علامات قیامت اور فتنوں کی شدت

﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝﴾(انفال:25)
کسی بھی باشعور انسان پر مخفی نہیں کہ آج لوگ جس دور سے گزر رہے ہیں بالخصوص مسلمان، یہ اک نہایت ہی کٹھن دور ہے۔ ہر طرف لڑائی جھگڑا قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، بے حیائی عریانی، فحاشی، ظلم و جور، بدامنی ، دھوکہ دہی، بد عبدی، خیانت، جھوٹ، خود غرضی، بد اخلاقیاں، برائیاں اور بداعمالیاں عروج پر ہیں اور مسلمان تو بالخصوص ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔
اس کے اسباب و علل پر غور کرنے کے بعد جہاں ایک طرف یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے۔
یوں تو فتنے اور آزمائشیں شروع ہی سے انسان کے ساتھ ساتھ ہیں، مگر قرب قیامت کے دور کو بالخصوص فتنوں کا دور قرار دیا گیا ہے، قیامت کب آئے گی ! اس کا علم تو اللہ تعالی نے کسی کونہیں دیا، البتہ اس کی علامات ضرور بتلائی ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے بہت کی علامات ِقیامت کی پیش گوئی فرمائی ہے۔ ان میں سے کچھ علامات، علامات صغری کہلاتی ہیں اور کچھ دوسری علامات کبری۔
قیامت کی چھوٹی اور بڑی نشانیوں میں فرق یہ ہے کہ چھوٹی نشانیاں قیامت سے ایک لمبا عرصہ پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں بلکہ شروع ہو چکی ہیں، اور یہ کہ وہ نشانیاں عموماً علاقائی ہوتی ہیں، یعنی وہ نشانیاں ممکن ہے کسی ایک علاقے اور کسی ایک قوم میں پائی جائیں اور دوسری میں نہ پائی جائیں، جیسا کہ ایک نشانی یہ ہے کہ تجارت کا عام ہونا ، آپﷺ نے فرمایا:
((بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تَسْلِيمُ الْخَاصَّةِ، وَتَفْشُوا التِّجَارَةُ حَتَّى تعِينَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا عَلَى التِّجَارَةِ وَتُقْطَعُ الأَرْحَامُ))(مسند احمد ، ج :7، ص:89)
’’قیامت سے پہلے سلام صرف جان پہچان والوں سے کیا جائے گا، تجارت اس قدر عام ہوگی کہ عورت اپنے خاوند کی تجارت میں معاونت کرے گی اور قطع رحمی عام ہو جائے گی ۔‘‘
اب بعض علاقوں میں تو تجارت کا یہی حال ہے کہ عورتیں کا روبار میں اپنے خاوندوں کا ہاتھ بناتی ہیں، مگر ہر جگہ یہ صورت حال نہیں ہے۔
اور ایک نشانی یہ ہے کہ:
((يَقِلُّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرُ النِّسَاءُ حَتّٰى يَكُونَ لِخَمْسِينَ إِمْرَأَةُ القَيِّمُ الوَاحِدُ)) (بخاري:5231)
’’مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی حتی کہ پچاس پچاس عورتوں کے لیے فیملی میں ایک مرد نگران ہوگا۔‘‘
اب یہ نشانی بھی ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہی ہو، بعض جگہوں پر مرد بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ تو چھوٹی نشانیاں عموماً علاقائی ہوتی ہیں اور دوسرا فرق یہ ہے کہ چھوٹی نشانیوں کی ترتیب نہیں بتائی جا سکتی کہ پہلے فلاں نشانی واقع ہوگی ، پھر فلاں اور پھر فلاں ، جبکہ بڑی نشانیاں ایک تو قیامت کے بالکل قریب قریب ظاہر ہوں گی یعنی ان کے جلد ہی بعد قیامت قائم ہو جائے گی، اور دوسرے یہ کہ وہ ہر قوم اور ہر علاقے میں محسوس کی جائیں گی اور تیسرے یہ کہ ان کی ترتیب بیان کی جاسکتی ہے، جیسا کہ احادیث میں واضح ہوتا ہے۔
مثلا: بڑی نشانیوں میں سے چند یہ ہیں کہ پہلے مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا، پھر دجال ظاہر ہوگا، پھر عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے، پھر یاجوج ماجوج ظاہر ہوں گے، پھر سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا ، پھر دابۃ الارض (زمین کا جانور ) ظاہر ہوگا اور آخر میں یمن کی طرف سے آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کر ملک شام کی طرف لے جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((سَتَخْرُجُ نَارٌ مِنْ حَضْرَ مَوْتَ أَوْ مِنْ نَحْو بَحْرٍ حَضْرَمَوْتَ قبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ تَحْشُرُ النَّاسِ))
