اللہ اپنے کام پر غالب ہے

 

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
یوسف : 21

یہ سورہ یوسف کی مبارک آیت ہے
اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے اپنی کبریائی اور شان و شوکت کا تذکرہ کررہے ہیں

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’ غَلَبَ ‘‘ کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی مقابلے میں ہو
یوسف علیہ السلام کے بھائی کیا چاہتے تھے اور کنویں میں پھینکنے کے بعد اپنے خیال میں وہ کس قدر کامیاب ہو چکے تھے، مگر اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ وہ جو کرنا چاہے کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ کنویں سے نکال کر حکومت تک پہنچانا اور پھینکنے والوں کو سائل بنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کرنا اس کے ادنیٰ اشارے کا کام ہے۔ "

سبحان اللہ
یعنی جنہوں نے کنویں میں پھینکا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں محتاج بنا کر سامنے کھڑا کردیا
پھر یہیں پر بس نہیں
جس نے جیل میں پھینکا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا خواب دکھا دیا کہ تعبیر کی خاطر اسی قیدی کا محتاج بن گیا
یہ ہے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کی حقیقت
وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ
سنن أبي داود | 1425
اے اللہ! وہ شخص ذلیل نہیں ہو سکتا جسکا تو دوست بنے
اسی لیے آپ دعا کیا کرتے تھے
وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ
سنن أبي داود | 1425
اے اللہ تو میرا دوست بن جا

یوسف علیہ السلام کے بچپن میں اپنی خواب بیان کرتے ہوئے کہے گئے جملے
(يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ)
اور بھائیوں اور والدین کے دوبارہ مل جانے پر کہے گئے جملے
(يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ)
کے درمیان غم و کرب، دکھ اور اذیت کی کیسی عجیب و غریب داستان ہے

جب بھائی پکڑ کر لے جا رہے تھے
جب کنویں میں گرا رہے تھے
جب قافلے والے ساتھ بٹھا رہے تھے
جب لوگ بازار مصر میں ریٹ لگا رہے تھے
جب عورتیں مکر کرکے اکیلے پردیسی یوسف کو پروپیگنڈہ سے مجرم ثابت کررہی تھیں
جب جیل کے داروغے پکڑ کر لے جا رہے تھے
کیا تب کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ اجنبی، تنہا، اور بے یارو مددگار شخص کل اسی ملک کے تاج و تخت پر براجمان ہوگا

یہ سب اس بے پناہ طاقت و قوت کے مالک کے کمالات ہیں جس نے اپنے متعلق فرمایا ہے :
وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
یوسف : 21

وہ ایسا غالب ہے کہ کوئی دوسرا اس پر غلبے کا سوچ بھی نہیں سکتا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر نے بدر کے موقع پر کیا خوب کہا تھا:
جَاءَتْ سَخِيْنَةُ كَيْ تُغَالِبَ رَبَّهَا
وَلَيُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ
المستدرك على الصحيحين : 6197
’’قریش اس لیے آئے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ غالب آنے کا مقابلہ کریں گے اور قسم ہے کہ اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا ہر صورت مغلوب ہو کر رہے گا۔‘‘
(قریش کو سخینہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ حاجیوں کی ضیافت گرم کھانے سے کرتے تھے)۔

الله تعالیٰ کا مقابلہ کرنے والوں کا انجام دیکھ لیں

فرعون نے کہا: "انا ربکم الاعلی” میں تمہارا رب ہوں آج وہ نشان عبرت ہے۔

ٹائیٹینک کے مالک نے کہا : رب بھی میری کشتی نہیں ڈبو سکتا، اور آج وہ بھی نشان عبرت ہے۔

ایکسٹینٹیشن موسیقار نے کہا : سب میری عبادت کریں گے ایک دن ، گردن پر چار گولیاں لگیں اور نشان عبرت بنا۔

ٹانکریڈو نیوس نے کہا : رب بھی مجھے صدارت سے نہیں ہٹا سکتا جب ووٹ پڑے تو صدارت کا حلف لینے سے پہلے بیماری سے مارا گیا اور نشان عبرت بنا۔

یہ اس کا اعلان ہے غور سے سن لو :
وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ
اور میں انھیں مہلت دیتا ہوں یقینا میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔
القلم : 45

اللہ کا مقابلہ کرنے والے ایک ملحد کا عبرتناک واقعہ

صاحبِ کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت :
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ
کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟
الملك : 30
پڑھی گئی تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا۔
بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

