اہل بیت اطہار کو ملنے والی ہر فضیلت صحابہ کو بھی حاصل ہے
رضی اللہ عنہم اجمعین
=============
اللہ تعالیٰ تمام اہل بیت و صحابہ کرام سے راضی ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة : 100]
اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اور فرمایا
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
درجات میں تفاوت کے باوجود وہ سب جنتی ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ [الحديد : 10]
اور تمھیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوںنے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی ہو خواہ وہ اہل بیت سے ہو یا عام أصحاب سے، اورخواہ وہ سابقین اولین میں سے ہو یا بعد میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہو، جس نے بھی اپنی زندگی میں لمحہ بھر کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور پھر اسلام پر ہی اس کی موت واقع ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی بھی ہے اور جنتی بھی ہے اور بعد میں آنے والی امت کے لیے اس سے محبت کرنا اور اس کا دفاع کرنا لازم ہے
سب صحابہ و اہل بیت سے محبت کے متعلق عقیدہ اھل سنت
عقیدہ طحاویہ میں لکھا ہے
ونحب أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب أحد منھم ولا نتبرأ من أحد منھم ونبغض من یبغضھم وبغير الحق یذکرھم ولا نذکرھم إلا بخیر وحبهم دین وایمان وإحسان وبغضھم کفر ونفاق وطغیان (عقیدہ طحاویہ نمبر 122)
ہم تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں
ہم ان میں سے کسی ایک کی محبت میں غلو کرتے ہیں نہ ہی کسی ایک سے برأت اختیار کرتے ہیں
اور جو ان سے بغض رکھے یا حق بات کے بغیر ان کا تذکرہ کرے، ہم اس سے بغض کرتے ہیں
اور ہم صحابہ کا تذکرہ اچھائی کے ساتھ ہی کرتے ہیں
ان سے محبت کرنا دین ایمان اور احسان ہے
اور ان سب سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے
ہاں یہ بات تسلیم ہے کہ صحابہ کے مابین درجات میں تفاوت ضرور ہے مگر اس تفاوت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک فرد، جماعت، گھرانے یا خاندان سے محبت میں اتنا آگے نکل جائیں کہ دیگر صحابہ کو نہ صرف یہ کہ ماننے سے ہی انکار کردیں بلکہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کردیں
جیسا کہ اس وقت بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اہل بیت کی محبت کا تو دم بھرتے ہیں لیکن أصحابِ دیگراں کے لیے دلوں میں زہر لیئے پھرتے ہیں
حالانکہ شرعی دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو جہاں دونوں شرف صحابیت سے نوازے گئے ہیں وہاں طرفین کے فضائل و مناقب بھی مسلم ہیں
01. صحابہ اور اہل بیت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہیں
یعنی اگر خاندان بنو ہاشم کو چنا گیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی چنا گیا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنَّ اللهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ» (مسلم،5938)
"اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب کیا۔”
اور اسی طرح کی بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق بھی موجود ہے
عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله تبارك وتعالى اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل» (المستدرك للحاكم ج3ص632طبع دار المعرفة بيروت صحيح )
اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لیے ساتھیوں کو بھی خود چنا،پھر ان میں سے میرے وزیر،انصار و مددگار اور سسرال و داماد بنائے، لہٰذا جس نے انہیں برا بھلا کہا،اس پر ا؛ للہ،فرشتوں،اور ساری کائنات کی لعنت ہو-اللہ کریم اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں کرے گا-
اس حدیث میں ان سب لوگوں کے لیے بڑی خوفناک وعید ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدامادوں عثمان بن عفان اور ابو العاص رضی اللہ عنہما (بنو امیہ)اور علی رضی اللہ عنہ کی گستاخیاں کرتے ہیں،اوران لوگوں کے لیے بھی لعنت وپھٹکار اور تباہی اعمال کی دھمکی ہے جو خاتم الانبیآء علیہ الصلاۃ والسلام کے سسرال والوں (ابوبکر ،عمر،ابو سفیان ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر طنز و تعریض اور اعتراض بازی کو مذھب و مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ،هداهم الله
02. اہل بیت کا خیال رکھنے اور صحابہ کا خیال رکھنے کا حکم
اہل بیت کے متعلق نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے موقع پر فرمایا تھا کہ
أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» (مسلم،6225)
اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا خیال، دفاع اور بچاؤ برقرار رکھنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (ابن ماجہ،2363صحیح)
میرے صحابہ کے بارے میں میرا خیال رکھنا، پھر ان لوگوں کے بارے میں جو ان (صحابہ) سے متصل ہوں گے (یعنی رابعین)، پھر ان لوگوں کے بارے میں جو ان (تابعین) سے متصل ہوں گے (یعنی تبع تابعین)
اسی طرح فرمایا:
«لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي» [صحیح البخاري ۳۶۷۳8]
’’میرے صحابہ کے بارے کوئی بھی نازیبا انداز اختیار نہ کرو۔‘‘
03. اہل بیت کا راستہ اور صحابہ کرام کا راستہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے متعلق فرمایا
«إِنِّى قَدْ تَـرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى، الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ كِتَابُ اللّٰـهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، وَعِتْرَتِى أَهْلُ بَيْتِى أَلَا وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتّٰى يَرِدَا عَلَىَّ الْحَوْضَ» [مسند أحمد: 215789]
’’میں تم میں وہ کچھ چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو انتہائی گراں مایہ ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ اللّٰہ کی کتاب جو رسی کی شکل میں آسمان سے زمین تک پھیلا دی گئی ہے اور میرے اہل بیت۔ اور بے شک وہ دونوں جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔‘‘
یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی سے بچنے کے لیے کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ اہل بیت سے وابستگی کو اہم قرار دیا ہے
دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ و خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کے متعلق ارشاد فرمایا
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ, تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (ابو داؤد : 4607)
میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا ، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں ، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا ، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
اور امت مسلمہ کے تہتر فرقوں میں سے ایک فرقے کے برحق ہونے کی خبر دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (ترمذی ،2641)
یہ وہ ہے جس پر میں اور میرے اصحاب ہونگے
تبصرہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت اور خلفائے راشدین دونوں کے راستے پر چلنے کو ہی گمراہی سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔
04. تطہیر اہل بیت اور تطہیر صحابہ
اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین سے اللہ تعالیٰ نے گندگی کو دور کردیا ہے
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [الأحزاب : 33]
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی تطہیر رجس شیطانی کا اعزاز حاصل ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ [الأنفال : 11]
جب وہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا، اپنی طرف سے خوف دور کرنے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی اتارتا تھا، تاکہ اس کے ساتھ تمھیں پاک کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کرے اور تاکہ تمھارے دلوں پر مضبوط گرہ باندھے اور اس کے ساتھ قدموں کو جما دے۔
تبصرہ، عام طور عوام الناس میں یہی مشہور ہے کہ تطہیر کے عمل سے صرف اہل بیت ہی گزرے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں پنج تن پاک کا نظریہ بہت معروف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہ وصف و امتیاز سبھی صحابہ کرام کو عطا کیا ہے
05. اہل بیت میں سید الشہداء اور صحابہ کرام میں سید الشہداء
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
«سَیِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ» [ السلسلة الصحیحة :رقم 374]
’’حمزہ (رضی اللہ عنہ) شہداء کے سردار ہیں۔‘‘
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فضیلت کو حمزہ رضی اللہ عنہ تک محدود و مقصور نہیں رکھا دیگر أصحابِ رسول بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے یہ اعزاز حاصل کرنے کا موقع میسر کرتے ہوئے فرمایا :
«وَرَجُلٌ قَامَ إِلٰى إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَهُ وَنَهَاهُ فَقَتَلَهُ» [ السلسلة الصحیحة:رقم ۳۷۴]
’’اور وہ شخص بھی شہداء کا سردار ہے جو کسی ظالم و جابر حکمران کو نیکی کا حکم دے اور برائى سے روکے تووہ حکمران اسے قتل کر دے۔‘‘
اس فضیلت میں عبداللہ بن حزافہ سہمی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جنہوں نے قیصر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا
آل یاسر رضی اللہ عنہ کے وہ سبھی شہداء بھی شامل ہیں جنہوں نے ابوجہل کے سامنے کلمہ حق بلند کیا
مشرکین مکہ کی قید میں گرفتار خبیب رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایمان پر کمپرومائز کرنے سے صاف انکار کر دیا اور شہادت کو قبول کر لیا
06. نام لے کر تذکرہ کرنے میں مطابقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا
يَا عَائِشَ هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ ، فَقُلْتُ : وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , تَرَى مَا لَا أَرَى تُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . (صحیح البخاری#3768)
