عدل و انصاف کا بیان
الحمد لله الحكيم الخبير، أبدع ما صنع وأحكم ما شرع. أحمده سبحانه على جزيل إنعامه، وأشكره على ترادف نواله وإحسانه. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الإله الحق المبين، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله سيد الخلق أجمعين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد، وعلى آله وصحبه.
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو حکمت والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ اس نے جو کچھ بنایا نرالا بنایا اور جو احکام نازل کئے محکم نازل کئے اللہ سبحانہ کے بے پایاں اور مسلسل انعام و احسان پر میں اس کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور وہی برحق معبود ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو ہمارے اور تمام مخلوق کے امام و پیشوا ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پردرود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اس کے احکام بجالاؤ اس نے جن باتوں سے منع کیا ہے۔ ان سے دور رہو اور اس کی کتاب ” قرآن مجید ” نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں پڑھو اور ان میں غور و فکر کرو تو کامیاب و بامراد رہو گئے۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو عدل و انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور ظلم وجور اور بغاوت و سرکشی سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ درست رو سکتا ہے۔ نہ کوئی جماعت سعادت مند ہو سکتی ہے۔ نہ اختلاف مٹ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی کسی معاملہ کی تعظیم عمل میں آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جملہ احوال و افعال میں سارے احکام و معاملات میں اور لوگوں کے ما بین اصلاح کے وقت نیز اہل و عیال بلکہ ہر صاحب حق کے ساتھ عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور کسی بھی حال میں اس سے سرتابی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَان وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى﴾ (الخل:90)
’’اللہ تعالی تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى﴾ (الانعام: 152)
’’جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو خواہ وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو۔‘‘
بندہ جب انصاف کا دامن ہاتھوں سے چھوڑ دیتا ہے۔ تو وہ ظلم ظلم میں پڑ جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی نے ظلم کو حرام ٹھہرایا ہے۔ اور اس پر درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔ فرمایا:
﴿وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُمْ مِنْ وَّلِيٍ وَّلَا نَصِيْر﴾ (الشوری:8)
’’ظالموں کا نہ کوئی یار ہے۔ اور نہ مددگار۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (ابراهيم:22)
’’بیشک جو ظالم ہیں۔ ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔‘‘
نیز حدیث قدسی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(يقول الله عز وجل: يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا) [صحیح مسلم، کتاب البر والصلة باب تحریم الظلم (2577) و مسند احمد: 120/5 (21477)]
’’اللہ عزو جل فرماتا ہے۔ کہ اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہے۔ اور تمہارے مابین بھی اسے حرام قرار دیدیا ہے۔ لہٰذا تم باہم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
عمومی طور پر سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
﴿إنَّ الشِرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْم﴾ (لقمان:13)
’’بیشک شرک بہت بھاری ظلم ہے۔‘‘
اسی طرح توحید کی سب سے ارفع و اعلی اور افضل قسم توحید الوہیت اور ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو اس کی مناسب اور لائق جگہ پر رکھنے کا نام عدل ہے۔ اور کسی قسم کی بھی عبادت کسی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں لہٰذا وہ خالق جس نے ہر چیز کو موزوں ترین اور نہایت مکمل انداز سے تخلیق بخشی وہی عبادت کا بھی مستحق و سزاوار ہے۔ اور اگر اس کے حق عبادت میں سے ایک ادنی حصہ بھی کسی غیر کے لئے کیا گیا تو یہ سب سے بڑا ظلم اور انجام کے اعتبار سے سب سے برا فعل ہو گا جیسا کہ خود اس کا ارشاد ہے:
