اللہ تعالی کی نعمت کی ناشکری کفر ہے
908۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اَلتَّحَدُّثُ بِنِعْمَةِ اللهِ شُكْرٌ، وَتَرَكَهَا كُفْرٌ)) (أخرجه أحمد:18449، 18450، والبزار في الزوائد:1637)
’’اللہ کی نعمت کا تذکرہ شکر ہے اور اس کا تذکره نہ کرنا ناشکری ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی نے کوئی نعمت دی ہے تو اس نیت سے اس کا اظہار کرنا ضروری ہے کہ ضرورت مند لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور لوگوں کے دل اللہ کی طرف مائل ہوں۔ اللہ کی نعمتوں کو اس لیے چھپانا کہ کوئی مانگ نہ لے ناشکری ہے۔ اور یہاں کفر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
909۔ سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
(( إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ فَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا فَقَالَ أَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ هُوَ شَكَّ فِي ذَلِكَ إِنَّ الْأَبْرَصَ وَالْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ قَالَ فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا وَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ يَرُدُّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَنَمٍ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ تَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ لَهُ إِنَّ الْحُقُوقَ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ فَقَالَ لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِي وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي فَخُذْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ))
(أخرجه البخاري:3464، 6653، ومسلم:2964)
’’بنی اسرائیل میں تین شخص تھے: کوڑھی، اندھا اور گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو کوڑی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کیا چیز پیاری ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت جلد اور اس کی اچھی رنگت کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا اور اسے اچھے رنگ کے ساتھ خوبصورت جلد عنایت ہو گئی۔ پھر فرشتے نے کہا: تجھے کون سا مال پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کہا۔ راوی کو شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا تھا، تاہم اسے دس ماہ کی حاملہ اونی دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا: تجھے اس میں برکت دی جائے گی۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: تو کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا: مجھ سے یہ گنجا پن جاتا رہے اور میرے خوبصورت بال ہوں کیونکہ لوگ مجھ سے
نظرت کرتے ہیں۔ فرمایا: فرشتے نے اس پر بھی ہاتھ پھیرا تو اس کا گنجا پن جاتا رہا اور خوبصورت بال اگ آئے، پھر فرشتے نے اس سے کہا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: مجھے گائے پسند ہے، چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے کر کیا کہ تجھے اس میں برکت دی جائے گی، اس کے بعد وہ فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالٰی میری بینائی مجھے واپس کر دے تاکہ میں اس کے ذریعے سے لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی واپس کر دی۔ فرشتے نے دریافت کیا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: مجھے بکری پسند ہے، چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری اسے دے دی۔پھر ان دونوں کی اونٹی اور گائے بچے جنے لگیں اور بکری نے بھی بچے جننے شروع کر دیے تو اس کوڑھی کے پاس جنگل بحر (ریوڑ) اونٹ ہو گئے، گنجے کے پاس جنگل بھر گائیں اور اندھے کے پاس جنگل بھر بکریاں ہو گئیں، اس کے بعد وہی فرشتہ انسانی شکل وصورت میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، دوران سفر میں میرا سامان وغیرہ ختم ہو گیا ہے، آج میں اللہ کی مدد اور پھر تیرے تعاون کے بغیر اپنے ٹھکانے پر نہیں پہنچ سکتا، لہٰذا میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تجھے اچھی رنگت، خوبصورت جلد اور بہترین مال دیا ہے، مجھے ایک اونٹ چاہیے تاکہ میں اس پر سوار ہو کر سفر کر سکوں۔ کوڑھی نے کہا: مجھ پر اور بہت کی ذمہ داریاں ہیں۔ فرشتے نے کہا: غالباً میں تجھے پہچانتا ہوں، کیا تو کوڑھی نہ تھا۔ سب لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو فقیر بھی تھا، پھر اللہ تعالی نے تجھے سب کچھ دے دیا ؟ اس نے کہا: میں تو جدی پشتی (باپ دادا سے) مال دار چلا آ رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا: اگر تو جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے پھر ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا، پھر وہی فرشتہ اس شکل و صورت میں گنجے کے پاس گیا، اس سے بھی وہی کہا جو اس نے کوڑھی سے کہا تھا۔ گنجے نے بھی ویسا ہی جواب دیا جیسا کوڑھی نے دیا تھا۔ فرشتے نے اس سے کہا: اگر تو جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تجھے ویسا کر دے جیسا تو پہلے تھا۔ پھر فرشتہ اسی شکل و صورت میں نابینے کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میں ایک مسکین اور مسافر ہوں، دوران سفر میں زاد سفر ختم ہو گیا ہے، لہٰذا اب میں اللہ کی مدد اور پھر تیری توجہ کے بغیر اپنے وطن نہیں پہنچی سکتا، میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر ایک بکری مانگتا ہوں جس نے تیری آنکھیں دوبارہ روشن کیں تاکہ میں اس کے ذریعے سے اپنا سفر جاری رکھ سکوں۔ اس (اندھے) نے کہا: بے شک میں نابینا تھا، اللہ تعالٰی نے مجھے بینائی سے نوازا، میں محتاج تھا، اللہ تعالی نے مجھے مالدار کر دیا، لہٰذا تو جو چاہے لے لے۔ اللہ کی قسم! آج جو ضرورت والی چیز بھی تو اللہ کے نام پر لے گا میرا تجھ پر کوئی احسان نہیں ہو گا۔ فرشتے نے کہا: تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، صرف تم لوگوں کا امتحان مقصود تھا، یقینًا اللہ تعالی تجھ سے راضی ہو گیا ہے اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا ہے۔‘‘
توضیح وفوائد: شکر کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کیا جائے اور فقراء ومساکین کو یہ کہہ کر نہ ٹالا جائے کہ خود ہماری اپنی ضرورتیں بہت زیادہ ہیں۔ اپنی سابقہ حالت کو سامنے رکھ کر خرچ کیا جائے کہ یہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ انسان دنیا میں خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ ہی چلا جائے گا۔ ناشکری یہ ہے کہ انسان ضرورت مند کو دینے سے گریز کرے۔