عیب جوئی اور عیب بینی

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا) (فاطر:6)
شیطان کی انسانی دشمنی اور اس کی شدت اور عداوت کے بارے میں ہم جان چکے ہیں کہ وہ بڑا پکا، ضدی، گھٹیا اور ڈھیٹ قسم کا دشمن ہے، وہ اخلاق سے عاری اور شدت عداوت میں ہر سطح پر جانے والا ہے، اس کی شدت عداوت سے قرآن وحدیث میں ہمیں جا بجا خبر دار کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام پر اس کے عزائم کا یوں ذکر کیا گیا!
﴿قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۝۱۶﴾ (الاعراف:16)
شیطان نے اللہ تعالی کے حضور اپنے عزائم اور ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے، میں بھی تیری سیدھی راہ پر انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا۔‘‘
﴿ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ۝﴾ (الاعراف:17)
’’میں ان کے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
اس کی شدت عداوت کا اندازہ کیجیے کہ اس نے صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ میں انسان کو ہر طرف سے گھیروں گا اور پوری طرح گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا، بلکہ تمام جہات کا نام لے لے کر اپنے عزم وارادے کا اظہار کیا کہ جس سے اس کی شدید دشمنی کا اظہار ہوتا ہے اور اس میں بھی جو اس نے دو جہتوں کا ذکر نہیں کیا یعنی اوپر اور نیچے کا، تو اس لیے نہیں کہ اس نے کچھ نرم دلی کا مظاہرہ کیا یا بھول گیا ہو، بلکہ اس لیے کہ اوپر سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور نیچے سے آتا وہ اپنی توہین سمجھتا ہے۔ جھکنا تو اسے کسی صورت میں منظور نہیں ہے، وہ چاہے کسی مقصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اگر جھکنا ہی ہوتا تو ایک بار آدم علیہ السلام کو سجدہ کر کے ہمیشہ کی پریشانی اور ذلت و رسوائی سے بچ جاتا، مگر اس نے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم اور اللہ تعالی کی لعنت تو قبول کر لی مگر ایک سجدہ گوارا نہ کیا۔ کس قدر تکبر نخوت اور غرور ہے اس کی سرشت میں۔
آپ نے دیکھا کہ شیطان نے انسان کو ہر پہلو اور ہر راستے سے گمراہ کرنے اور حملہ آور ہونے کا دعوی کیا، جو کہ اس کا اندازہ اور گمان تھا، اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہا۔
﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ ابْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (سبا:20)
’’ان کے معاملے میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا، سب نے اس کی پیروی کی سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے ‘‘
تو جس طرح شیطان نے اپنے ارادوں کا اظہار کیا کہ وہ ہر طرف سے انسان کو گھیرے گا، بات کچھ ایسے ہی ہے کہ ہر ہر شخص کے ہر ہر معاملے میں اس کے پاس چالیس ، ترکیبیں اور وسوسے ہیں۔ ان سب کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے کیونکہ انسان کی زندگی کے مسائل اور معاملات ہی اتنے ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا، البتہ چند موٹی موٹی باتوں کا ہر ایک کو علم ہے، وہ شیطانی کام اور شیطانی چالیں ہیں، جیسے چوری، بدکاری، دھوکہ دہی، جھوٹ ، فراڈہ گالی گلوچ اور قتل و غارت وغیرہ۔ کہ ان کا غلط ہونا ہر انسان کو فطری طور پر معلوم ہے، لہٰذا تمام انسانی معاشروں میں ان کو برا جانا جاتا ہے، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا انسان کو فوری طور پر اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ شیطانی کام ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا اور اس کی کئی صورتیں ہیں، مگر بنیادی سبب وہی ہے کہ وہ اک شیطانی وسوسے کے تحت ہوتا ہے اور اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی کی گاڑی میں سوار ہوں تو ڈیش بورڈ کھول کر چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا گاڑی میں پڑی دوسری کسی چیز کو اٹھا کر اس کا جائزہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور اگر یونہی کسی کے پاس بیٹھے ہوں تو اس کا فون اٹھا کر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں یا الٹ پلٹ کرنا شروع کر دیتےہیں۔ کسی کے گھر میں جائیں تو وہاں گھر میں موجود چیزوں میں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔ کسی کی پرائیویسی کی کوئی اہمیت ، کوئی احترام اور کوئی لحاظ نہیں، کچھ تو محض Curiosity اور تجسس کے نام پر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے چلے جاتے ہیں اور کچھ جہالت اور لاعلمی کی بنا پر ایسا کچھ کر جاتے ہیں۔ اور دخل اندازی کی ایک صورت جو کہ اس سے بھی زیادہ سنگین ، خطر ناک اور شرمناک ہے وہ ہے لوگوں کے معاملات میں جھانکنا، کہ کون کیا کرتا ہے، کیا کھاتا اور کیا پیتا ہے، کب سوتا اور کب جاگتا ہے اور کیا پہنتا ہے وغیرہ۔ بعض اوقات ان ڈائریکٹ اور اکثر اوقات ڈائریکٹ ہی کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کے لیے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، کہ دوسرے شخص کو مجبور کر دیتے ہیں کہ یا تو وہ اپنی ذاتی زندگی ان کے سامنے کھول کر رکھ دے یا پھر ان کے شرسے بچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے۔
