اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا عبد کہلا نا حرام ہے اور ایسا نام بدلنا ضروری ہے

652۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:  ((أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ يُغَيِّرُ الْإِسْمَ الْقَبِيحَ)) (أَخْرَجَهُ الترمذي:2839)

’’نبی ﷺ برے نام  (کو اچھے نام سے) تبدیل کر دیتے تھے۔‘‘

653۔ سیدنا ابو شریح رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ چند لوگ نبی کریمﷺ کی خدمت میں وفد کی صورت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے انھیں سنا کہ وہ ایک شخص کو عبد الحجر کہ کر پکار رہے تھے۔

آپﷺ نے اس سے پوچھا: ((ما اسمك؟)) ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے کہا: عبد الحجر

آپ ﷺ نے اس سے کہا: ((إِنَّمَا أَنتَ عَبْد الله)) ’’(آج سے) تمھارا نام عبد اللہ ہے۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البخاري في الأدب المفرد: 273، 274/2،وابن أبي شيبة: 477/8)

توضیح و فوائد: انسان صرف اللہ کا بندہ ہے، اس لیے عبدیت کی نسبت اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی کے شروع میں عبد کا لفظ لگا کر نام رکھا جا سکتا ہے، جیسے عبداللہ، عبد الرحمن وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے نام کے شروع میں عبد کا لفظ لگا کر نام رکھنا جیسے عبدالرسول، عبد النبی وغیرہ تو ایسا کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔

654۔ خلیفہ بن خیاط بیان کرتے ہیں:

((كَانَ اسْمُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عَبْدَ الْكَعْبَةِ، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَ الْرَّحْمَنِ)) (أَخْرَجَهُ الحاكم:306/3، والطبراني في الكبير:253)

زمانہ جاہلیت میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف کا نام عبدالکعبہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا۔

655۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:

((أَنَّ آدَمَ عَلَيْهِ عليه السلام سَمَى ابْنَهُ: عَبْدَ الْحَارِثِ))

’’آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا تھا۔‘‘(أخرجه الطبري في التفسير: 624/10، وأورده السيوطي في الدر المنثور: 151/3، وعزاه إلى عبد ابن حمید و ابن مردویه، تفسير الطبري: 629/10)

مذکورہ روایت کے ساتھ اس آیت ﴿فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا ﴾ (الأعراف 190: 7)) ’’پھر جب اس نے ان دونوں کو ایک تندرست (بچہ) عطا فرمایا تو انھوں نے اس کے ساتھ بہت سے شریک بنا ڈالے، اس میں جو اس نے انھیں عطا کیا۔‘‘

 کی تفسیر سیدنا ابن عباس، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہما عکرمہ اور قتادہ  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کی ہے اور ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں اسے ہی اختیار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: دونوں اقوال میں سے درست ترین قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت میں شرک سے مراد شرک فی الاسم (نام میں شرک) ہے نہ کہ شرک فی العبادۃ اور مراد آدم و حواء علیہما السلام ہیں کیونکہ اس تفسیر پر علمائے مفسرین کا اجماع ہے۔

توضیح و فوائد: حارث نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے نہیں ہے بلکہ انسان کو حارث کہا گیا ہے، اس لیے عبد الحارث نام رکھنا نا جائز ہے۔ مذکورہ بالا حدیث اور آیت کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد آدم و حواء ہیں اور انھوں نے یہ شرکیہ نام اس لیے رکھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام عبداللہ اور عبیداللہ وغیرہ رکھتے تھے تو وہ فوت ہو جاتے تھے۔ شیطان نے حوا علیہا السلام کو وسوسہ ڈالا کہ اگر وہ اس کا نام عبدالحارث رکھے تو وہ زندہ رہے گا۔ انھوں نے ایسا کیا تو ان کا بچہ بچ گیا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ (دیکھیے، الضعيفة للألباني، حدیث: 342) بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد آدم و حواء نہیں ہیں۔ باپ ہونے کے ناتے ظاہری لفظوں میں تثنیہ کا صیغہ بولا ہے لیکن اس سے مراد اولاد آدم ہے اور ایسا اسلوب عرب میں عموماً ہوتا ہے۔ دوسری تفسیر ہی راجح ہے کیونکہ مذکورہ روایت ضعیف ہے اور آیت میں آدم وحواء علیہما السلام کے نام کی صراحت نہیں ہے۔