اہل و عیال کے ساتھ حسنِ اخلاق

عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَا كَانَ النبِيُّ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: كَانَ يَكُوْنِ فِي مِهْنَةِ أهْلِهِ تَعْنِي فِي خِدْمَةِ اهْلِهِ. فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاة خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: كتاب الأذان، باب من كان في حاجة أهله فأقيمت الصلاة فخرج)
اسود بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا آپ ے گھر میں اپنے اہل وعیال کی خدمت کرتے تھے (گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے) اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے نکل جاتے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيُّ ﷺ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ ، وَلا لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلَا أَلَا صَنَعْتَ، (أخرجه البخاري)
(صحيح بخاري كتاب الأدب، باب . السعاد، وما يكره من البخل، صحيح مسلم: كتاب الفضائل، باب طيب رائحة النبيﷺ)
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کی دس سال خدمت کی لیکن کبھی اف نہ کہا یا کسی کام کے کرنے پر یہ نہیں کہا کہ کیوں کیا ؟ یا کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہ کہا کہ کیوں نہ کیا؟
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ شَيئًا قَطُّ بِيَدِهِ وَلَا امْرَأَةَ وَلَا خَادِمًا، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَا بَيْلَ مِنْهُ في قَط فَيَسْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَن يَنْتَهِكَ شَيْئًا مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عز وجل. (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب مباعدتهﷺ للأثام واختياره من المباح)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ عورت کو نہ خادم کو البتہ جہاد میں اللہ تعالی کی راہ میں مارا، اور آپ کو اگر کسی نے نقصان پہنچایا تو اس کا بدلہ نہیں لیا البتہ اگر اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو پامال کیا تو اللہ تعالی کے واسطے بدلہ لیا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ طَعَامًا قط إِنَّ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ . (متفق عليه)
(صحيح بخاري: كتاب الأطعمة، باب ماعاب النبیﷺ طعاما، صحیح مسلم: كتاب الأشربة، باب لا يعيب الطعام.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے کھانے میں کبھی عیب نہیں لگایا اگر پسند آیا تو کھا لیا اور اگر نا پسند آیا تو چھوڑ دیا۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، قالتْ: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَى فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي. (أخرجه أبو داود).
سنن أبي داود: كتاب الجهاد، باب في السبق على الرجل، صححه الألباني في صحيح سنن أبي داود (2878)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک بار میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ سفر میں تھی۔ ہمارے درمیان دوڑ کا مقابلہ ہوا تو میں آگے نکل گئی پھر جب میں موٹی ہو گئی پھر دوڑ کا مقابلہ ہو اتو رسول اکرم سے آگے نکل گئے۔
تشریح:
رسول اللہ ہے اپنے گھر والوں اور اہل وعیال کے لئے ایک بہترین نمونہ تھے۔
اس معاملے میں آپ کی اقتداء واجب ہے۔ آپ ﷺ اپنے اہل وعیال کی خدمت کرتے ان کے ساتھ بردباری سے پیش آتے صبر کرتے اور زیادہ جرح نہیں کرتے حتی کہ نوکروں کے ساتھ بھی آپ کا اچھا برتاؤ ہوتا۔ نیز آپ ﷺ اپنے اہل وعیال کے ساتھ کھیل کو د اور سفر میں ان کی دلجوئی کا سامان بھی کرتے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک بار رسول اکرم نے اپنی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر میں نکلے دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ہوا پہلی بار ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا آگے نکل گئیں دوسری بار اللہ کے رسول ﷺ آگے نکل گئے۔ اس سے واضح ہوا کہ ہمیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہئے ۔ اللہ تعالی ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ اہل وعیال کے ساتھ تواضع، نرمی اور آسمانی برتنا مستحسن امر ہے۔
٭ اہل وعیال کے ساتھ کھیل کو د جائز ہے۔
٭ بیوی کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنا مباح ہے۔
٭٭٭٭