الدِّينُ النَّصِيحَةُ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ۝۸۵ وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا ۚ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۪ وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۝۸۶ وَ اِنْ كَانَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىِٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ۝۸۷ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫۝۸۸ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَا ؕ وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ؕ عَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ؕ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۝﴾ (اعراف: 85 تا 89)
’’اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! تم خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ تو تم ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا ان چیزوں میں سے نقصان مت کیا کرو اور روئے زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساومت پھیلاو۔ یہ تمہارے لئے نفع بخش ہے اگر تم تصدیق کرو اور تم سڑکوں پر اس غرض سے نہ بیٹھا کرو کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ تعالی کی راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو۔ اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم کم تھے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زیادہ کر دیا۔ اور دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسے ہوا۔ اگر تم میں سے بعضے اس حکم پر جس کو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے ایمان لے آئیں اور بعضے ایمان نہ لا ئیں تو ٹھہر جاؤ کہ ہمارے درمیان میں اللہ تعالی فیصلہ کئے دیتے ہیں اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں آ جاؤ۔ شعیب علائقے نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آ جائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالی نے ہم کو اس سے نجات دی ہے ہم سے ممکن نہیں کہ پھر ہم تمہارے مذہب میں آ جائیں مگر یہ کہ اللہ تعالی نے جو کہ مالک ہے مقدر کیا ہو ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں اسے ہمارے پروردگارا ہمارے اور قوم کے درمیان فیصلہ کردیجئے حق کے موافق۔ آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘
اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا۔ اگر تم شعیب کی راہ پر چلنے لگو گے تو بہت نقصان اٹھاؤ، اور انکو زلزلے نے آپکڑا۔ اور وہ سب گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے کہ ان گھروں میں کبھی بے ہی نہ تھے اس وقت شعیب ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! تم کو میں نے پروردگار کے احکام پہنچادیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں۔
ان آیتوں میں حضرت شعیب علیہ السلام نے نہایت عمدہ نصیحت فرمائی جیسا کہ فرمایا: ﴿وَنَصَحْتُ لَكُمْ﴾
’’میں نے تم کو نصیحت کر دی ہے۔‘‘
اسی طرح ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو نصیحت کی ہے۔ اس صورت میں اور نبیوں کا ذکر خیر ہے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی تقریر کے آخر پر فرمایا:
﴿وَانْصَحُ لَكُمْ﴾
’’میں نے تم کو نصیحت کر دی ہے۔‘‘
در اصل یہی نصیحت دین ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(عَنْ تَمِيمِ الدَّارِي رضی اللہ تعالی عنہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ)[1]
’’دین خیر خواہی ہے آپﷺ نے یہ جملہ تین دفعہ فرمایا ہم نے عرض کیا کہ کس کے لئے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے، ائمہ کیلئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔
نصیحت کے لئے معنی اخلاص اور بھلائی کے ہیں لمعات شرح مشکوۃ میں اس کے تحت یہ لکھا ہے۔ نصیحت کے معنی خلوص کے ہیں اور خالص شہد کو ناصح کہتے ہیں اور ہر چیز جو خالص ہوتی ہے نصیحت ہوتی ہے یہاں خیر خواہی اور بھلائی چاہنا مراد ہے محاورے میں کہا جاتا ہے میں نے اس کو نصیحت کی اور یہ نصیحت ہر قول و فعل میں جاری ہوتی ہے جس میں دوسرے کی بھلائی مقصود ہو۔ نصیحت و وصیت دونوں کے ایک معنی ہیں۔ مجمع البحار میں نصیحت کے یہی معنی ہیں۔
حدیث شریف کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے نصیحت اور اخلاص اس میں ہے کہ اللہ کو ایک اور لاشریک سمجھتا اور اس کے وجود و ہستی پر صحیح اعتقاد رکھنا کہ اللہ موجود ہے اور ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ اس کی اطاعت و عبادت، اخلاص نیت کے ساتھ اس کی رضا مندی کے لئے کرنا اور اس کے حقوق کو بجالانا اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جانا، یہ اللہ تعالی کے لئے خیر خواہی ہے۔
اور اللہ تعالی کی کتاب کے لئے خلوص یہ ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالی کا کلام سمجھنا اور اس کی تصدیق کرنا اور جو اللہ تعالی کی کتاب میں ہے اس پر عمل کرنا اور اس کی تلاوت کرنا اور اس کو اپنا دستور العمل بنانا اور اس کے مطابق دین ودنیا کے کاموں کا فیصلہ کرنا اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنا وغیر ہ اللہ تعالی کی کتاب کے لئے نصیحت ہے اور اللہ کے رسول کے لئے خلوص یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو سچے دل سے ان کے رسول ہونے کا اقرار کرنا آپ کی نبوت کو تسلیم کرنا آپ کے اوامر ونواہی کار بند ہونا اور اتباع و فرمانبرداری کرنا ہی رسول کے لئے نصیحت ہے۔
اور مسلمان حاکموں کے لئے اخلاص یہ شریعت پر چلیں اور حق بات کی تلقین کریں، ان کی اطاعت کریں اور ان سے بغاوت نہ کی جائے۔ ان کا خیر خواہ رہنا اور دینی معاملات میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔ ان کی بد خلقی اور ظلم و ستم پر صبر کرنا۔ اور علماء کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ وہ جو حق بات کہیں اور صحیح فتوی دیں تو ان کی باتوں پر عمل کرنا۔ اور انکی عزت واحترام کرنا۔ عام مسلمانوں کے لئے مخلص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دینی دو نیوی اصلاح کرنا ملی وقومی ترقی اور تعلیم و اخلاق، اصلاح تمدن وغیرہ میں کوشش کرنا۔ ان صلی اللہ علیہ و سلم کا بندو بست کرنا۔ ان کے یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کرنا۔ تکلیف دہ چیزوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم، کتاب الإيمان باب ان الدين نصيحة:196)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کو بچانا اور نفع بخش چیزوں سے ان کو آگاہ کرنا اور ہر قسم کی ہمدردی و سلوک سے پیش آنا۔ عام مسلمانوں کے لئے نصیحت ہے۔
حضرت جریر بن عبد اللہ ہی کا بیان فرماتے ہیں کہ:
(بَابَعتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَوَةِ وَ إِیْتَاءِ الزَّكَواةِ وَالنَّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ)[1]
’’یعنی رسول اللہﷺ سے میں نے بیعت کی نماز کے قائم کرنے پر، زکوۃ دینے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر۔
یعنی مجھ سے آپﷺ نے یہ شرط کر لی کہ تم جہاں کہیں بھی رہو ہر ایک مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنا۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی پابندی کی اور زندگی بھر اس پر عمل کرتے رہے جب یہ کسی سے کوئی چیز بیچتے یا خریدتے تو اس نصیحت پر اس کے ساتھ پیش آتے۔
فتح الباری شرح بخاري میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ جب کوئی چیز بیچتے یا خریدتے تو اس سے یہ فرمادیا کرتے تھے کہ جو چیز ہم نے تم سے لی ہے وہ اس چیز سے بہت بہتر ہے جو ہم نے دی ہے اب تم کو اختیار ہے چاہے رکھو چاہے چھوڑ دو۔
طبرانی میں ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام نے تین سو درہم کا ایک گھوڑ ا خریدا۔ انہوں نے جب گھوڑے کو دیکھا تو گھوڑے کے مالک سے آکر فرمایا کہ تمہارا گھوڑا تین سو سے بہتر ہے میں تم کو اس سے زیادہ اتنا اتنا دیتا ہوں از راہ ہمدردی و خیر وخواہی کے قیمت بڑھاتے گئے یہاں تک کہ اس کو آٹھ سو درہم دیئے۔ یہ بڑی ہمدردی اور ایثار ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يُؤْمِنْ أَحَدُ كُمْ حَتَّى يُحِبُّ لِلأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ)[2]
’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ جو اپنے لئے چاہے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی چاہے اور یہ مانی ہوئی بات ہے کہ ہر شخص اپنے لئے بھلائی ہی چاہتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان بھائی کے لئے بھلائی نہ چاہے وہ مسلمان نہیں لہذا نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم کرے اور نہ اس کی برائی چاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الإيمان، باب قول النبيﷺ الدين النصيحة: 57۔
[2] بخاري: کتاب الایمان باب من الإيمان أن يحب لاخيه ما يحب لنفسه:13)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اُنصُر اَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ انْصُرُهُ مَظْلُومًا فَكَيْفَ انصُرُهُ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ فَذَلِكَ نَصْرُكَ إِيَّاهُ)[1]