جب وہ کچھ کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے

فرمایا :
فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ
کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے۔
البروج : 16

خواہ فطری قوانین بدل جائیں

کائنات کا کوئی اصول، قاعدہ اور ضابطہ اس کے ارادے کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتا
جب وہ کچھ کرنے پہ آتا ہے
فالبحر لا يُغرق
پھر سمندر ڈبونے سے انکار کر دیتا ہے
موسی علیہ السلام کا صندوق دیکھ لیں
والنار لا تُحرق
آگ جلا نہیں پاتی
ابراہیم علیہ السلام کی چخا دیکھ لیں
والجبل لايعصم
پہاڑ (بلند ترین ہونے کے باوجود) بچا نہیں پاتا
نوح علیہ السلام کا بیٹا دیکھ لیں
والحوت لا يهضم
مچھلی ہضم نہیں کرتی
یونس علیہ السلام کو دیکھ لیں
والعذراء تلد
پھر بے نکاح عورت بھی بچہ جنم دے دیتی ہے
مریم علیھا السلام کو دیکھ لیں
والرضيع يتكلم
دودھ پیتا بچہ کلام کرنے لگ جاتا ہے
عیسی علیہ السلام کو دیکھ لیں
ونيام يصحون بعد 300عام
سوئے ہوئے لوگ تین سو سال بعد بھی اٹھ پڑتے ہیں
اصحاب کہف کو دیکھ لیں
والشمس تتوقف
سورج تھم جاتا ہے
دیکھیے، صحيح البخاری 3124
والقمر ينشق.
اور چاند شق ہو جاتا ہے

آزاد، مختارِ کل ہے

اور لطف کی بات ہے کہ اپنے کاموں میں آزاد، خود مختار ہے
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ
اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ تو نے یہ کیوں کیا
الأنبياء : 23

اور مزید لطف یہ کہ کوئی بھی کام سرانجام دیتے وقت اسے کسی کا کوئی خوف نہیں ہوتا
فرمایا :
وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا
اور وہ اس کے انجام سے نہیں ڈرتا۔
الشمس : 15

وہ کچھ بھی کرسکتا

لہٰذا یوں نہ کہو کہ ‘یہ ہو نہیں سکتا’ بلکہ کہو کہ پروردگارا ! آسانیاں فرما دے۔
اس لیے کہ ساری کائنات اسی کی ہے، حکم اسی کا چلتا ہے، ہم تو اس کے غلام ہیں، اور خیر ساری ہی اس کے ہاتھ میں ہے۔
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بہت برکت والا ہے وہ کہ تمام بادشاہی صرف اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
الملك : 1

اس کی کمال کاری گری دیکھیے

تربوز، خشک اور ریتلی زمین میں کاشت ہوتا ہے پھر پانی کا غبارہ ہوتا ہے اور اس میں بانوے فیصد پانی ہوتا ہے
جبکہ چاول بھجائی سے کٹائی تک پانی میں پروان چڑھتا ہے مگر جب وہ تیار ہوجاتا ہے تو اس میں ایک قطرہ بھی پانی کا نہیں ہوتا

ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے قد آور درخت ذمین سے نکلتے ہیں
مگر
ساری دنیا کی ذمین کھنگال ڈالو اگر اس کی تہوں سے ایک پتہ بھی نکل آئے تو…
سوچیں کہ پھر یہ درخت کہاں سے آتے ہیں؟؟؟

گنا میٹھا اور سبز ہوتا ہے، آم میٹھا اور پیلا ہوتا ہے، جاپانی پھل میٹھا اور سرخ ہوتا ہے، کھجور میٹھی اور سیاہ ہوتی ہے
سارے جہاں کی زمین کھود کر دیکھ لو نیچے نہ تو رنگوں کے سٹور ملیں گے اور نہ ہی میٹھے کے گودام نظر آئیں گے
تو پھر مٹیالے رنگ کو مختلف ذائقوں اور رنگوں میں کون ڈھالتا ہے؟؟؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنھیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو پھل میں بعض پر فوقیت دیتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
الرعد : 4

