اس آیت کو قضیہ مانعة الخلو کہا جا سکتا ہے یعنی ہر فضائل حمیدہ میں ان چاروں عدل، احسان اور صلہ رحمی اور ایفائے عہد کا اجتماع ہو سکتا ہے لیکن کوئی حسن خلق ان چاروں سے خالی نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی نہ کوئی اس میں ضرور ہو گا اس طرح سے تمام خصائل رذیلہ اور قبائح ذمیمہ میں ان چاروں فحشاء) منکر اور بغی اور نقض عہد کا اجتماع ممکن ہے مگر کوئی بداخلاق ان چاروں کے اجتماع سے خالی نہیں بلکہ ان چاروں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے ہم ان چاروں مامورات و منہیات کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم کو ان خصائل حمیدہ سے مزین فرمائے اور ہر قسم کے قبائل اور رذائل سے بچائے آمین۔
ہر وہ خلق جس کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے وہ فضائل کہلاتے ہیں اور ہر وہ کام جس کو اللہ ناپسند کرتا ہے رذائل ہیں۔ ان ہی فضائل و رذائل کو اوامر اور نواہی سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی وہ کام اچھا ہے جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے۔ اس میں عقلی خوبیاں اور جمہوری فائدہ بھی ہے جیسا کہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہو جائے گا اور جس کام کو اللہ ناپسند کرتا ہے وہ برا ہے۔ عقلی برائیاں اور خلق خدا کا نقصان بھی ہوتا ہے اخلاق حسنہ کی جزئیات کا احاطہ بہت مشکل ہے اس آیت میں چار جزئیات کا اجمالی تذکرہ ہے جن پر دیگر جزئیات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح خصائل قبیحہ کا شمار بھی ناممکن ہے لیکن نمونے کے طور پر اس آیت میں چار جزئیات بیان کئے گئے ہیں جن سے دوسرے خصائل ذمیمہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ اللہ نے حضور اقدس ﷺ کو حکم دیا کہ قبائل عرب کے پاس جائیں۔ ایک سفر میں حضرت علی اور حضرت ابو بکر حضور اقدس ﷺ کے ساتھ تھے۔ اس دفعہ مختلف قبائل کا دورہ کرتے ہوئے شیبان بن ثعلبہ کے قبیلہ کے پاس پہنچے۔ حضور اقدسﷺ نے پہلے کلمہ شہادت کی دعوت دی پھر بھی ابن ثعلبہ کے خطیب مفروق نے عرض کیا کہ کسی بات پر آپ دعوت دیتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ﴿قُلْ تَعَالُوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبَّكُمْ﴾ تب بھی خطیب نے کہا: کس بات کی دعوت دیتے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا: ﴿اِنَّ اللهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾ حب خطیب قبیلہ مفروق نے کہا: اے قریشی بھائی تو نے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی دعوت دی۔ بے شک وہ قوم حق سے دور جا پڑی جس نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کے خلاف مظاہرہ کیا اس کے بعد اس کے سردار نے کہا کہ جلدی میں کوئی فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ ہمارا قبیلہ اس مسئلہ پر غور کرے گا۔[1]
یہ آیت خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز اموی المتوفی101ھ کے دور حکومت سے جب کہ ان کی حکومت ایشیا و افریقہ سے بڑھ کر یورپ میں اسپین تک پہنچ چکی تھی اور جملہ اقوام و مذاہب اسلامی دائرہ حکومت میں بستی تھیں۔ اس وقت ساری دنیا میں جمعہ کے دوسرے خطبہ میں پڑھی جاتی تھی صاف ظاہر ہے یہ بین الاقوامی آیت دستور حکومت اور جملہ مذاہب اور اقوام کے حقوق کی ضامن ہے۔
تفسیر حسینی میں ہے کہ جن تین چیزوں کا اس آیت میں ذکر ہے ان کے سبب ملک کی استقامت ہے اور جن تین چیزوں کی ممانعت ہے ان کے باعث اضطراب و پریشانی ہوتی ہے اور چھے چیزوں سے ہر ایک کا نتیجہ یہ ہے۔
(1) عدل کا ثمر وفتح و نصرت ہے (2) احسان کا ثمرہ ثناوصفت ہے۔
(3) صلہ رحمی کا ثمرہ انس والفت ہے۔ (4) فحشاء کا نتیجه دین و دنیا کا فساد و تباہی ہے۔
(5) منکر کا نتیجہ دشمنوں کو آمادہ کرتا ہے۔ (6) بغی یعنی ظلم وسرکشی کا حاصل ان چیزوں سے محروم رہتا ہے جن کی تمنا ہے۔
محققین صوفیاء نے ان چھ چیزوں کو تصوف کی بنیاد بتلایا ہے اب ہم اس مختصر خطبہ میں ان باتوں کی طرف خاص توجہ دلاتے ہیں۔
عدل
اللہ تعالی نے سب سے پہلے عدل کا تذکرہ فرمایا ہے عدل کے معنی انصاف کے ہیں۔ ہر چیز میں انصاف کی ضرورت ہے۔ قول میں، فعل میں یعنی جو کہیں یا جو کریں اس میں انصاف اور سچائی اور حق کوئی ہو۔ ہر چیز سچائی کے ترازو میں ٹھیک اترے اور انصاف کی کسوٹی پر پوری اترے افراط و تفریط اور کمی بیشی ہرگز نہ ہو یہ عدل اللہ تعالی کی خاص صفت ہے اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک عدل بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ حق فیصلہ کرتا ہے حق بات کہتا ہے اور حق کام کرتا ہے ارشاد فرمایا:
﴿وَاللهُ يَقُولُ الْحَقِّ﴾ (احزاب: 4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] دلائل النبوة للبيهقي 422/2 – دلائل النبوة لأبي نعيم 1/ 282 (214)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ حق ہی بات کہتا ہے۔‘‘
﴿وَاللهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ﴾ (مومن: 20)
’’اللہ حق ہی فیصلہ کرتا ہے۔‘‘
پہلی آیت میں عدل قولی دوسری آیت میں عدل فعلی کا بیان ہے اور یہ دونوں باتیں عدل قولی اور عدل فعلی کا تذکرہ اس آیت میں ہے کہ
﴿وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ (انعام: 115)
’’اور آپ کے رب کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہوگئی۔‘‘
سارا نظام عالم صرف اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف ہی پر قائم ہے اور وہ خود بھی پورے پورے انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ﴾ (ال عمران: 18)
’’اللہ تعالی نے گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والوں نے بھی کہ وہی الله عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہے۔‘‘
یہ عدل اللہ تعالی کی مخصوص صفت ہے اس کا اس نے حکم دیا ہے خواہ اپنے ہوں یا پرائے دوست ہوں یا دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ؗ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوْا ؕ اِعْدِلُوْا ۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ؗ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۸ ﴾(مائده: 8)
’’اے ایمان والو! تم اللہیت کے ساتھ حق پر قائم ہو جاؤ۔ انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں بے انصافی پر آمادہ نہ کرے انصافی کرو یہی انصاف و پر ہیز گاری سے قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینًا اللہ تعالی تمہارے عملوں سے واقف ہے۔‘‘
اس آیت میں انصاف کو اقرب الی التقوی فرمایا گیا ہے اور تقوی کے درجے تک پہنچ کر انسان صحیح معنوں میں انسان کامل بن جاتا ہے متقی آدمی نہ کسی پر ظلم و تعدی کرتا ہے اور نہ عداوت و دشمنی پر آمادہ ہوتا ہے پس عدل کا تقاضا یہی ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرے اور انصاف کی راہ میں کسی کی دشمنی آڑے نہ آسکے۔ ’’انصاف و عدل‘‘ دوستی اور دشمنی سے بالاتر ہے بلکہ انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ دشمن کے ساتھ سب سے پہلے انصاف کیا جائے تاکہ عدل و انصاف کرنے والے کا امتحان ہو جائے جیسا کہ ارشاد ہے۔