’’اپنے مسلمان بھائی کی ہر حال میں مدد کر و خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! مظلوم کی امداد کریں گے لیکن ظالم کی امداد ہم کیسے کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو یہی اس کی امداد ہے۔
ایک حدیث میں آپﷺ نے اس طرح فرمایا:
(الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةٍ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حاجته)[2]
’’یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو ظالم کے ہاتھ میں چھوڑے اور جو شخص اپنے بھائی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے میں مصروف ہو تو اللہ تعالی اس کی حاجتیں اور مرادیں برلائے گا۔‘‘
ایک دوسری جگہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْمُسْلِمُ أخو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةٍ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةٌ فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةٌ مِّنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيمَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ)[3]
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرے نہ کسی ظالم کے حوالے کرے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی کرتا ہے۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی عیب پوشی کرے گا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان بھائی کے عیوب کو چھپانا بھی اسلامی حق ہے اگر کوئی مسلمان بھائی کی آبروریزی کر رہا ہے تو حتی الامکان اس کو آبروریزی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
احمد، ترندی، ابوداود کی روایت میں ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب المظالم، باب اعن اخاك ظالما او مظلوما: 2443، 2444)
[2] بخاري: کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه (2442)
[3] مسلم: كتاب البر والصلة باب تحريم الظلم (6578)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(الْمُؤْمِنُ مِرَاَةَ الْمُؤْمِنِ وَ الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ يَكْفُ عَنْهُ ضَيْعَتَهُ وَيَحُوطُهُ مِنْ ورَائِهِ)[1]
’’یعنی ہر مومن اپنے مومن بھائی کے لئے آئینہ ہے اور بھائی ہے اگر اس کے اندر کا عیب دیکھے تو نہایت نرمی سے اس کے عیب کو اس کے سامنے ظاہر کر دے تا کہ وہ اس کی اصلاح کرے۔‘‘
ہر انسانی برادری کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی تو ضروری ہے ہی لیکن بعض لوگوں کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی انسانیت کا جوہر اور شرافت کا رکن اعظم ہے۔ اس میں سے پڑوی اور ہمسایہ ہیں۔ ہمسائی اور پڑوسی وہ رہنے والے دو آدمی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب رہتے دیتے ہیں۔ انسانیت اور اس کے تمدان کے باہمی اشتراک عمل تعاون اور موالات پر قائم ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے، اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے پر حق ہے کہ اپنے کھانے میں سے اس کو بھی کھلائے۔ ایک اگر تندرست ہے تو اپنے بیمار بھائی کی تیمارداری کرے۔ ایک پر اگر کوئی مصیبت آئے تو دوسرا اس کا شریک اور ہمدرد بنے اور اخلاقی نظام کے ساتھ انسانوں کی مجموعی آبادی باہمی محبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کی گرد میں بندھ کر ایک ہو جائے۔ ہر انسان بظاہر جسمانی اور مادی حیثیت سے جتنا ایک دوسرے سے علیحدہ اور بجائے خود مستقل ہے اخلاقی اور روحانیت کی حیثیت سے فرض ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے ملا ہوا ہوں اور ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے پیوستہ ہو۔ اسی لئے ہر مذہب نے ان دونوں انسانوں پر جو ایک دوسرے کے قریب آباد ہوں ایک دوسرے کی محبت اور مدد کی ذمہ داری رکھی ہے کہ وہی وقت پروروں سے پہلے ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ اور ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انسان کو اسی سے تکلیف اور دکھ پہنچنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہے جو ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے باہمی تعلقات خوشگوار رکھنا اور ایک دوسرے کو ملائے رکھنا ایک سچے مذہب کا سب سے بڑا فرض ہے تاکہ برائیوں کا سدباب ہو کر یہ پڑوس دوزخ کے بجائے بہشت کا نمونہ ہو۔
اسلام نے انہیں حکمتوں کو سامنے رکھ کر ہمسائیگی کے حقوق مقرر کئے ہیں عربوں میں دوسری قوموں سے زیادہ اسلام سے پہلے بھی پڑی اور ہمسائیگی کے حقوق نہایت اہم تھے بلکہ عزت وافتخار کے موجب تھے۔ اگر کسی عرب کے پڑوس کے لیے لئے بے عزتی اور عار کا موجب تھا تو اس کے لئے اس کی خاطر لڑنے مرنے کو وہ اپنی شرافت کا نشان سمجھتا تھا۔ اسلام نے آکر عربوں سے اس احساس کو چند ترمیموں اور اصلاحوں کے ساتھ اور زیادہ قوی کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداود: کتاب الادب، باب النصيحة و الحياطة:4918)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس سلسلے کی ان احادیث کو پڑھئے اور سنئے جن میں رسول اللہﷺ نے پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بتائی ہے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو یا اجنبی مسلمان ہو یا کافر۔
حضرت امام بخاري رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الادب المفرد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت فرمایا ہے۔
(قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي فَقَالَ انْطَلِقُ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ فَانْطَلَقَ فَاخْرَجَ مَتَاعَةَ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَقَالُوا مَا شَأْنُكَ قَالَ لِي جَارٌ يُوذِينِي قَدْ ذكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ انطلق فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ فَجَعَلُوا يَقُولُونَ اللَّهُمَّ الْعَنْهُ اللَّهُمَّ أَخْزِهِ فَبَلَغَهُ فَآتَاهُ فَقَالَ ارْجِعُ إِلَى مَنْزِ لِكَ فَوَاللَّهِ لَا أُوذِيكَ)[1]
’’ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی میرا ایک ہمسایہ مجھے تنگ کرتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں رکھ دو اس نے سامان نکال دیا لوگ جمع ہو گئے اور اس سے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا میرا ہمسایہ مجھے تنگ کرتا ہے میں نے نبیﷺ سے عرض کی تھی تو آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں رکھ دو۔ لوگ کہنے لگے یا اللہ اس پر لعنت کر اس کو ذلیل کر اسے معلوم ہوا تو اس کے پاس آ کر کہنے لگا۔ بھائی اپنے گھر واپس جاؤ اللہ کی قسم آئندہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
اور برے پڑوسی سے بچنے کے لئے رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
(اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ يَوْمِ السُّوْءِ وَمِنْ لَيْلَةِ السُّوْءِ وَ مِنْ سَاعَةِ السُّوءَ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوءِ وَمِنْ جَارِ السُّوْءِ فِي دَارِ الْمُقَامَةِ)[2]
’’اے اللہ تعالی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے دن، بری رات، بری گھڑی سے اور برے ساتھی اور برے ہمسایہ ہے۔‘‘
نیک پڑوی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور برا اپڑوسی باعث نحوست ہے آپ ﷺ نے فرمایا:
(اربع مِنَ السَّعَادَةِ الْمَرْءَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ وَ ارْبَعَ مِنَ الشَّقَاءَ الْجَارُ السُّوءُ وَالْمَرْءَةُ السُّوءُ وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ وَالْمُسْكَنُ السُّوءُ.[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب النوم باب حق الجوار: 504/4
[2] طبرانی کبیر: 294 /17
[3] ابن جبان (4021)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار چیزیں نیک بختی کے سبب ہیں (1) نیک بیوی، (2) کشادہ مکان، (3) نیک پڑوسی، (4) اچھی اور فرمانبردار سواری جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موجب نحوست ہیں (1) برا پڑوسی (2) بری بیوی (3) بری سواری (4) تنگ مکان۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُّ ثَلالَةٌ فَقُلْتُ فَمَن هؤلاء الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ رَجُلٌ غَرَا فِي سَبِيلِ الله صَابِرًا مُحْتَسِبًا فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ وَانْتُمْ تَجِدُونَهُ عِنْدَكُمْ في كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ تَلا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَانَهُمْ بنيان مرصوص قُلْتُ وَمَنْ قَالَ رَجُلٌ كَانَ لَهُ جَارُسُوْءٍ يُؤْذِيهِ فَيَصْبِرُ عَلَى آذَاهُ حَتَّى يَلْقَهُ اللَّهُ إِيَّاهُ بِحَيَاةِ أَوْ مَوْتٍ).[1]