اور ایسے کام عموماً وہ لوگ کرتے جو اسلامی آداب سے ناواقف ہوں، یا بے کار ہوں، انہیں کوئی کام کاج نہ ہو، سارا دن ٹائم پاس کرنے کے لیے لوگوں کے پاس جا کر بیٹھنا، ٹی وی دیکھنا،گپیں لگانا اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔
مگر اس جرم کی قباحت اور سگینی پہلے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور اگر معلوم ہو تو اس کا خطر ناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس شیطانی کام کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرے اور اکثر و بیشتر ایسے ہی ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی ہمدردی ، خیر خواہی اور اصلاح کے نام پر یہ سب کچھ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور وہ خود کو دودھ کا دھلا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں دوسروں کے لیے بڑی ہمدردی اور خیر خواہی ہے
کیا کمال ہمدردی ہے اسے اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کی فکر ، نہ اپنی آخرت کی فکر نہ حلال کمائی کی فکر، نہ حلال خرچ کی فکر، اسے اگر فکر ہے تو لوگوں کی فکر ہے، اسے لوگوں کا غم کھائے جا رہا ہے، کیا سادگی ہے، مگر وہ بے چارہ اس سادگی کے انجام سے بے خبر ہے۔
اس سادگی کا انجام یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيْمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ))
’’اے وہ لوگو جو صرف زبان سے اسلام لائے ہو، ایمان ان کے دلوں تک نہیں پہنچا؟ مسلمانوں کو اذیت نہ پہنچاؤ۔‘‘
(( وَلَا تُعَیِّرُوهُمْ))
’’اور نہ انہیں ان کے عیبوں کا طعنہ دو۔‘‘
((وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ))
’’اور نہ ان کی عیب جوئی کرو۔‘‘
((فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ))
’’جو کسی مسلمان بھائی کی عیب گیری کرے گا، اللہ تعالی اس کی عیب چینی کرے گا۔‘‘
((وَمَنْ تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ)) (ترمذی:2023)
’’اور جس کی اللہ تعالی عیب بینی کرے گا اسے رسوا کر کے رکھ دے گا، اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی موجود رہا ہو۔‘‘
اندازہ کریں کیسی تہدید اور کتنی وعید ہے، مگر شیطان نے اسے ایسا ور غلا رکھا ہوتا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اسے جائز سمجھ رہا ہوتا ، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس میں لذت بھی محسوس کرتا ہے، کسی کے خلاف باتیں کر کے کسی کے عیب اچھال کر وہ محفوظ ہوتا ہے۔
تو لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرنے اور ان کے عیب اچھالنے والے کا انجام انتہائی خطرناک ہے۔
اسے واقعی اگر کسی کی خیر خواہی مقصود ہو تو اس کا طریقہ اسلام نے بتلایا ہے کہ وہ اس کی پردہ پوشی کرے، پردہ پوشی کرنے سے جہاں اس کی خیر خواہی ہوگی وہاں خود اپنا بھی فائدہ اور خیر خواہی ہوگی۔
آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ سَتَرَ عَورَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ سَتَرَ اللهُ عَورَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (صحيح ابن ماجة: 2079)
’’جو کسی مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے گا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘
اور آپ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن آدمی کو عیب پوشی کی کتنی ضرورت ہوگی ۔ یہاں اس دنیا میں تو اگر کسی کو رسوا کریں گے اور اس کے عیب اچھالیں گے تو زیادہ سے زیادہ کسی ایک حلقے میں یا کسی ایک ملک میں انگر قیامت کے دن جو آواز لگانے والا، پکار نے والا پکارے گا تو اسے تمام کے تمام لوگ سنیں گے۔
((فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتِ يّسْمَعَهُ مَنْ بَعُدَ – أَحْسَبُهُ قَالَ – كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ)) (الأدب المفرد:970)
’’وہ لوگوں کو ایسی آواز کے ساتھ پکارے گا کہ جو دور ہوگا وہ بھی سنے گا ۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ کی امام نے فرمایا کہ جس طرح قریب والا سنے گا۔‘‘
اور اس دن کی رسوائی سب سے بڑی رسوائی ہے اور آدمی کی حقیقت کیا ہے، اس کی اصلیت کیا ہے، یعنی وہ کتنا نیک یا کتنا بد ہے، اس کا پتہ قیامت کے دن ہی چلے گا۔
﴿يَوْمَئذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ﴾ (الحاقة:18)
’’اس دن تم سب کے سامنے پیش کیے جاؤ گے ، تمھارا کوئی بھید بھی پوشیدہ نہ رہے گا۔‘‘
