اجنبی

( دنیا کے بارے میں اسلامی نکتہ نظر )
﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝﴾ (الانفال:33)
’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے، جبکہ آپ ان میں موجود ہوں اور اللہ انہیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں ۔‘‘
اس دنیا میں انسان کی حیثیت اک پردیسی اور اجنبی کی سی ہے پردیسی کسی ملک کسی شہر یا کسی علاقے میں چاہے کتنا ہی لمبا قیام کرلے اور مانوس ہو جائے اسے بالآخر اپنے وطن کی طرف ہی لوٹنا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہاں وہ اجنبیت محسوس کرتا ہے اور دنیا بھی انسان کے لیے پردیس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام دنیا میں اسی انداز ، اس کیفیت اور اسی حیثیت سے زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
((أَخَذَ رَسُولُ اللهِ بِمَنْكِبِي فَقَالَ: كُنَّ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ)) (بخاری:6416)
’’آپ ﷺ نے مجھے کندھے سے پکڑ کر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم اجنبی یا کوئی مسافر ہو۔‘‘
اجنبی، آپ جانتے ہیں کہ اس کو کہا جاتا ہے جو کسی علاقے کا اصل اور مستقل مکین نہ ہو، بلکہ پردیسی ہو، جسے وہاں اپنے قیام کی مدت کا قطعی طور پر علم نہ ہو، بس اتنا معلوم ہو کہ مالک نے جس غرض سے اور جس مشن پر اسے بھیجا ہے جونہی وہ مکمل ہوا، واپس بلا لیا جائے گا۔ چنانچہ وہ ہمہ وقت کوچ کے لیے تیار رہتا ہے، اپنے رہن سہن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، بلکہ اپنے اصل کام پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
البتہ وہ اپنے وطن کی طرف لوٹ جانے کے لیے بے تاب و بے قرار ضرور ہوتا ہے، اور یہ اک فطری جذبہ ہے وہ اپنی پہلی منزل کو بھول نہیں پاتا۔ چنانچہ شاعر ابو تمّام الطائی نے کیا خوب کہا ہے:
نَقِّلْ فُؤَادَكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ الْهَوٰى
مَا الْحُبُّ إِلَّا لِلْحَبِيْبِ الْأَوَّلِ
’’ خواہشات میں دل کو جہاں چاہو لگاتے رہو مگر محبت پہلے محبوب کی ہی ہوا کرتی ہے۔‘‘
وَكَمْ مَنْزِلٍ فِي الْأَرْضِ يَأْلَفُهُ الْفَتَى
وَحَنِيْنُهُ أَبَدًا لِأَوَّلِ مَنْزَلِ
’’کتنے ہی مقامات سے انسان مانوس ہوتا ہے مگر دل میں لگن ہمیشہ پہلی منزل کے لیے ہی ہوتی ہے ۔‘‘
اور جیسا کہ ایک اردو کا شاعر کہتا ہے:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
تو اجنبی وہ ہوتا ہے جو انجان ہو، نا آشنا ہو، جس سے لوگ مانوس نہ ہوں۔
اسی طرح مسافر وہ ہے جو کسی منزل کی طرف رواں دواں ، راستوں کو ماپتا جائے۔ یعنی اجنبی اور پرویسی تو وہ ہے جو کچھ دنوں یا کچھ عرصے کے لیے پردیس میں ٹھہر گیا ہو، مگر مسافر وہ جو مسلسل چلتا رہا ہو، وہاں کچھ دیر سستانے کے لیے کہیں ٹھہر جائے۔ اگرچہ پردیسی اور مسافر کے الفاظ مترادف الفاظ کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں، تاہم جہاں آپ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ا للہ تعالی عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے ایک پردیسی یا مسافر کی سی زندگی گزار نے کا فرمایا، وہاں اپنے لیے بھی دنیا کے ساتھ کم سے کم تعلق والا طرز زندگی ہی اختیار فرمایا جیسا کہ ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
((مَالِي وَلِلدُّنْيَا)) ’’میرا دنیا سے کیا لینا دینا۔‘‘
((إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَل الدُّنْيَا كَرَاكِبٍ قَالَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ فِي يَوْمِ صَائِفٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا))(مسند احمد: ج:1، ص:441)