﴿إنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَار﴾ (المائدة: 72)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔ اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
عبادت خالص اللہ کا حق ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کی کوتاہی گویا انصاف سے سرتابی اور اس حکمت الہی سے معارضہ کرتا ہے۔ جس کے لئے جن وانس کی تخلیق ہوئی ہے۔ اور جس کی جانب اس آیت کے اندر واضح اشارہ کیا گیا ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْن﴾ (الذاريات: 52)
’’میں (اللہ) نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے۔ کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
لہذا کسی بندے نے عبادت کا ادنی ترین حصہ بھی اگر اپنے خالق و پروردگار کے علاوہ کسی اور کے لئے کیا اور رغبت در بہت یا محبت و اضطراب میں کسی غیر سے لو لگائی تو گویا وہ عظیم ترین ظلم کا مرتکب ہوا اور حق و انصاف سے اس نے سرتابی کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ ﴾ (الانعام:1)
’’پھر کافر اور لوگوں کو اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔‘‘
یعنی ان لوگوں کو اللہ کا ہمسر اور مساوی قرار دیتے ہیں۔ جو خود اپنے لئے کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ نہ دوسروں کے لئے ہی ذرہ برابر نفع یا دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا جو اللہ کی ذات غنی کو مخلوق جیسی بے چاری اور محتاج شئے کے مساوی ٹھہرائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عدل و انصاف کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک اس کے اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔ فرمایا:
(سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله) [صحیح بخاری: کتاب الاذان، باب من جلس في المسجد ينتظهر الصلاة (660) و صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب فضل اخفاء الصدقۃ (1031)]
’’ سات قسم کے لوگ قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ تلے ہوں گے جبکہ اس کےعلاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا‘‘
ان سات اشخاص میں سے ایک عادل امام بھی ہو گا۔
ایک دوسری حدیث کے اندر آپ نے ارشاد فرمایا:
(المقسطون على منابر من نور، الذين يعدلون في حكمهم وأهلهم وما ولوا)[صحیح مسلم میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے، دیکھئے: کتاب الامارۃ، باب فضیلة الامیر العادل (1827) نیز دیکھئے: مسند احمد: 160/2 (6502)]
’’انصاف کرنے والے قیامت کے دن نور کے منبر پر ہوں گے- وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال کے درمیان اور ان تمام امور میں جن کے وہ ذمہ دار ہوں انصاف کرتے ہیں۔‘‘
لندا ایک حاکم اپنی رعایا کے ساتھ، خواہ اس کے قریبی ہوں یا دور کے اگر انصاف سے کام لیتا ہے۔ تو اسے وہ ثواب ملے گا جو ایک عام آدمی کو نہیں مل سکتا کیونکہ ایک حاکم کے عدل کے نتیجہ میں معاشرہ کے اندر امن وامان بر قرار رہتا ہے۔ زندگی خوشگوار رہتی ہے۔ کھیتی اور چوپایوں میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ فتنہ و فساد اور قتل و غار حمری کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف اگر وہ ظلم و بے انصافی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ تو اس سے معاشرہ کے اندر اضطراب و بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور فرقہ بندی اور سازشیں جہنم لے لیتی ہیں۔
اسی طرح فیصلہ کے وقت ایک قاضی کے لئے انصاف کی جستجو جس قدر ضروری ہے۔ عام آدمی کے لئے اتنا ضروری نہیں کیونکہ قاضی کا انصاف در حقیقت ہر صاحب حق تک اس کا حق پہنچانے کا سبب ظلم و جور کے روکنے کا ذریعہ اور عدل و انصاف قائم کرنے کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے۔ کہ ایک قاضی اللہ کا حکم نافذ کرتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی فیصلہ میں اس نے انصاف کرنے سے گریز کیا تو یہ حکم الہی سے انکار، ظلم وجور کی ترویج معاشرہ کے اندر بغض و حمد پیدا کرنا اور عداوت و دشمنی کی آگ بھڑ کا نا ہو گا جیسا کہ جھوٹی گواہی دینا ایک قسم کا ظلم اور انصاف سے پہلو تہی ہے۔ جو گناہ کبیرہ میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کیا جاتا ہے، حق کو چھپایا جاتا ہے۔ اور صاحب حق تک اس کا حق نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو بڑے سے بڑے گناہوں کی بابت بتاتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ’’الا وشهادة الزور‘‘ (یعنی جھوٹی گواہی دینا) کے جملہ کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں یہ کہنے لگے کہ کاش اب آپ سکوت فرما لیتے۔[صحیح بخاری: کتاب الشهادات، باب ما قيل في شهاده الزور (2654) و صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الكبائر واکبرها(87، 88)]