”اے عائش۔۔۔۔! جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں“ میں نے اس پر جواب دیا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ وہ چیز دیکھتے ہیں جو مجھ کو نظر نہیں آتی .آپکی مراد رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم تھے۔
یہی فضیلت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اچھی قرأت اور إتقان القرآن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کا خاص تذکرہ کیا
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ الْقُرْآنَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ [بخاري : 4677 ]
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ’’قرآن ‘‘ پڑھ کر سناؤں۔‘‘
اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’ کیا اللہ نے میرا نام بھی لیا ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘
انہوں نے کہا :کیا واقعی اللہ رب العالمین کے ہاں میرا تذکرہ کیا گیا
آپ نے فرمایا :’’ہاں!‘‘
تو اُبی رضی اللہ عنہ (یہ سن کر خوشی سے) رونے لگے۔‘‘
07. اہل بیت میں نبی کریم کے جسم کا ٹکڑا اور صحابہ کرام میں نبی کریم کے جسم کا ٹکڑا
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى [ صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب فاطمة رضي الله عنها:رقم 3714]
فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے
یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر أصحاب کے متعلق بھی فرمائی ہے
جیسا کہ انصار کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوْا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ (مسلم، 3799)
میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم وجان ہیں ، انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیے تھا ، وہ ملنا ابھی باقی ہے ، اس لیے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرتے رہنا
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے جسم کا ٹکڑا قرار دیا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا :
[ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنٰی هٰذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلٰی يَدِهِ، فَقَالَ هٰذِهِ لِعُثْمَانَ ] [بخاري : ۳۶۹۹ ]
’’ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘ پھر اسے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا: ’’یہ عثمان کی بیعت ہے۔‘‘
08. اہل بیت کی تکلیف اور صحابہ کرام کی تکلیف
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي» [ صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب فاطمة رضي الله عنها:رقم 3714]
’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
جبکہ یہی فضیلت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی حاصل ہے :
ایک دفعہ کسی نے ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ کو ناراض کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہارِ غصہ کرتے ہوئے فرمایا
«إِنَّ اللّٰـهَ بَعَثَنِى إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ. وَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: صَدَقَ. وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِى صَاحِبِى. مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِىَ بَعْدَهَا» [صحیح البخاري : 3661]
’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف مجھے مبعوث فرمایا، تو تم نے میرے بارے میں کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :
آپ نے سچ فرمایا اور اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے مجھے سپورٹ کیا ہے تو کیا تم میرے لیے میرے رفیق ابوبکر صدیق کو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا۔ اس فرمان کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی اذیت نہیں دی گئی۔ ‘‘
09. اہل بیت اور صحابہ میں جنت کی سرداری کی تقسیم
سیدنا حسنین کریمین رضی اللّٰہ عنہما کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ» [جامع الترمذي ۳۷۶۸]
’’حسن اورحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
اور یہی بات شیخین کریمین عمرین عظیمین کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمائی ہے :
«هٰذَانِ سَیِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْـجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ، إِلَّا النَّبِيّـیِنَ وَالْـمُرسَلِیْنَ» (ترمذی : 3664صحيح)
یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے
معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل کے علاوہ سب کے سردار سیدنا ابوبکرؓ و عمر ؓہوں گے اور نوجوانوں کے سردار سیدنا حسن ؓو حسینؓ ہوں گے۔ مگر افسوس کہ بعض لوگوں نے من چاہی مراد لیتے ہوئے کسی کو تو جنت کا سردار مان لیا اور کسی کے سرے سے جنت میں داخلے کا ہی انکار کر دیا ۔
10. نام لے کر جنتی قرار دینے میں دونوں شامل
اگر اہل بیت اطہار کے بہت سے افراد کو نام لے کر جنت کی بشارت دی گئی ہے جیسا کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین
تو دوسری جانب بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی نام لے کر جنتی قرار دیا گیا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ
وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ
وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ
وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ
وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ
وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ (ترمذی ،3747)
ایسے ہی بلال رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال کے قدموں کی آواز جنت میں سنائی دیتی ہے
11. اہل بیت سے محبت کا صلہ اور صحابہ سے محبت کا صلہ
فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین میں حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أَحَبَّ اللّٰـهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا» [جامع الترمذي: رقم3775، حسن]
’’اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسین رضی اللّٰہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
«إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا» [جامع الترمذي: 3769]
’’بے شک میں ان دونوں (حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہما) سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا اے اللّٰہ! تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘
جبکہ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے متعلق بھی ارشاد فرمائی ہے :
آپ نے فرمایا
«فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللّٰـهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللّٰـهُ» [صحيح البخاري: 3783]
’’جو ان سے محبت کرے اللّٰہ بھی ان سے محبت کرے اور جو ان سے بغض رکھے، اللّٰہ بھى ان سے دشمنى رکھے۔‘‘
اسی طرح نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
«اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هٰذَا – يَعْنِى أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْـمُؤْمِنِينَ وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْـمُؤْمِنِينَ» [صحيح مسلم: 2491]
ہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:
پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنایا مجھے دیکھا ہواور میرےساتھ محبت نہ کی ہو۔
12. اہل بیت کی شہادت کی پیشگی خبر اور دیگر صحابہ کرام کی شہادت کی پیشگی خبر
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا :
«قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ قَبْلُ فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» ( السلسلة الصحیحة : ۳؍۲۴۵ :رقم ۱۱۷۱)
’’اس سے پہلے جبریل میرے پاس سے اُٹھ کر گئے ہیں، اُنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو فرات کے کنارے پر شہید کیا جائے گا۔‘‘
عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ایڈوانس خبر دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«أُسْکُنْ أُحُدُ فَلَیْسَ عَلَیْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَ شَهِيدَانِ» [صحيح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب عثمان بن عفان أبى عمرو القرشي: 369937]
’’احد! حرکت بند کردے۔ تجھ پر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
الغرض کہ شہادت کی پیش گوئی اہل بیت اور صحابہ دونوں کے متعلق موجود ہے
مگر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک کی شہادت کو لیکر اتنا پروپیگنڈہ اور شور وغل کہ نیا محاذ ہی کھڑا کر دیا گیا اور دوسرے کی شہادت پر چیں بجبیں ❓
13. فداک ابی وامی کے اعزاز میں اشتراک
[عن عبدالله بن مسعود:] كان النَّبيُّ ﷺ يُصلِّي والحسَنُ والحُسَيْنُ يَثِبانِ على ظَهرِه فيُباعِدُهما النّاسُ فقال ﷺ: (دعوهما بأبي هما وأمِّي مَن أحَبَّني فلْيُحِبَّ هذَيْنِ)
[شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج صحيح ابن حبان ٦٩٧٠ • إسناده حسن
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی "فداک ابی وامی” جیسے قابل فخر جملے سننے کو ملے
14. اہل بیت اور صحابہ کے لیے "منی” جیسے الفاظ کی بشارت
فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
«حُسَیْنُ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَیْن» [جامع الترمذي: 3775]
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
اسی طرح نبیﷺ نے سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا:
«أَمَّا عَلَيٌّ فَهُوَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ» [ المستدرك للحاکم: ۳؍۱۳۰]
’’رہے علی! تو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے یہی الفاظ پورے اشعری قبیلے کے متعلق بھی موجود ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِى الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِى ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوا بَيْنَهُمْ فِى إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُمْ» (بخاری : 2486)