’’فرمایا: قیامت سے پہلے حضر موت یا سحر حضر موت کی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو جمع کرے گی ۔‘‘
((قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنَا))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: اس وقت کے لیے آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟‘‘
((فَقَالَ عَلَيْكُمْ بِالشَّام)) (صحيح الترمذي:2217)
’’فرمایا تم شام میں رہائش اختیار کرنا ۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو ہانکتی ہوئی شام کی طرف لے جائے گی، لوگ راستے میں ستانے کے لیے جہاں کہیں رکھیں گے وہ بھی ان کے ساتھ ہی رک جائے گی،
((تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا))
’’جہاں لوگ ستانے اور قیلولہ کرنے کے لیے رکیں گے وہ بھی ان کے ساتھ رک جائے گی اور جہاں رات گزارنے کے لیے رکھیں گے ان کے ساتھ وہ بھی رک جائے گی ۔‘‘
((وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوا))(بخاري:6522)
’’ جہاں وہ صبح کریں گے وہاں وہ بھی صبح کرے گی اور جہاں وہ رات کریں گے وہاں دو بھی رات کرے گی ۔‘‘
تو بڑی نشانیوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی، اور بڑی نشانیاں کسی ایک علاقے کے لیے خاص نہیں ہوں گی۔ بلکہ ساری دنیا پر ان کا اثر ہوگا اور تمام لوگ اسے محسوس کر سکیں گے۔ جیسے سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا، بھلا کس کو پتا نہیں چلے گا؟ یقینًا سب کو معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح دجال کا نکلنا بھی کسی پر پوشیدہ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں دجال نہ جائے سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ))
’’کوئی شہر ایسا نہیں جس میں دجال داخل نہ ہو سوائے مکہ اور مدینہ کے۔‘‘
((لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُوْنَهَا)) (بخاري:1881)
’’مکہ اور مدینہ کے راستوں پر فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اور ان دونوں شہروں کی حفاظت کریں گے۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ بڑی نشانیاں ظاہر ہوں گی تو پوری دنیا ان کی لپیٹ میں ہوگی۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ قیامت کی نشانیاں شروع ہو چکی ہیں مگر شاید اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ سب سے پہلی نشانی کون سی تھی۔
تو قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلے نشانی آپﷺ کی بعثت ہے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ)) (بخاري:6504)
’’میری بعثت اور قیامت اس طرح قریب ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں، آپﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو بلند کرتے ہوئے فرمایا ۔‘‘
اسی طرح آپ ﷺکی وفات بھی اک نشانی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عوف ابن مالک الا شجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ﷺنے مجھے فرمایا:
((يَاعُوْفُ احْفَظُ خِلَالًا سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ))
’’اے عوف ! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں یاد رکھنا۔‘‘
((إِحْدَاهُنَّ مَوْتِي)) (ابن ماجة:4042)
’’جن میں سے ایک میری وفات ہے۔‘‘
تو آپﷺ کی بعثت اور وفات قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانیاں ہیں۔ قیامت کی نشانیاں احادیث میں کثرت سے اور بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں، جس بدیہی اور منطقی مطلب یہی ہے کہ قیامت کا دن ایک بہت ہی اہم دن ہے، اگر چہ اس کی کا اہمیت الگ سے بھی قرآن و حدیث میں بہت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔
دوسری بات ان نشانیوں کے بیان کرنے کے مقصد کے حوالے سے یہ ہے کہ ان نشانیوں کے ظاہر ہونے سے انسان کی زندگی میں جو نشیب و فراز آئیں گے، ایمان کو جو خطرات لاحق ہوں گے تو ان سے کیسے نمٹنا ہے، اس سے خبردار کیا گیا ہے۔ پہلے ذرا ان حالات و واقعات کی اور ان نشانیوں کی شدت معلوم کرتے ہیں کہ جن کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
((عَنْ أَسَامَةَ بْن زَيْدٍ رضی الله تعالی عنهمَا قَالَ أَشْرَفَ النَّبِيُّ عَلٰى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى قَالُوا لَا قَالَ فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَن تَقع خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقع القَطَرِ)) (بخاري:7060)
’’ایک روز آپ ﷺمدینہ منورو کے محلات میں سے ایک ٹیلے پر چڑ ھے. فرمایا: کیا تم لوگ بھی وہ کچھ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں ، صحابہ نے عرض کیا، نہیں، تو فرمایا: میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں۔‘‘
ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلَاءٌ وَفِتْنَةٌ))
’’دنیا میں سوائے مصیبتوں اور فتنوں کے کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘
اور ایک حدیث میں دن بدن فتنوں کی بدلتی ہوئی صورت حال کے بارے میں ہے:
((عَنِ الزبير بن عَدِى قَالَ أَتَيْنَا أَنسَ بْنَ مَالِكِ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا تلْقَى مِنَ الْحَجاج))
’’حضرت زبیر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، ہم انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حجاج کی طرف سے آنے والی مصیبتوں کی شکایت کی ۔‘‘
((فَقَالَ اصْبِرُوا فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِّنْهُ حَتّٰى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسّلَّمَ)) (بخاري:7068)
’’تو فرمایا: صبر کر و،تم پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر ہوگا، حتی تم اپنے رب سے جاملو، میں نے یہ بات تمہارے نبی اکرم ﷺسے سنی ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے:
((عَنْ أَبِي هُرَيرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ)) (بخاري:7115)
’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: کاش اس کی جگہ میں ہوتا ۔‘‘
اور ایسے ہی ایک اور حدیث میں ہے:
((أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفُهُ وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَاً أَوْ مَعَاذَا فَلْيَعُدْ بِهِ)) (بخاري:3601)
’’عنقریب ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ بیٹا ہوا شخص کھڑے ہوئے سے بہتر ہوگا۔ کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو شخص دور سے بھی ان فتنوں کی طرف جھانکے گا وہ ان میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس وقت جو شخص جہاں کہیں ٹھکانہ یا پناہ کی جگہ پائے ، پناہ لے لے ۔‘‘
اور فتنوں کی شدت کس قدر خوفناک ہوگی آپ اس حدیث سے اندازہ کر سکتے ہیں، حدیث میں ہے:
((عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَتَمَنَّونَ فِيهِ الدَّجَّالَ ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي وَأُمِّي مِمَّ ذَاكَ قَالَ: مِمَّا يَلْقُونَ مِنَ الْعَنَاءِ وَالعَنَاءِ))(المعجم الأوسط:3310/4)
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا، لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ دجال کے آنے کی تمنا کرنے لگیں گے۔ حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ، ایسا کیوں ہوگا؟ فرمایا، فتنوں کی سختی اور تنگی کی وجہ سے ایسا ہوگا۔‘‘