’’ میری اور دنیا کی مثال تو ایسے ہے، جیسے گرم دن میں کوئی مسافر لمحہ بھر کو کسی پیا کی چھاؤں میں ستانے کے لیے رک جائے پھر اٹھے اور چل دے‘‘
مسافر گرمی میں آرام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ بھلا کتنا قیام کرے گا ؟
بس یہی کچھ گھنٹہ دو گھنٹہ اور پھر سفر پر روانہ ہو جائے گا ۔ آپ ﷺ نے مسافر کی تشبیہ کو اپنے لیے پسند فرمایا جس کا دنیا سے سب سے کم تعلق خاطر بنتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ کی نصیحت کو کس طرح سمجھا اور ان پر کیا اثر ہوا؟ حدیث میں ہے کہ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کچھ فرمایا کرتے تھے۔
((إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنتَظِرِ الصَّبَاحَ))
’’جب تم پر شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو۔‘‘
((وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاء))
’’اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرو۔‘‘
((وخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمِرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ))(بخاری:6416)
’’اپنے صحت و تندرستی کے ایام میں سے، اپنی بیماری کے لیے کچھ پس انداز کرو۔ اپنی زندگی کی مہلت میں اپنی موت کے لیے تیاری کرو ۔‘‘
یعنی آدمی سدا تندرست رہتا ہے نہ ہمیشہ زندہ ، بیماری کے ایام میں عمل کی ہمت نہیں رہتی، اور موت واقع ہونے سے تو امید بھی ختم ہو جاتی ہے، پھر حسرت و افسوس کے سوا کچھ باقی نہیں پاتا، اس لیے صحت و تندرستی کو اور زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے کچھ نیک عمل کر لو۔
دنیا میں غربت یعنی اجنبیت ایک تو خالصتاً دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ لوگ رزق کی تلاش میں، علاج معالجے کے لیے، کاروبار کے لیے یا دیگر ضروریات کے لیے سفر کرتے ہیں، دیار غیر میں عارضی سکونت اختیار کرتے ہیں ۔
اور دوسرا اجنبیت دنیا سے بے رغبتی، فکر آخرت اور زہد و تقوی کے حوالے سے ہے، کہ جو آدمی حقیقت شناس ہے وہ اس مسافر خانے میں مسافروں کی سی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے اس کی رونقوں اور رعنائیوں میں مگن نہیں ہوتا اس کی بھول بھلیوں میں کھو نہیں جاتا بلکہ حقیقی منزل پر نظر رکھتا ہے۔
اور تیسرا غربت احکام دین کی تعمیل اور تمسک بالدین کے حوالے سے ہے، آج کی گفتگو میں ہم اسی غربت سے متعلق بات کرنا چاہیں گے۔ یہ وہ غربت اور اجنبیت ہے، جس کی آپ ﷺ نےپشین گوئی فرما رکھی ہے، اور یہ مطلوب وممدوح ہے حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيْبًا وَسَيَعُوْدُ كَمَا بَدَأَ فَطُوبٰى لِلْغُرَبَاء))
’’اسلام ابتدا میں غریب واجنبی تھا، اور عنقریب پھر سے اجنبی ہو جائے گا، پس بشارت ہو غرباء کے لیے ۔

((قِیْلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللهِ))
’’دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ غرباء کون ہیں ؟‘‘
((قالَ: الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ،))( مسند احمد، ج:1، ص:73، رقم: 16736)
(( وفي حديثٍ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ سُنَّتِي)) (ترمذی:2630)
’’فرمایا: وہ لوگ جو اصلاح کرتے ہیں جب لوگ فساد میں مبتلا ہو جائیں، اور ایک حدیث میں ہے کہ وہ لوگ جو اصلاح کرتے ہیں جب لوگ میری سنت میں فساد برپا کر دیں ۔‘‘
ان حدیث بیان ہونے والے بہت سے فوائد میں سے چند نمایاں باتیں یہ ہیں کہ
1۔ اسلام اپنے ابتدائی ایام میں غریب اور اجنبی تھا۔
2۔ قیامت کے قریب اسلام کو ماننے والے پھر سے اجنبی نظر آئیں گے۔
3۔ اور غربا کی صفت یہ ہے کہ وہ فساد اور بگاڑ کے دور میں خود بھی سنت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں گے اور دوسروں کی بھی اصلاح کریں گے۔
4۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ یہ آپ ﷺ کی پیشین گوئی ہے اور ایسا ہو کر رہنے والا ہے۔
5۔ پانچویں بات یہ کہ ایسے دور میں اتباع سنت کرنے والوں کو بہت بڑے انعام سے نو ازا گیا ہے۔
لفظ غریب کا معنی جان لینے کے بعد کہ غریب کا معنی اجنبی ہے، اور ابتدا میں اسلام اجنبی تھا، اس کے ماننے والے غرباء تھے، اجنبی تھے، یعنی لوگ اس سے ناواقف اور نامانوس تھے اور اس کو ماننے والے اک قلیل تعداد میں تھے۔ کسی کو شک نہیں رہ جاتا کہ اسلام ابتدا میں اجنبی تھا، اور اس اجنبیت کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس دور میں اسلام قبول کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا نہایت مشکل تھا۔
چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اپنے ابتدائی غربت کے ایام میں نہایت دشوار گزار مراحل سے گزرا، بالآخر شجرِ اسلام کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں حتی کہ غالب آ گیا۔ اس دور کے غرباء کی مثال قرآن پاک میں یوں بیان کی گئی ہے کہ
﴿ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ؕ﴾(الفتح:29)
’’ان کی مثال تو رات اور انجیل میں یوں دی گئی ہے گویا ایک کھیتی ہے، جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی، کا شتکار کو خوشنما لکی تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔‘‘
اس حدیث میں دوسری اہم بات جو ہمارے آج کے موضوع سے متعلق ہے وہ یہ کہ یہ دور غربت ثانیہ کا ہے کہ جس کی حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے۔
((وَسَيَعُوْدُ كَمَا بَدَأَ))
’’اور عنقریب اسلام پھر سے اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ ابتدا میں تھا۔‘‘
تو کیا آج کا دور غربت ثانیہ کا ہے؟
آج اسلام اجنبی تویقینًا ہے اگر چہ ہر لحاظ سے غربت اولٰی سے مماثلت نہ سہی مگر بہت سے پہلوؤں سے غربت ثانیہ ہی ہے۔ یوں تو کئی لحاظ سے آج کا دور غربت اور اجنبیت کا دور ہے مگر جو اس کا ایک افسوسناک پہلو ہے وہ یہ کہ آج اسلام اور مسلمان خود مسلمانوں کے اجنبی ہیں۔ قرآن اور حدیث کی کوئی بات کی جائے، اصلاح کی بات کی جائے تو اسلام کو اور علمائے اسلام کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے مزاج اور اپنی پسند کےخلاف قرآن وحدیث بھی سنتا گوارا نہیں کرتے ۔ آج اسلام اجنبی ہے تو عقائد کے لحاظ سے اجنبی ہے، شرک اور بدعت کا دور دورہ ہے جبکہ سنت کی اتباع کرنے والے خال خال نظر آتے ہیں۔
اسلام، احکام ِاسلام کی تعمیل کے اعتبار سے اجنبی ہے، ہر طرف بے دینی اور سنت کی مخالفت ہے، سنت کی پیروی کرنے والے چیدہ چیدہ نظر آتے ہیں اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اسلام اخلاق و آداب کے حوالے سے اجنبی ہے کہ اسلامی اقدار کی بجائے لوگوں نے اپنے طریقے وضع کر رکھے ہیں اور اسلامی اقدار پر عمل کرنے والوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔ اسلام ثقافت کے لحاظ سے اجنبی ہے کہ اسلامی ثقافت کو پس پشت ڈال کر یہود و ہنود کی ثقافت کو اپنا رکھا ہے اور اس پر فخر کیا جاتا ہے اور اسلامی ممالک میں سر عام اس کا مظاہرہ کیا کیا جاتا اور ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کی اصلاح کی بات کی جائے تو مخالفت میں پورا معاشرہ امڈ آتا ہے۔
اور سب سے بڑی یہ کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کی بات کی جائے تو کھلے عام رد کر دیا جاتا ہے اور کھل کر مخالفت کی جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر اجنبیت کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر فساد کیا ہوگا ؟
