اہل فترت، مشرکین کی اولاد اور دیگر ایسے لوگوں کا حکم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اولاد مشرکین کے متعلق سوال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ((اللهُ إِذْ خَلَقَهُمْ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ)) (أَخْرَجَةُ البخاري:1383، 6597 وَمُسْلِمٌ:2660)
’’اللہ تعالی نے جب انھیں پیدا کیا تو وہ خوب جانتا ہے کہ (انھوں نے بڑے ہو کر) کیا عمل کرنے تھے۔‘‘
143۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺ کے خواب والی حدیث ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے جنت میں باغ کے درمیان ایک لمبے قد والا آدمی دیکھا اتنا لمبا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ میرے لیے اس کا دیکھنا مشکل ہو گیا گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اس کے ارد گرد بہت سے بچے تھے۔ میں نے اتنے بچے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے جبریل علیہ السلام سے ان کے بارے میں پوچھا تو جبریل لیہ السلام نے فرمایا:
((وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَوِيلُ الَّذِي فِي الزَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ وَأَمَّا الْوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلِّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ)) (أَخْرَجَهُ البخاري1386، 7047)
’’ باغ میں لمبے قد والے آدمی سیدنا ابراہیم علیہ السلا تھے اور ان کے ارد گرد وہ بچے تھے جو پیدا ہو کر فطرت اسلام پر فوت ہو گئے۔“
اس پر بعض صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا مشرکین کے بچے بھی ان میں شامل ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ)) ’’ہاں، مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں۔‘‘
144۔ سیدنا سلمہ بن یزیدجعفی رضی ا للہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے عرض کی:اللہ کے رسول! ہماری ماں ملیکہ صلہ رحمی، مہمانوں کی مہمان نوازی اور یہ یہ (نیکیاں) کرتی تھی۔ دور جاہلیت میں فوت ہو گئی ہے۔ تو کیا یہ اعمال اسے کچھ فائدہ دیں گے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ((لا)) ’’نہیں۔‘‘
ہم نے کہا: اس نے جاہلیت کے زمانے میں ہماری ایک بہن کو زندہ درگور کیا تھا تو کیا یہ (زندہ درگور کیا جانا) اس (ہماری بہن) کو کچھ فائدہ دے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا:
((اَلوَائِدَةُ وَ المْوءُوْدَةُ فِي النَّارِ إِلَّا أَن تُدْرِكَ الْوَائِدَةُ الْإِسْلَامَ فَيَعْفُوَ الله عَنْهَا)) (أخرجه احمد:15923)
’’زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کیے جانے والی آگ میں ہوں گے مگر یہ کہ زندہ دفن کرنے والی مسلمان ہو جائے، پھر اللہ تعالی اسے معاف بھی کر دے۔‘‘
توضیح و فوائد: مشرکین کی اولاد کے بارے میں شروع میں آپ کا رجحان یہ تھا کہ ان کا حشر ان کے والدین کے ساتھ ہو گا، لیکن بعد ازاں آپ کو معلوم ہوا کہ وہ جنتی ہیں کیونکہ وہ فطرت پر فوت ہوئے ہیں، یہی قول راجح ہے۔ ایک قول ان کے بارے میں یہ بھی ہے کہ ان کا امتحان لیا جائے گا۔ اگر وہ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو جنت میں جائیں گے، ورنہ جہنم میں۔ دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا کہ انھیں نہ غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ مسلمانوں کے ساتھ دفن ہی کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں۔