’’ اللہ تعالی تین آدمیوں کو دوست رکھتا ہے میں نے عرض کیا کہ وہ تین آدمی خدا کے دوست کون ہیں ؟ جن سے اللہ تعالی دوستی رکھتا ہے آپﷺ نے فرمایا ایک مجاھد فی سبیل اللہ صبر کرنے والا اور ثواب کی نیت سے جہاد کرنے والا ہے یہاں تک کہ دو شہید ہو جائے تم قرآن مجید میں اس آیت کو پاتے ہو کہ اللہ تعالی ان مجاہدین سے محبت کرتا ہے جو صف بندی کر کے اللہ تعالی کے راستے میں لڑتے ہیں گویا و وسیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ اور دوسرا وہ شخص ہے کہ اس کا برا پڑوسی اس کو ستاتا ہو۔ اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرتا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کی تکلیف سے بچالے یا اللہ تبارک تعالی اس کو موت دے دے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک پڑوسی جو اپنے پڑوی کو نہیں ستاتا ہے وہ خدا کا پیارا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(خَيْرُ الأَصْحَابِ عِندَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجاره)[2]
’’اللہ تعالی کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ سب سے بہتر ساتھی ہے جو اپنے ساتھی کے حق میں بہتر ثابت ہو اور پڑوسیوں میں سے اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا ہو۔‘‘
پڑوسیوں میں محبت کی ترقی اور تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں اور تحفوں کا تبادلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبرانی کبیر: 152؍2، مسند احمد:151؍4 ۔
[2] ترمذي: كتاب البر والصلة باب حق الجوار: 129/3.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرت ﷺ خود اپنی بیویوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے اس بنا پر ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ﷺ میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ . اس ہدیہ اور تحفہ کے لئے کسی بیش قیمت چیز ہی کی ضرورت نہیں بلکہ کھانے پینے کی معمولی چیز میں اس کے لئے کافی ہیں۔ کچھ نہ ہو سکے تو گوشت کا شوربا کافی ہے۔ خواہ وہ زیادہ پانی بڑھا کر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ سلیم نے حضرت ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی۔
(إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةٌ فَأَكْثِرْ مَاءَ هَا وَ تَعَاهَدُ حِيْرَانَكَ)[2]
’’جب تم کوئی شور بہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملالو اور اس سے اپنے پڑوی کی خبر گیری کرو۔‘‘
یعنی اس کے یہاں بھی بھیج دیا کرو۔ اسطرح کرنے سے آپس میں میل و محبت زیادہ ہوگی اس قسم کے ہوئے اور تحفہ بھیجنے کا موقع عورتوں کو پیش آتا ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
(وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسَنُ شَاةٍ).[3]
’’کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لئے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگر چہ دینے کے لئے بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔
یہ نصیحت و وصیت دونوں پڑوسیوں کے لئے ہے یعنی نہ تو بھیجنے والی پڑوسن اپنے معمولی تحفے و ہدیے کو حقیر سمجھ کر اپنی پڑوسن اس معمولی ہدیہ کو دیکھ کر منہ نہ پھیرے بلکہ شکریہ کے ساتھ قبول کر لے۔ اسی طرح سے جب کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن سے روز مرہ کی برتنے والی چیز مانگے تو بلا کسی حیلے بہانے کے اگر موجود ہو تو دے دے جیسے آگ، پانی، نمک، چمچہ، چهلنی ہاندی طشتری، رکابی، کٹورا وغیرہ ایسی چیزوں کی بعض مرتبہ ضرورت پیش آجایا کرتی ہے اور نہ دینے کی صورت میں دوسرے کو بڑی تکلیف کہتی ہے۔ قرآن مجید میں ایسی چیزوں کو ماعوان کہا گیا ہے جس کی ممانعت سے روکا گیا ہے اور نہ دینے والوں کی بڑی مذمت بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالی یہ فرمارہا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري كتاب الإجازة باب الى الجوار القرب (2259)
[2] مسلم كتاب البر والصلة باب الوصية بالجار و الاحسان اليه (9988)
[3] بخاري کتاب الادب باب لاتحقرن جارة الجارتها 6017)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿ اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ۝۱ فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ۝۲ وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ۝۳ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ۝۴ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ۝۵ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَۙ۝۶ وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠۝۷﴾
’’کیا آپ نے اس کو دیکھا ہے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتا ہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کی رغبت نہیں دیتا۔ ان نمازوں کے لئے افسوس ہے جو اپنی نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور دکھانے کے لئے ادا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزوں کو روک لیتے ہیں۔‘‘
برتنے کی چیزوں سے مراد، آگ، پانی، ڈور، رسی، کدال، پھاوڑا، اس قسم کی چیزیں ہیں جو مانگنے پر موجود ہوتے ہوئے نہ دے وہ منافق ہے خواہ مرد ہو یا عورت، انسانی معاشرہ اس کا متقاضی ہے کہ اس قسم کی چیز میں فراغ دلی کے ساتھ دی جائیں اگر پڑوسی کو دیوار میں شیخ اور کھونٹی گاڑنے کی ضرورت پیش آجائے اور گاڑنے سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے تو گاڑنے سے نہیں روکنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يَمْنَعُ جَارٌ جَارَہُ أَنْ يَغْرِزَ حَسَنَهُ فِي جِدَارِهِ)[1]
’’یعنی کوئی پڑوسی اپنے ہمسایہ پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے۔‘‘
جس کا مکان مکان سے ملا ہوا ہو۔ اور دیوار، دیوار سے ملی ہو تو ایسی ضرورت پیش آ جایا کرتی ہے اور اس قسم کی ہمدردی کا زیادہ مستحق ہے کیونکہ سب سے زیادہ قریب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا۔
(يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلٰى أَنَّهِمَا اهْدِى قَالَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا)[2]
’’یارسول اللہ ﷺ میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کے یہاں ہدیہ اور تحفہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قریب والے پڑوسی کا زیادہ حق ہے اگر آسودہ پڑوی آسودہ ہو کر کھائے پئے اور غریب و محتاج پڑوسی کی خبر گیری نہ کرے تو وہ کامل مومن نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(لَيْسَ الْمُؤْمِنَ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارَهُ جَائِع)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب المظالم باب لا يمنع جار جاره ان يغرز خشبيه في جدارهِ) (2463)
[2] بخاري: كتاب الاجارة باب اى الجوار اقرب- (2259)
[3] مستدرك حاكم: كتاب البر والصلة باب ليس المؤمن الذي يبيت و جاره ….. 167/4-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی وہ مومن نہیں ہے جو خود آسودہ ہو اور اس کے بغل کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘
پڑوسی خواہ وہ دوست ہو یا دشمن، مسلمان ہو، یا غیر مسلم، سبھی کا برابر کا حق ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا۔
(هَلْ أَهَدَيْتُمْ مِنْهَا لِجَارِنَا الْيَهُودِي قَالُوا لَا قَالَ ابْعَثُوا لَهُ مِنْهَا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولٌ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوْصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَیُوَرِّثُهُ)[1]
’’کیا تم لوگوں نے میرے یہودی ہمسائے کو اس بکری کے گوشت میں سے کچھ ہدیہ بھیجا ہے یا نہیں گھر والوں نے کہا نہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالي عنہ نے فرمایا کہ اس میں سے گوشت ہدیہ کے طور پر بھیج دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے حضرت جبریل علیہ السلام ہمسائے کے ساتھ نیکی کرنے کی اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس کو ورثہ کا حصہ دار بنا دیں گے‘‘
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک وفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ گوشت کا ایک ٹکڑا لئے جارہے ہیں پوچھا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، کہ اے امیر المومنین! گوشت کھانے کو جی چاہتا تھا تو ایک درہم کا گوشت خریدا ہے فرمایا۔ اے جابر رضی اللہ تعالی عنہ کیا اپنے پڑوسی یا عزیز کو چھوڑ کر صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنا چاہتے ہو۔ کیا تمہیں یہ آیتیں یاد نہیں ہیں۔
﴿وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا) (احقاف: 34)
’’یعنی جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم نے اپنی زندگی میں خوب مزے لوٹ لئے اور زندگی سے خوب فائدہ اٹھا لیا۔‘‘
رسول اللہﷺ کی سچی محبت یہی ہے کہ آپ ﷺ کے پیغام اور ارشاد پر پورا پورا عمل کیا جائے اور پڑوسی کی عزت کی جائے۔
حضرت عبد الرحمن بن ابی قراد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
(أنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضأ يَوْمًا فَجَعَلَ أَصْعَابُهُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوءِه فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى هَذَا قَالُوا حُبُّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَقَالَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب النوم باب في حق الجوار: 504/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحِبَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصُدِّقُ حَدِيثنَهُ إِذَا حَدَّثَ وَلْيُوَدِّ أَمَانَتَهُ إِذِا ائْتُمِنَ وَلَيُحْسِنُ جَوَارَ مَنْ جَارَ)[1]
’’ایک روز نبی کریم ﷺ كى وضو کیا تو آپ ﷺ نے وضو کے پانی کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ تبركاً منہ پر ملنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ ورسول کی محبت کی وجہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا ہے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول سے محبت رکھے یا اللہ و رسول اس سے محبت رکھیں تو اسے چاہئے کہ جب بولے تو سچ بولے اور جب لوگ اس کا اعتبار کر کے اس کے پاس امانت رکھیں تو ان کی امانتیں جب وه مانگیں ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خدا اور رسول کے ساتھ محبت کی نشانی ہے اور اگر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تو یہ خدا اور رسول کے ساتھ دشمنی رکھنے کی علامت ہے۔
جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارَهُ بَوَائِقَهُ)[2]
’’خدا کی قسم وہ پورا مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ کامل مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ کامل ایماندار نہیں ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہﷺ! وہ کون شخص ہے تو آپﷺ نے فرمایا وہ شخص ہے جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے مامون و محفوظ نہ ہو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ایذا پہنچانے والا مؤمن نہیں ہے بلکہ پڑوسی کو ایذا پہنچانے والا دوزخی ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ إِنَّ فَلَانَةَ تُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَوتِهَا وَصِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِى حِيْرَانَهَا بِلِسَانِهَا قَالَ هِيَ فِي النَّارِ قَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ ﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] شعب الايمان للبيھقي 201/2 – رقم الحديث: 1533۔
[2] بخاري: کتاب الادب، باب الم من لا يامن جاره بوائقهُ:6016)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(إِنَّ فُلَانَةَ تذكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِيَامِهَا وَصَدَقيهَا وَصَلٰوتِهَا وَلَا تُؤْذِي بِلِسَانِهَا جِيْرَانَهَا قَالَ هِيَ فِي الْجَنَّةِ)[1]
’’یعنی ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ فلاں عورت کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ وہ نماز بہت زیادہ پڑھتی ہے روزے بکثرت رکھتی ہے اور خیرات بہت کرتی ہے مگر ساتھ ہی ہمسایہ کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عورت دوزخ میں جائے گی کیونکہ نماز، روزہ اور خیرات اگرچہ افضل العبادات ہیں مگر اس گناہ یعنی ایذائے ہمسایہ کی تلافی نہیں کر سکتے عرض کیا یارسول الله ﷺ فلاں عورت کی نسبت کہتے ہیں کہ نماز کم پڑھتی ہے اور روزے تھوڑے رکھتی ہے اور خیرات بھی کچھ کم ہی دیتی ہے۔ ہاں ہمسائے کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنت میں جائے گی کیونکہ ہمسایہ کو تکلیف نہ دینا دوسری باتوں کی تلافی کر دے گا۔
پڑوسی کو ستانا گناہ کبیرہ ہے قیامت کے دن سب سے پہلے ان دو پڑوسیوں کی خدا کے سامنے پیشی ہوگی جنہوں نے دنیا میں ایک دوسرے کی حق تلفی کی ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَوَّلُ الْخَصْمَيْنِ يَوْمَ الْقِيمَةِ جَارَانِ)[2]
’’قیامت کے روز سب سے پہلے وہ دو پڑوسی خدا کے سامنے پیش ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے کا حق ادا نہیں کیا اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔‘‘
نیک و بد کی یہ پہچان ہے کہ اگر پڑوسی اپنے پڑوسی کے بارے میں یہ کہے کہ یہ اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور جو برا کہے وہ برا ہے اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔
(يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَيْفَ لِي أَعْلَمُ إِذَا أَحْسَنْتُ وَإِذَا أَسَأْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعْتَ جِيرَانَكَ يَقُولُونَ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ قَدَاسَأتَ فَقَدْ اَسَأتَ)[ 3]
’’یارسول اللہ ﷺ مجھے اپنے بھلے یا برے عمل کا علم کیونکر ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مستدرك حاكم: كتاب البر و الصلة باب ان الله لا يعطى الإيمان الا من يحب 166/4
[2]مسند: 151/4۔
[3] ابن ماجه: كتاب الزهد باب الثناء الحسن: 4223، مسند احمد: 402؍1۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اپنے ہمسایوں کو کہتا ہوا سنے کہ تو نے اچھائی کی ہے تو جان لے کہ تو نے اچھا عمل کیا ہے اور جب انہیں یہ کہتا ہوا سنے کہ تو نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لے بے شک تو نے برا عمل کیا ہے۔‘‘
یعنی اچھے اور برے ہونے کی یہی کسوٹی ہے کیونکہ پڑوسی اپنے پڑوسی کے اخلاق حمیدہ اور افعال ذمیمہ سے خوب واقف ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(مَنْ يَّاخُذُ مِنِّى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلْ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَّعْمَلُ بِهِنَّ فَقُلْتُ أَنَا فَأَخَدَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تكُن أغنى النَّاسِ وَاحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُن مُؤْمِنًا وَ اَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَلَا تَكْثِرِ الضِّحْكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضِّحْكِ تُمِيْتُ الْقَلْبَ)[1]
’’کون شخص ان کلمات کو (جو میں بھی کہتا ہوں) مجھ سے سیکھتا ہے اس پر کار بند ہوتا ہے یا اس شخص کو سکھاتا ہے جو انہیں عمل میں لائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں سیکھتا ہوں۔ تو آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر پانچ باتیں فرمائیں۔ حرام سے بچو سب سے زیادہ عابد بن جاؤ گے۔ اللہ کے دینے پر راضی ہو جاؤ سب سے نھنی ہو جاؤ گے۔ اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ بھلائی کرو تو مومن بن جاؤ گے۔ اور جو اپنے لئے چاہو وہی دوسروں کے لئے بھی چاہو تو کامل مسلمان بن جاؤ گے۔ اور زیادہ مت ہنسو۔ اس لئے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مار دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرنا کامل مسلمان ہونے کی دلیل ہے رسول اللہﷺ ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نصیحت و وصیت فرمایا کرتے تھے اپنے پڑوی کو ستانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ آپ کی ﷺ نے فرمایا:
(لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَبْدٌ لَا يَامَنْ جَارَهُ بَوَائِقَهُ)[2]
’’وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے امن میں نہ ہو۔‘‘
برائی برائی ہے جہاں بھی ہو اور گناہ گناہ ہے جہاں پر بھی سرود ہو۔ لیکن اگر وہ برائی اور گناہ اس جگہ پر ہو جہاں لازمی طور پر نیکی ہونی چاہئے تھی تو ظاہر ہے کہ اس گناہ اور برائی کا درجہ عام گناہوں سے بدرجہا زیادہ ہے ایک بد کردار انسان چوری ہر جگہ کر سکتا ہے مگر ظاہر ہے۔ کہ پڑوسی کے مکان میں چوری کرنا کتنا برا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب الزهد باب من اتقى المحارم 257/3،مسند احمد: 310/2-
[2] مسند احمد: 154/3-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدکاری اس سے ہر جگہ ممکن ہے مگر پڑوس کے گھر میں جہاں سے دن رات کی آمد ورفت ہے اور جہاں کے شریف مردوں پر بھروسہ کر کے پر بھروسہ کر کے باہر جاتے ہیں وہاں اخلاقی خیانت کسی قدر شرمناک ہے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ سے دریافت فرمایا
(مَا تَقُولُونَ فِي الزِّنَا قَالُوا حَرَام حَرَّمَهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْ يَزْنِي الرَّجُلُ بِعَشْرِ نِسْوَةٍ أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَّرْنِيَ بِامْرَأَةِ جَارِهِ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي السَّرِقَةِ قَالُوا حَرَّمَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ فَهِيَ حَرَامٌ قَالَ لَأَن يَّسْرِقَ الرَّجُلُ مِنْ عَشْرَةِ ابْيَاتٍ أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَّسْرِقَ مِنْ جَارِهِ)[1]
’’زنا کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا حرام ہے جس کو خدا اور رسول نے حرام کیا ہے قیامت تک کے لئے وہ حرام ہے تو رسول اللہﷺنے فرمایا۔ دس عورتوں سے زنا کرنا چھونا جرم ہے یہ نسبت اپنے ہمسایہ کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے سے۔ یعنی پڑوسی اور ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے کا گناہ دوسری دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنے سے زیاد و سخت ہے تم لوگ چوری کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے حرام کیا ہے اس لئے وہ حرام ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ دس گھرانوں کی چوری کرنا چھوٹا جرم ہے یہ نسبت اپنے پڑوسی کے گھر چوری کرنے سے یعنی اپنے پڑوی کے گھر چوری کرنے کا گناہ دس گنا چوری کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔‘‘
پڑوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کا دوسرا پڑوسی بغیر اس کی مرضی واجازت کے اپنا مکان و زمین فروخت نہیں کر سکتا ہے اور اگر بغیر اجازت کے بیع کر دے گا تو یہ پچ باطل ہوگی۔
اس کو شرعی محاورے میں شفعہ کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(اَلْجَارُ أَحَقُّ بِشُفَعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهَا إِنْ كَانَ غَالِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا)[2]
’’پڑوسی اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے جبکہ دونوں کا ایک ہی راستہ ہو اگر وہ موجود نہیں ہے تو اس کا انتظار کیا جائے۔‘‘
یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے اس لئے سب کو چاہئے کہ بلا شر وفساد اور بغیر جنگ و جدال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 8/6، طبرانی کبیر 257/2 (205)
[2] ابو داود كتاب الاجارة باب في الشفعة: (307/3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے امن امان کی زندگی بسر کریں۔ اسی لئے اللہ نے قرآن مجید نازل کیا ہے کہ لوگ اس کی ہدایتوں پر عمل کریں تو فساد کا نام بھی سننے میں نہ آئے۔ خدا نے امن کے قائم کرنے کے لئے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان میں سے ایک حق ہمسایہ کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں کہاوت کہی جاتی ہے ہمسایہ ماں کا جایا ہمسایہ کے حقوق میں ایک حق شفعہ بھی ہے جو اسلامی ضروریات و خصوصیات میں سے ہے اب اس کی ضرورت کو دوسرے مذہب والوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے اور سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں اسلامی قانون کے مکمل ہونے کے اور بہت سے دلائل ہیں ان میں ایک حق شفعہ بھی ہے۔ بہر حال ہمسایہ کے بڑے حقوق ہیں
(1) اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ (2) نہ اس سے بے ہودہ گوئی کی جائے۔
(3) خوشی کے وقت اس کو مبارک باد دی جائے۔ اس کی بیماری میں بیمار پرسی کی جائے۔
(4) مصیبت میں اس کی مدد کی جائے۔ (5) اس کے عیبوں کو چھپایا جائے۔
(6) اس کے بیوی بچوں کو بری نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ (7) اس کو تحفہ تحائف سے نوازا جائے۔
رسول اللہ ﷺ فرمایا:
(الدِّينُ النَّصِيْحَةُ) ’’دین خیر خواہی ہے۔‘‘ (مسلم)
یعنی ہر ایک کے لئے بھلائی چاہنا خواہ وہ پڑوسی ہو یا غیر پڑوسی، مسلم ہو یا غیر مسلم بلکہ انسان ہو یا جانور۔
ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کرنا انسانیت کا بڑا جو ہر ہے خواہ اس سلسلے میں جسمانی یا روحانی یا مالی کتنی ہی تکلیف برداشت کرنی پڑے مگر اس نیک عادت کو ہرگز نہ چھوڑ وہ یہی ایثار و قربانی اور ہمدردی ہے اور خیر خواہی ہے اس کی بہت سی مثالیں اور واقعات ہیں:
تفسیر ابن کثیر اور در منشور میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ مرتے مرتے اور شہید ہوتے ہوئے بھی اللہ کے نیک بندوں نے ہمدردی کرتے ہوئے اپنی جان دے دی ہے۔
سنئے! حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں یرموک کی لڑائی میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ دو پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔
میں نے پوچھا کہ پانی کا گھونٹ دوں۔ انہوں نے اشارہ سے ہاں کی کہ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے ہوئے تھے۔ اور مرنے کے قریب تھے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی العاص تھے ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب اسی حالت میں ایک تیسرے صاحب دم توڑ رہے تھے انہوں نے آہ کی۔ ہشام رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا دم نکل چکا تھا میں ہشام رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا تو وہ بھی جان بحق ہو چکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
پیاسے تھے مگر پیاسے ہی رہے دریا کو چھلکا چھوڑ گئے
یہی ایثار و ہمدردی ہے کہ ضرورت کے وقت بعض صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اپنے گھر کی سب چیزیں اللہ کی راہ میں دیدیتے تھے اور گھر میں سوائے خدا کے نام کے اور کوئی چیز بھی نہیں چھوڑتے تھے چنانچہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفا قا اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا میں نے کہا کہ آج میرے پاس اتفاق سے مال موجود ہے اگر میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں خوشی خوشی گھر میں آیا۔ تا جو کچھ گھر میں رکھا تھا اس میں سے آدھا لے آیا حضور اقدس ﷺ نے فرمایا۔ عمر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا ہوں۔: اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو کچھ گھر میں رکھا تھا سب لے آئے۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ ابو بکر صدیق نے عرض کیا کہ ان کے لئے اللہ اور رسولﷺ کو چھوڑ آیا ہوں۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ کے نام کی برکت اور ان کی رضا جوئی اور خوشنودی کو چھوڑ آیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں حضرت ابو بکر صدیق ہی سے کبھی نہیں بڑھ نہیں بڑھ سکتا۔[1]
حضرت عمر فاروق بھی ان کا ایثار دنیا کو معلوم ہے اپنے آرام کو چھوڑ کر دوسروں کو آرام پہنچاتے۔ ایک مرتبہ رات کو گشت کرتے کرتے ایک میدان میں پہنچ گئے وہاں ایک خیمہ دیکھا جو پہلے نہیں تھا آپ تحقیق حال کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]ابو داود، كتاب الزكوة باب الرخصة في ذالك:54/2 و ترمذى كتاب المناقب باب من مناقب ابي بكر 313/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لئے اس خیمہ کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا ایک صاحب خیمہ کے باہر مغموم بیٹھے ہوئے ہیں اور خیمے کے اندر سے کراہنے کی آواز آ رہی ہے سلام کر کے ان کے پاس بیٹھ گئے اور دریافت فرمایا۔ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا میں ایک دیہاتی مصیبت زدہ ہوں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنی ضرورت لے کر آیا ہوں۔ رات ہو گئی تھی اس لئے اس میدان میں ٹھہر گیا کل صبح عدالت میں حاضر ہوں گا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا اس خیمہ کے اندرکون ہے اور کراہنے کی آواز کیسی ہے؟
مسافر چونکہ مصیبت زدہ پریشان حال تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور نہ پہچانتا تھا اس نے جواب دیا۔ تم جاؤ اپنا راستہ لو۔ بار بار سوال کرنے سے کیا فائدہ؟ آپ اللہ نے دوبارہ اصرار کیا اور فرمایا۔ ضرور بتاؤ کیا بات ہے اور کراہنے کی کیسی آواز ہے ؟
مسافر نے مہا میاں میری بیوی خیمہ کے اندر ہے اس کی ولادت اور بچہ جنے کا وقت ہے درد زہ ہو رہا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا کوئی اور عورت بھی ہے؟ اس مسافر نے کہا نہیں، اگر دوسری عورت ہوتی تو مجھے اس وقت پریشانی نہ ہوتی۔ شہر کا دروازہ بند ہے۔ کوئی دائی بھی نہیں آ سکتی اور نہ یہاں کوئی آبادی ہے اور نہ یہاں سے اس وقت اس کو اکیلا چھوڑ کر جا سکتا ہوں اور نہ یہ کام ہی میرے اور تمہارے بس کا ہے اب خدا ہی محافظ اور وکیل ہے۔ ﴿وَافَوِّضُ أَمْرِى إِلى اللهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾ (مؤمن: 44)
آپ وہاں سے اٹھ کر مکان پر تشریف لائے اور اپنی بیوی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا تمہارے لئے آج مقدر سے بڑے ثواب کی چیز ہاتھ آئی ہے اس کی قدر کرو۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا آخر کیا چیز ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ایک گاؤں کی عورت میدان میں پڑی ہے۔ اس کو دردِ زِہ ہو رہا ہے۔ اس کے پاس کوئی عورت اور کوئی دائی نہیں ہے اس پر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا اگر ارشاد ہو تو اس کام کی انجام دہی کے لئے میں چلنے کے لئے تیار ہوں اور کیوں نہ تیار ہوتیں آخر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی صاحبزادی تھیں سید کونین کی نواسی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی تھیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ولادت کے لئے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان کو لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ تیل اور کھانے کی کچھ چیزیں لے لو۔ اور میرے ساتھ چلو۔
