اللہ تعالی کے حکم سے بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا نا جائز ہے
842۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا عَدْوٰى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ)) (أخرجه البخاري: 5707)
’’بیماری کا متعدی ہونا، بدشگونی لینا، الو کا بولنا اور ماہ صفر کا منحوس ہونا کچھ حقیقت نہیں رکھتا، البتہ تم کوڑھ کی مرض میں مبتلا آدمی سے اس طرح بھا گو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘
843۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((لا تُورِدُوا الْمُمْرِضَ عَلَى الْمُصِحِ)) (أخرجه البُخَارِي: 5771، 5774، ومُسْلِمٌ:2221)
’’تم اپنا بیمار اونٹ تندرست اونٹوں میں نہ چھوڑو۔‘‘
944۔ عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض (بھی) تھا۔
رسول اللہﷺ نے اسے پیغام بھیجا: ((إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ)) (أخرجه مسلم: 2231)
’’ہم نے (بالواسطہ) تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔‘‘
845۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَا تُدِيمُوا النَّظَرَ إِلَى الْمَجْذُومِينَ)) (أخرجه أحمد:2075، وابن ماجه:3543، وفي الباب عن علي رضی اللہ تعالی عنہ عند أحمد:581)
’’کوڑھ والے مریضوں کو ٹکٹکی لگا کر نہ دیکھو۔‘‘
846۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الطَّاعُونُ رِجْسٌ، أُرْسِلَ عَلٰى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلٰى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ. فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ)) (أخرجه البخاري: 3473، ومُسْلِمٌ:2218)
’’طاعون ایک گندگی ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ یا تم سے پہلے لوگوں پر بھی گئی تھی، لہٰذا جب تم سنو کہ کسی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب اس ملک میں پچھلے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ۔‘‘
847۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا تو آپ
ﷺنے مجھے بتایا:
((أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللهُ عَلٰى مَنْ يَشَاءُ، وَأَنَّ اللهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرٍ شَهِيدٌ))
’’وہ ایک عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور ایمانداروں کے لیے اللہ تعالی نے اسے باعث رحمت بنا دیا ہے۔ جب کہیں طاعون پھیلے تو جو بھی مسلمان اپنے اس شہر میں صبر کر کے بغرض ثواب قیام کرے، نیز اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی نے جو مصیبت قسمت میں لکھ دی ہے وہی پیش آئے گی تو اللہ کے ہاں اسے ایک شہید کا ثواب ملے گا۔‘‘
توضیح و فوائد: اس باب کی احادیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں کہ از خود کسی دوسرے کو چمٹ جائے، البتہ اللہ کے حکم سے جراثیم اثر انداز ہو سکتے ہیں، تاہم اس وہم سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایسی بیماری والے افراد سے میل ملاپ سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خودکوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص کے ساتھ کھانا کھایا ہے اور جسے بیعت کے لیے آنے سے منع کیا تو یہ حکم لوگوں کے کمزور ایمان کی وجہ سے تھا، اس لیے طاعون والی جگہ جانے یا وہاں سے نکلنے یا کوڑھ والےشخص کے ساتھ بیٹھنے سے بچنا چاہیے تاکہ آدمی وسوسے کا شکار نہ ہو۔
(أخرجه البخاري:3474، 5734، 6619)