اعتکاف کا بیان
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ (سوره بقره آیت: 187)۔
اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ. (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الاعتكاف، باب الاعتكاف في العشر الأواخر، صحيح مسلم: كتاب الاعتكاف باب اعتكاف العشر الأواخر من رمضان)
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ تَعَالَى، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدَهُ (متفق عليه)
(صحیح بخاري: كتاب الاعتكاف، باب الاعتكاف في العشر الأواخر، صحيح مسلم كتاب الاعتكاف
باب اعتكاف العشر الأواخر من رمضان)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔
عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ يَحْكِفَ فِي كُلِّ رَمَضَانَ عَشَرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ اِعْتَكَفَ عِشْرِيْنَ يَوْمًا. (رواه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب باب الاعتكاف في العشر الأوسط من رمضان.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کے ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرمایا کرتے تھے مگر جس سال آپ کا انتقال ہوا آپ نے میں دن اعتکاف فرمایا۔
تشریح:
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے جس کے معنی ہیں: ایک جگہ یکسوئی سے بیٹھے رہنا، اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں ساری مخلوق سے کٹ کر صرف اور صرف رضاء الہی کی خاطر مسجد میں عبادت کی نیت سے بیٹھ جاتا ہے اور وہ عبادت، تلاوت، استغفار نواقل تسبیح و تہلیل اور ذکر واذکار میں مشغول ہوتا ہے ایسے وقت میں اسے دنیاوی امور سے کوئی مطلب اور دلچپسی نہیں ہوتی ہے، وہ ہمہ وقت عبادت وریاضت کے بارے میں سوچتا اور فکر مند رہتا ہے۔ نبی کریم کے اس عبادت کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ ایک بار آپ رمضان میں کسی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے تو شوال کے آخری دس دن میں اعتکاف فرمایا۔
اس عبادت کے لئے مسجد کا ہونا ضروری ہے چاہے مرد ہو یا عورت عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں کیونکہ ازواج مطہرات نے بھی مسجدوں میں اعتکاف کیا ہے، اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صیح نہیں ہے، البتہ ان کے لئے مسجدوں میں الگ سے ہر چیز کا معقول انتظام ہونا چاہئے یعنی مردوں سے ان کا اختلاط نہ ہو، راستہ دونوں کا الگ الگ ہو تو ایسی صورت میں انہیں اعتکاف سے نہیں روکنا چاہئے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو انہیں مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے سے منع کرنا چاہئے۔ فقہ کا اصول ہے ’’درْءُ الْمَفَاسِدِ أُوْلٰى مِنْ جَلبِ الْمِصِالِحِ یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا بہ نسبت مصالح حاصل کرنے کے زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لئے اعتکاف میں بیٹھنا مناسب نہیں، چونکہ یہ ایک نفلی عبادت ہے اور عزت و آبرو کی حفاظت فرض ہے نفل کے شوق میں فرض سے غفلت صحیح نہیں۔
اعتکاف کا وقت بیسویں (۲۰) رمضان کی شام سے شروع ہوتا ہے اور مختلف کومغرب کی نماز سے قبل مسجد میں آجانا چاہئے اور جب تک عید کا چاند نظر نہ آئے تب تک مسجد ہی میں رہے، اس درمیان بیوی آ کر مل سکتی ہے اور بال میں کنگھی وغیرہ کر سکتی ہے، اگر مسجد میں بیت الخلاء وغیرہ کا انتظام نہ ہو تو قضاء اور غسل وغیرہ کے لئے مختلف باہر جا سکتا ہے اس کے علاوہ کسی اور ضرورت کے لئے مسجد سے باہر جانا ممنوع ہے نیز مریض کی عیادت جنازے اور رفاہی پروگراموں میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیڑی تمباکو اور سگریٹ وغیرہ کے عادی ہوتے ہیں، افطاری کرنے کے بعد مسجد سے باہر کھڑے ہو کر لوگوں کے ساتھ گپ بازی کرتے ہیں اور بیڑی وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں یہ سب کام ممنوع ہیں۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو تمہا کو، بیزی اور سگریٹ اور ہر نشہ آور چیز اسلام میں حرام ہے اس سے ہمہ وقت انسان کو بچنا چاہئے چہ جائیکہ کہ رمضان جیسے مبارک مہینے اور وہ بھی اعتکاف کی حالت میں رو کر اور بھی خطر ناک ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس بری خصلت سے بچنے کی توفیق دے۔
فوائد:
٭ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے۔
٭ مرد و عورت ہر ایک کے لئے اعتکاف کرنا جائز ہے۔
٭ اعتکاف کے لئے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔
٭٭٭٭