ان احادیث سے ہم نے فتنوں کی شدت معلوم کی اور یہ بھی جانا کہ فتنوں سے کسی طرح اور کسی قدر دور رہتا ہے۔ فتنوں کے بارے میں آپ نے بھی یقینًا پہلے بہت کچھ سنا ہوگا اور بہت کچھ جانتے ہوں گے اور اور بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے مختلف ذرائع سے بہت کی احادیث سن رکھی ہوں گی لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ وہ فتنے میں جتلا ہے یا ہو سکتا ہے ، اصل بات یہ ہے کہ سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے فتنے کو سمجھنے کا کہ کون سا معاملہ فتنہ ہے اور کون سا نہیں، اور یہ جانتا قرآن وحدیث کے علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی دیندار شخص جو دین کا کچھ علم رکھتا ہو فتنے میں مبتلا نہیں ہو سکتا، کیونکہ دیندار ہونا الگ بات ہے اور قرآن و حدیث کا اتنا علم ہوتا کہ وہ فتنے کی پہچان کر سکے، دوسری بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فتنہ ایک ایسی ابتلا اور ایسا امتحان ہے کہ جب آتا ہے تو عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے دانشور اس کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں ، حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((تَكُونُ فِتْنَةٌ تَعْرُجُ فِيهَا عُقُولُ الرِّجَالِ))
’’ایسا فتنہ آئے گا کہ لوگوں کی عقلیں اُڑ جائیں گی۔‘‘
((حَتَّى مَا تَكَادُ تَرَى رَجُلًا عَاقِلًا))
(رواه نعيم في الفتن:2/62- رقم:107)
’’حتی کہ کوئی آدمی بھی عقلمند نظر نہیں آئے گا ۔‘‘
اور بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ:
((ومن طَبَائِعِ الفِتَنِ))
’’اور فتنوں کی ایک نیچر ہے کہ‘‘
(أَنَّهَا مَتٰى وَقَعَتْ فَإِنَّهَا سَرْعَانَ مَا تَتَطَوَّر))
’’جونہی شروع ہوتا ہے فورًا پھیل جاتا ہے۔‘‘
(وَتَخْرُجُ عَنْ حُدُودِ السَّيْطَرَةِ))
’’اور قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔‘‘
((حَتَّى إِنَّهَا لَتَسْتَعْصِي عَلَى مِنْ أَشْعَلُوهَا إِنْ حَاوَلُوا إِطْفَاءَ هَا)) (بصائر في الفتن ، ص:19)
’’حتی کہ جنہوں نے وہ فتنہ شروع کیا ہوتا ہے اسے روکنا ان کے بس میں بھی نہیں رہتا، اگر رو کنا بھی چاہیں تو نہیں روک سکتے۔“
اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
((وَالْفِتْنَةُ إِذَا وَقَعَتْ عَجَزَ الْعُقَلَاءُ فِيهَا عَنْ دَفْعِ السُّفَهَاءِ))(منهاج السنة النبوية: 343/4)
’’فتنہ جب واقع ہو جائے تو بڑے بڑے عقلمند بھی نادانوں کو روکنے سے عاجز آجاتے ہیں۔‘‘
اور فتنوں کی ایک نیچر یہ بھی ہے کہ وہ جب شروع ہوتے ہیں تو پھر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ﴾ (الانفال:25)
’’بچو اس فتنے سے کہ جس کی شامت صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہتی ۔‘‘
اور فتنوں کو سمجھنا کتنا مشکل ہے اس سے اندازہ کیجئے کہ آپﷺ نے فتنوں کو تاریک رات کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی ۔
((تَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ))(ترمذي:2197)
’’قیامت سے پہلے تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند فتنے ظاہر ہوں گے۔‘‘
اندازہ کریں، ایک طرف رات اور اوپر سے تاریک، کچھ راتیں روشن ہوتی ہیں ان میں موٹی موٹی چیزیں کم از کم نظر آہی جاتی ہیں، مگر تاریک رات میں تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اگر آدمی کے پاس روشنی نہ ہو تو ۔
چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَا تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ مَا عَرَفْتَ دِينَكَ، إِنَّمَا الْفِتْنَةُ إِذَا اشْتَبَهَ عَلَيْكَ الْحَقُّ وَالْبَاطِلُ)) (مصنف ابن أبي شيبة:468/7)
