احسان و حسن سلوک

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَی التَّهْلُكَةِ ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [البقرة: 195]
’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
سورۂ بقرہ کی ایک آیت مبارکہ میں نے اس وقت خطبہ میں تلاوت کی ہے اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے کئی احکام جاری فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حکم یہ ہے۔
﴿وَ اَحْسِنُوْا﴾ احسان کرو۔ اور ساتھ ہی احسان کرنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ﴾
کہ اللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔
یوں تو احسان کرنے والوں کی یہی فضیات کافی ہے کہ احسان کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے اور وہ اللہ کے پیارے اور محبوب بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں صرف اسی فضیلت پر اکتفاء نہیں فرمایا۔ بلکہ مختلف انداز میں احسان کی فضیلت بیان کی ہے۔ سورۃ المائدہ میں فرمایا:
﴿ فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ۝۸۵﴾ [المائدة: 185]
’’ان کو اللہ تعالی ان کے اس قول کی وجہ سے ایسے باغ دے گا جن کے نیچے شہریں جاری ہوں گی یہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ ر ہیں گے اور محسنین کا یہی بدلہ ہے۔‘‘
یعنی احسان کرنے والوں کا بدلہ اعلیٰ قسم کی جنتیں ہیں:
سورۃ النحل میں فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُوْنَ﴾ [النحل: 128]
’’یقین مانو کہ اللہ تعالی پرہیز گاروں اور محسنین کے ساتھ ہے۔‘‘
جس کا مطلب ہے کہ اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
سورة بنی اسرائیل میں فرمایا:
﴿ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا﴾ [بنى اسرائيل: 7]
’’اگر تم احسان کرو گے تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لیے۔‘‘
یعنی اگر تم احسان کرو گے۔ تو اپنے ہی لیے احسان کرو گئے یعنی تمہیں احسان کرنے کا بهترین بدلہ دنیا و آخرت میں ملے گا۔
سورۃ الرحمن میں ارشاد فرمایا:
﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ [الرحمن:60]
’’ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔‘‘
کہ جو احسان کرے گا اسے اس کے احسان کی طرح بدلہ بھی اچھا اور عالیشان ہی ملے گا۔
احسان کا معنی و مفہوم:
اب سوچنا یہ ہے کہ احسان کا معنی و مفہوم کیا ہے۔ وہ احسان جس کی بناء پر بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اللہ کا پیارا بن جاتا ہے۔ وہ احسان جس کا بدلہ جنت ہے۔ اس کا مفہوم کیا ہے۔ اس کا معنی و مفہوم بڑا وسیع ہے۔
پہلا معنی:
اخلاص ہے۔ جس کے بغیر عمل قبول ہی نہیں ہوتا۔ یعنی صرف اللہ کی رضا کے عمل کرتا، جس کا حکم دوسرے لفظوں میں بھی دیا گیا ہے:
﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [الأنعام:163]
’’کہہ دو یقینًا میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت صرف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
یہ ہے اخلاص کہ عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے کرنا ہر عبادت صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے بجالانا ہر نیکی نیت کی درستگی اور لمبیت کے جذبے سے سرشار ہو کر کرنا احسان کا یہ معنی اس قدر اہم ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل شرف قبولیت نہیں پاتا۔
دوسرا معنی:
کامل توجہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا۔ جس طرح مشہور و معروف حدیث میں ہے۔ جسے حدیث جبریل کہتے ہیں۔ جو صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہﷺ کی مجلس میں تھے اچانک ایک شخص وارد ہوا جس کا لباس سفید براق تھا۔ اس کے بال بہت زیادہ سیاہ تھے اس پر سفر کے نشانات دکھائی نہیں دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی شخص بھی اسے نہ پہچانتا تھا۔ وہ نبی صل الام کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دونوں گھٹنے نبیﷺ کے دونوں گھٹنوں کے ساتھ ملائے اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھا اور آپ کو مخاطب کرتے ہوئے چند سوالات کیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا:
(أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ)
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)[1]
’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اگر چہ تو اسے نہیں دیکھتا مگر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
بہر حال اس حدیث میں احسان کا ایک معنی خود رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ کامل توجہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے دل میں اللہ کی عظمت کبریائی اور جلال پیدا کرنے اور اس قدر عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرے گویا کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا اسے دیکھتے ہوئے عبادت کر رہا ہے نظریں جھکی ہوں، گردن میں خم بو تمام اعضاء وجوارح سنت کے مطابق ہوں اور دل اللہ کی محبت و ہیبت سے پر ہو۔
تیسرا معنی:
ہر عمل صالح کو احسن انداز میں ادا کرنا۔ نماز روزہ زکوة گفتگو لین دین تجارت معاملات سب کچھ احسن انداز میں بجا لانا۔ حتی کہ جانور کو ذبح کرنے اور کسی موڈی چیز کو مارنے میں بھی احسان (اچھا انداز) اختیار کرنا۔ اور اس اچھے انداز کے بغیر عمل قبول ہی نہیں۔ بسا اوقات ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی معنی و مفہوم کو سید الرسلﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں بیان فرمایا ہے۔ جو صیح مسلم میں موجود ہے: (أَنَّ اللهَ كَتَبَ عَلَيْكُمُ الْإِحْسَانَ فِي كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَةَ فَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ) [صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان (93) والترمذي (2610) و ابوداؤد (4695) والنسائي (5005) و ابن ماجه (63)]
