اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش کرنا منع ہے

689۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! جانوں پہ بن آئی ہے، بال بچے ہلاک ہو رہے ہیں، مال ختم ہو گئے ہیں اور مویشی مر رہے ہیں، اللہ سے ہمارے لیے بارش طلب کیجیے۔ ہم اللہ کے حضور آپ کی سفارش پیش کرتے ہیں اور اللہ کو آپ کے حضور سفارشی لاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَيْحَكَ أَتَدْرِي مَا تَقُولُ؟)) .

’’افسوس تجھ پرا کیا تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“

اور رسول اللهؑ مسلسل تسبیح (سبحان اللہ) کہتے رہے حتی کہ اس (خوف کے اثر) کو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے چہروں میں محسوس کیا گیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

((وَيْحَكَ إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللهِ عَلٰى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ، شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذٰلِكَ. وَيْحَكَ، أَتَدْرِي مَا اللهُ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلٰى سَمَاوَاتِهِ لَهٰكَذَا))

’’افسوس تجھ پر! اللہ تعالی کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے ہاں سفارشی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالٰی کی شان اس سے کہیں زیادہ باعظمت و عظیم (اور برتر) ہے۔ افسوس مجھ پرا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی کیا شان ہے؟ بلاشبہ اس کا عرش آسمانوں پر اسی طرح ہے۔‘‘

اور آپ ﷩ﷺنے اپنی انگلیوں سے قبے کی سی شکل بنائی۔ اور فرمایا:

((إِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أُطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ))

’’تحقیق وہ عرش اس طرح سے چر چرا رہا ہے جیسے پالان اپنے سوار کے ساتھ چر چراتا ہے۔ ‘‘

توضیح و فوائد : ہر چند یہ روایت ضعیف ہے لیکن اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالی تو کسی کے ہاں سفارشی بنا کر پیش کرنا منع ہے کیونکہ دو تو قادر مطلق ہے، خالق ہے، حاکم ہے۔ ہرشے پر اس کا حکم دیتا ہے۔ سفارش تو وہ کرتا ہے جو مر ہے اور مقام میں اس سے کم ہو جس سے سفارش کی جارہی ہے۔

(أخرجه أبو داود: 4726، والدارمي في الرد على الجهمية: 24، والبغوي في شرح السنة:175، 176/1،

وإسناده ضعيف الجهالة جبير بن محمد بن جبير. الحديث وإن كان ضعيف الإسناد إلا أن معناه متفق عليه

فيحرم على العبد أن يطلب من الله الشفاعة إلى أحد من خلقه لأن في ذلك تنقصا لمقام الربوبية ولأن رتبة الشافع أدنى من مرتبة المشفوع إليه. والله أعلى وأجل وأعظم من أن يكون شافعا؛ لأنه الخالق المدير المتصرف في الكون بما شاء وهو رب كل شيء ومليكه وهو الكبير المتعال، وهو الذي يشفع الشافعون إليه لا مانع لما أعطى ولا معطي لما منع ولا رافع لما خفض ولا خافض لما رفع جل في علاه)