اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کے تقاضے پورے کرنا فرض ہے

215۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (جہاد پر) آئے حتی کہ جب ہم ذات الرقاع (نامی پہاڑ) تک پہنچے، کہتے ہیں:  ہماری عادت تھی کہ جب ہم کسی گھنے سائے والے درخت تک پہنچتے تو اسے رسول اللہ ﷺ  کے لیے چھوڑ دیتے تھے، بیان کرتے ہیں: ایک مشرک آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ  کی تلوار درخت پر لٹکی ہوئی تھی، اس نے رسول اللہﷺ کی تلوار پکڑ لی، اسے میان سے نکالا اور رسول اللہﷺسے کہنے لگا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں؟

آپﷺ نے فرمایا: ((لَا)) ’’نہیں‘‘

اس نے کہا: تو پھر آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ((اَللهُ يَمْنَعُنِي مِنْك)) "”اللہ تعالیٰ مجھے تم سے محفوظ فرمائے گا۔“

رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں نے اسے دھمکایا تو اس نے تلوار میان میں ڈالی اور اسے لٹکا دیا۔ اس کے بعد نماز کے لیے اذان کہی گئی، آپ نے ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر وہ گروہ پیچھے چلا گیا، اس کے بعد آپ نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں۔ کہا: اس طرح رسول اللہ ﷺکی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو دو رکعتیں۔

توضیح وفوائد: اللہ تعالی کی ذات بابرکات پر ایمان اور یقین و معرفت میں جس قدر پختگی ہو گی اسی قدر اللہ کا خوف بھی زیادہ ہوگا اور اللہ کا خوف جس قدر زیادہ ہوگا غیر اللہ کا خوف اس قدر کم ہوگا، مثلاً:  جب یہ یقین پختہ ہو کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے تو انسان کبھی بزدل نہیں ہوگا اور یہ یقین جس قدر زیادہ ہوگا کہ رزق اللہ دیتا ہے تو وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرے گا۔

(أخرجه البخاري: 2910،4135، 4136، ومسلم:  843)

216۔خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبے کے سائے تلے اپنی چادر سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے آپ سے کفار کی ایڈا کے متعلق شکایت کرتے ہوئے عرض کی: آپ اللہ رب العزت سے ہمارے لیے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟ آپ اللہ تعالی سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ آپﷺ نے فرمایا:

((كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ)) (أخرجه البخاري: 3612، 3852،  6943)

’’تم لوگوں سے پہلے کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، پھر اس میں انھیں کھڑا کر دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے لیکن اس قدر سختی انھیں دین سے برگشتہ نہ کرتی تھی، پھر ان کے گوشت کے نیچے ہڈی اور پٹھوں پر لوہے کی کنگھیاں کھینچ دی جاتیں تھیں لیکن یہ اذیت بھی انھیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکی۔ اللہ کی قسم! یہ دین ضرور مکمل ہو گا، اس حد تک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے بھیڑیے کا خوف کرے گا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔“

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان دین کی راہ میں آنے والی آزمائشوں پر صبر کرے تو اللہ تعالٰی اس کے دل سے لوگوں کا خوف ختم کر دیتا ہے اور اپنا خوف اس کے دل میں پیدا کر دیتا ہے۔

جس پر آشوب دور میں آپ نے یہ بشارت دی اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں اس قدر امن ہو جائے گا۔

217۔سیدنا  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اُقْتُلُوا الْحَيَّاتِ كُلَّهُنَ، فَمَنْ خَافَ ثَأْرَهُنَّ فَلَيْسَ مِنِّي)) (أخرجه أبو داود:  5249، 5261)

’’تمام قسم کے سانپوں کو مار ڈالا کرو۔ جو شخص ان کے انتقام سے ڈرے، وہ مجھ سے نہیں۔ ‘‘

218۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَرَكَ الحَيَّاتِ مَخَافَةً طَلَبِهِنَّ فَلَيْسَ مِنَّا، مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَا هُنَّ))

’’جس شخص نے سانپوں کو ان کے انتقام کے ڈر سے چھوڑ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ جب سے ہماری ان (سانپوں) سے لڑائی شروع ہوئی ہے ہم نے ان سے صلح نہیں کی۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں آپﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَرَكَهُنَّ خَشْيَةً أَوْ مَخَافَةً تَأْثِيرٍ، فَلَيْسَ مِنَا))

’’جس شخص نے ان (سانپوں) کو ان کے انتقام لینے یا ان کے متاثر کرنے کے ڈر سے چھوڑ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘

توضیح و فوائد: کسی چیز کے فطری خوف سے انکار ممکن نہیں، مثلاً: انسان شیر اور سانپ سے ڈرتا ہے۔ لیکن اگر سانپ کو وہ اس لیے چھوڑ دے کہ یہ مجھ سے بدلہ لے گا تو یہ اللہ کے خوف اور اس کی ذات پر اعتماد کے منافی ہے محض خوبی نہیں۔ سانپ اور انسان کی دشمنی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ شیطان سانپ کے ذریعے سے جنت میں داخل ہوا اور آدم علیہ السلام کو بہکایا تو اس روز سے انسان اور سانپ کی دشمنی چلی آ رہی ہے۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان اور سانپ فطری طور پر ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ واللہ اعلم.