145۔ اسود بن سریع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
((أَرْبَعَةٌ يَحْتَجُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَصَمُّ، وَرَجُلٌ أَحْمَقُ، وَرَجُلٌ هَرِمَ، وَرَجُلٌ مَاتَ فِي فِتْرَةٍ))
’’چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اپنا عذر پیش کریں گے: بہرا شخص، پاگل شخص، نہایت بوڑھا شخص اور وہ شخص جو زمانہ فترت میں فوت ہوا ہوگا۔‘‘
((فَأَمَّا الْأَصْمَ فَيَقُولُ رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ، وَمَا أَسْمَعُ شَيْئًا))
((أخرجه أحمد: 16301، وابن حبان:7357، والضياء في المختارة: 1454، وإسحاق بن راهويه في مسنده: 41، البزار: 2174)
’’بہرا کہے گا: اے میرے رب! یقینًا اسلام آیا جبکہ میں کچھ بھی نہیں سن سکتا تھا۔ ‘‘
وَأَمَّا الْأَحْمَقُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَالصَّبْيَانُ يَحْذِفُونِي بِالْبَعْرِ))
’’پاگل شخص کہے گا: اے میرے رب! اسلام آیا اس حال میں کہ بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے۔ ‘‘
((وَأَمَّا الْهَرِمُ فَيَقُولُ:رَبِّي لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَعْقِلُ شَيْئًا)) ’’نہایت عمر رسیدہ کہے گا:اے میرے رب! یقینًا اسلام آیا اس حال میں کہ مجھ میں کوئی سمجھ بوجھ اور ہوش نہیں تھی۔ ‘‘
((وَأَمَّا الَّذِي مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ فَيَقُوْلُ: رَبِّ مَا أَتَانِيْ لَكَ رَسُولٌ فَيَأْخُذُ مَوَاثِيقَهُمْ لَيُطِيعُنَّهُ فَيُرْسِلْ إِلَيْهِمْ أَنِ ادْخُلُوا النَّارَ))
’’اور رہا وہ شخص جو زمانۂ فترت میں فوت ہوا ہوگا وہ کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس تو کوئی رسول ہی نہیں آیا۔ تو اللہ تعالی ان سے پختہ وعدے لے گا کہ یہ اللہ کی اطاعت کریں گے۔ تو اللہ تعالی ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ آگ میں داخل ہو جاؤ۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا: ((فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ دَخَلُوهَا لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ بَرْدًا وَسَلَامًا))
’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اگر یہ لوگ اس آگ میں داخل ہو گئے تو یہ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی والی بن جائے گی۔“
146۔ گزشتہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، تاہم اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
((فَمَنْ دَخَلَهَا كَانَتْ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا وَّمَنْ لَمْ يَدْخُلْهَا يُسْحَبُ إِلَيْهَا)) ((أخرجه أحمد:16302، بإسناد حسن، وأخرجه الضياء في المختارة:1455، وإسحاق بن راهويه في مسنده:42، والبيهقي في الاعتقاد 111، وأبو نعيم في أخبار أصبهان:255/2، وابن أبي عاصم في السنة: 404)
’’جو اس میں داخل ہو گیا تو اس پر یہ ٹھنڈک اور سلامتی والی بن جائے گی اور جو اس میں داخل نہ ہوا اسے گھسیٹ کر اس میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
147- سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((يُؤْتَى بِأَرْبَعَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالْمَوْلُودِ وَ بِالْمَعْتُوهِ وَ بِمَنْ مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ، وَالشَّيْخِ الْقَانِي كُلُّهُمْ يَتَكَلَّمُ بِحُجَّتِهِ، فَيَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى لِعُنُقٍ مِنَ النَّارِ: ابْرُزْ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنِّي كُنْتُ أَبْعَثُ إِلٰى عِبَادِي رُسُلًا مِنْ أَنفُسِهِمْ، وَإِنِّي رَسُولُ نَفْسِي إِلَيْكُمْ، أدخلوا هٰذِهِ، فَيَقُولُ مَنْ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الشَّقَاءُ: يَا رَبِّ أَيْنَ نَدْخُلُهَا وَ مِنْهَا نَفِرُّ؟ قَالَ، وَمَنْ كُتِبَتْ عَلَيْهِ السَّعَادَةُ، يَمْضِي فَيَتَقَحَّمُ فِيهَا مُسْرِعًا، قَالَ:فَيَقُولُ تَبَارَكَ وتَعَالَى: أَنتُمْ لِرُسُلِي أَشَدُّ تَكْذِيبًا وَ مَعْصِيَةٌ، فَيُدْخِلْ هُؤُلَاءِ الْجَنَّةَ، وَهُؤُلَاءِ النَّارِ)) (أخرجه أبو يعلى: 4224، وصححه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2468)
’’قیامت کے دن چار لوگوں، بچپن میں فوت ہونے والے، پاگل، زمانہ فترت میں فوت ہونے والے اور شیخ فانی (عمر رسیدہ) کو لایا جائے گا۔ ہر ایک اپنے ایمان نہ لانے کی حجت و عذر بیان کرے گا، اللہ تعالٰی جہنم کے ایک حصے کو گردن کی شکل میں ظاہر اور حاضر ہونے کا حکم دے گا (وہ سامنے آ جائے گی)۔ رب تعالی ان لوگوں سے فرمائے گا: میں لوگوں کی طرف انھی میں سے رسول بھیجتا رہا لیکن تمھیں میں خود براہ راست یہ حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ تو جن لوگوں پر بدبختی لکھ دی گئی، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم اس میں کہاں داخل ہوں جبکہ اس سے تو بھاگے ہیں؟ تاہم جن کے حصے میں سعادت اور خوش بختی لکھی ہو گی وہ اس آگ کی طرف جائیں گے اور جلدی سے اس میں کود جائیں گے۔ اللہ تعالٰی ان لوگوں سے کہے گا (جنھوں نے اطاعت نہیں کی):تم (اگر صحیح ہوتے تو) میرے رسولوں کی سب سے زیادہ تکذیب کرتے اور نافرمان ہوتے، پھر اللہ تعالیٰ ان (بات ماننے والوں) کو جنت میں داخل کر دے گا اور ان (بات نہ ماننے والوں) کو آگ میں۔ ‘‘
148۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((سَأَلْتُ رَبِّي اللَّا هِينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ الْبَشَرِ أَلَّا يُعَذِّبَهُمْ، فَأَعْطَانِيهِمْ)) (أخرجه أبو يعلى في مسنده:3570، 3636، 4101، 4102، وفي إسناده فضيل بن سليمان وهو صدوق لكنه كثير الخطاء، وحسنه الألباني في صحيح الجامع، برقم:3592)
’’میں نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ انسانوں میں سے لا ہین (بے خبر و غافل) کو عذاب نہ دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عطا کر دیا۔‘‘
توضیح و فوائد: ایک نبی کے دنیا سے جانے کے بعد دوسرے نبی کی آمد تک کے درمیانی زمانے کو فترت کا دور کہا جاتا ہے۔ اہل فترت کی دو قسمیں ہیں:
1۔جن لوگوں تک دین اسلام کی دعوت پہنچی ہے۔
2۔ جن لوگوں تک دین اسلام کی دعوت نہیں پہنچی اور وہ غفلت کا شکار رہے۔ جن لوگوں تک دین اسلام کی دعوت پہنچی اور انھوں نے توحید کو اختیار کیا اور شرک سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا وہ بالاتفاق جنتی ہیں، جیسے ورقہ بن نوفل وغیرہ۔ جن لوگوں تک دین اسلام اور توحید کی دعوت پہنچی لیکن انھوں نے شرک ہی کو اختیار کیے رکھا وہ بالا تفاق دوزخی ہیں، جیسے عمرو بن لحي وغیرہ۔ دوسری قسم جن لوگوں تک دین اسلام اور توحید کی دعوت نہیں پہنچی اور وہ غفلت میں رہے ان کے بارے میں راجح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لے گا جیسا کہ باب کی احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح گونگے، بہرے، احمق اور بہت بوڑھے ہونے کی حالت میں جن تک دین اسلام پہنچا، ان سب کا امتحان ہوگا۔
……………….