یہی حال انسانوں کا ہے، ایک ہی مٹی سے بنے ہیں، ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، مگر کوئی گورے تو کوئی کالے، کوئی بونے تو کوئی لمبے، کوئی سخت تو کوئی نرم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قُبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْاَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰي قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَبْيَضُ وَالْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ ]
[ مسند أحمد : 400/4، ح : ۱۹۶۰۱۔ ترمذی : ۲۹۵۵۔ أبوداوٗد : ۴۶۹۳، و صححہ الألبانی ]
’’آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے لیے پوری روئے زمین سے اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی لی (جس میں سفید، سیاہ، سرخ ہر رنگ اور نرم، سخت، شور، زرخیز ہر قسم کی مٹی آ گئی) اور آدم کی اولاد اسی کے مطابق کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی سیاہ، کوئی اس کے درمیان، کوئی خبیث، کوئی طیب اور کوئی نرم، کوئی سخت پیدا ہوتی ہے اور کوئی اس کے درمیان۔‘‘ ایک ہی زمین، ایک ہی پانی، ایک ہی باپ اور اسی کے نطفے سے بے شماررنگا رنگ انسان پیدا ہوئے

کوئی حد ہے کہ ایک قطرے کو پری جیسی صورت عطا فرما دیتا ہے

فرمایا :
فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ
پس انسان کو لازم ہے کہ دیکھے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔
الطارق : 5
خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ
وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
الطارق : 6
يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
جو پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔
الطارق : 7

شیخ سعدی نے کہا ہے :
دھد نطفہ را صورتے چوں پری
کہ کرداست برآب صورت گری
’’یعنی اللہ تعالیٰ ایک قطرے کو پری جیسی صورت عطا فرما دیتا ہے، بھلا اس کے سوا کون ہے جو پانی پر صورت گری کر سکتا ہے۔‘‘

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ
اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔
النمل : 88

وہ بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرسکتا ہے

کسی نے کہا :
کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟
تو اس نے جواب دیا :
قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ
کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا خوب جاننے والا ہے۔
يس : 79

اور فرمایا :
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى
کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔
القيامة : 37
ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى
پھر وہ جما ہوا خون بنا، پھر اس نے پیدا کیا، پس درست بنا دیا۔
القيامة : 38
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى
پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔
القيامة : 39
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى
پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔
القيامة : 39
أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى
کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے؟
القيامة : 40

یاد کرو اس انسان کو جس نے اپنے آپ کو جلانے، اڑانے، بکھیرنے اور بہانے کی وصیت کی تھی
پھر جلا دیا گیا، اڑا دیا گیا اور بہا دیا گیا
مگر رب کائنات نے دوبارہ زندہ کرلیا
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ہڈی تو پھر سخت ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نشانات چھوڑ جاتی ہے وہ تو گلے سڑے مِٹے دَبِے نرم و نازک پوروں کو بھی زندہ کردیتا ہے

فرمایا :
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ
کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔
القيامة : 3
بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ
کیوں نہیں؟ (ہڈیاں تو پھر ہڈیاں ہیں) ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست بنا دیں گے ۔
القيامة : 4

فنگر پرنٹس

دنیا کے 8 ارب انسانوں کے 16 ارب انگوٹھے ہیں اور 80 ارب انگلیاں ہیں جن کے چھوٹے سے حصے میں ایسا ڈیزائن بنا ہوا ہے کہ ہر ایک ڈیزائن 80 ارب انسانوں کے ڈیزائنوں میں سے کسی سے نہیں ملتا اور کمال کی بات ہے میرا رب انسانوں کے ایک ایک پورے سے ہر انسان کے الگ الگ ڈیٹا کو خوب جانتا ہے

ایک ہی وقت میں اربوں انسانوں کا حساب کیسے لے گا

سیدنا ابن عباس سے پوچھا گیا:
اللہ ایک ہی وقت میں بندوں کا حساب کیسے لے گا؟
فرمایا:
جیسے ایک ہی گھڑی میں انھیں رزق عطا فرماتا ہے
[ مجموع الفتاوی : ٤٧٩/ ٥ ]

سورہ یس میں ہے :
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔
يس : 82

حکم اسی کا

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ
حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں
یوسف : 67

اس کا حکم ہوتو راہ چلتا مسافر اپنے ہی پاؤں کی ٹھوکر کھا کر گرے اور مرجائے
اور اس کا حکم نہ ہو تو دشمن کی گولیوں کے برسٹ سینے میں پیوست ہوجائیں لیکن بندہ پھر بھی بچ جائے

اور چاہے تو بڑے بڑے قد آور ہاتھیوں کو ابابیلوں کی ننھی منھی کنکریوں سے مار دے

ایک ہی سمندر میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے راستے اور فرعون کے لیے تباہی کا سامان کردے