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰی بِهِمَا ۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤی اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۱۳۵﴾ (نساء: 135)
’’اے ایمان والو! تم انصاف کی حمایت میں کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لئے گواہ بن کر۔ اگرچہ تمہارا اس میں نقصان ہی ہو۔ یا ماں باپ یا رشتہ داروں اور عزیزوں کا۔ اگر وہ دولت مند یا محتاج ہیں تو اللہ تعالی تم سے زیادہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ لہذا تم عدل اور انصاف کرنے میں خواہشات نفسانی کی اتباع اور پیروی نہ کرو۔ اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلوتہی کرو تو اللہ تعالی تمہارے کام سے واقف ہے۔‘‘
ان آیتوں میں عدل کے خلاف ایک ایک ریشہ کو جڑ سے نکال کر پھینک دیا گیا ہے کہا گیا کہ معاملات عدل و انصاف کی حمایت تمہارا مقصد ہو جو کچھ کہو یا کرو۔ خدا لگتی کہو یا اللہ کے واسطے کہو۔ عدل و انصاف کے فیصلے اور گواری میں نہ تو اپنے نفس کا خیال بیع میں آئے نہ عزیزوں اور قرابت داروں کا۔ نہ دولت مند کی طرف داری کا۔ نہ محتاج پر رقم کا۔ پھر اس فیصلہ اور گواہی میں دولت مند کی خاطر نہ کرو اور محتاج پر ترس کھاؤ اور قرابت کو بھی نہ دیکھو جو حق ہو وہ کرو یا کہو۔ پھر کہنے میں کوئی توڑ موڑ نہ کرو۔ کہ سننے والا شبہ میں پڑ جائے یا پوری بات نہ کہو کچھ چھپا لو۔ تو یہ سب باتیں عدل اور انصاف کے خلاف ہیں۔ کسی غریب کی غربت پر ترس کھا کر فیصلہ میں ردو بدل کر دینا بظاہر نیکی کا کام دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک مقدس ہے۔ فیصلہ میں ترس کھا کر بے ایمانی کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا کسی کی خاطر رکھ کر یا کسی کی بزرگی مان کر یا کسی کی بڑائی سے مرعوب ہو کر بے ایمانی کرتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل و انصاف کی راہ میں کوئی اچھا یا برا جذبہ حاکم کے لئے ٹھوکر کا پتھر نہ بنے۔
اسی طرح آیت مذکورہ کا اشارہ ادھر بھی ہوا کہ جو گواہ کسی فریق کو نفع پہنچانے کی غرض سے جانب دارانہ گواہی دیتا ہے وہ غلطی میں مبتلا ہوتا ہے اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی اس کا نگران نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نہ گواہوں کو اس کی طرف داری کرنی اور نہ خود کسی فریق کو گواہ کی طرف داری کے ذریعہ سے اپنی منفعت کا خیال دل میں لانا چاہئے بلکہ دونوں کو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہئے کہ وہی ان کا سب سے بہتر اور سب سے بڑھ کر ولی اور حمایتی ہے۔
لوگ عدل و انصاف کے فیصلہ اور گواہی میں اس لئے غلط بیانی کرتے ہیں کہ جس فریق کی طرف داری مقصود ہے تو اس کو فائدہ پہنچ جائے تو ارشاد ہوا کہ اللہ اپنے امیر اور غریب دونوں بندوں کے حق میں تم سے زیادہ خیر خواہ ہے تمہاری کم بین نظر تو آس پاس تک جا کر رہ جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب کچھ ہے وہ سب
کچھ دیکھ کر اور سب کچھ جان کر اپنے بندوں کے ساتھ وہ کرتا ہے جس میں ان کی بھلائی ہے۔ غور کیجئے ان لفظوں میں عدل و انصاف کا فلسفہ کسی خوبی سے بیان کیا گیا ہے کم حوصلہ انسان اپنے فیصلہ اور گواری میں کسی خاص انسان کی بھلائی کے لئے جھوٹ بولتا یا غلط فیصلہ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ حالانکہ عالم الغیب کے سوا یہ کسی کو معلوم ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر اس کے لئے کیا چیز مفید ٹھہرے گی۔ پھر ایک اور حیثیت سے دیکھئے کہ بالفرض کسی ایک خاص آدمی کو اپنی طرف داری سے فائدہ پہنچا بھی دیا تو کیا یہ ہی نہیں کہ اس نے اس طرح حقیقت میں سچائی کا خون کر کے نظم عالم کو ابتر کرنے کی کوشش کی اور ظلم کی بنیاد رکھی جس سے عالم کے امن و امان کے درہم برہم ہو جانے کا خطرہ ہے۔ غلط گو انسان کی محدود نگاہ میں ایک جزئی واقعہ کے نفع و نقصان کا خیال ہے اور اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے حکم میں سارے عالم کی خیر خواہی کا ایک بھید چھپا ہے جس کا ایک فرد وہ خاص انسان بھی ہے۔ انسان کے ہر فرد اور ہر جماعت بلکہ حکومت اور سلطنت میں عدل و انصاف کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس لئے معاشرتی زندگی کے عدل کے سلسلے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ (النساء: 3)
’’اگر تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ متعدد عورتوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی بیوی پر یا ایک باندی پر اکتفا کرو۔‘‘
جو عورتوں کے درمیان انصاف نہیں کرتے وہ سخت مجرم ہیں اور اپنے بچوں کے درمیان بھی انصاف ضروری ہے۔ جو ایک بچے کو دیا جائے وہی دوسرے بچے کو بھی دیا جائے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے میری خدمت کے لئے ایک غلام مجھے عطا فرمایا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر کر کے کہا۔ ﴿إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا)
’’میں نے اس بچے کو ایک غلام دیا ہے آپ شاہد بن جائیے‘‘
آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے سب بچوں کو غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
(فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوبَيْنَ أَوْلَادِكُمْ)[1]
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان میں انصاف سے کام لو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: کتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها – باب الاشهاد في الهبة رقم الحديث: 2578۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یتیم بچوں کے متولیوں اور سر پرستوں کے لئے بھی عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَأَنْ تَقُوْمُوْ لِلْيَتٰمٰى بِالْقِسْطِ﴾ (نساء: 127)
’’اور یتیموں کے ساتھ انصاف کرو۔‘‘
بچوں عورتوں اور یتیموں کے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے پورے گھرانے اور خاندان کی اصلاح ہو سکتی ہے اسی طرح دو شخص یا دو گروہوں اور دو جماعتوں میں انصاف و عدل کرنے سے پورے ملک کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
﴿فَاصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ (الحجرات:9)
’’اور ان دونوں میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کو ملحوظ رکھو یقینًا اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
عدل و انصاف حکومت و سلطنت کی عمارت کا ستون ہے اگر حکومت میں انصاف نہیں ہے تو اس کی عمارت بہت جلد منہدم ہو جاتی ہے۔
(الْمُلْكُ يَبْقٰى مَعَ الْكُفْرِ وَلَا يَبْقٰی مَعَ الظُّلْمِ)
’’کفر کے ساتھ تو سلطنت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی۔‘‘
اسی لئے اسلام نے ہر قسم کے مذہبی اور عدالتی فیصلوں کے لئے انصاف کو لازمی اور ضروری قرار دیا ہے بغیر اس کے مظلوم کی داد رسی ممکن نہیں ہے۔ ارشاد ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَهْلِهَا ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾ (النساء:58)