’’اللہ تعالی نے ہر چیز میں اچھا انداز اختیار کرنا تم پر فرض کیا ہے۔ پس جب تم کسی موزی چیز کو مارو۔ تو اچھے طریقے سے مارو (یعنی اسے تر پاتر پا کر نہ مارو) اور جب تم جانور ذبح کرو۔ تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ چھری اچھی طرح تیز کرو۔ اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ۔‘‘
غرضیکہ ہر نیک اور جائز کام اچھے انداز میں کرنا ضروری ہے۔
آج نماز روزہ حج زکوة – صدقہ و خیرات تجارت۔ معاملات وغیرہ میں ہم یہ انداز نظر انداز کر چکے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے تو طلاق میں بھی اچھے انداز کا حکم دیا ہے۔ وہ طلاق جو میاں بیوی کی ناراضگی اور جھگڑے کے نتیجے میں ہوتی ہے:
﴿وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾ [البقرة: 241]
’’ طلاق والیوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیز گاروں پر لازم ہے (یعنی انہیں کوئی تحفہ دے کر فارغ کرو)۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَ سَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا﴾ [الاحزاب: 49]
’’اور بھلے طریقے سے انہیں رخصت کر دو (یعنی باعزت طریقے سے فارغ کرو)۔‘‘
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقرة: 229)
’’(رجعی) طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ ٹھیک ہے تمہارا ایک عورت سے نباہ نہیں ہوا لیکن وہ کسی کی بہن یا بیٹی ہے لہذا اسے ذلیل نہ کرو)۔‘‘
جبکہ طلاق جھگڑے کے نتیجے اور عدم موافقت کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن اسلام نے اچھا انداز اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح حق مانگنا۔ سودا کرنا وغیرہ سب میں یہی حکم ہے کہ تمام معاملات میں احسن انداز اختیار کیا جائے رسول اللہ ﷺ نے تو دعا دی تھی۔
(رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى) [صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب السهولة والسهامة في الشراء والبيع … (2076) و ابن ماجه (2203)]
’’اللہ اس شخص پر رحمت کرے جو سودا بیچتے وقت سود اخریدتے وقت اور اپنا حق مانگتے وقت نرم اور احسن انداز اختیار کرتا ہے۔‘‘
چوتھا معنی:
حسن سلوک کرنا:
﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ﴾ [النساء: 36]
’’ اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسیوں، اجنبی پڑوسیوں، رفیق کو یا بیویوں، مسافروں اور غلام لونڈیوں سے بھی اچھا سلوک کرو) یعنی ان تمام حقداروں کے حقوق بجالاؤ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔‘‘
پانچواں معنی:
نیکی کرنا۔ ہر نیک عمل کرنا اور ہر نیکی بجا لانا بھی اس میں شامل ہے۔
بہر حال احسان کا معنی و مفہوم بہت وسیع ہے۔ اور اللہ کا محبوب بندہ رہنے کے لیے ہمیں لفظ احسان کے تمام تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر طرح کا احسان مفقود ہوتا جا رہا ہے نہ اخلاص رہا، نہ حسن سلوک رہا، نہ عبادات و معاملات میں احسن انداز رہا، نہ نیکی و عمل صالح کا جذبہ بیدار رہا، نماز خشوع خضوع سے خالی ہو گئی۔ زکوۃ کا حلیہ بگڑ گیا۔ حج و عمرہ میں نمود و نمائش غالب ہو گئی۔ ذکر الہی میں تصنع آ گیا
آخری بات
احسان کرنا ضروری ہے لیکن احسان جتلانا ناجائز اور حرام ہے۔ عبادت کر کے اللہ کی بارگاہ میں احسان جتلانا بھی جائز نہیں۔ اور بندوں کے ساتھ حسن سلوک کر کے بندوں پر احسان جتلانا بھی جائز نہیں۔
دونوں کی تردید قرآن وسنت میں موجود ہے۔ سورۃ الحجرات کے آخر میں ہے جب چند دیہاتی قسم کے نو مسلموں نے اپنی مسلمانی کا احسان جتلایا تو رب کائنات نے آیات نازل فرمائیں:
﴿یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ [الحجرات: 17]
’’اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو۔ بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو۔‘‘
(یعنی اگر تم دعوائے ایمان میں سچے ہو تو یہ تمہارا احسان نہیں بلکہ اللہ کا تم پر فضل و انعام اور کرم و احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول ہدایت کی توفیق بخشی ہے)۔
سورۃ البقرہ میں فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی﴾ [البقرة: 264]
’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر بر باد نہ کرو۔‘‘
معلوم ہوا صدقہ و خیرات احسان جتلانے سے ضائع اور برباد ہو جاتا ہے اس لیے خدمت مطلق کر کے احسان جتلانا اپنی نیکی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي ذَرَ الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ يَا قَالَ: (ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ). قَالَ أَبُوذَرٍّ رضی اللہ تعالی عنہ: خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ هُمْ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ)! قال: (الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ)[صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية (106) والترمذي (1311)]
حضرت ابو ذررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: ’’تین شخص ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا۔ نہ ان کی جانب نظر رحمت کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
ابوذررضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا یہ لوگ کون ہیں؟ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ تو ناکام ہیں اور خسارے والے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جو تکبر سے اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے اور جو عطیہ دے کر احسان جتاتا ہے اور جو جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنے کاروبار کو چلانے والا ہے۔‘‘
غور کیجئے! رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں احسان جتلانے کی کتنی خطرناک قسم کی چار سزائیں بیان کی ہیں اس لیے ہمیں ہر قسم کا احسان کرنا چاہیے لیکن احسان جتلانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ احسان جتلانے والے لوگ اللہ رب العزت کے ہاں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ’’محسنین‘‘ میں شامل فرمائے اور احسان جتلانے سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