اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ان کی فضیلت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا ۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىِٕهٖ ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأعراف:180]
سورۃ الاعراف کی یہ آیت کریمہ جو اس وقت خطبہ میں پڑھی گئی ہے، اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں اپنے ناموں (اسماء حسنی) کے متعلق چند انتہائی اہم احکام بیان فرمائے ہیں:
پهلا حکم:
﴿وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى﴾
’’اللہ تعالی کے بہت سارے اچھے اچھے نام ہیں۔‘‘
یعنی اس میں اس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کے ان ناموں پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو قرآن وسنت میں مذکور ہیں۔ کسی نام کا انکار جائز نہیں جس طرح مشرکین عرب نے اللہ تعالی کے اسم گرامی ’’رحمن‘‘ کا انکار کیا تھا۔ اللہ رب العزت سورة الفرقان آیت نمبر 60 میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ ۗ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا﴾ [الفرقان: 60]
’’ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمن ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا۔‘‘
حدیبیہ کے معاہدے کی تحریر میں جب رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوائی تو کفار مکہ نے کہا: یہ مٹاؤ اور اس جگہ ’’باسمك اللهم‘‘ لکھو۔ (غرضیکہ انہوں نے اللہ تعالی کے اسم گرامی (رحمن) کا انکار کیا)۔ [صحيح البخاري، الشروط، باب الشروط في الجهاد…. الخ (2731) و احمد (328/1) و ابن حبان (4872)]
معلوم ہوا کافروں نے اللہ تعالی کے کئی اسماء حسنی کا انکار کیا ہے۔ اس لیے ہمارے اوپر یہ فرض اور واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے تمام اسماء حسنی پر ایمان رکھیں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ اللہ تعالی کے تمام نام بہت اچھے اور بڑی شان و عظمت والے ہیں۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے ناموں کی شان و عظمت مذکور ہے۔
سورہ بنی اسرائیل میں ہے:
﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی﴾ [بنی اسرائیل:110]
’’کہہ دیجئے: اللہ کو پکارو یا رحمن کو پکارو کوئی سا (نام) بھی پکارو اس کے بہت سارے اچھے اچھے نام ہیں۔‘‘
اور مزید تفصیل کے لیے دیکھیں سورۃ الواقعہ آیت نمبر (74) اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ [الواقعة:74]
’’پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو۔‘‘
اور سورۃ الرحمن آیت نمبر 78 میں ارشاد ربانی ہے:
﴿ تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ﴾ [الرحمن: 78]
’’تیرے پروردگار کا نام با برکت ہے جو عزت و جلال والا ہے۔‘‘
اسی مضمون کو رب ارض و سماء نے سورۃ الحاقہ آیت نمبر 52 میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿فَسَبِّحُ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ﴾ [الحاقة:52]
’’پس تو اپنے عظیم رب کے نام کی پاکی بیان کر۔‘‘
اور سورۃ الاعلیٰ میں ہے۔
﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰى﴾ [الأعلى:1]
’’اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر۔‘‘
اور عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز کی ابتداء میں جو دعا استفتاح پڑھی جاتی ہے اس میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے:
(وَتَبَارَكَ اسْمُكَ)
’’تیرا نام بڑی برکت اور عظمت والا ہے۔‘‘
اور صحیحین کی حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’بلا شبہ اللہ کے ایک کم سو (یعنی نانوے) نام ہیں جس شخص نے ان کو یاد کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الشروط، باب ما يجوز من الأشراط و الثنيافي الإقرار (2736).]