اس دور میں اسلام کی اجنبیت کا اندازہ اس بات سے لگا یئے کہ صحیح اور غلط کا اور اچھے اور برے کا معیار ہی مسلمانوں کے ہاں الٹ گیا ہے کہ کسی ایسے مرد کو یا کسی ایسی عورت کو اسلامی ملک کا سربراہ بنانا پسند کرتے ہیں جن کی بے غیرتی اور بے حیائی کے چرچے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوں اور ہر شخص دیکھ سکتا ہو۔ اب بھی اگر سمجھا جائے کہ دنیا میں فساد نہیں ہے تو پھر نہ جانے فساد کس کو کہتے ہیں۔
اور آخری بات کہ اس حدیث میں جو ایسے فساد کے دور میں سنت پر کار بند رہنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے تو وہ اس لیے کہ سنت پر عمل پیرا ہونا نہایت مشکل ہے۔
غربت اور اجنبیت کے بارے میں ایک بات ملحوظ رکھیے کہ اس اجنبیت کا مطلب یہ نہیں کہ پوری دنیا میں ہر جگہ یہی حال ہوگا، بلکہ ہر دور اور ہر علاقے کے حساب سے ہے کہ کسی ایک علاقہ میں ہے اور کسی میں نہیں ہے۔
مثلا کئی ایک اسلامی ممالک میں دیندار ہونا ایک بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کی ظاہری علامات میں سے ایک داڑھی رکھنا اور دوسرا مسجد میں جا کر نماز پڑ ھنا۔ خفیہ ادارے ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں، پاکستان میں تو حالات ابھی تک اس نہج پر نہیں پہنچے مگر کچھ بعید بھی نہیں کہ مستقبل میں ایسا ہو جائے اللہ تعالی محفوظ فرمائے۔
اور چونکہ غربت کے دور میں دین پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اس لیے اس کا اجر بھی بہت حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ مِن وَرَائِكُم أَيَّامَ الصَّبْرِ، اَلصَّبْرُ فِيْهِنَّ كَقَبْضٍ عَلٰى الجَمْرِ))
’’بے شک تمہارے بعد صبر کے ن آنے والے ہیں ، ان دنوں میں صبر کرنا ایسے ہوگا جیسے آگ کا انگارہ مٹھی میں لینا ہے ۔‘‘
((لِلْعَامِلِ فِيْهَا أَجْرُ خَمْسِيْنَ))
’’ان ایام میں عمل کرنے والے کو پچاس عاملوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
((قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَجْرٌ خَمْسِينَ مِنْهُمْ أَوْ خَمْسِينَ مِنَّا))
’’صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ان لوگوں میں سے پچاس عاملوں کا ثواب ہوگا یا ہم میں سے پچاس عاملوں کا ثواب ہوگا؟‘‘
((قال: خمسون مِنْكُم)) .(المعجم الكبير للطبراني:10394)
’’آپﷺ نے فرمایا: تمہارے پچاس عاملوں کے برابر ۔‘‘
تو اجنبیت کے دور میں اور صبر کے زمانے میں دین پر کار بند رہنایقینًا دشوار ہے، اور ایسا دشوار ہے جیسا کہ آپ نے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ((كَقَبْضِ عَلَى الَجَمْرِ)) ’’ جیسا انگارے کو پکڑنا ہے۔‘‘ مگر اس کا اجر بہت بڑا ہے، اتنا بڑا کہ پچاس صحابہ کرام کے اجر کے برابر، اور صحابہ کرام کا اجر کتنا بڑا ہے ہمارے اجر کی نسبت سے حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أَحَدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مِنْ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَه)) (بخاری: 3673)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احمد پہاڑ کے برابر اللہ کی راہ میں سونا خرچ کرے تو ان کے ۔ یعنی صحابہ کے۔ چلو بھر یا آدھے چلو کے برابر خرچ کیے گئے مال کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
اندازہ کریں کسی نیکی پر ہمارے اجر اور ان کے اجر میں کتنا فرق ہے۔ مگر ان خصوصی حالات میں ہمیں اتنا بڑا اجر دیا جا رہا ہے اور وہ بھی ایک صحابی نہیں بلکہ پچاس صحابہ کرام کے اجر کے برابر، لہٰذا ہمیں یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، اور سنتوں کی اتباع کرتے ہوئے اس سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
……………