بادشاہی اسی کی

فرمایا :
بِيَدِهِ الْمُلْكُ
اور فرمایا :
لَهُ الْمُلْكُ
جسے چاہے بادشاہ کرے اور جسے چاہے گدا کرے
تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ
تاریخ نے ہزاروں واقعات میں دن کے بادشاہ کو رات کے وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا ہے

إمام مقبل الوادعي رحمه الله فرماتے ہیں:

إذا غُلِبتَ فعليك بالدعاء، دعوة واحدة ربما تنكب دولة، والله المستعان.
[السماع المباشر١٩]
جب آپ مغلوب اور بے بس ہو جائیں تو آپ کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے بس اوقات ایک دعا (ظالم )ریاست کو تباہ کر دیتی ہے اور اللہ مددگار ہے۔

اور مزے کی بات ہے کہ اس کی بادشاہی میں کوئی ساجھی نہیں
فرمایا :
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ
اور نہ بادشاہی میں اس کاکوئی شریک ہے
الإسراء : 111

وہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہیں ہے

دنیا کا بادشاہی نظام ایک دوسرے کی محتاجی پر چل رہا ہے، رعایا اپنی ضروریات مثلاً جان و مال، عزت و آبرو اور دین و ایمان کی حفاظت کے لیے بادشاہ کی محتاج ہے اور بادشاہ اپنے کام چلانے کے لیے رعایا کا محتاج ہے، اگر وہ اس کا ساتھ نہ دیں اور اسے ٹیکس نہ دیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے بادشاہ نہیں رہ سکتا۔
گویا ایک دوسرے کے محتاج ہونے کی وجہ سے دونوں میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں فی الحقیقت کچھ بھی نہیں۔ ان کی اپنی دولت و فقر، صحت و بیماری، عزت و ذلت، فتح و شکست، جوانی و بڑھاپا، نفع و نقصان اور موت و حیات، غرض سب کچھ اللہ مالک الملک کے ہاتھ میں ہے، تو پھر یہ کہنے میں کیا مبالغہ ہے کہ تمام بادشاہی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے؟ دوسرا کوئی بادشاہ ہے بھی تو نام کا ہے۔ حقیقت میں باقی سب گدا ہیں، جیسا کہ فرمایا :
« يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ»
[فاطر : ۱۵ ]
’’اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو۔‘‘
(تفسیر القرآن الكريم بتصرف یسیر)

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
سو پاک ہے وہ کہ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی کامل بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
يس : 83

وہ ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو کردیتا ہے

اسی سال(2023) ترکی میں زلزلہ آیا تھا ایک شخص کہتا ہے کہ میں کرایے کے مکان میں رہتا تھا میرے مالک نے کرایہ بڑھانے کا مطالبہ کیا میں نہ دے سکا تو اس نے مکان خالی کرنے کا کہہ دیا ابھی مکان خالی کیے تین دن ہی گزرے تھے کہ زلزلہ آ گیا
اب میں اور مالک مکان دونوں خیمے میں رہ رہے ہیں

وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ
اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں
آل عمران : 140

2005 میں کشمیر میں آنے والے زلزلہ میں ایسا عجیب واقعہ بھی دیکھا گیا کہ جو شخص تھوڑی دیر پہلے پوری ایک مارکیٹ کا مالک تھا چند لمحوں کے بعد ایک ریلیف کیمپ پر کھانا حاصل کرنے کے لیے لائن میں کھڑا ہے

چاہے تو میلوں فاصلے سے قمیص کی خوشبو سونگھا دے

بھلا قمیضوں سے بھی خوشبوئیں آتی ہیں؟؟؟
جب نہ چاہا تو شہر کے ساتھ ہی کنویں میں پڑے یوسف کی خبر نہ ہونے دی
اور جب چاہا تو میلوں فاصلے سے یوسف تو کجا اس کی قمیض سے ہی خوشبو پھیلا دی
علیہما السلام

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔
التكوير : 29

بھلا لکڑیاں بھی امانتیں پہنچانے کا کام کرتی ہیں
مگر لکڑیوں کے مالک نے جب چاہا تو ایک لکڑی سمندر کی لہروں پہ چلتی ہوئی اپنے پیٹ میں ہزار دینار لے کر مکتوب الیہ تک پہنچتی ہے