وہ سب ضروری چیز میں لے کر امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ چلیں۔ میدان میں پہنچ کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا خیمہ میں تشریف لے گئیں۔ اور دایہ کے کام کو انجام دینے لگیں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے چولہا جلا کر کھانا پکانا شروع کیا۔ ادھر حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کھانا پکا کر فارغ ہوئے ادھر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہ ولادت کی انجام دہی سے فارغ ہوئیں اور باہر آ کر فرمایا اے امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دوست کو لڑکے کے پیدا ہونے کی مبارک باد دیجئے۔ امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کالفظ جب اس مسافر کے کان میں پڑا تو وہ بہت گھبرایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں تمہارا خادم ہوں لو یہ کھانا تم میاں بیوی کھا لو۔ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہے رات بھر تم جاگتے رہے کل صبح کو آنا تمہارا انتظام کر دیں گے۔ یہ کہہ کر ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کو ساتھ لے کر واپس مکان پر تشریف لائے۔
اپنی نیند اور آرام چھوڑ کر امیرالمومنین ہو کر غریب مسافر کی خدمت میں جانا اور اپنی بیوی کو اس کام کے لئے لے لے جانا اور چولہا جلا کر کھلانا پکا کر کھلانا ایثار و ہمدردی کی بات ہے۔ رہتی دنیا تک ان کی یادگار باقی رہے گی۔ خدا ہم کو بھی ایسے ہی توفیق دے (آمین)
الدين النصيحة: دین تو ہمدردی اور غم خواری کا نام ہے۔ یعنی جب کسی پر مصیبت پڑ جائے تو اس کی مصیبت دور کرنے کے لئے کوشش کرے۔ اگر کوئی مظلوم حق کی حمایت میں گرفتار ہو جائے تو اس کے چھڑانے کے لئے اور آزاد کرانے کے لیے کوشش کرنا اور آزاد کرانا بہت بڑی خیر خواہی اور اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مشرکین مکہ کسی مسلمان کو گرفتار کر کے قید خانہ میں ڈال دیتے تھے۔ مدینہ منورہ سے مسلمان مکہ مکرمہ جا کر مسلمان قیدی کو چھٹر لاتے جیسا کہ ترمذي شریف میں ہے کہ۔
حضرت مرثد بن ابو مرثد مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھا لایا کرتے تھے اور مدینہ منورہ پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکہ میں تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ حضرت مرثد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کے لئے مکہ شریف گیا۔ ایک باغ کی دیوار کے نیچے میں پہنچ گیا۔ رات کا وقت تھا چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آئی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا: ہاں مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے یہاں گزارنا۔ میں نے کہا عناق، اللہ تعالی نے زنا کاری حرام کر دی ہے جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کے لئے غل مچانا شروع کیا کہ اے مکہ والو! ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آ گیا ہے۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا لے جایا کرتا ہے۔ لوگ بیدار ہو گئے۔ اور مجھے پکڑنے کے لئے آٹھ آدمی میرے پیچھے دوڑے میں مٹھیاں بند کر کے بے تحاشہ خندق کے راستے سے بھاگا اور ایک غار میں جا چھپا۔ یہ میرے پیچھے ہی پیچھے غار میں آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کر دیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کر لیا کہ وہ سو گئے ہوں گے۔ تو وہاں سے نکالا اور مکہ کی راہ لی وہاں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے جب اذخر پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتار کر ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کر دیا۔ اور وہ مدینہ پہنچ گئے۔
چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی میں نے رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں آپ ﷺ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر آپ ﷺ خاموش رہے اور یہ آیت اتری
﴿الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانِ أَوْ مُشْرِكْ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ (النور: 3)
’’زانی مرد نکاح نہیں کر سکتا مگر زانیہ عورت یا مشرکہ عورت کے ساتھ اور زانیہ عورت بھی نکاح نہیں کر سکتی سوائے زانی مرد یا مشرک مرد کے اور زانیہ اور مشرکہ عورتوں سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام کر دیا گیا۔‘‘
تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اے مرثد ! زانیہ سے نکح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے۔[1]
بہر حال اس آیت کے شان نزول کے واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مرثد رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان قیدیوں کو مکہ مکرمہ کے جیل خانہ سے نکال کر پیٹھ پر لاد کر آبادی سے باہر لایا کرتے تھے اور ان کو آزاد کرتے تھے یہ بہت بڑی ہمدردی اور خیر خواہی کی بات ہے اسی لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ وَمَا هُنَّ يَارَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِذَا لَفِيْتَهُ فَسَلِّمُ عَلَيْهِ وَإِذْ دَعَاكَ فَاجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحُ لَهُ وَإِذَا عَطِسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعُهُ)[2]
’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں عرض کیا گیا وہ کیا ہیں فرمایا:
(1) ملاقات کے وقت سلام کرے
(2) اس کی دعوت قبول کرے ۔
(3) جب وہ خیر خواہی کا طلب گار ہو تو اس کی خیر خواہی کرے۔
(4) اس کی چھینک کا جواب دے
(5) اس کی بیماری کے وقت بیمار پری کرے
(6) مرنے پر جنازہ میں شریک ہو۔
ان چھ حقوق میں سے ملاقات کے وقت سلام کرنا دعوت قبول کرنا۔ چھینک کا جواب دینا تو آسان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب التفسير باب سورة النور (3177) [2] صحیح مسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ مصیبت میں کام آنا اور بیمار کی خدمت کرنا وہ بھی بلا ریا و نمود کے اور بلا ذاتی غرض اور طمع کے مشکل ہے اور اس میں امتحان اور کمال بھی ہے اور اسی سے ہمدردی و خیر خواہی معلوم ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر کمزور انسان بلکہ جاندار جو اپنی خدمت آپ نہیں کر سکتا وہ ہماری ہمدردیوں کا زیادہ محتاج ہے۔ بیماروں کی دیکھ بھال انکی غمخواری، تیمار داری اور ان کی خدمت گزاری کو عیادت اور بیمار پرسی کہتے ہیں یہ عبادت بقدر ہمت ہر تندرست پر فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے بیمار کی عیادت کی خاص تاکید فرمائی ہے اس کے لئے آداب اور دعائیں سکھائی ہیں اور اس کا ثواب بھی بیان فرمایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُوْدُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ)[1]
’’جو مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور صبح کے وقت جائے تو شام تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اگر وہ شام کو بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو صبح تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے بارگاہ ایزدی میں دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اسے پختہ میووں والا باغ ملے گا۔
اور آپﷺ نے فرمایا:
(أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُودُوا الْمَرِيضَ وَفُكُّوا الْعَانِي)[2]
’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔ اور بیمار کی عیادت و خدمت کرو اور قیدی کو چھٹراؤ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(وَمَنْ عَادَى مَرِيضًا نَادَى مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاءِ طِبْتَ وَطَابَ مُمْشَاکَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزَلاً).[3]
’’جو شخص کسی بیمار کی خدمت کو جائے اس کی تیمارداری کرے تو آسمان سے فرشتے پکارتے ہیں اور کہتے ہیں تم نے بہت اچھا کام کیا ہے تمہارا چلنا پھرنا مبارک ہو۔ تم نے اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود كتاب الجنائز، باب فضل العيادة 152/3۔
[2] بخاري: كتاب المرضى باب و خوب عبادة المريض (5959)
[3] ابن ماجه كتاب الجنائز باب ما جاء في ثواب من عاد مريضا (1443)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب کسی کی عیادت کے لئے جاؤ تو پہلے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر تسلی دو اور اس کے شفاپانے کی دعا کرو۔[1]
آنحضرتﷺ خود بھی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بیمار پرسی کیلئے اور مشرکوں یہودیوں اور منافقوں کی عیادت کے لئے بھی جایا کرتے تھے۔[2]
حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جب جنگ خندق 5ھ میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ ﷺ نے ان کا خیمہ مسجد میں نصب فرمایا تھا۔ تا کہ سب نمازی ان کی عیادت آسانی سے کر سکیں۔[3]
حضرت رفیدہ رضی اللہ تعالی عنہا جو ثواب کی خاطر زخمیوں کا علاج اور ان کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کا بھی خیمہ اسی مسجد میں رہا کرتا تھا تاکہ جنگ کے زخمی مسلمانوں کی تیمار داری اور مرہم پٹی کریں۔[4]
اور بیماروں کی تیمار داری عورتیں ہی اچھی طرح کر سکتی ہیں۔ اس لئے غزوات میں بھی بعض ایسی بیویاں اور صحابیات ساتھ رہتی تھیں جو بیماروں کی تیمار داری اور زخمیوں کو مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔[5]
