اللہ تعالیٰ سے توبہ وانابت
الحمد لله الكريم التواب، غافر الذنب وقابل التوب شديد العقاب، خلق الإنسان لعبادته، وجعل الدنيا دار كسب وعمل، والآخرة دار جزاء للعقاب والثواب وَ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ۲﴾ أحمده سبحانه. وأشكره على سوابع فضله وإحسانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك سيدنا محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو کرم والا تو یہ قبول کرنے والا گناہ معاف فرمانے والا اور سخت عذاب والا ہے۔ اس نے انسانوں کو اپنی عبادت اور بندگی کے لئے پیدا کیا دنیا کو دار العمل اور آخرت کو دار الجزاء قرار دیا موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ عمل میں کون بہتر ہے۔ اور وہ غلبہ والا اور بخشنے والا ہے۔ اس رب پاک کے بے پایاں فضل و احسان پر میں اس کی حمد بیان کرتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و سلم – اما بعد!
برادران پر اور ان اسلام دنیاوی زندگی در حقیقت ایک گذرگاہ ہے۔ اور آخرت جو اس کے بعد آنے والی ہے۔ وہی مستقل قیام گاہ ہے۔ لہٰذا اس کے لئے دنیا ہی میں عمل صالح کا توشہ تیار کر لو تاکہ دنیا اور آخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو اور گناہ و معصیت کے کاموں سے بچو کیونکہ یہ باعث رسوائی و ندامت ہیں۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ۶﴾ (الفاطر: 5،6)
’’تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا تمہیں قریب دے۔ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے۔ تاکہ وہ دوزخ والوں میں ہوں۔‘‘
مسلمانو ا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ان تمام اوصاف کی تعلیم دے دی ہے۔ جن سے متصف ہونا ہمارے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
(أخذ النبي صلى الله عليه وسلم بمنكبي فقال: كُن في الدُّنيا كانك غريب أو عابر سبيل) [صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب سوم (6416) و مسند احمد: 24/2 (4764)]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے مونڈھوں کو پکڑ کر فرمایا کہ دنیا میں اس طرح زندگی گذار و گویا تم ایک اجنبی ہو یا کوئی مسافر۔‘‘
چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
(إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلا تنتظر المساء، وخُذْ مِنْ صحتيك المرضك، ومن حياتك الموتك) [صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب سوم (6416) و مسند احمد: 24/2 (4764)]
’’جب شام کر لو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح کر لو تو شام کے انتظار میں نہ رہو اور اپنی صحت سے بیماری کے لئے کچھ تو شے تیار کر لو اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لئے۔‘‘
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(اغتنم خمسا قبل خمس: شبابك قبل هرمك، وصحتك قَبْلَ سقمك، وغناك قبل فقرك، وفراغك قبل شغلك، وحياتك قبل موتك) [ملاحظہ ہو: فیض القدیر 16/2۔ بعض لوگوں نے کہا ہے۔ کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ ابن عراقی نے کہا ہے۔ کہ اس کی اسناد حسن ہے۔ حاکم نے مستدرک 306/4 میں اس کی تخریج کی ہے۔ اور اس کے بخاری و مسلم کی شرط پر ہونے کا اشارہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے سیوطی نے اس حدیث پر صحبت کا حکم لگایا ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے۔ کہ اس کی سند میں جعفر بن برکان ہیں جو ضعیف ہیں۔]
’’یعنی پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلےغنیمت جانو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے صحت کو بیماری سے پہلے مالداری کو محتاجی سے پہلے فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘
اللہ کے بندو! دنیا کا ایک ایک لمحہ زوال پذیر ہے۔ ہر جاندار فنا کی طرف جارہا ہے۔ اللہ کے سوا یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔ اور ہر نعمت ختم ہو جانے والی ہے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ۲۶ وَّ یَبْقٰی وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ۲۷﴾ (الرحمن: 26،27)
’’جو مخلوق بھی زمین پر ہے۔ اسے فنا ہوتا ہے۔ اور تمہارے پروردگار ہی کا چہرہ جو صاحب جلال و عظمت ہے۔ باقی رہے گا۔‘‘
دینی بھائیو! کیا ہم میں سے ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ نہیں لیتا؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ اسے دنیا سے کوچ کرتا اور کہیں جاتا ہے؟ شاید اس طرح وہ اپنے رب کی جانب رجوع کر سکے اس سے انابت و توبہ کی تجدید کرے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادے۔