ایک ضروری وضاحت:
بعض لوگ اس حدیث سے مغالطہ کھا جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کے کل نام ننانوے ہیں حالانکہ اس حدیث میں تو ننانوے ناموں کی فضیت مذکور ہے یہ قطعاً مذکور نہیں کہ نام نانوے ہیں۔ بلکہ احادیث مبارکہ میں تو یہ صراحت بھی مذکور ہے کہ بہت سارے نام اللہ تعالی نے کسی کو بتائے ہی نہیں۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کا حزن و ملال زیادہ ہو جائے تو وہ یہ دعائیہ کلمات کہے:
(اللّٰهُمَّ إِنِّى عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ آمَتِكَ وَفِي قَبْضَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِي حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِي قَضَاءُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ، (أَوْ اَلْهَمْتَ عِبَادَكَ) أَوِ اسْتَأْثُرْتَ بِهِ فِي مَكْنُونِ الْغَيْبِ عِندَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَجِلَاءَ هَمَّى وَغَمِّى مَا قَالَهَا عبد قّطّ إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ غَمَّهُ، وَابْدَلَهُ فَرَجًا) [صحيح الترغيب والترهيب، كتاب البيوع، باب الترغيب في كلمات يقولهن المديون
والمهموم والمكروب (1822) والصحيحة (199) و ابویعلی (198/9)]
’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا فرزند ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں اور تیرے قبضے میں ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تیرا فیصلہ میرے حق میں ثابت ہے، تیرے فیصلے عدل وانصاف والے ہیں، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جس نام کے ساتھ تو نے اپنی ذات کا نام رکھا ہے یا اس کو تو نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کی تعلیم دی ہے یا اس کو تو نے اپنے ہاں غیب کے خزانوں میں مخفی رکھا ہے کہ تو قرآن پاک کو میرے دل کی زندگی کا باعث بنائے اور میرے حزن وغم کو دور فرمائے۔ جو شخص جب بھی یہ دعائیہ کلمات کہتا ہے تو اللہ اس کے حزن و غم کو دور فرماتا ہے اور حزن وغم کو فرحت و مسرت میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے کئی اسماء حسنی کسی کو بتلائے ہی نہیں بلکہ اپنے پاس خزانہ غیب میں ہی رکھتے ہیں۔
بہرحال اللہ تعالی کے بے شمار نام ہیں اور سارے نام شان و عظمت والے ہیں۔ ان میں سے ایک نام اللہ ذاتی ہے باقی سب صفاتی ہیں۔
دوسرا حکم:
﴿فَادْعُوْهُ بِهَا﴾
’’ان ناموں کے ساتھ اللہ کو پکارو۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کو اس کے ہر نام کے ساتھ پکارنا درست ہے۔ (يَا اللهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا، رَبِّ، يَا رَبِّ، يَا رَحْمَنُ، يَا غَفَّارُسب درست ہے)۔
قرآن مجید میں نبیوں اور ولیوں کی بہت ساری دعائیں مذکور ہیں جن میں انہوں نے اللہ تعالی کو مختلف ناموں سے پکارا ہے۔ رب کائنات سورۃ الاعراف آیت نمبر 23 میں فرماتے ہیں:
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳﴾ [الأعراف:23]
’’(آدم اور حوا) دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
اور سورۃ المائدۃ میں ارشاد ربانی ہے:
﴿قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾ [المائدة:114]
’’عیسی ابن مریم نے دعا کی اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما، کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور بعد کے ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہو جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو جائے اور تو ہم کو رزق عطاء فرمادے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے۔‘‘
اور اللہ رب العزت سورہ یوسف آیت نمب101 میں فرماتے ہیں:
﴿رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۫ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۝۱۰۱﴾ (يوسف:101]
’’اے میرے پروردگارا تو نے مجھے ملک عطاء فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی۔ اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا و آخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے۔‘‘
اسی طرح یہ مضمون نبیﷺ کے فرامین میں بھی بیان ہوا ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبی ﷺ نے ایک شخص سے سنا وہ دعا کر رہا تھا:
(اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنتَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدُ، وَلَمْ يُولَدُ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوا أَحَدٌ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب جامع الدعوات من النبي بالة (3475) و ابن ماجه (3857) و ابوداود (1494)]
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس لیے کہ تو معبود برحق ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو ایک ہے، بے نیاز ہے، نہ اسے کسی نے جنا ہے نہ وہ جنا گیا ہے اور کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ (اس پر) آپ ﷺ نے فرمایا، اس نے اللہ سے اس کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے جس کے ساتھ جب اللہ سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ عطا کرتا ہے اور جب اس کے ساتھ دعا کی جاتی ہے تو وہ دعا قبول کرتا ہے۔‘‘
اور سنن ابی داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کی روایت ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک شخص نماز ادا کرتے ہوئے دعا کر رہا تھا۔ (جس کا ترجمہ یہ ہے): ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بس تیرے لیے حمد و ثناء ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو (اپنے بندوں پر) شفیق ہے، تو انعامات کرنے والا ہے، بلا نمونہ آسمانوں اور زمین کو بنانے والا ہے۔ اے وہ ذات! جو بزرگی اور عزت والی ہے، اے وہ ذات جو زندہ ہے، قائم ہے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’اس شخص نے اللہ سے اس کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جاتی ہے تو وہ دعا قبول ہوتی ہے اور جب اس کے ساتھ سوال کیا جاتا ہے تو وہ پورا ہوتا ہے۔[جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب خلق الله مائۃ رحمة رقم: 3544 سنن أبي داود رقم: 1495 ابن ماجه 3858 مسند احمد 120/3 رقم: 12229]
(اللَّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَ الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَاحَيُّ يَاقَيُّومُ) [سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء (1495) والنسائي (52/3) حدیث صحيح.]