اس دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کی پردہ پوشی فرما رکھی ہے، یہاں آدمی بن ٹھن کے نکلتا ہے، اپنے آپ کو بڑا نیک و پارسا اور دوسروں کو پرلے درجے کے برے لوگ سمجھتا ہے، سینہ تان کر چلتا ہے، مگر اس کی اصلیت کیا ہے، یہ قیامت کے دن ہی پتہ چلے گا۔ اور جو سمجھ دار اور صاحب عقل و دانش ہیں وہ اللہ تعالی سے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔
﴿رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۝﴾ (آل عمران:194)
’’اے ہمارے رب ! جو وعدے تو نے ہم سے اپنے رسولوں (علیہم السلام) کے ذریعہ کیے ہیں پورے فرما اورقیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال ، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔‘‘
اور جسے آخرت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی فکر ہو، وہ لوگوں کی عیب جوئی نہیں کرتا، بلکہ اپنی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔
شیطان کی چالوں میں سے یہ ایک بہت بڑی خوفناک چال ہے کہ وہ آدمی کو دوسروں کے معاملات میں ایسا الجھا دیتا ہے کہ اسے اپنی فکر نہیں رہتی، حالانکہ آدمی کو کن چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی۔
﴿قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم:6)
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ ۔“
اللہ تعالی کے اس واضح حکم کے باوجود لوگوں کو اپنی قطعاً فکر نہیں اور لوگوں کی اصلاح کے نام پر ان کے عیب دن بھر اچھالتے رہتے ہیں۔
اور یہ بات پہلے بھی کئی بار بیان ہو چکی ہے کہ آدمی اگر یہ جاننا چاہے کہ اس کا اللہ تعالی کے ہاں کیا مقام ہے تو وہ اس بات پر غور کر لے کہ اللہ تعالی نے اسے کس کام پر لگا رکھا ہے۔
اللہ تعالی نے اگر کسی کو لوگوں کی عیب جوئی پر لگا رکھا ہے تو وہ اپنا مقام پہچان لے۔ اور اگر لوگوں کی ہمدردی ، خیر خواہی اور تعاون کے کاموں پر لگا رکھا ہے تو اس کے مقام کا بھی انداز و کیا جا سکتا ہے۔ تو کیا ایسا آدمی بھلا عقلمند ہو سکتا ہے جو لوگوں کی خیر خواہی کے نام پر اپنا نقصان کرتا جارہا ہو ؟
سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی طرح اپنے آپ کو اس نقصان سے اور اس بری عادت سے بچا سکتا ہے؟
تو حقیقت یہ ہے کہ جب تک آدمی کو یہ بات سمجھ نہیں آجاتی کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں وہ اس وقت تک یونہی لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرتا رہے گا ، اس لیے سب سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور جانتا ہوگا کہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کے مستحق کون لوگ ہیں اور وہ ہیں آپ کی ذات اور آپ کے اہل وعیال ، لہٰذا ان پر توجہ دیں اور ساتھ ہی اس بری عادت اور شیطانی فعل سے بچنے کے لیے اسلام کے بتائے ہوئے اس سنہری قاعدے پر عمل پیرا ہوں کہ:
((مِنْ حُسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه)) (ترمذي:2317)
’’آدمی کے اسلام کی ایک خوبی اور حسن یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں میں نہ پڑے جو اس سے متعلق نہیں ہیں ۔‘‘
اور آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں اکثر و بیشتر لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا سبب ہی دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا ہی ہوتا ہے۔
یہ باتیں تو تھیں لوگوں کے انفرادی معاملات کی حد تک ، اب اجتماعی حالت کا معاملہ ملاحظہ کریں، تو جلسے جلوس، ہڑتالیں، دھرنے، توڑ پھوڑ، یہ سب کچھ بھی اصلاح کے نام پر ہوتا ہے، کتنے ہی چور، ڈاکو، بدکار اور بے دین قسم کے لوگوں کو ملک و قوم کا غم کھائے جا رہا ہے مگرانھیں اپنی حالت کی تبدیلی کی ہرگز فکر نہیں ہوتی ۔
اسی طرح میڈیا آزادی رائے اور عوام کی خیر خواہی کے نام پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا رہتا ہے ۔ بہر حال اگر ہم اپنی اصلاح کرنا چاہیں اور شیطان کی چال سے بچنا چاہیں تو ہمیں اسلام کے بتائے ہوئے اس آسان سے قاعدے پر عمل کرنا ہوگا کہ جس میں کچھ کرنا نہیں ہے بلکہ نہ کرتا ہے اور وہ ہے:
((مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرَكُه مَا لَا يَعْنِيْه)) (ترمذي:2317)
’’آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو ترک کر دے، یعنی جو کسی طرح بھی اس سے متعلق نہیں ہیں ۔‘‘
مگر نہایت ہی قابل غور اور قابل تعجب بات یہ ہے کہ ایک ایسا آسان سا قاعدہ جس میں کچھ کرنے کا نہیں بلکہ نہ کرنے کا حکم ہے اس پر بھی عمل نہیں ہو پاتا ۔
کوئی آسان سے آسان کام کرنا بھی کسی حد تک مشکل ہو سکتا ہے، یہ تو سب جانتے ہیں مگر کام نہ کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تو شیطان کی بے شمار چالوں میں یہ ایک چال ہے کہ وہ آدمی کو دوسروں کے معاملات میں الجھا دیتا ہے اور وہ اس میں لگا رہتا ہے اور وہ یہ کام مزے لے لے کر رہا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….