اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے لوازم کا وجوب
205۔سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض
کی: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ((وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعة)) ’’تو نے اس قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟‘‘
اس نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت۔ آپ نے فرمایا: ((فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ))
’’تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تمھیں محبت ہوگی۔‘‘(أخرجه البخاري: 6171، ومسلم: 2639 واللفظ له.)
206۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت کرتا ہے مگر اس کے ساتھ نہیں ملا؟ (اعمال میں ان سے بہت پیچھے ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبُّ))
’’(جنت میں) آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ (دنیا میں) محبت رکھتا ہے۔‘‘(أخرجه البخاري:6168،6169 ومُسْلِمٌ:2640)
توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس جیسے اعمال کرنے کی کوشش بھی کرے۔ اگر عمل کما حقہ محبوب جیسے نہیں کر سکتا تو کوئی بات نہیں۔ اللہ اس کے ساتھ اس کا حشر کرے گا۔ لیکن دعوی محبت کا کرتا اور کام محبوب کی پسند کے بالکل خلاف کرنا، محبت نہیں۔ ایک سنگین مذاق اور سفید جھوٹ ہے۔
207۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((ثَلَاثَ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَّكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ ممَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُّحِبُّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يَّكْرَهُ أَنْ يَّعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكُرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ)) (أخرجه البخاري:16، 6941، ومُسْلِمٌ:43)
’’تین خصلتیں ایسی ہیں جس آدمی میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس (اور لذت) چکھ لیتا ہے: اللہ اور اس کے رسول، اسے سب سے زیادہ پیارے اور محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ اسے کفر میں لوٹ جانا اتنا برا لگے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا خیال کرتا ہے۔‘‘
208۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَأّنْ يُّحِبَّ فِي اللهِ، وَأَنْ يُّبْغِضَ فِي اللهِ، وأَن تُوقَدَ نَارٌ عَظِيمَةٌ فَيَقَعُ فِيهَا، أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُّشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ النسائي: 4990)
’’لوگوں سے اس کی محبت اور ناراضی خالص اللہ تعالی کے لیے ہو۔ شعلے مارتی بھڑکتی آگ میں گرنا اسے اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے زیادہ پسند ہو۔‘‘
209۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوذر سے پوچھا:
((أَیُّ عُرَى الْإِيْمَانِ أَوْثَقُ؟)) ’’ایمان کا کون سا کڑا زیادہ مضبوط ہے؟‘‘
اس نے کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْمُوَالَاةُ فِي اللهِ. وَالْمُعَادَاةُ فِي اللهِ، وَالْحُبُّ فِي اللهِ، وَالْبَغْضُ فِي اللهِ))
’’ایمان کا مضبوط ترین کڑا) اللہ ہی کے لیے کسی سے دوستی، اللہ ہی کے لیے دشمنی، اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے بغض رکھتا ہے۔‘‘
(أخرجه الطبراني في الكبير: 11537، وله شواهد يتقوى بها، فله شاهد من حديث البراء بن عازب أخرجه أحمد:18524، والطيالسي:747، وابن أبي شيبة: 41/11،229/13، والبيهقي في الشُّعب:13 وآخر من حديث أبي ذر أخرجه أبو داود: 4599، وأحمد: 21303، وثالث من حديث معاد أخرجه أحمد:22130 والطبراني في الكبير:426/20 ورابع من حديث ابن مسعود عند الطيالسي:378، والطبراني في الكبير: 10531، و في الأوسط، 4476، و في الصغير،624، و الحاكم: 480/2، و ابن عبد البر في التمهيد: 430/17، و خامس من حديث عمرو بن الجموح عند أحمد:15549، وسادس من حديث سهل بن معاذ الجهني أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 15617، 15638، والترْمِذي: 2521، وأبو يعلى: 1485، 1500، والحاكم:64/2، والطبراني في الكبير: 20412، وله شواهد يقوي بها.)
210۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے سب سے افضل ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ((أَنْ تُحِبُّ لِلهِ، وَتُبْغِضَ لِلهِ، وَتَعْمِلَ لِسَانَكَ فِي ذِكْرِ اللهِ)) (أخرجه أحمد:22130)
’’(سب سے افضل ایمان) یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی سے محبت کرے اور اللہ ہی کے لیے کسی سے غصہ اور ناراضی رکھے اور تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘
211۔سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَحَبَّ لِلهِ وَأَبْغَضَ لِلهِ، وَأَعْطٰى لِلهِ، وَمَنَعَ لِلهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيْمَانَ)) (أَخْرَجَه أبو داود: 4681)
’’جس شخص نے اللہ کی خاطر کسی سے محبت کی، اللہ ہی کی خاطر کسی سے ناراضی اور غصے کا اظہار کیا، اللہ کے لیے دیا اور اللہ کی رضا مندی کے پیش نظر نہ دیا تو اس شخص نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا۔‘‘
توضیح و فوائد: ہمیشہ محبوب کی مرضی کے مطابق ولی میلان و رجحان رکھنا اور اس کو ہر چیز پر ترجیح دینا محبت کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت عبادت کا اہم ترین رکن ہے۔ اللہ تعالی کی بندگی کی طرح اس کی محبت بھی فرض ہے۔ جب تک ہر چیز سے بڑھ کر اللہ سے محبت نہ کی جائے اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہو سکتا نہ انسان اس کی لذت محسوس کر سکتا ہے اور ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان سے محبت نہ کی جائے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور ان سے نفرت نہ کی جائے جن سے اللہ تعالی کو نفرت ہے۔ اس محبت کی ظاہری شکل اتباع رسولﷺ ہے محض اسمی اور رسمی دعوائے محبت کوئی معنی نہیں رکھتا۔
212۔سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ہم کو بلند آواز سے برسر عام
یہ کہتے ہوئے سنا:
((أَلَّا إِنَّ آلَ أَبِي يَعْنِي فَلَانًا، لَيْسُوا لِي بِأَوْلِيَاءَ، إِنَّمَا وَلِيَ اللهُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ) (أخرجه البخاري: 5990، ومُسْلِمٌ:215)
’’آل ابی (فلاں لوگ) میرے دوست نہیں ہیں۔ میرا مددگار تو بس اللہ تعالی ہے اور نیک مومن بندے میرے دوست ہیں۔
توضیح و فوائد: نبی سے زبانی کلانی محبت اور تعلق کا دعوٰی کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک عمل دعوے کے مطابق نہ ہو۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے یہی بیان فرمایا کہ تمھارے اصل تعلق دار اور دوست متقی اور پرہیز گار لوگ ہی ہیں، خواہ ان کی تم سے دور کی کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو۔
213۔سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ تھے جبکہ آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری جان کے علاوہ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں۔ نبی ﷺ نے انھیں فرمایا:
((وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ حَتّٰى أَکُونَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ))
’’نہیں نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میری ذات تمھیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو۔‘‘
(بعد ازاں) سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپﷺ سے کہا: اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ
عزیز ہیں۔
نبی اللہ نے فرمایا: ((الان یا عمر)) ’’عمر! اب )تیرا ایمان مکمل ہوا ہے)۔ ‘‘(أخرجه البخاري:6632)
توضیح و فوائد: کامل ایمان کے لیے شرط لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ بات عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔
214۔سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((اَلْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ الله وَ مَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ الله))
’’انصار سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور ان سے بعض صرف منافق ہی رکھے گا، اس لیے جو انصار سے محبت کرے گا اللہ تعالی اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالی اس سےبغض رکھے گا۔‘‘ (أخرجه البخاري:3783، ومسلم:75)
…………………..