اور صحیح مسلم میں ہے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدوی (دیہاتی) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، اس نے عرض کیا، مجھے ایسا ذکر بتائیں جس پر میں مداومت کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا وَّسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ)
کا ذکر (ہمیشہ) کر‘‘ بدوی نے کہا، یہ ذکر تو میرے رب کے لیے ہے میرے لیے کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے لیے:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي). کے کلمات کہہ کر دعا کر‘‘ (ان کلمات کا ترجمہ یوں ہے ): ’’اے اللہ! مجھے معاف فرما۔ مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت عطا کر اور مجھے رزق عطا کر اور مجھے تندرستی عطا کر‘‘[سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء بين السجدتين (850) والترمذي (374) و ابن ماجه (898)]
اور فرض نماز ختم ہوتے ہی جو مسنون اذکار کیے جاتے ہیں، ان میں ایک دعا ہے جس میں اللہ تعالی کے صفاتی ناموں کا تذکرہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (فرض) نماز کا سلام پھیرتے تو صرف اتنی دیر ٹھہرتے جس میں آپ (یہ کلمات) کر سکیں:
(اللَّهُمَّ أَنتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) [صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب الذكر بعد الصلاة (591)]
’’اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور تو سلامتی دینے والا ہے۔ اے وہ ذات جو بزرگی اور عزت والی ہے تو بابرکت ہے۔‘‘
چند مزید احادیث اسی عنوان پر سماعت فرمائیں:
(يَاحَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اسْتَعِيثُ)[ جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب، رقم: 3524]
’’اے ہمیشہ زندہ رہنے والے، اے ہمیشہ قائم رہنے اور قائم رکھنے والے، میں تیری رحمت کے ساتھ مدد طلب کرتا ہوں۔‘‘
(اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِفْ قَلْبِي عَلَى طَاعَتِكَ) [صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تعريف الله تعالى القلوب كيف شاء رقم 6750]
’’اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنی اطاعت پر ثابت فرما۔‘‘
غرضیکہ مختلف دعاؤں میں اللہ تعالی کو اس کے مختلف اسماء حسنی کے ساتھ پکارا گیا ہے، اور یہ طریقہ دعاؤں کی قبولیت میں انتہائی مؤثر ہے۔
تيسرا حكم:
﴿وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىِٕهٖ ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾ [الأعراف:180]
’’اللہ کے ناموں میں الحاد کرنے والوں کو ترک کر دو اور ان کی قطعاً پیروی نہ کرو۔‘‘
اللہ کے ناموں میں الحاد کیا ہے؟
1۔ اللہ کے ناموں میں تبدیلی کرنا:
جس طرح عزیز سے عزی اور اللہ سے اللّٰت وغیرہ۔
2۔ اللہ کے ناموں میں اضافہ کرنا:
یعنی جو نام قرآن وسنت سے ثابت نہیں اسے اللہ کا نام قرار دینا۔
3۔ اللہ کے ناموں کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا یا ان کے معنی و مفہوم کا بالکل
انکار کرنا یا تحریف کرنا:
جس طرح معطلہ، جہمیہ اور مشبہہ وغیرہ کا باطل عقیدہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ [الشورى:11]
’’اللہ کی مثل کوئی نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی دیکھنے سننے والا ہے لیکن اس کا دیکھنا سننا مخلوق کے دیکھنے سننے کی طرح نہیں۔ یہی معاملہ باقی تمام صفات میں ہے تمام اسماء صفات کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن ان میں تاویل تحریف اور تشبیہ سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔
چند غلط فہمیوں کا ازالہ:
1۔ آج بعض لوگوں نے مختلف اسماء حسنی کے مختلف خواص اور اجر و ثواب مقرر کر رکھے ہیں جو کہ قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔
2۔ بعض لوگوں نے اللہ کے کچھ ناموں کا ترجمہ کر کے وہ نام اسی معنی و مفہوم میں اللہ کے بندوں کو دے رکھے ہیں۔ مثلا: دستگیر، غوث، گنج بخش، داتا، اور مشکل کشا و غیرہ یہ بھی اللہ کے ناموں میں الحاد کی ہی ایک شکل ہے۔
3۔ بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے بھی ننانوے نام بنا رکھے ہیں۔ ان میں سے اکثر نام قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔
4۔ ٹی وی میں میوزک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام
یہ ایک انتہائی خطرناک گستاخانہ حرکت ہے کہ آج ٹی وی ریڈیو پر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی پڑھے جاتے ہیں اور ساتھ میوزک بج رہا ہوتا ہے۔ یاد رکھئے: عبادات، ورد و ظائف اور ذکر اذکار میں میوزک موسیقی، طبلہ سارنگی اور دیگر آلات لہو ولعب کو شامل کرنا یہودیوں، نصرانیوں اور مشرکین عرب کی نقالی اور اندھی تقلید ہے۔ مؤمن مسلمان کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