’’اشعری قبیلے کے افراد ایسے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی ضرورت پیش آجائے یا شہر میں رہتے ہوئے ان کا کھانا کنبے کو پورا نہ آسکے تو وہ جتنے افراد ہوں ان کے پاس جو جو بھی ہو وہ کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر ایک برتن سے بھر بھر کر آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ لہٰذا وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔‘‘
اسی سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ فِي مَغْزًى لَهُ، فَأَفَاءَ اللهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟» قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟» قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا، فَاطْلُبُوهُ» فَطُلِبَ فِي الْقَتْلَى، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «قَتَلَ سَبْعَةً، ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ» قَالَ: فَوَضَعَهُ عَلَى سَاعِدَيْهِ لَيْسَ لَهُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحُفِرَ لَهُ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ غَسْلًا
[صحيح مسلم:6358]
15. اہل بیت سے محبت اور نفرت،اور صحابہ کرام سے محبت اور نفرت، ایمان اور نفاق کا مظہر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے متعلق فرمایا ہے
«لَا يُحِبُّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِى إِلَّا مُنَافِقٌ» (صحیح مسلم، : 249)
’’ مجھ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ» [صحیح البخاري، : 3783]
’’انصار سے محض مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
” مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ ". [مسلم 2942]
16. "مولی” کے لقب کا اشتراک
مولی علی، یہ جملہ زبان زد عام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِىٌّ مَوْلَاهُ اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» [مسند أحمد بن حنبل: ۱؍۱۱۹]
’’جس جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے اللّٰهَ جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھى اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوستی سے متعلق ارشاد فرمایا
وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ (بخاری ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ الخَوْخَةِ وَالمَمَرِّ فِي المَسْجِدِ466)
اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن ( جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی ) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔
سیدنا زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہما کے متعلق رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا» [المستدرك للحاکم : 130/3]
’’تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔‘‘
اسی سے ملتا جلتا اور اس کا ہم معنی جملہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
«إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ» (بخاری ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ فَضْلِ الطَّلِيعَةِ،2846)
ہر نبی کے حواری(سچے مددگار) ہوتے ہیں اور میرے حواری(زبیر) ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی دوستی کے متعلق فرماتے ہیں
أَوْصَانِي خَلِيلِي (بخاری ،بَاب صَلَاةِ الضُّحَى فِي الْحَضَرِ قَالَهُ عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، 1124)
مجھے میرے خلیل (دلی دوست) نے وصیت کی
17. عَلمِ جہاد اور مصلئِ امامت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر فرمایا
«لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ»
(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6223)
میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔
یعنی اس واقعہ میں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے علی رضی اللہ عنہ کو ممتاز حیثیت سے نوازا گیا
اور یہی کیفیت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی پیش آئی تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ مصلی امامت پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کھڑا کرنا چاہا اور کچھ لوگوں نے پس و پیش سے کام لیا تو آپ نے سب صحابہ میں سے أبو بکر کو نمایاں مقام دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ (ابو داؤد، بَاب فِي اسْتِخْلَافِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،4660)
اللہ تعالیٰ اور تمام مسلمان اس بات کا انکار کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ اور تمام مسلمان اس بات کا انکار کرتے ہیں
18. نسبت الی الانبیاء علیھم السلام
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
«أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسیٰ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» [سنن ابن ماجه، باب في فضائل أصحاب رسول الله ﷺ، باب فى فضل على بن أبي طالب:رقم 121]