بیمار پرسی کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيمَةِ مَرِضْتُ فَلَمْ تُعِدْنِي قَالَ يَارَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِينَ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِى فَلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تُعِدْهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَّهُ لَوَجَدْ تَّنِي عِنْدَهُ)[6]
’’قیامت کے دن اللہ تعالی دریافت فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی وہ کہے گا: اے میرے پروردگار! تو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے میں تیری عیادت کیوں کرتا۔ تو پروردگار فرمائے گا کیا تجھے خبر نہ ہوئی میرا فلاں بندہ بیمار ہوا مگر تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے بھی اس کے پاس پاتا۔‘‘
مسلمان بھائی کے مرجانے کے بعد اس کے جنازے میں شریک ہو۔ اس کے کفن دفن کا انتظام کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب المرضى، باب وضع اليد على المريض (5659)
[2] بخاري: كتاب المرضى باب عيادة المشرك (5657)
[3] بخاري: كتاب الصلوة باب الخيمة في المسجد وغيرهم (463)
[4] سيرة ابن هشام (350/3)
[5] بخاري: كتاب الجهاد والسير باب مداواة النساء المجرحي في الغزو (2882)
[6] مسلم: كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض (6556)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جنازہ کی نماز پڑھے اور جنازہ کے ساتھ ساتھ قبرستان جائے۔ اس کے لئے قبر کھودے۔ دفن کرے اور مٹی دے اور دعائے خیر کر کے وہاں سے واپس لوٹے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا وَ كَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيُفْرِغَ مِنْ دَفِنِهَا فَإِنَّهُ يَرْجِعُ مِنَ الْاجِرِ بِقِيرَاطَيْنٍ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ احَدٍ وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ)[1]
’’جو کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اور آخرت میں ثواب لینے کی غرض سے جائے اور اس کے جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جائے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو صرف جنازے کی نماز پڑھ کر لوٹ آئے اور دفن تک نہ رہے تو وہ ایک قیراط اور ثواب لے کر لوٹے گا۔‘‘
یعنی جو ایمان اور ثواب آخرت حاصل کر نیکی غرض سے بلا ریاونمود کے کسی مسلمان کے جنازے میں شریک رہا اور جنازہ کی نماز بھی پڑھی اور مٹی بھی دی تو اس کو دو پہاڑ کے برابر ثواب ملے گا اور جو نماز پڑھ کر دفن ہونے سے پہلے واپس چلا آئے تو ایک پہاڑ کے برابر ثواب ملے گا۔
قیراط کے معنی درہم کے بارھویں حصے کے ہیں اور پہاڑ کے بھی ہیں لیکن اس جگہ ڈھیر مراد ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کا جنازہ پڑھا پھر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کے سر کی طرف تین دفعہ مٹی ڈالی۔ (ابن ماجہ)
یعنی مسلمان بھائی کی قبر پر تین لپ مٹی دینا سنت ہے اور یہ میت کا حق ہے یہ نیکی قیامت کے دن کام آئے گی اور یہ مٹی ترازۃ میں رکھ کر تولی جائے گی چنانچہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت میں لکھا ہے
(قيلَ لِبَعْضِهِمْ فِي الْمَنَامِ مَا فَعَلَ اللهُ بِكَ قَالَ وَزِنَتْ حَسْنَانِي فَرَجَحَتِ السَّيِّئَاتُ عَلَى الْحَسَنَاتِ فَسَقَطَتِ الصُّرَّةُ فِي كَفَّةِ الْحَسَنَاتِ فَرَجَحَتْ فَحَلَلْتُ الضُّرَّةَ فَإِذَا فِيهَا كَفُّ تُرَابِ اَلْقَيْتُهُ فِي قبرِ مُسْلِم)(ذكره في المواهب)
’’کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا تو اس نے کہا کہ میری نیکیاں تولی گئیں تو برائیوں کا پلہ نیکیوں کے پلے پر بھاری ہو گیا پھر نیکیوں کے پہلے میں ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري کتاب الإيمان باب اتباع الجنائز من الإيمان: (47)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیلی گر پڑی تو نیکیوں کا پلہ بھاری ہو گیا تو میں نے اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں ایک مٹھی مٹی تھی جو کہ میں نے مسلمان میت کی قبر پر ڈالی تھی۔‘‘
یہ جنازے کی نماز ہے اور اس کی قبر پر جا کر مٹی دینا یہ اس کی خیر خواہی ہے یعنی میت کے لئے اس کی بخشش کے لئے دعا کرتا کہ اے خدا اس کی غلطیوں کو معاف کر دے۔ اس کو بخش دے اور جہنم کے عذاب سے بچا اور قبر کے عذاب سے بچا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خیر خواہی ہو سکتی ہے۔ آپ جنازے کی دعا میں غور کیجئے تو میت کے حق میں خیر خواہی ہی خیر خواہی نظر آئے گی اور الدين النصيحة کا پورا منظر سامنے آ جائے گا۔ آپ کو وہ دعا تو یاد ہو گی۔ خدانخواستہ اگر نہ یاد ہو تو سن لیجئے اور یاد کر لیجئے۔
پہلے اللہ اکبر کے بعد دعائے ثناء پھر سورہ فاتحہ اور کوئی سورۂ پھر اللہ اکبر کے بعد درود شریف اور پھر اللہ اکبر کے بعد یہی دعاء پڑھتے ہیں۔
(اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَانْثَانَا اللَّهُمَّ منْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْیِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ)[1]
’’اے اللہ! تو ہمارے زندوں اور مردوں، حاضر اور غائب، چھوٹے اور بڑے اور مرد اور عورت کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے تو جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو فوت کرے تو ایمان پر فوت کر۔ اے اللہ! تو اس کے ثواب سے ہمیں محروم نہ کر اور نہ اس کے بعد ہم کو فتہ میں ڈال‘‘
(اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعُ مَدْخَلَهُ وَاغْسِلُهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَ نَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْاَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَابْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِّنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِّنْ زَوْجِهِ وَاَدْخِلُهُ الْجَنَّةَ وَاَعِدُهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ)[2]
اے اللہ! اس کو بخش دے اس پر رحم فرما اور سلامتی عطا فرما اور معاف فرما اور اس کی اچھی مہمانی فرما اور اس کا ٹھکاناعمده بنا اور اس کی قبر کو کشادہ کر اور اس کو پانی برف اور اولوں سے دھو اور گناہوں سے ایسا پاک کردے۔ جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا جاتا ہے۔ اور دنیا کے گھر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداود: کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت (3115) 188؍3۔
[2] مسلم: كتاب الجنائز، باب الدعاء للميت في الصلوة (2 232)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں اچھا گھر دے اور دنیا کے اہل سے اچھا اہل مرحمت فرما۔ اور یہاں کے جوڑے سے وہاں اچھا جوڑ عنائت فرما اور اس کو جنت میں داخل کر اور قبر سے عذاب نار سے اس کو بچا۔‘‘
یہ پاکیزہ دعائیں میت کے حق میں خیر خواہی ہی خیر خواہی ہیں۔ مرنے کے بعد اکثر تعلقات دنیاوی تو ختم ہو ہی جاتے ہیں مگر مومن کا تعلق مومن کے ساتھ مرنے میں بھی اور جینے میں بھی رہتا ہے یعنی زندگی تو خیر خواہی چاہتی ہی ہے۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد بھی خیر وخواہی چاہتی ہے۔
آپ حضرات سورہ یسین شریف کی تلاوت تو کرتے ہیں اس میں آپ یہ بھی پڑھتے ہیں:
﴿ وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰی قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَۙ۝۲۰ اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْـَٔلُكُمْ اَجْرًا وَّ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۲۱ وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۲ ءَاَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْـًٔا وَّ لَا یُنْقِذُوْنِۚ۝۲۳ اِنِّیْۤ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۲۴ اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِؕ۝۲۵
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ۝۲۶ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ۝۲۷ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰی قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ۝۲۸ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ۝﴾ (یسين: 29 تا 20)
’’اور ایک شخص اس شہر کے کسی اور مقام سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو۔ ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے معاوضہ نہیں مانگتے۔ اور وہ خود راہ راست پر ہیں۔ مجھے کیا ہو گیا ہے جو میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم سب اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکیں اور نہ مجھے بچا سکیں پھر تو میں یقینًا کھلی گمراہی میں ہوں میری سنو! میں تو بچے دل سے تم سب کے رب پر ایمان لا چکا اس سے کہا گیا کہ جنت میں چلا جا۔ کہنے لگا کاش! کہ میری قوم کو بھی علم ہو جاتا کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور مجھے ذی عزت لوگوں میں سے کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی شکر نہ اتا را۔ اور نہ ہم اس طرح اتارا کرتے ہیں وہ تو صرف ایک زور کی چیخ تھی کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بجھا گئے۔‘‘
