اہل بیت کون؟

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا﴾ [الاحزاب:33]
امام الانبیاء، خاتم النبین، سید ولد آدم، جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق وصیت و تلقین فرمائی کہ میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو برا نہ کہنا، انہیں طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ نہ بنانا، ان سے محبت و الفت کا اظہار کرنا، ان کے متعلق اللہ سے ڈرنا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اہل بیت کے متعلق نصیحت و تاکید فرمائی: آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک تو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت ہے نور ہے اور وہ اللہ کی رسی ہے۔ جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔ لہذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس پر سختی سے عمل کرو۔ اور (دوسری بھاری چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں (تین بار یہ کلمات دہرائے مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتا اور میرے اہل بیت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا ان کی بے حرمتی نہ کرنا)‘‘ [صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب، رقم 6228)]
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں کتاب اللہ اور اہل بیت کو احترام و عظمت کے حوالے سے دو بھاری اور وزنی چیزیں قرار دیا اور قرآن کریم پر عمل کرنے اور اہل بیت کا احترام کرنے کی خصوصی نصیحت فرمائی۔
آج بعض لوگوں نے اہل بیت کے حوالے سے چند انتہائی غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور وہ باتیں رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ نصیحت و وصیت کے بالکل بر خلاف ہیں:
پہلی غلط بات:
وہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ بات اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کھلی بغاوت مخالفت اور نافرمانی ہے۔
دوسری غلط بات:
وہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعض بیٹیوں کو تسلیم نہیں کرتے: اور یہ بات بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کھلی بغاوت مخالفت اور نافرمانی ہے۔
تیسری غلط بات:
وہ بعض اہل بیت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بھی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور مختار کل مانتے ہیں، جبکہ یہ عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے اور قرآن وسنت میں بیان کردہ اسلامی عقائد کے بالکل منافی اور خلاف ہے۔
چوتھی غلط بات:
وہ اہل بیت کی کھوکھلی محبت کی آڑ میں صحابہ و صحابیات رضی اللہ تعالی عنہم پر کیچڑ اچھالتے اور ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور ان کی یہ روش دین کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور اسلام کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔
اس لیے آج کے خطبہ جمعہ میں قرآن وسنت کے مضبوط دلائل اور دیگر شواہد کی روشنی میں واضح کیا جائے گا کہ اہل بیت کون ہیں؟
تو یاد رکھئے! اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہﷺ کی بیویاں آپ کی ازواج مطہرات میں ہیں۔ اور اس کی ایک نہیں بہت ساری دلیلیں ہیں:
پہلی دلیل:
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب کے ایک پورے رکوع میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے لیے چند احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے آخر میں فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ [الاحزاب: 33]
’’اے پیغمبر کے گھر والو! اے اہل بیت! اے ازواج رسول اللہ! ﷺ (ان احکام کے ذریعے) تم سے ہر قسم کی آلائش دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں خوب پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی یہ آیت نص صریح ہے کہ اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں شامل ہیں۔
دوسری دلیل:
سورۂ ہود میں رب کائنات نے خلیل اللہ جناب ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے لیے یہی لفظ ’’اہل بیت‘‘ بولا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام کی بیوی جناب سارہ علیہا السلام نے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری پر تعجب کیا تو فرشتوں نے کہا:
﴿ قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ﴾ [هود:73]
’’کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو، اے اہل بیت تم پر تو اللہ کی رحمت اور برکت ہے، یقینًا اللہ تعریفوں والا بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘
یہ آیت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت میں سب سے پہلے بیویاں شامل ہیں۔
ایک اہم نکتہ:
گزشتہ آسمانی شریعتوں میں اور ابتداء اسلام میں مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں خلیلوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمدﷺ کو مشرکہ بیویوں سے محفوظ رکھا۔ دونوں عظیم المرتبت پیغمبروں کی تمام بیویاں مؤمنات مسلمات صالحات طیبات طاہرات اور مطہرات ہیں۔
تیسری دلیل:
صحیح البخاری میں ہے: جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا تو دوسرے دن آپ تمام بیویوں کے پاس تشریف لائے اور ہر بیوی کو اس طرح سلام کہا:
(السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللهِ) [صحيح البخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة الأحزاب، رقم: 4793]
’’اے اہل بیت! تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔‘‘
چوتھی دلیل:
صحیح مسلم میں ہے: اس موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو ان الفاظ کے ساتھ حال مزاج پوچھا:
( كَيْفَ أَنْتُمُ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ) [صحیح مسلم، كتاب النكاح، باب فضيلة إعتاقي أمته .. الخ، رقم: 3500]