’’اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں دے دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو۔‘‘
اور یہ فیصلہ دوست دشمن موافق و مخالف سب کے لئے یکساں عدل و انصاف ہو چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو یہودیوں کے معاملات میں حکم ہوا کہ:
﴿وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ﴾ (مائده:42)
’’اور اگر آپ ان یہودیوں کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔‘‘
اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یہود و نصاری اسلام کے کھلے دشمن تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا کہ:
﴿وَ قُلْ اٰمَنْتُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَكُمْ ؕ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ ؕ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ؕ لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ ؕ اَللّٰهُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا ۚ وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُؕ۱۵﴾ (شوری:15)
’’اور آپ فرما دیجئے کہ میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے اور اللہ کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہم کو ہمارے عملوں کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمہارے عملوں کا بدلہ ملے گا ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم سب کو اللہ کی طرف جاتا ہے۔‘‘
مطلب بالکل واضح ہے کہ گو ہمارے اور تمہارے درمیان دینی مذہبی مخالفت ضرور ہے مگر تمہارے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا۔ امیر، غریب، مسلم، غیر مسلم کی کوئی رعایت نہیں۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور مرنے کے بعد اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ جہاں انصاف اور ظلم کا بدلہ ملنا ہے ہم کو ہمارے عملوں کا بدلہ ملتا ہے اور تم کو تمہارے علم کا ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ سراسر عدل ہی تھے اس لئے لوگ نبوت سے پہلے بھی آپ کے پاس مقدمات لیجاتے اور آپ کے فیصلہ پر سب لوگ راضی ہو جاتے۔
حجرِ اسود کے نصب کرنے کا مشہور واقعہ ہے کہ سب قریش نے مل جل کر بیت اللہ بنا کر مکمل کر دیا مگر جب حجر اسود کے قائم کرنے کا موقعہ آیا تو سخت اختلاف ہوا کیونکہ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ یہ کام اسی کے ہاتھ سے سر انجام پائے چار دن تک برابر یہی جھگڑا ہوتا رہا آخر امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ عمر کا تھا یہ رائے دی کہ کسی کو حکم بنا کر اس کے فیصلے پر عمل کریں اس رائے کو مانا گیا اور قراردیا گیا کہ جو کوئی اب سب سے پہلے حرم میں آئے گا وہی سب کا حکم سمجھا جائے گا۔ اتفاقًا آ نحضرتﷺ تشریف لے آئے آنحضرتﷺ کو دیکھنا تھا کہ (هٰذَ الأمِيْنُ رَضِيْنَاهُ) کے نعرے لگ گئے (امین آ گیا۔ ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں)
آنحضرت ﷺ نے اپنی زیرکی اور معاملہ فہمی سے ایسی تدبیر کی کہ سب خوش ہو گئے آنحضرت ﷺ نے ایک چادر بچھائی اور اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اس میں رکھ دیا پھر ہر ایک قبیلہ کے سردار کو کہا کہ چادر کو پکڑ کر اٹھائیں اس طرح اس پتھر کو وہاں تک لائے جہاں قائم کرنا تھا آنحضرتﷺ نے پھر اسے اٹھا کر کونے پر لگا دیا۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مستدرك حاكم: كتاب المناسك باب وضع رسول الله ﷺ الحجر الأسود مكانه عند بناء البيت
458/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عورت فاطمہ مخزومیہ نے چوری کی۔ قریش کی عزت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے۔ حضرت اسامہ رسول اللہﷺ خاص خادم اور محبوب تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ سفارش کیجئے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بھولے پن میں اس عورت کے لئے معافی کی درخواست کرنے لگے۔ آپﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا: تم حدود الہی میں سفارش کرتے ہو۔ اللہ کی قسم اگر میری لخت جگر فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔[1]
آپﷺ نے خود اسی عدل پر پوری زندگی گزاری اور آپ کے بعد خلفاء راشدین بھی عدل و انصاف کی ایک مثالی خلافت پر گامزن رہے اور ان کے عدل و انصاف کی داستانیں قیامت تک یادگار رہیں گی۔ عادل بادشاہ کی تعریف اور فضیلت ہے دنیا میں اس کی بڑی قدر و عزت ہے اور قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ میں رہے گا۔ جیسا کہ بخاري شریف اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سوائے عرش السی کے سایہ یہ کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا اس سایہ میں سات طرح کے لوگ ہوں گے۔ ایک عادل اور منصف بادشاہ بھی ہوگا۔[2]
2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْمُقْسِطِيْنَ عِنْدَ اللهِ عَلٰى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَّمِينِ الرَّحْمَانِ)[3]
’’انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک اس کے داہنی جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔‘‘
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ إِمَامٌ عَادِلٌ رَفِيقٌ وَإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِندَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِمَامٍ جَابِرٌ خَرِقٌّ)[4]
’’قیامت کے روز بلحاظ قدر ومنزلت تمام لوگوں میں بزرگ ترین بنده منصف نرم دل امام (امام سے مراد حاکم ہے) ہوگا اور قیامت کے دن بلحاظ قدر ومنزلت تمام لوگوں میں بدترین شخص ظالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: کتاب الحدود باب كراهية الشفاعة في الحد اذا رفع إلى السلطان رقم الحديث: 9788۔ و مسلم 64/2- كتاب الحدود – باب قطع السارق الشريف وغيره و النهي عن الشفاعة في الحدود۔
[2] صحیح بخاري: کتاب الاذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلوة و صحيح مسلم كتاب الزكوة باب فضل اخفاء الصدقة۔
[3] مسلم: كتاب الإمارة باب فضيلة الامام العادل۔ [4] شعب الإيمان للبيهقي 16/6۔ رقم 7371
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور احمق امام ہوگا۔‘‘
4۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(قَالَ اتَدْرُونَ مَنِ السَّابِقُونَ إِلَى ظِلِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ۔ قَالَ الَّذِينَ إِذَا اُعْطُوا الْحَقِّ قَبِلُوةَ وَإِذَا سُئِلُوهُ بَذَلُوهُ وَحَكَمُو لِلنَّاسِ كَحُكْمِهِمْ لِأَنفُسِهِمْ)[1]
’’کیا تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن اللہ کے سائے کی طرف سبقت کرنے والے کون لوگ ہوں گے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے کہ جب ان کو ان کا حق دیا جاتا ہے تو بے چون و چرا تسلیم کر لیتے ہیں اور حق تو ہے ان کا لیکن لوگ جب ان سے مانگتے ہیں تو بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں اور لوگوں کے لئے ویسا ہی حکم کرتے ہیں جیسا کہ خود اپنے نفسوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں (یعنی جو کچھ اپنے لئے چاہتے ہیں وہی دوسروں کے لئے چاہتے ہیں)‘‘