اسی طرح ایک باپ کے لئے ضروری ہے۔ کہ اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرے ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ دے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے۔ کہ ایک بچہ کو دوسرے کے بالمقابل فضیلت دیتا ہے تو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ظلم و بے انصافی کرتا ہے۔ ایک بار کا واقعہ ہے۔ کہ ایک شخص نے اپنے ایک بیٹے کو کچھ مال دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ اس کے گواہ ہو جائیں، آپ نے اس شخص سے سوال کیا کہ کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو اسی قدر مال دیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:
(أشهد على هذا غيري، فإني لا أشهد على جور) [تفصیل کے لئے دیکھئے: صحیح مسلم، کتاب الهبات، باب کراهية تفضیل لبعض الاولاد فی الهبة (1623) ومسند احمد: 268/4 (18397)]
’’جاؤ کسی اور کو اس کا گواہ بنالو، میں ظلم پر شہادت نہیں دے سکتا۔‘‘
اسی طرح وہ شخص جس کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں اس کے لئے ضروری ہے۔ کہ اپنی بیویوں کے مابین ہر چیز میں انصاف سے کام لے اگر وہ ان کے اندر انصاف نہیں کرتا تو وہ بے انصاف اور ظالم ہے۔ اور ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(مَنْ كَانَتْ له امرأتان، فمال إلى إحداهما، جاء يوم القيامة وشقه مائل)
[سنن ابی داود: کتاب النکاح، باب فی القسم بين النساء (2133) و جامع ترمذی: ابواب النکاح، باب ما جاء في التسوية بين الضرائر (1141) و سنن دارمی، کتاب النکاح، باب في العدل بين النساء-]
’’وہ شخص جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب مائل ہو جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے بدن کا ایک پہلو گرا ہوا ہو گا۔‘‘
اللہ کے بندو رب العالمین کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھو:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ؗ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوْا ؕ اِعْدِلُوْا ۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ؗ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۸﴾ (المائده:8)
’’اے ایمان والو! اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ انصاف چھوڑ دو انصاف کیا کرو کہ میں پرہیز گاری کی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله ذي السلطان العظيم، والإحسان الجسيم، يهدي من يشاء ويضل من يشاء، وهو العزيز العليم، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، الناصح الأمين، اللهم صل على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو بھاری سلطنت والا اور عظیم احسان والا ہے۔ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے۔ گمراہ کرتا ہے۔ اور وہ غلبہ والا اور جاننے والا ہے، میں اس کی حمد و ثنا بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو امت کے خیر خواہ اور رسالت کے امین ہیں۔ مولا! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
برادران اسلام دین اسلام اعلیٰ اخلاق و صفات اور عمدہ ترین اصول و مبادی کا دین ہے۔ اس کی گرانقدر تعلیمات لوگوں کے لئے با سعادت پر سکون اور خوشگوار زندگی کی ضامن ہیں، جن کے ذریعہ وہ دنیوی و اخروی سعادتوں سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے۔ کہ لوگ اس کی تعلیمات کو اپنائیں اور اس پر عمل کریں اسلام کی تعلیمات میں عدل و انصاف بھی ہے۔ اور اخوت و بھائی چارگی بھی امن و سلامتی بھی ہے۔ اور سکون و طمانیت بھی اس کی تعلیمات میں جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی ہے۔ اور بھلائی، حسن سلوک، ہمدردی و مساوات اور عفو و در گذر کا حکم بھی اس نے صبر و تحمل اور حلم و بردباری کا بھی حکم دیا ہے۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی۔ بلاشبہ یہ تعلیمات ایسی ہیں۔ جو ایک معاشرہ کو ہر قسم کے فساد و بگاڑ سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