’’اے اہل بیت! تمہارے مزاج کیسے ہیں کیا حال چال ہے۔‘‘
پانچویں دلیل:
صحیح البخاری میں ہے: جب صدیقہ کائنات ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر تہمت لگائی گئی اس وقت آپ نے خطاب عام کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! تم میں سے کون اس شخص کے مقابلے میں میرا ساتھ دے گا جس شخص نے میرے اہل بیت کے سلسلے میں مجھے اذیت دی ہے۔‘‘
چھٹی دلیل:
اہل بیت کا معنی ’’گھر والے‘‘ ہیں ہمارے عرف میں بھی اس لفظ میں بیوی بچے سب آتے ہیں۔
غور کیجئے! قرآن مجید کی آیات اور صیح البخاری وصحیح مسلم کی مستند ترین احادیث کس قدر وضاحت و صراحت کے ساتھ اعلان کر رہی ہیں کہ پیغمبر ﷺ کے اہل بیت میں خانہ نبوت میں، کا شانہ رسالت میں آپﷺ کی بیویاں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن شامل ہیں۔
ہاں بیویوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی تمام بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہن، تمام بیٹے حضرت علی اور حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں۔ جس طرح صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم کو ایک چادر میں چھپایا اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ﴾ [الاحزاب:33] [صحیح مسلم، فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي و (6261)]
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے اہل بیت میں شامل ہونے کی بھی وضاحت فرمادی کیونکہ آیت میں تذکرہ صرف بیویوں کا تھا تو آپ نے انہیں بھی شامل کیا معلوم ہوا ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے اور باقیوں کا اہل بیت سے ہونا صرف حدیث سے ثابت ہے۔
ایک ضروری وضاحت:
اہل بیت سے ملتا جلتا لفظ آل رسول ﷺ ہے۔ لیکن لفظ آل ’’اہل بیت‘‘ سے وسیع اور کھلا مفہوم رکھتا ہے۔ اس لفظ میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اور بیٹے، بیٹیوں کے ساتھ پیروکار بھی شامل ہیں۔ آل کا لفظ ’’متبعین‘‘ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ آل پیروکاروں کے معنی میں متعدد مقامات پہ مذکور ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی آل کا لفظ ازواج مطہرات، اولاد رسول اور دیگر متبعین پر بولا گیا ہے۔
بہر حال لفظ اہل بیت ہو یا لفظ آل رسول ہو ان دونوں لفظوں میں رسول اللہ ﷺ کی بیویاں شامل ہیں۔ اس لیے اہل بیت کی محبت کا دعوی کرنا اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات امہات المومنین کو اہل بیت سے خارج سمجھنا بلکہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے خلاف زبان درازی کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا اللہ اور اس کے رسول کی کھلی مخالفت ہے۔
یاد رکھئے! بیوی انسان کی عزت ناموس اور حرمت ہے لہٰذا ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اور امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کی بے حرمتی اور گستاخی بالواسطہ رسول اللہ ﷺ کی گستاخی و بے حرمتی ہے اور ناموس رسالت پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لیے آئندہ خطبہ جمعہ میں رسول اللہ مسلم کی ازواج مطہرات بیان کے فضائل و خصائل اور مناقب و محامد بیان کیے جائیں گے۔ تاکہ ہمارے دلوں میں امت کی ان عظیم محسنہ ماؤں کی عقیدت محبت اور عظمت مزید پختہ ہو اور یاد رکھیے اہل بیت کی محبت کا مطلب انہیں پوجنا، مدد کے لیے پکارنا، حاجت روا، مشکل کشا سمجھنا، ہرگز نہیں۔ بلکہ ان کی محبت دل میں رکھنا، زبان سے ان کی شان و منقبت بیان کرنا اور دل و جان سے ان کا احترام کرنا ہے۔
کھلی تضاد بیانی:
وہ لوگ جو بعض اہل بیت (حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق غلو کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک قرار دیتے ہیں اور انہیں حاجت روا مشکل کشا بگڑی بنانے والا سمجھتے ہوئے انہیں مدد کے لیے پکارتے ہیں وہی لوگ دوسری طرف انہی شخصیات کو مظلوم بے بس اور عاجز ثابت کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں (معاذ اللہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے عمر رسیدہ بزرگ صحابی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت چھین لی (ایک طرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مشکل کشاء اور دوسری طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے خلافت چھین لی؟ کیسا تضاد ہے؟)۔ کبھی کہتے ہیں: (معاذ اللہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حق وراثت چھین لیا (غور کیجئے! ایک طرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا مشکل کشا حاجت روا اور دوسری طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے حق وراثت غصب کر لیا، کیسی تضاد بیانی ہے؟ سچ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اسی طرح کبھی کہتے ہیں: حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے ہوئے تڑپ تڑپ کر جانیں دیں اور دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ مشکل کشا، حاجت روا۔ یہ اپنے منہ اپنے ہی عقائد کی نفی ہے ظاہر ہے جب غلو سے کام لیا جائے گا عقید ہ بھی بگڑے گا اور غلو کرنے والوں کی حقیقت بھی کھل جائے گی۔ لہٰذا اہل بیت کی محبت کا یہ مطلب قطعاً درست نہیں کہ انہیں بڑھا چڑھا کر خدائی اختیارات کا مالک عالم الغیب اور گنج بخش قرار دیا جائے بلکہ اہل بیت کی سچی محبت اور سچی عقیدت تو یہ ہے کہ انہیں وہ مقام دیا جائے جو مقام قرآن وسنت نے بیان کیا ہے اللہ اصلاح اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں اہل بیت کی محبت کے کھوکھلے دعوؤں کی بجائے حقیقی سچی محبت کی توفیق بخشے اور ہر قسم کے غلو سے محفوظ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