اور یہی معنی ہیں ’’آنچه بر خود مپسندی بردیگرے میپسند‘‘ کے۔
اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے عادل بادشاہوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے عدل و انصاف کرنے اس والوں کو اللہ دوست رکھتا ہے ان کے عدل کی وجہ سے اللہ کی مخلوق نہایت آرام سے اپنی زندگی گزارتی ہے کھانے میں بڑی برکت رہتی ہے پیداوار میں ترقی ہوتی ہے۔ ہر چیز ارزاں وسستی رہتی ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ایک حدیث کے ضمن میں بتایا ہے:
(وَجَدْتُ فِي خَزَائِنِ بَنِي أُمَيَّةَ حِنْطَةَ الْحَبَّةِ بِقَدْرِ نَوَاةِ التَّمَرِوَهِيَ فِي صُرَّةٍ مَكْتُوبٍ عَلَيْهَا كَانَ هٰذَا يَنْبُتُ فِي زَمَنِ الْعَدْلِ)
’’میں نے بنی امیہ کے گودام میں ایک قسم کا گیہوں پایا ہے جس کا ایک ایک دانہ کھجور کی گٹھلی کے برابر تھا یہ گندم ایک تھیلے میں بند تھی جس کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی یہ گیہوں عدل وانصاف کے زمانہ خیر کی پیداوار ہے۔‘‘
یہ تو امام احمد بن حنبل کے زمانہ سے پہلے کی بات ہے۔ علامہ ابن قیم متوفی 751ھ نے اپنے زمانہ یعنی آٹھویں صدی ہجری کے متعلق ’’الجواب الکافی‘‘ میں امام صاحب کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ (وَاَخْبَرَنِي جَمَاعَةٌ مِنْ شُيُوحَ الصَّحْرَاءِ إِنَّهُمْ كَانُو يَعْهَدُوْنَ الثَّمَارَ اكْبَرَ مِمَّا هِيَ الآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 676 عن عائشة رضي الله عنها۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بوڑھے شیوخ نے مجھے بتایا کہ خود ان لوگوں نے بھی آج کل کے دانوں سے بہت بڑے بڑے دانے اپنے پہلے وقتوں میں دیکھے ہیں۔‘‘
علامه مقدی بشاری متوفی 375ھ احسن التقاسم فی معرفة الاقالیم میں اقلیم مشرق کے علاقہ ہیطل کےبارے میں لکھتے ہیں:
(اِعْلَمْ إِنَّ هٰذَا الْجَانِبُ اَخْصَبُ بِلَادِ اللَّهِ تَعَالَى)
’’یعنی یہ علاقہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ تمام روئے زمین سے زیادہ سر سبز و شاداب ہے۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ یہاں پر دنیا بھر سے زیادہ نیکی، علم دین، آبادی، علمی رغبت، دین میں استقامت، شان و شوکت، تنومندی، جہاد فی سبیل اللہ میں دائمی دل کی صفائی اور سلامتی اور نماز باجماعت میں رغبت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ معاشی کشادگی، پرہیز گاری اور صدقات و خیرات، دعوت و مدارات اور اہل و دانش کی قدر افزائی بھی کافی پائی جاتی ہے۔
واضح رہے یہ مسلمانوں کی دینی زندگی اور اس کی برکتیں کسی ایک گوشہ میں محدود نہیں تھیں بلکہ جوانب و اطراف بیطل کے دور دراز علاقے بخارا وغیرہ تک سب ان کی برکات کا گہوارہ بنے ہوئے تھے۔ علامہ ابو اسحاق فارسی مسالک الممالک میں سمرقند کے قریب الغبر نامی مقام کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے وہاں پر ایک بوری بیج سے ایک سو بوری غلہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز وہاں پر چراگائیں بھی بہت زیادہ ہیں۔
مورخ اصطخری نے بخارا کے متعلق یہ تصریح کی ہے کہ یہاں کی زرخیزی اور آبادی کا یہ حال ہے کہ بسا اوقات ایک آدمی ایک بیگہہ زمین میں کاشتکاری کر کے اپنی معاشی ضرورت پوری کر لیتا ہے مسلمانوں نے اپنے بابرکت زمانوں میں ترقی کے ہر میدان میں جو سبقت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ درحقیقت مسلمان ایک زمانے میں اقوام عالم کے مسلم استاد تھے کیونکہ ان میں عدل و انصاف تھا اور اللہ کے اس فرمان ﴿إِنَّ اللَّهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾ پر پورے پورے عامل تھے۔
حضرت امام ابوداؤ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب کے باب صدقۃ الزرع کے ذیل میں یہ تحریر فرماتے ہیں:
(قَالَ أَبُو دَاوُد شَبَّرْتُ قِثَّاءَةً بِمِصْرَ ثَلٰثَ عَشَرَ شِبْرًا وَرَأَيْتُ اُتْرُجَّةً عَلَى بَعِيرٍ قِطْعَتَيْنِ قُطِّعَتْ وَصُيِّرَتْ عَلَى جَمَلٍ مِثْلَ عِدْلَيْنِ)
’’یعنی میں نے مصر میں ایک ککڑی دیکھی جس کو میں نے تیرہ بالشت ناپا۔ یعنی ساڑھے تین گز لمبی لکڑی دیکھی اور نیبو دیکھا جس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے تھے اور دونوں ٹکڑے ایک اونٹ پر اس طرح لاد دیئے گئے تھے جیسے لادی کو اونٹ کے دونوں جانب لاد دیا جاتا ہے۔‘‘
یعنی ایک نیبو پورے ایک اونٹ کا بوجھ تھا۔ یہ زمانہ عدل کی پیداوار تھی۔
علامہ دمیری نے اپنی مشہور کتاب ’’حیوۃ الحیوان‘‘ میں ظالم بادشاہوں کی نحوست اور عادل بادشاہوں کی برکت کے سلسلے میں بہت سے دلچسپ واقعات لکھتے ہیں جن میں یہ واقعہ عبرت کے لئے ذیل میں لکھا جا رہا حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ پوشید و طور پر اپنے شہر سے دوسری جگہ گیا۔ اور ایک آدمی کے یہاں ٹھہرا جس کے گائے پلی ہوئی تھی کہ ایک گائے سے تیس گائیوں کے دودھ کی مقدار سے زیادہ دودھ نکالا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے تعجب کیا اور اس نے اپنے دل میں اس گائے کو لے لینے کا خیال کیا۔ دوسرے روز وہ گائے چراگاہ میں چرنے کے لئے گئی اور شام کو گھر واپس آئی تو اس روز کم دودھ نکلا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آج اس کا دودھ کیوں کم نکلا۔ کیا اس چراگاہ میں چرنے نہیں گئی تھی جہاں پہلے چرنے جایا کرتی تھی۔ گھر والوں نے کہا: گائے وہی ہے اور وہی چراگاہ ہے جہاں روزانہ چرنے کے لئے جایا کرتی تھی۔
(وَلٰكِنْ أَرٰى الْمَلِكَ أَضْمَرَ لِبَعْضِ رَعِيَّتِهِ سُوءً فَنَقَصَ لَبَنُهَا فَإِنَّ الْمَلِكَ إِذَا ظَلَمَ أَوْهَمَّ بظُلْمٍ ذَهَبَتِ الْبَرَكَةُ قَالَ فَعَاهَدَ الْمَلِكُ رَبَّهُ أَنْ لَّا يَأْخُذُهَا وَلَا يَظْلِمُ أَحَداً- قَالَ فَغَدَتْ فَرَعَتْ ثُمَّ رَاحَتْ فَحَلَبَتْ حِلَابَهَا فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ- فَاعْتَبَرَ الْمَلِكُ بِذٰلِكَ وَعَدَلَ وَقَالَ إِنَّ الْمَلِكَ إِذَا ظَلَمَ أَوَهَمَّ بِظُلْمٍ ذَهَبَتِ الْبَرَكَةُ لَا جَرَمَ لَاَعْدِلَنَّ) (حيوة الحيوان ص:149)
’’لیکن بادشاہ کی نیت خراب ہو گئی ہے اور اس نے اپنی بعض رعایا پر ظلم کا ارادہ کیا ہے اور ہمارے یہاں کا دستور ہے کہ جب بادشاور رعایا پر ظلم کرتا ہے تو برکت جاتی رہتی ہے اور پیداوار میں کمی ہو جاتی ہے بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا کہ آئندہ کس پر ظلم نہیں کروں گا۔ اور دل ہی دل میں اللہ تعالٰی سے اس کا معاہدہ کیا۔ بادشاہ وہیں ٹھہرا رہا کہ تیسرے روز گائے چر کر شام کو واپس آئی تو پہلے دن کی طرح زیادہ دودھ نکلا۔ اب بادشاہ کو یقین آ گیا انصاف کی نیت کی برکت ہے۔ پھر اس دودھ میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس نے اس سے عبرت حاصل کی اور عدل و انصاف کا پختہ ارادہ کیا اور کہا کہ سچ ہے کہ جب بادشاہ ظلم یا ظلم کا ارادہ کرتا ہے تو برکت جاتی رہتی ہے۔ آئندہ میں انصاف ہی انصاف کرتا رہوں گا۔‘‘
