اللہ تعالی پر قسم ڈالنے کا جواز اور اللہ کے مقابلے میں خود خدا بننے کی حرمت

707۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ربیع رضی اللہ تعالی عنہا (بنت نظر بن ضمضم) کی بہن، ام حارثہ نے کسی شخص کو زخمی کر دیا تو وہ مقدمہ نے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الْقِصَاصُ الْقِصَاص)) ’’اس میں قصاص ہے قصاص!‘‘

تو ام ربیع رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا ؟ اللہ کی قسم! اس

سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((سُبْحَانَ اللهِ يَا أُمَّ الرَّبِّيعِ الْقِصَاصُ كِتَابُ اللهِ))

’’سبحان الله ام ربیع! قصاص اللہ کی کتاب ( کا حصہ) ہے۔‘‘

انھوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا اللہ تعالی اپنے فضل سے ایسا نہیں ہونے دے گا)۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: وہ مسلسل ہی بات پر (ڈٹی) رہیں حتی کہ وہ لوگ دیت لینے پر راضی ہو گئے۔ تو اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ مَنْ لَّوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَاَ بَرَّهُ)) (أخرجه البخاري:2806،4500،4661، ومسلم: 1675)

’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری کرتا ہے۔‘‘

708۔ سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

إِلَّا أَخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ ” (لوگو) کیا میں تمیں اہل جنت کی خیرات دوں ؟

صحابہ کرام نے عرض کی: کیوں نہیں!

آپﷺ نے فرمایا:

((كُلِّ ضَعِيفٍ مُتَضَعَّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ)) (أخرجه البخاريُّ: 4918، و6071، ومسلم: 2853)

’’ہر کمزور، جسے کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر وہ شخص کسی معاملے میں اللہ پر قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘

709۔  سیدنا جندب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((أَنَّ رَجُلًا قَالَ وَاللهِ لَا يَغْفِرُ اللهُ لِفْلَانٍ، وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ: مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلّٰى عَلَىَّ أَنْ لَّا أَغْفِرْ لِفُلَانٍ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفْلَانٍ، وَأَحْبَطْتُ عَمَلًا)) (أخرجه مسلم:2621)

’’ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم اللہ تعالی فلاں شخص کو نہیں بخشے گا تو اللہ تعالی نے فرمایا: کون ہے جو مجھ پر قسم کھا رہا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا؟ میں نے اسے تو بخش دیا اور (ایسا کہنے والے) تیرے سارے عمل ضائع کر دیے۔‘‘

710۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((كَانَ رَجُلَانِ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ مُتَوَاخِيَيْنِ, فَكَانَ أَحَدُهُمَا يُذْنِبُ، وَالْآخَرُ مُجْتَهِدٌ فِي الْعِبَادَةِ، فَكَانَ لَا يَزَالُ الْمُجْتَهِدُ يَرَى الْآخَرَ عَلَى الذَّنْبِ، فَيَقُولُ: أَقْصِرْ، فَوَجَدَهُ يَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ، فَقَالَ لَهُ: أَقْصِرْ، فَقَالَ: خَلِّنِي وَرَبِّي! أَبُعِثْتَ عَلَيَّ رَقِيبًا؟! فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ- أَوْ- لَا يُدْخِلُكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، فَقَبَضَ أَرْوَاحَهُمَا، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَقَالَ لِهٰذَا الْمُجْتَهِدِ: أَكُنْتَ بِي عَالِمًا؟ أَوْ كُنْتَ عَلَى مَا فِي يَدِي قَادِرًا؟ وَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي، وَقَالَ لِلْآخَرِ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّارِ)) (أخرجه أبو داود: 4901)

’’بنی اسرائیل میں دو آدمی آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے۔ ایک گناہوں میں ملوث تھا جبکہ دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا۔ عبادت میں راغب جب بھی دوسرے کو گناہ میں دیکھتا تو اسے گناہ سے بچتے کی تلقین کرتا۔ ایک دن اس نے دوسرے کو گناہ کرتے ہوئے پایا تو اسے کہا: باز آجا۔ اس نے کہا:  (میں جیسا بھی ہوں) مجھے رہنے دو، میرا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے۔ کیا تجھے مجھ پر کوئی چوکیدار بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ تجھے معاف نہیں کرے گا یا تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا، چنانچہ وہ دونوں فوت ہو گئے اور اللہ رب العالمین کے ہاں پہنچے تو اللہ تعالی نے عبادت میں کوشش کرنے والے سے فرمایا: کیا تو میرے متعلق (زیادہ) جاننے والا تھا یا جو میرے ہاتھ میں ہے تجھے اس پر قدرت حاصل تھی؟ اور پھر گناہ گار سے فرمایا: جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا۔ اور دوسرے کے متعلق فرمایا: اسے جہنم میں ڈال دو۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے ایسی بات کہی جس سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ ہو گئی۔

711۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ علم کو فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ، يَنزِلُ بِهَا فِي النَّارِ، أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمُشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ)) أخرجه البخاري:6477، ومسلم:2988)

’’بلاشبہ (بعض اوقات) بندہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ مشرق و مغرب کے درمیانی مسافت سے بھی زیادہ جہنم میں جا گرتا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: اللہ تعالی پر قسم لالنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی یہ کہے: اللہ کی قسم! اللہ ضرور ایسا ہی کرے گا، یا پھر یوں کہے: اللہ کی قسم اللہ ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالی پر قسم ڈالنے کی تین صورتیں ہیں:

1۔ جس امر کے واقع ہونے یا نہ ہونے کی خیر اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے دی ہو۔ اپنے ہر امر پر قسم کھانا جائز ہے، الا یہ کہنا۔ اللہ کی قسم اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا۔

2۔ اللہ تعالی سے اچھا گمان اور امید رکھتے ہوئے اللہ پر تم النا۔ یہ جائز ہے اور اس بندے کے اللہ پر یقین اور توکل کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث: 707 میں گزرا ہے۔

3۔  اللہ پر قسم ڈالنے والا خود فری کا شکار ہو اور تمبر کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا پارسا کھتے ہوئے قسم کھائے، نیز اللہ کے بارے میں بدگمانی رکھتے ہوئے اس سے فضل و احسان سے دوسروں کو محروم رکھنے کی کوشش کرے۔ اسے تالی، یعنی اللہ تعالی پر قسم ڈال دیتا کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود خدا بننے کی کوشش کرنا منع اور حرام ہے جیسا کہ احادیث: 709 اور 710 میں وضاحت ہے۔