’’تمہارا میرے ہاں وہی مقام ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے ہاں ہارون علیہ السلام کا تھا مگر بات ىہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
یہاں علی رضی اللہ عنہ کو ایک نبی کی نسبت اور تعلق سے عظیم الشان منقبت حاصل ہوئی ہے
مگر
انبیاء کرام علیہم السلام ہی کے زمرے، نسبت اور تعلق سے عمر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی موجود ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا
«لَوْ کَانَ نَبِيٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ» [جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب في مناقب أبي حفص عمر بن الخطاب:رقم 3686]
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘
19. داماد رسول ہونے میں مطابقت
علی رضی اللہ عنہ کے گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں تھیں
اور عثمان کے پاس یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو دنیا کے کسی انسان کے پاس نہیں ہے
20. دونوں کا قاتل بدبخت ترین شخص قرار
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قاتل کو بدبخت ترین قرار دیا۔
آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يا أبا تراب! ألا أحدثكما بأشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: أحيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى تبتلّ هذه من الدم – يعني لحيته .[السلسلة الصحیحة :1743]
’’کیا میں تمہیں دو انتہائی بدبخت لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے رسول اللہ !…اور دوسرا شخص وہ ہے ( پھر آپﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے سرکی چوٹی پر ہاتھ رکھا) اور فرمایا: جو یہاں ضرب لگائے گا اور جس سے یہ داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ ‘‘
فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے باب میں اسی سے ملتی جلتی بات قاتلین عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی موجود ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» (بخاری ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ،447)
افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی
یعنی علی رضی اللہ عنہ کے قاتل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدبخت ترین شخص قرار دیا ہے تو عمار رضی اللہ عنہ کے قاتل کو بھی داعی الی النار اور باغی قرار دیتے ہوئے اس کی بدبختی کی طرف ہی اشارہ کیا ہے۔
اسلام، خاندان کی بجائے محنت اور قربانی کی قدر کرتا ہے
تبوک کے موقع پر جب مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک اعزاز ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے
فرمایا کہ جس راستے پر عمر رضی اللہ عنہ چلتے ہیں شیطان اس راستے پر نہیں چلتا
عائشہ رضی اللہ عنہا وہ واحد خاتون ہیں جن کے نکاح سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تصویر دکھائی گئی تھی
زینب رضی اللہ عنہا وہ واحد خاتون ہیں جن کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خود اللہ تعالیٰ نے کیا تھا
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا جنازہ پڑھنے کے لیے ستر ہزار فرشتے اترے تھے
اور جن کی وفات پر رحمان کا عرش بھی ہل گیا تھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ» [صحيح مسلم: 6346]
حنظله رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جنہیں فرشتوں نے خود آکر غسل دیا یہی وجہ ہے کہ انہیں غسيل الملائكة بھی کہا جاتا ہے
حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رازدان رسول ہونے کا شرف حاصل ہے
خزیمہ رضی اللہ عنہ کو ذوالشہادتین کا لقب دیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہادۃ خزیمہ بشہادۃ رجلين [ ابو داؤد]
خلاصہ بحث
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کی حقیقت سے کوئی انکار بھی نہیں ہے کہ اہل بیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ، تعلق اور نسبت کا جو شرف اور ممتاز حاصل ہے وہ دنیا کے کسی انسان کو حاصل نہیں ہے اور اسی رشتہ کی نسبت سے ہی وہ لوگ تمام امت مسلمہ کے ہاں ایک خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں
مگر
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص، جماعت یا گروہ ان سے محبت کی آڑ میں دیگر صحابہ پر زبان درازی کرنا شروع کر دے
اور یہ بات بھی یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہونا فخر اور اعزاز کی بات ضرور ہے مگر یہ سمجھ لینا کہ بس فضیلت کا یہی ایک معیار ہے، یہ بات کسی طور بھی درست نہیں ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ [الحجرات : 13]
بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے
یعنی اگر ایمان و تقوی نہیں ہے تو اعلی ترین نسب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہونے کے باوجود جہنم میں بھی جا سکتا ہے اور اگر ایمان و تقوی ہے تو خواہ کسی کو اس کے دادا کا نام بھی معلوم نہ ہو تو وہ چلتے دنیا میں ہیں اور آواز جنت میں سنائی دیتی ہے