احسان
اس آیت کریمہ میں دوسرا حکم احسان ہے۔ اللہ تعالی تم کو احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ تم نیکی اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو۔
احسان کے لغوی معنی اچھا کام کرنے اور کسی کام کو اچھے طریقے سے کرنے کے ہیں اردو میں احسان جودوسخاوت اور کرم کو کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک اچھا اور نیک کام ہے۔ احسان اور نیکی و بھلائی کے بہت سے افعال ہیں۔ ان میں سے ایک اچھا کام سخاوت اور کرم بھی ہے۔ یہ احسان و بھلائی کرنا ایک اعلی درجے کی صفت ہے جو تمام نیکیوں کو شامل ہے اور نیکی کا کوئی فرد احسان سے خالی اور خارج نہیں۔ احسان کرنے والے کو محسن کہتے ہیں اور محسن اللہ کا محبوب ہے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾ (البقرة: 195)
’’نیکی اور احسان کرنے والوں کو اللہ دوست رکھتا ہے۔‘‘
اور ان کے اچھے کام کو اکارت نہیں کرتا۔
﴿اِنَّ اللهَ لَا يُضِيْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (التوبه: 119)
’’یقینًا اللہ نیک اور اچھے کام کرنے والوں کی مزدوری کو ضائع اور بر باد نہیں کرتا۔‘‘
احسان اور بھلائی یہ ہے کہ دوسرے کے ساتھ نیک اور اچھا سلوک کرنا، جس سے اس کو آرام پہنچے اور دل خوش ہو جائے اور اس کی تکلیف دور ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی مصیبت دور کر کے ان کو قید خانہ سے نجات دلائی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے شکریہ کے طور پر فرمایا:
﴿وَقَدْ أَحْسَنَ بِيْ إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ﴾ (يوسف: 100)
’’اور اللہ تعالی نے میرے ساتھ یہ احسان کیا کہ اس نے مجھے جیل خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کو گاؤں سے یہاں لے آیا۔‘‘
قصور وار کے قصوروں کو معاف کر دینا اور درگزر کر دینا اور ان کے مقابلہ میں غصہ کو پی جانا ایک احسان ہے جو خدا کو بہت پسند ہے اور ایسے لوگ جنت کے مستحق لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَسَارِعُوا إِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ۔ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (ال عمران:133،134)
’’اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف لپکو جس کا پھیلاؤ اتنا بڑا ہے جیسے زمین و آسمان کا پھیلاؤ۔ ان پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے جو خوش حالی اور تنگ دستی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصوروں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
اس سے زیادہ اور کیا درجہ ہو سکتا ہے کہ احسان کرنے والا اللہ کا محبّ ہوتا ہے اور عفو و درگزر کر دینا احسان کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس احسان اور درگزری کی تاکید ہے۔ فرمایا:
﴿وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ يَّغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ﴾ (النور: 22)
’’اور چاہئے کہ وہ معاف اور درگزر کر دیں کیا تم اس بات کو نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرما دے وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے لوگوں کو عفو و احسان کی ترغیب دلائی ہے کہ جب دوسروں کے قصوروں کو معاف کر دو گے تو اللہ بھی تمہارے قصوروں کو معاف کر دے گا جب تم لوگوں کے ساتھ احسان کرو گے تو اللہ بھی تمہارے ساتھ احسان فرمائے گا۔
﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (رحمن: 60)
’’احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔‘‘
دراصل دوسروں کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنا گویا اپنے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا﴾ (جاثیه:15)
’’جس نے اچھا کام کیا اس نے اپنی بھلائی کی اور جس نے برائی کی اس نے اپنا برا کیا۔‘‘
دوسروں کے ساتھ احسان کرنا اور اس کی تکلیفوں کو دور کرنا چاہیے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرْبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيمَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلٰى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ)[1]
’’جو مسلمان کسی مسلمان سے دنیا کی پریشانی دور کر دے گا اور جو مسلمان کسی تنگ دست پر دنیا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسانی کر دے گا۔ اللہ تعالی اس کی دونوں جہاں میں پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اعانت میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔‘‘
دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تنگ دست قرضدار کے قرض کو معاف کر کے اس کو اس بارگراں سے سبکدوش کر دیا جائے یہ احسان اللہ کو اس قدر پسند ہے کہ صرف اس ایک احسان کی وجہ سے ایک آدمی کی مغفرت ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص جو نیکی کا کام نہیں کرتا تھا صرف لوگوں قرض دیتا تھا اور جب اس کو کوئی مقروض تنگ دست نظر آتا تھا تو اپنے ملازموں سے کہتا: اس سے درگزر کرو شاید اللہ ہم سے بھی درگزر کرے۔ چنانچہ اس کے صلہ میں اللہ نے اس سے درگزر کیا۔[1]
دوسری حدیث میں ہے کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا موت کے بعد فرشتوں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے نیکی کا کوئی کام کیا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں۔ فرشتوں نے کہا: ذرا یاد کرو۔ اس نے کہا میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اگر مقروض فراغ دست ہوتا تھا تو قرض لینے میں آسانی کرتا تھا اور اگر تنگ دست ہوتا تھا تو اس کو مہلت دیتا تھا یا یہ کہ فراخ دست مقروض کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دست کا قرض چھوڑ دیتا تھا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
(إِنَّ رَجُلًا كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ آتَاهُ الْمَلَكُ لِيَقْبِضَ رُوحَهُ فَقِيْلَ لَهُ هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خيْرٍ؟ قَالَ مَا أَعْلَمُ قِيلَ لَهُ انظُرْ قَالَ مَا أَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ إِنِّي كُنْتُ أَبَايِعُ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا وَ أَجَازِيْهِمْ فَاَنْظُرُ الْمُوسِرَ وَاَتَجَاوَزُ عَنِ الْمَعْسِرِ فَادْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ)[2]
اور دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ قیامت کی تکلیف سے اس کو نجات دے وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کرے۔[3]
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے جو شخص اپنے قرضدار کو مہلت دے گا تو قیامت کے دن وہ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوگا۔[4]