’’جب تک تمہیں دین کی معرفت حاصل ہے، دین کا علم رکھتے ہو فتہ تمہیں نقصان نہیں دے گا ، فتنہ وہاں نقصان دیتا ہے، جہاں تم پر حق اور باطل مشتبہ ہو جائے ۔‘‘
فتنے کے دور میں کسی قدر اجتناب اور اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے، شاید لوگوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے، فتنے سے بچنے کا مطلب عملی طور پر فتنے سے دور رہنا ہی نہیں بلکہ ایک ایک لفظ سوچی سمجھ کر اور احتیاط سے بولنے کی ضرورت ہوتی ہے، فتنے کے دور میں کبھی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ تلوار کی دھار سے بھی زیادہ کاٹ رکھتا ہے۔ بالخصوص کسی ذمہ دار آدمی کا کوئی بیان، کوئی تقریر، کوئی بات کوئی جملہ اور کوئی ایک لفظ بھی بہت بڑے فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔ آج ہمارے ہاں تو آزادی اظہار رائے کے نام سے جو کوئی جس قد ر فتنہ پیدا کر سکتا ہے، کرتا ہے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔
((حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَائَيْنِ))
’’میں نے آپ ﷺسے دوبا تمہیں یاد کیں ۔‘‘
((فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ))
’’ان میں سے ایک تو میں نے بتادی۔‘‘
((وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هٰذَا الْبُلْعُومُ)) (بخاري:120)
’’مگر دوسری بات اگر میں ظاہر کر دوں تو یہ گردن کٹ جائے ۔‘‘
مطلب یہ کہ فتنے کے ڈر سے خاموشی اختیار کی، مگر آج لوگ اس معاملے میں بڑی ہے احتیاط سے کام لیتے ہیں اور یہ کہ کر اپنے لیے جواز کا پہلو نکال لیتے ہیں کہ جی ہم تو اپنا حق مانگ رہے ہیں، یا ہم تو حق کی بات کر رہے ہیں اور اس کو قطعا فتنہ نہیں سمجھتے۔
اسی طرح دنیا میں جاہ و منصب کے حصول سے بالخصوص فتنوں کے دور میں اجتناب کے حوالے سے رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا:
((عَنْ أَسَيدِ بْنِ حُضَيْرٍ رَضِي اللهُ عَنْهُْ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْتَعْمَلْتَ فُلَانًا وَلَمْ تَسْتَعْمِلْنِي))
’’ایک شخص آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول سلام آپ ﷺنے فلاں شخص کو عامل مقرر فرمایا ہے اور مجھے مقرر نہیں فرمایا۔‘‘
((فَقَالَ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِى أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي))(بخاري:7057)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: میرے بعد تم دیکھو گے کہ ترجیح دی جائے گی ( کسی کو ، کسی دوسرے پر ) پس صبر کر دیتی کہ تم مجھ سے آملو ۔‘‘
اسی طرح فتنوں سے بچنے کے لیے احادیث میں اپنے حقوق کو نظر انداز کرنے ، اپنی حق تعلقی پر خاموش رہنے اور ظلم و زیادتی پر صبر کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جیسا کہ حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَاىَ ولا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي وسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانَ إِنْسٍ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ قَالَ تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِدَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ))(مسلم:1847)
’’میرے بعد کچھ ایسے حکمران آئیں گے جو میری ہدایت پر نہیں چلیں گے، میری سنت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے، اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے ، اور بدن انسانوں جیسے ہوں گے ، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس میں کیا کروں ، تو آپﷺ نے فرمایا: تو حاکم وقت کی بات سننا اور فرمانبرداری کرتا ، اگر چہ تمھاری پشت پر پیٹا جائے ، تمھارا مال چھین لیا جائے ، اس کی بات سننا اور حکم مانتا ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………