219۔سیدنا ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ))  ’’کوئی شخص اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے۔‘‘

صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کوئی شخص اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((يَرَى أَمْرًا، لِلَّهِ عَلَيْهِ فِيهِ مَقَالٌ، ثُمَّ لَا يَقُولُ فِيهِ، فَيَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ، لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ: خَشْيَةُ النَّاسِ، فَيَقُولُ: فَإِيَّايَ.

كُنتَ أَحَقُّ أَن تَخْشَى.

(أخرجه أحمد: 2037، وأبو داود:5250)

(أخرجه ابن ماجه:4008)

’’وہ ایسا کام ہوتا دیکھتا ہے جس کے بارے میں اللہ کی طرف سے اس پر بولنا ضروری ہے، پھر وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرتا، (اور غلط کام سے منع نہیں کرتا)۔ اسے قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا: تجھے فلاں مسئلے میں بات کرنے سے کیا رکاوٹ تھی؟ وہ کہے گا: لوگوں کا خوف تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تیرا زیادہ حق مجھ ہی سے ڈرنے کا تھا۔‘‘

220۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((أَلَا لاَيَمَعَنْ رَجُلاً هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَّقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ)) )أخرجه أحمد:  11428، وابن ماجه: 4007)

’’(‎لوگو!) سن لو! کسی آدمی کو لوگوں کی ہیبت حق کہنے سے روک نہ دے جبکہ اسے (حق) معلوم ہو۔‘‘

221۔ سیدنا  ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات کسی مجلس سے اٹھتے تو اپنے ساتھیوں کے لیے یہ دعا فرماتے:

((اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنْ الْيَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَلْ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا)) ( أَخْرَجَهُ الترمذي:  3502)

’’اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت سے اس قدر حصہ دے جو ہمارے درمیان اور تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے اور اپنی اطاعت سے اتنا حصہ عنایت فرما جس سے تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچا دے اور (قضا و قدر) پر اتنا یقین عطا فرما جس کے ذریعے سے تو ہمارے لیے دنیوی مصائب کو ہلکا کر دے اور جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں اپنے کانوں اپنی آنکھوں اور دیگر قوتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے (یعنی مرتے دم تک ہم اپنی تمام قوتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں) اور انھیں ہمارا وارث بنا )یعنی ان سے ہم ایسے کام کر جائیں جو مرنے کے بعد بھی ہمارے کام آئیں) اور جو کوئی ہم پر ظلم ڈھائے تو تو اس سے ہمارا بدلہ لے اور جو کوئی ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہو تو تو اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما  اس کے مقابلے میں ہمیں غالب فرما) اور ہم پر ہمارے دین کے سلسلے میں کوئی مصیبت نہ آئے (یعنی دینی مصائب اور فتنوں سے ہمیں بچا) اور دنیا کو ہمارا مقصد اعظم اور منتہائے علم و نظر نہ بنا اور ہم پر بے رحم دشمنوں کو مسلط نہ فرما۔‘‘

توضیح و فوائد:  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا ایسا خوف مطلوب ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے روک دے اور شرک سب سے بڑی نافرمانی ہے۔ اگر کوئی آدمی شرک اور گناہ کی زندگی نہیں چھوڑتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ تعالی سے نہیں ڈرتا۔

222۔سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺکہا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ)) (أخرجه البخاري: 6367، ومُسْلِمٌ:2706 )

’’اے اللہ! میں عاجزی، سستی، بزدلی اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اور میں عذاب قبر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ ‘‘

223۔سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ  کے ہمراہ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپﷺ غزوہ حنین سے واپس ہوئے۔ لوگوں نے آپ کو گھیر لیا، وہ آپ سے کچھ مانگ رہے تھے حتی کہ آپ کو مجبوراً ایک ہے ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک اس کے کانٹوں سے الجھ گئی، تو نبیﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا:

((أَعْطُونِي رِدَائِي، فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُونِی بَخِيلًا وَلَا كَذُوْبًا وَلَا جَبَانًا)) (أخرجه البخاري:2821،3148)

’’میری چادر تو مجھے واپس کر دو۔ اگر میرے پاس اس (درخت) کے کانٹوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں سب کے سب تم میں تقسیم کر دیتا۔ تم مجھے کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔“

توضیح وفوائد: نبی اکرم ﷺکا مقصد یہ تھا کہ مجھے فقر کا کوئی ڈر نہیں کہ میں مال بچا کر رکھوں، اس لیے میرے پاس جو مال آتا ہے، وہ میں تمھارے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں۔ ایک دوسری حدیث سے بھی

اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ میں نے مدینہ منورہ میں عصر کی نماز نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے، بہر حال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے سونے کا ایک ٹکڑا جو ہمارے پاس تھا یاد آ گیا، میں نے اس کو ناپسند کیا کہ مبادا مجھے وہ اللہ کی یاد سے روک دے، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حديث: 851)

………………….