غرض یہ ہے کہ اسلام نے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے کو کسی خاص معنی میں محدود نہیں کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح بخاري: كتاب البيوع، باب من انظر معسرا و مسلم كتاب المساقاة – باب فضل انظارالمعسر۔
[2] صحیح بخاري: کتاب البیوع، باب انظر موسرا۔ و مسلم كتاب المساقاة – باب فضل انظار
المعسر۔
[3] صحيح مسلم، كتاب المساقاة – باب فضل انظار المعسر۔
[4] مسند احمد: 300، 308/5 و سنن دارمی: 340/2- كتاب البيوع – باب في من انظر معسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ اس کو نیکی کی ہر راہ میں وسیع کر دیا ہے۔ زندگی تو زندگی موت میں بھی اس نے اصول کے دائرہ کو تنگ نہیں کیا۔ چنانچہ آ نحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
(إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُو الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذِّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شُفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ)[1]
’’اللہ تعالی نے ہر شے پر احسان کرنا فرض کیا ہے تو اگر تمہیں کسی کو (کسی شرعی حکم کے سبب سے) جان سے مارنا بھی پڑے تو اس کو بھی اچھائی کے ساتھ کرو۔ کسی جانور کو ذبح کرنا چاہو تو بھی خوبی کے ساتھ کرو۔ چھری کو خوب تیز کر لیا کرو اور اپنے ذبیحے کو راحت دو۔‘‘
پھر یہ اصول کہ جو میرے ساتھ احسان کرے اسی کے ساتھ احسان کرنا چاہئے۔ محمد رسول اللہ ﷺ اخلاقی تعلیم کے خلاف ہے ایک شخص نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا یارسول اللہ میں کسی شخص کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ میری مہمانی نہیں کرتا تو کیا جب اس کا گزر مجھ پر ہو تو میں اس کی کج خلقی کا بدلہ یہی دوں؟ فرمایا: نہیں تم اس کی مہمانی کرو۔[2]
لوگ احسان کو غلطی سے دولت و تمول یا دوسری بڑی بڑی باتوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غریب کیا احسان کا کام کر سکتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ احسان اور نیکی کا کام کرنے کے لئے دولت کی نہیں بلکہ دل کی ضرورت ہے۔ اور اس کی وسعت بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت براء بن عازب صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بدوی نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ یارسول اللهﷺ!
(عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلْنِي الْجَنَّةَ قَالَ لَئِنْ كُنْتَ اقْصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْئِلَةَ اَعْتِقِ النَّسْمَةَ وَفُکَّ الرَّقَبَةَ۔ قَالَ أَوَلَيْسَا وَاحِدًا قَالَ لَا۔ عِتْقُ النَّسْمَةِ أَنْ تَفَرَّدَ بعِتْقِهَا۔ وَفُکَّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ فِي ثَمَنِهَا وَالْمِنْحَةُ الْوُكُوفَ وَالْفَیْئُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ الظَّالِمِ۔ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذٰلِكَ فَاطْعِمِ الْجَائِعَ وَاسْقِ الظَّمْاٰنَ وَامْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذٰلِكَ فَكُفَّ لِسَانَكَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الصيد والذبائح۔ باب الأمر باحسان الذبح و القتل۔
[2] ترمذي: 146/3 كتاب البر والصلة، باب ما جاء في الاحسان والعفو و مسند احمد: 137/4.
[3] مستدرك حاكم: 217/2، كتاب المكاتب – باب العمل الذي يدخل الجنة و مسند احمد:299/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس پر عمل کرنے سے مجھے بہشت نصیب ہو۔ ارشاد ہوا کہ تمہاری تقریر تو مختصر ہے لیکن تمہارا سوال بہت بڑا ہے تم جانوں کو آزاد کرو۔ اور گردنوں کو چھڑاؤ۔ اس نے کہا: یارسول اللہ کیا یہ دونوں باتیں ایک ہی نہیں ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ اکیلے اگر کسی کو آزاد کرتے ہو تو یہ جان کا آزاد کرنا ہے اور دوسرے کے ساتھ شریک ہو کر کسی کی آزادی کی قیمت میں مالی مدد دینا گردن چھڑانا ہے۔ اور دودھیلا جانور کسی کو دودھ پینے کے لئے دے دو اور ظالم رشتہ دار کے ساتھ نیکی کرو۔ اگر تم یہ بھی نہ کر سکو تو بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور پیاسے کو پلاؤ اور نیکی کے کام کرنے کو کہو اور برائی سے باز رکھو۔ اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو اپنے آپ کو بھلائی کے سوا اور کاموں سے روکو۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابوز رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: یارسول اللہ! ایمان کے ساتھ کوئی عمل بتائیے؟ فرمایا کہ جو روزی اللہ نے دی اس میں سے دوسروں کو دے۔ عرض کیا: اگر وہ اس سے معذور ہو۔ فرمایا: مغلوب کی مدد کرے۔ عرض کی اگر وہ ضعیف ہو مدد کرنے کی قوت نہ ہو۔ فرمایا جس کو کوئی کام کرنا نہ آتا ہو اس کا کام کر دے۔ عرض کی اگر خود ہی ایسا ناکارہ ہو؟ فرمایا: اپنی ایذا رسانی سے لوگوں کو بچائے رکھے۔[1]
قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنا
پھر اس آیت کریمہ میں عدل و احسان کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی تمہیں انصاف کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے اور احسان قریب اور بعید سب کے ساتھ کرنے کا حکم ہے لیکن بعض خصوصیت کی بنا پر قرابت داروں کے ساتھ مالی امداد کرنے کی زیادہ تاکید ہے۔ جس کو ایتاء ذی القربی سے بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ انصاف کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرو اور اپنے عزیزوں اور قرابت داروں کی مالی امداد کرو اور ان کی حاجت روائی کرو۔ اور ان کے حقوق کو ادا کرو۔ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اس کی تائید آئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبَى﴾
’’اور قرابت والے کو اس کا حق دو۔‘‘
اگر کسی قرابت مند سے کوئی قصور ہو جائے تو اہل دولت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد کا ہاتھ اس سے روک لیں۔ ارشاد ہوا:
﴿وَلَا يَاتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُّؤْتُوْ أُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ﴾ (نور: 22)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مستدرك حاكم: 6301۔ كتاب الإيمان، باب انى اخرج عليكم حل الضعيفين اليتيم و المرأة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور جو لوگ تم میں سے بڑائی اور کشائش والے ہوں وہ قرابت داروں اور محتاجوں کو نہ دینے کے لئے قسم نہ کھا بیٹھیں۔‘‘
اللہ کی خالص عبادت اور توحید اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے ساتھ نیکی ہے فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبٰی﴾ (النساء:36)
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا ساتھی نہ بناؤ۔ اور ماں باپ اور قرابت والے کے ساتھ نیکی کرنا۔‘‘
قرابت کے حق کو اسلام میں وہ اہمیت حاصل ہے کہ داعی اسلام علیہ السلام اپنی ان تمام محنتوں، زحمتوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کا جو تبلیغ اور دعوت حق میں ان کو پیش آئیں اور اپنے اس احسان و کرم کا جو ہدایت تعلیم اور اصلاح کے ذریعہ ہم پر فرمایا۔ بدل معاوضہ اور مزدوری یہ طلب فرماتے ہیں اپنی امت سے کہ رشتہ داروں اورقرابتداروں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت سے پیش آؤ۔ فرمایا:
﴿قُلْ لَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰي﴾ (شورى: 23)
’’کہہ دے اے پیغمبر! کہ میں تم سے اس پر بجز اس کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا کہ ناطے رشتے میں محبت اور پیار کرو۔‘‘
قرابت کا پورا بیان ایک خطبے میں گزر چکا ہے۔ اسی طرح ایفائے عہدھ فحشا، منکر اور بغی کا بیان پچھلے خطبوں میں نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ آچکا ہے۔ مگر یہاں پر چونکہ ہمیں مذکورہ دو آیوں کی تشریح مقصود ہے اس لئے ان کا تھوڑا تھوڑا سا بیان یہاں بھی کیا جا رہا ہے۔
ایفائے عہد
ان آیتوں میں چونکہ حکم وعدہ کا پورا کرنا ہے۔ یعنی جب کسی معاملہ میں کسی سے کوئی عہد و اقرار کیا جائے تو اس کا پورا کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنا الوہیت کا اقرار لیا تھا الست بربکم؟ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا۔ ’’بلی‘‘ یعنی اللہ کی الوہیت کہ اقرار کیا اور وعدہ کیا۔ اب جس نے اس وعدہ کو پورا کیا وہ اللہ کا فرمانبردار ہے جس نے نہیں پورا کیا وہ اللہ کا نافران ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالی نے یہی حکم دیا ہے۔
﴿ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۹۱ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ؕ تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّةٍ ؕ اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۹۲﴾ (النحل: 91-92)
’’اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول واقرار کرو۔ اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد توڑانہ کرو۔ ۔ باوجودیکہ تم اللہ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو یقینًا اللہ تعالی اس کو جانتا ہے اور تم اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے توڑ ڈالا ہو کہ ٹھہراؤ تم اپنی قسموں کو آپس کے مکر کا باعث۔ اس لئے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا ہو جائے۔ بات صرف یہی ہے کہ اس زیادتی سے اللہ تمہیں آزما رہا ہے۔ یقینًا اللہ تعالی تمہارے لئے قیامت کے دن ہر اس چیز کو کھول کھول کر بیان کر دے گا جس کے بارے میں تم اختلاف کر رہے ہو۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی تمام لوگوں کو تاکیدی حکم دے رہا ہے کہ عہد و پیمان اور قول و قرار پورا کرو۔ نقض عہد کر کے اپنی نیکیوں اور عملوں کو برباد نہ کرو اور قسموں کو بھی پورا کرو۔ خلاف ورزی کی صورت میں مجرم ثابت ہوگے۔ کتاب وسنت میں ایفائے عہد کی بڑی تاکید اور نقض عہد کی بڑی مذمت آئی ہے۔
فحشاء
خصائل حمیدہ (عدل، احسان، صلہ رحمی اور ایفاء عہد) کے بیان کرنے کے بعد ان منہیات اور خصائل رذیلہ کا آیت کریمہ میں تذکرہ ہے یعنی
﴿ وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ ﴾ (النحل: (90)
’’اللہ تعالی تم کو فحشاء منکربغی سے منع کرتا ہے۔‘‘
ان منہیات پر بھی کی قدر سے روشنی ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کو سمجھ کر ان سے احتراز اور اجتناب کیا جائے۔
فحشائ کے اصل معنی حد سے آئے بڑھ جانے کے ہیں، اور اس کے لازمی معنی گناہ زنا بد کاری وغیرہ کے بھی آتے ہیں۔ اس مسلے میں نمونے کے طور پر قر آن مجید کی چند آیتیں ذکر کی جاتی ہیں۔
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۖؗ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۱۶۸ اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرة: 168۔ 169)
’’اے لوگو! زمین میں جتنی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو۔ اور شیطان کی راہ مت چلو۔ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے وہ تمہیں برائی، فخش اور بے حیائی اور بے شرمی کا اور اللہ تعالی پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ برائی اور فخش و بدکاری شیطانی فعل ہے جس کا حکم یہی شیطان دیتا ہے اللہ تعالی نے اس کی پیروی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ فحشاء سے کسی جگہ بخل بھی مراد لیا گیا ہے یعنی اللہ تعالی کے راستہ میں نہ خرچ کیا جائے جو نہایت ہی بے حیائی کی بات ہے اور یہ شیطانی فعل ہے جیساکہ ارشاد فرمایا۔
﴿اَلشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ﴾ (البقرة: 268)
’’شیطان تمہیں (اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے) محتاجگی سے دھمکاتا ہے اور فحشاء و بے حیائی کی بات کا حکم دیتا ہے اور اللہ (اس کے راستے میں خرچ کرنے سے) اپنی بخشش و فضل کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ وسعت اور علم والا ہے۔‘‘
بعض جگہ فحشاء سے برہنہ اور ننگا ہونا مراد ہے۔ یعنی لوگوں کے سامنے کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہونا۔ جو بے حیائی اور بے شرمی کی بات ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرْنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (اعراف: 28)
’’اور جب لوگ فحشا، اور بے حیائی کا کام کرتے ہیں۔ تو کہتے ہیں اسی طریقے پر ہم نے اپنی باپ دادوں کو پایا ہے اور اللہ نے ہم کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اے نبی! آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالی فحشاء اور بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم لوگ اللہ پر وہ بات کہتے ہو جس کا علم تمہیں نہیں ہے۔‘‘
جاہلیت کے زمانے میں بعض لوگ برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا کرتے تھے جب ان کو اس سے منع کیا جاتا تو جواب میں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو برہنہ اور تنگا ہو کر طواف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے جواب میں نبی ﷺ سے فرمایا: آپ اس کا جواب دے دیجئے کہ برہنہ ہو کر طواف فحشاء اور بے حیائی کی بات ہے اور اللہ تعالی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا یہ محض تمہاری من گھڑت ہے۔
فاحشہ کا اطلاق لواطت پر بھی آیا ہے قرآن حکیم میں ہے:
﴿وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۸۰ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۸﴾ (الاعراف: 80-81)
’’اور ہم نے لوط کو نبی بنا کر بھیجا۔ انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ تم لوگ ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ تم حد سے آگے بڑھنے والے ہو۔‘‘
فحشاء کا اطلاق زنا پر بھی کیا گیا ہے اس لئے کہ وہ حد سے آگے بڑھا ہوا فعل ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَاءَ سَبِيلًا﴾ (بنی اسرائیل: 32)
’’اور زنا بدکاری کے قریب مت جاؤ کیونکہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔﴾
اسلام میں جہاں اور بے شمار خوبیاں ہیں ان میں بڑی خوبی ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہر قسم کی ناشائستہ حرکت اور برے کام اور بدکاری وزنا کاری سے روکتا ہے۔ زنا ایک ایسا جرم عظیم ہے جس کے جراثیم نہایت خطرناک و مہلک میں اور اس کا مرتکب بڑی سزاؤں کا مستحق ہے رسول اللہﷺ نے ان بدکاروں کو دوزخ کے تنور میں جلتے ہوئے دیکھا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
(فَأَتَيْنَا عَلَى التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَاسْفَلَهُ وَاسِعٌ فِيْهِ لَغَطٌ وَأَصْوَاتٌ فَاطَّلَعْنَا فِيهِ فَإِذَا فِيهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَإِذَا هُمْ يَأْتِيهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَإِذَا آتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا فَقُلْتُ مَنْ هٰؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَؤُلَاءِ الزَّنَاةُ وَالزَّوَانِيُ﴾
’’ایک تنور پر آئے جس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا کشادہ تھا اس میں سے شور وغل ہوا، جھانک کر دیکھا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں نظر آئیں ان کے نیچے سے آگ کا شعلہ بھڑکتا ہے تو شور مچانے لگتے ہیں میں نے کہا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ زانی مرد اور زانیہ عورتیں ہیں۔‘‘
اس فخش اور بدکاری کی وجہ سے جہنم میں جل رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: کتاب التعبير، باب تعبير الرؤيا بعد صلوة الصبح و مسلم كتاب الرؤيا 245/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منکر کے معنی
اس آیت کریمہ میں دوسرا لفظ منکر ہے جس سے منع کیا گیا ہے اس کے لغوی معنی ناشناسا اور نہ پہنچاننے کے ہیں۔ جس کو عام طور پر پسند نہیں کرتے ہیں اور پسندیدہ کام کو معروف کہا جاتا ہے۔ امر بالمعروف نیکی اور بھلائی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر برے کام سے روکنا انسانی ہمدردی ہے ہر ممکن طریقے سے برائی سے روکنا ضروری ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے جو کسی کی کوئی ناپسندید و حرکت دیکھے تو اس کو ہاتھ سے دور کر دینا چاہئے اور اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے اس کی برائی بیان کرے اور اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو اس برے کام کو اپنے دل میں برا سمجھے اور یہ آخری صورت ایمان کا نہایت ہی کمزور درجہ ہے۔[1]
اللہ تعالی منکر اور ہر ناپسندیدہ بات سے تو روکتا ہی ہے اس نے ہر ایماندار کو بھی اس مشکر کو مٹانے اور بھلائی کے پھیلانے کا حکم دیا ہے جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔ یہ بقدر استطاعت فرض ہے۔ جب تک اس پر عمل کرنے والے ہیں دونوں جہانوں کی تکلیفوں سے محفوظ رہیں گے اور چھوڑ دینے کی وجہ سے سزاؤں کے مستحق ہونگے۔
رسول الله ﷺ کا ارشاد فرماتے ہیں: خدا کی قسم تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرتے رہو (اگر تم اس کو چھوڑ دو گے) تو اللہ تم پر عذاب نازل فرمائے گا پھر تم اس کے دور ہونے کے لئے دعا کرو گے مگر وہ تمہاری دعا قبول نہیں فرمائے گا۔[2]
ملکوں ملتوں، قوموں اور حکومتوں کا عروج وزوال ہمیشہ اچھی بات کا حکم اور بری بات سے روکنے کا فریضہ انجام دینے اور نہ دینے سے وابستہ رہا ہے۔
بغی: آیت کریمہ میں منہیات کے سلسلہ میں تیسرا لفظ بغی ہے یعنی اللہ تعالی تم کو فحشاء اور منکر اور بغی سے منع کرتا ہے۔ فحشاء اور منکر کی قدرے تفصیل بیان ہو چکی ہے۔ اب بغی کے معنی کو سمجھتے۔ اس کے لفظی معنی دست درازی اور زیادتی اور ظلم کے ہیں۔ یعنی کسی پر نہ زیادتی کرو اور نہ ظلم وستم کرو۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ (اعراف:33)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مسلم: کتاب الايمان باب بيان كون النهي عن المنكر۔
[2] ترمذي: 209/3، كتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر و مسند احمد388/5-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فرما دیجئے کہ میرے رب نے بے شرمی کے کاموں کو جو کھلے ہوں یا چھپے ہوں اور گناہ کو اور ناحق کسی پر زیادتی اور سرکشی کو حرام کر دیا ہے۔‘‘
ظلم اور بغاوت ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿الظَّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَّوْمَ الْقِيمَةِ)[1]
’’ظلم قیامت کے دن ظلمات ہو جائے گا۔‘‘
ظلمات ظلمہ کی جمع ہے اور ظلمۃ عربی میں اندھیرے کو کہتے ہیں۔ ظلم اور ظلمات کا مادہ عربی میں ایک ہی ہے۔ ہماری زبان میں اس لفظی رعایت کے ساتھ اس کا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے کہ ’’اندھیر نہ کیا کرو کہ قیامت کے دن اندھیرا بن جائے گا۔‘‘ یہ ایک مثالی سزا ہو گی۔ انسان اپنی غرض یا غصہ یا غرور سے اندھا ہو کر دوسروں پر ظلم کر بیٹھتا ہے۔ یہ اندھا پن قیامت کے دن ہولناک اندھیرا بن کر نمودار ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے چاہیئے کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے۔[2]
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہم کو سات باتوں کا حکم دیا۔ اور سات باتوں سے روکا ہے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔[3]
خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت قرآن مجید کی جامع و مانع آیت ہے جس میں خیر اور شر کی تمام چیزیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس لئے تمام عالم اسلام میں ہر خطیب منبر پر اس آیت کریمہ کو تلاوت کرتا ہے کیونکہ اس میں تمام مامورات و منہیات کی جامع نصیحت ہے۔ یہی آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کا سب تھی۔ وہ کہتے ہیں:
(ما كُنتَ اسْلَمْتُ إِلَّا حَيَاء مِنْهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِكَثْرَةِ مَا يَعْرِضُ عَلَى الْإِسْلَامَ وَلَمْ يَسْتَقِرَّ الْأَيْمَانُ فِي قَلْبِى حَتّٰی نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ)
’’میں شروع میں شرما شرمی اسلام لے آیا۔ کیونکہ رسول اللہﷺ بار بار مجھے اسلام کی دعوت دیتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]، [2] صحيح بخاري باب الظلم باب الظلم ظلمات و مسلم باب البر والصلة، باب تحریم
الظلم
[3] صحيح بخاري: كتاب الظلم، باب نصر المظلوم، و مسلم: كتاب اللباس، باب تحريم استعمال انية الذهب والفضة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو واقعی میرے دل میں ایمان راسخ ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد میں نے یہی آیت ولید بن مغیرہ کو پڑھ کر سنائی۔ وہ حیرت زدہ ہو کر بولا۔
(وَاللَّهِ إِنَّ لَهُ لَحَلَاوَةٌ وَإِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةٌ وَإِنَّ أَعْلَاهُ لَمُثْمِرٌ وَّ إِنَّ اسْفَلَهُ لَمُعْذِقُ وَمَا هُوَ قَوْلُ الْبَشَرِ)
’’اللہ کی قسم اس کلام میں بڑی مٹھاس ہے اور اس کلام پر بڑی چمک دمک ہے اس کلام کی شاخیں بڑی پھل دار ہیں اور اس کی جڑ نہایت شیریں چشموں سے سیراب ہے واقعی یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔‘‘
اللہ تعالی ہم اور آپ کو تمام مامورات و ترک و منہیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