چاہے تو ذہین و فطین انسان کو بے بس کردے کہ اسے مردے کو دفنانے کی سمجھ نہ آنے دے
اور چاہے تو بے سمجھ کوے کو بھیج کر تجہیز و تدفین کے گر سکھا دیا

چاہے تو وقت کے نبی کو بت پرست قوم کی کانوں کان خبر نہ ہونے دے
اور چاہے تو چھوٹے سے ہدہد کو مخبر بنا کر بھیج دے

چاہے تو کمزور، ناتواں اور بے بس بچے (موسی علیہ السلام) کو دریا میں نہ ڈوبنے دے حالانکہ وہ اپنی کمزوری کی انتہا پر تھے
اور چاہے تو تکبر و رعونت میں پڑے فرعون کو لشکروں سمیت غرق کردے حالانکہ وہ اپنی طاقت کی انتہا پر تھا

چاہے تو سو سال گزرنے تک گدھے کو مار کر ہڈی پسلی الگ الگ کردے
اور چاہے تو اسی گدھے کے پاس پڑے کھانے اور پانی کو سو سال تک بدبودار بھی نہ ہونے دے

بحری جہاز Titanic کو سینکڑوں لوگوں نے بنایا، اس کا بنانے والا بولا: "تقدیر بھی اسے ڈبو نہیں سکتی”۔ پھر کیا ہوا کہ اس کا پہلا ہی سفر اسے لے ڈوبا۔

سفینہٴ نوحؑ کو بنانے والا اکیلا شخص، جو بولا:
[بسم الله مجريها ومرساها "اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا جا ٹھہرنا”]
تب پورا جہان ڈوبا اور یہ بچ گیا۔

اس کی تدبیر سب پر غالب ہے

وہ جب کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو پھر بت پرست باپ کے گھر توحید پرست خلیل پیدا کردیتا ہے
انا ربکم الاعلی کے دعویدار کی کابینہ میں "رجل مومن” کو کھڑا کردیتا ہے

لوگوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دعوت سے روکا اس کے چینلز بند کیے ملک بدر کیا وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو اللہ تعالیٰ نے فٹ-بال کے بہانے ڈاکٹر کے لیے قطر میں لوگوں کو جمع کردیا
اور ساری دنیا کے کیمروں کا رخ اس طرف کردیا

فرمایا :
إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا
بے شک وہ خفیہ تدبیر کرتے ہیں، ایک خفیہ تدبیر۔
الطارق : 15
وَأَكِيدُ كَيْدًا
اور میں بھی خفیہ تدبیر کرتا ہوں، ایک خفیہ تدبیر۔
الطارق : 16

کون یقین کرے گا

یہ وقت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں، دشمن کی قید میں ہیں، ستر سرکاری ججوں نے اس کے قتل کا فتوی جاری کردیا ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اے مامون! اسے قتل کردو قیامت کے دن اس کا خون میرے ذمے
مگر
اللہ تعالیٰ نے بچا لیا آج تاریخ اجمد بن حنبل کو تو یاد کرتی ہے
لیکن
ان ستر قاضیوں میں سے کسی کا نام بھی معلوم نہیں رہا

سامان سے لدا ہوا گدھا

ایک نوجوان کہتا ہے کہ میرے والدین اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی غرض سے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے ایک چور ہمارے گھر میں داخل ہوا اور ہمارا گدھا کھول کر لے گیا دو دن گزرے تو وہ چور اسی گدھے کو لے کر مارکیٹ میں سامان خریدنے گیا اس نے منڈی سے بہت سا سامان، پھل اور سبزیاں وغیرہ خرید کر اس گدھے پر لوڈ کردیا
پھر وہ ادھر مارکیٹ میں ہی کسی سے الجھ پڑا اور اس کی توجہ ادھر ہی صرف ہو گئی پیچھے سے گدھا چل پڑا اور سیدھا ہمارے گھر پہنچ گیا کیونکہ وہ گھر کا راستہ جانتا تھا
گدھا ہمارے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا لیکن اوپر لدے سامان کی وجہ سے دروازے سے داخل نہیں ہو پا رہا تھا جب میرے والد صاحب آواز سن کر دروازے کی طرف گئے تو دیکھا کہ ہمارا گدھا سامان سے لدا ہوا دروازے پر کھڑا ہینک رہا ہے

اسی نے فرمایا ہے :
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔
الشرح : 5
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
بے شک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے۔
الشرح : 6