اصحاب القريه (بستی والوں) کے پاس اللہ تعالی نے یکے بعد دیگرے متعدد رسولوں کو بھیجا ان لوگوں نے ان کی تکذیب و تردید اور تذلیل و توہین کی۔ تو ایک کامل مؤمن خبر پا کر دوڑے ہوئے آئے اور ان نافرمانوں اور جھٹلانے والوں کو نصیحت کی جیسا کہ ان آیتوں میں اس کا بیان ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس مومن کامل کو کفار نے بری طرح مارا پیٹا۔ اس کو گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ کر بیٹھے اور پیروں سے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں اس وقت خدا کی طرف سے اس کو جنت کی خوشخبری سنائی گئی۔ اسے اللہ تعالی نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کر دیا اور امن و چین سے جنت میں پہنچا دیا۔ ان کی شہادت سے خدا خوش ہوا۔ جنت ان کے لئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی اپنے ثواب و اجر اور عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا۔ کاش کہ میری قوم جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میری بہت ہی عزت کی۔ فی الواقع مومن سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ دھو کے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے۔ اس باخدا شخص نے زندگی میں بھی قوم کی خیر و عافیت چاہی اور مرنے کے بعد بھی ان کا خیر خواہ بنا رہا۔ یہ مطلب ہے کہ وہ کہتا ہے کہ کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس باعث میرے رب نے بخشا اور کیوں میری عزت کی تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی۔ اللہ تعالی پر ایمان لاتی اور رسولوں کی پیروی کرتی اللہ تعالی ان پر رحمت نازل کرے۔ اور ان سے خوش رہے کہ قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہشمند تھے۔
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ نے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کے لئے جاؤں اور انہیں دعوت اسلام دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو قتل کریں جواب دیا کہ حضور ﷺ اس بات کا تو احتمال ہی نہیں کیونکہ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے کہ اگر میں سویا ہوا ہوں تو وہ مجھے جگائیں بھی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اچھا پھر جاؤ یہ چلے اور جب لات و عزی بتوں کے پاس سے ان کا گذر ہوا تو کہنے لگے اب تمہاری شامت آ گئی اس بات پر پورا قبیلہ ثقیف بگڑ اٹھا۔ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اے میری قوم کے لوگوں تم ان بتوں کو ترک کر دو یہ لات و عزٰی دراصل کوئی چیز نہیں۔ اسلام قبول کر لو تو سلامتی حاصل ہوگی۔ اے میرے بھائی بندو! یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیقت نہیں رکھتے ساری بھلائی اسلام میں ہے وغیرہ۔ ابھی تین ہی مرتبہ اس کلمہ کو دہرایا تھا کہ ایک بدنصیب جلے تن نے دور سے ہی ایک تیر چلایا جو رگ اکحل پر لگا اور آپ اسی وقت شہید ہو گئے۔ آنحضرتﷺکے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا جیسے سورہ یسین والا۔ جس نے کہا تھا کاش میری قوم میری مغفرت اور عزت کو جان لیتی۔[1]
حضرت کعب بن احبار رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس جب حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کیا گیا جو قبیلہ ہوازن بن نجار سے تھے جن کو جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب ملعون نے شہید کر دیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ حبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
[1] ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر: 599/3 مستدرك حاكم: 615/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھی اسی حبیب کی طرح تھے جن کا ذکر سورہ یسین میں ہے ان سے اس کذاب نے حضورﷺ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ہیں۔ اس نے کہا میری نسبت بھی تو گواہی دیتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں تو حبیب نے فرمایا: میں نہیں سنتا۔ اس نے کہا محمد ﷺ کی نسبت کیا کہتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں ان کی سچی رسالت کو مانتا ہوں اس نے پھر پوچھا کہ میری رسالت کے بارے میں تو کیا کہتا ہے جواب دیا کہ میں نہیں سنتا۔ اس ملعون نے کہا: ان کی نسبت تو سن لیتا ہے اور میری نسبت تو بہرا بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ایک مرتبہ پوچھتا اور ان کے جواب پر ایک عضو بدن کٹوا دیتا۔ پھر پوچھتا اور یہی جواب پاتا اور ایک عضو بدن کٹوا د یتا۔ اسی طرح جسم کا ایک ایک جوڑ کٹوا دیا اور وہ اپنے سچے اسلام پر آخری دم تک قائم رہے اور جو جواب پہلے تھا وہی آخر تک رہا۔ یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ لیکن رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی پر آخری دم تک نہایت استقلال و استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ رضی اللہ عنہ۔ حافظ الحدیث ابو عمر يوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر نے الاستیعاب فی اسماء الاصحاب میں اس واقعہ کو بیان فرمایا۔ اسی طرح سے حافظ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں آیت ﴿اِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌ بِالْإِيْمَانِ﴾ کے تحت یہ تحریر فرمایا ہے کہ حافظ ابن عساکر عبداللہ بن حذافہ سہمی صحابی کے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں کہ:
آپ کو رومی کا فروں نے قید کر لیا اور اپنے بادشاہ تک پہنچا دیا۔ بادشاہ نے آپ سے کہا تم نصرانی بن جاؤ میں تمہیں راج پاٹ میں شریک کئے لیتا ہوں اور اپنی شہزادی کو تمہارے نکاح میں دے دیتا ہوں۔ حضرت عبدالله بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین محمدی سے پھر جاؤں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ پھر میں تجھے قتل کردوں گا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے انہیں صلیب پر چڑ ھا دیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کر دیا۔ بار بار کہا جاتا کہ اب بھی نصرانیت قبول کرلو تو آپ پورے صبر و استقلال سے فرماتے جاتے تھے ہرگز نہیں۔ آخر بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سولی سے اتار لو اور پیتل کی بنی ہوئی دیگ تپا کر آگ بنا کر لائی جائے۔ چنانچہ وہ پیش ہوئی بادشاہ نے ایک اور قیدی مسلمان کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو۔ اسی وقت حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی آپ کے دیکھتے ہوئے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا۔ وہ مسکین صحابی اسی وقت چرمر ہو کر رہ گئے گوشت پوست جل گیا۔ اور ہڈیاں چمکنے لگیں پھر بادشاہ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی بات مان لو اور ہمارا مذہب قبول کر لو ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا۔ آپ نے پھر بھی اپنے جوش ایمانی سے کام لے کر فرمایا۔ یہ ناممکن ہے کہ خدا کے دین کو چھوڑ دوں۔ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو۔ جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لئے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں اسی وقت اس نے حکم دیا کہ رک جائیں اور انہیں اپنے پاس بلا لیا اس لئے کہ اب اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب ان کے خیالات بدل گئے ہیں میری مان لیں گے اور میرا مذہب قبول کر لیں گے میری دامادی میں آ کر میری سلطنت کا ساتھی بن جائیں گے لیکن بادشاہ کا یہ خیال بے سود نکلا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آج ایک ہی جان ہے۔ جسے راہ خدا میں اس عذاب کے ساتھ قربان کر رہا ہوں کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی کہ آج میں سب جانیں راہ خدا میں اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کر دیتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا اور کھانا پینا بند کر دیا۔ کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ نہ فرمائی، بادشاہ نے آپ کو بلوا بھیجا۔ اور ان سے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا اس حالت میں یہ میرے لئے مباح تو ہو گیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ اب بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپ نے اسے قبول فرما لیا اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا۔ آپ کو آپ کے تمام ساتھیوں سمیت چھوڑ دیا۔ جب حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ یہاں سے آزاد ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ماتھا چومے اور میں ابتدا کرتا ہوں یہ فرما کر پہلے آپ نے ان کے سر کا بوسہ لیا۔
تاریخ اسلام میں اس قسم کے استقلال و استقامت کے بہت سے واقعات ہیں۔ اس وقت مجھے یہ بتانا ہے کہ ہمارے اسلاف نے نصیحت اور انسانی ہمدردی میں تکلیف تو تکلیف جانیں بھی قربان کر دیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ جو دوسرے کا بھلا چاہے گا اپنا بھی بھلا ہوگا یہی مطلب ہے (الدِّينُ النَّصِيحَةُ) کا۔
خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق بخشے آمین۔
……………………………………………