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں۔ جو موت سے غافل صحت وعافیت کی نعمتوں میں داد عیش دے رہے ہوتے ہیں۔ اپنی قوت و توانائی اور جوانی پہ نازاں ہوتے ہیں، ضعف، پیری کا انہیں کھٹکا تک نہیں ہوتا موت کو بھول کر بھی کبھی یاد نہیں کرتے کہ اچانک بیماری کا حملہ ہوتا ہے، قوت و توانائی کے بعد کمزوری آجاتی ہے۔ خوشی کی جگہ غم اور خوشحالی کی جگہ ناخوشحالی مسلط ہو جاتی ہے۔ اس وقت کوئی ہم نشین اس کو آرام دے سکتا ہے۔ نہ مونس و غم خوار اسے خوش کر سکتا ہے؟ صحت کے زمانہ میں جو چیز میں مرغوب تھیں ان سے بھی اکتا جاتا ہے۔ کھانے پینے کی خواہش ختم ہو جاتی ہے، دوا تک لینا گوارہ نہیں کرتا۔ عمر رفتہ اور جوانی کے ان ایام کو یاد کرتا ہے۔ جنہیں وہ ضائع کر چکا ہوتا ہے۔ اپنا جمع کردہ مال اور بنائے ہوئے گھر اور بالا خانے اسے یاد آتے ہیں، دنیا چھوڑتے ہوئے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اپنے پیچھے اپنی کمزور اور ناتواں اولاد چھوڑ رہا ہوتا ہے۔ جن کے ضائع اور برباد ہونے کا اسے ڈر لگا رہتا ہے۔ اور خود اس کا نفس بیماری و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور دل شفائے عاجل کی امید لئے رہتا ہے۔ لیکن جب بیماری انتہا کو پہنچ چکی ہو، دوا بے اثر ہو رہی ہو خود اس کا مزاج دگرگوں ہو چکا ہو اطباء حیران ہوں تو اب کون سی تدبیر کارگر ثابت ہو سکتی ہے؟ ایسے وقت میں ماضی کی غلطیوں پر ندامت ہوتی ہے۔ اور غفلت و کوتاہی کے انجام بد کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن:
﴿لَقَدْ كُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۲۲﴾ (ق:22)
’’یہ وہ دن ہے۔ جس سے تو غافل ہو رہا تھا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔‘‘
اسی طرح کتنے ایسے لوگ بھی گذر چکے جن پر کسی مرض والم کے بغیر اچانک موت کا حملہ ہوا اور وہ بلا کسی مہلت کے لقمہ اجل بن کر دنیا سے رخصت ہو گئے اللہ تعالی نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ۱۹ وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ ؕ ذٰلِكَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ۲۰﴾ (ق:19)
’’موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آئیچی (اے انسان! ) میں وہ حالت ہے۔ جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘
وفات یافتہ اگر مومن اور اللہ اور رسول کا فرماں بردار ہے۔ تو موت اس کے لئے اس دار محن سے راحت کا سبب ہو گی لیکن اگر شرک و معصیت میں مبتلا تھا تو موت اس کے لئے عذاب کی ابتدا ہے۔
ہم ہمیشہ یہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ کہ کتنے لوگ دنیا سے رخت سفر باندھ کر رخصت ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف کیفیت میں اور مختلف اسباب سے موت آ پہنچتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم مقصد حیات سے غافل لہو و لعب میں مبتلا ہیں، قرآن کریم اعلان کر رہا ہے:
﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ۱﴾ (الانبياء:1)
’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ اور وہ غفلت میں پڑے اس سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔‘‘
لوگو! سعید و نیک بخت وہی ہے۔ جو اپنے مولی کے مراقب و نگراں ہونے کا احساس رکھے ظاہر و پوشیدہ ہر حال میں اس سے ڈرے گناہ اور معصیت کے کاموں سے بچے اور ایسے اچھے اعمال کرے جو قبر میں اس کا ساتھ دیں اور عذاب الہی سے بچائیں۔
لہٰذا! اللہ کی خشیت پیدا کرو اور جہاں تک ممکن ہو اس سے انابت و رجوع کرو اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت مہربان ہے۔ وہ بندوں کی توبہ سے خوش ہوتا اور ان کی معذرت قبول فرماتا ہے۔ اس کا اعلان ہے:
﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۵۳ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰی رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۵۴ وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَۙ۵۵ اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ۵۶ اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ۵۷ اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ۵۸﴾ (الزمر:53 تا 58)
’’اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آواقع ہو اور تمہیں مدد نہ ملے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو اس نہایت اچھی کتاب کی جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے۔ پیروی کرو۔ مبادا اس وقت کوئی متنفس کہنے لگے کہ ہائے افسوس اس تقصیر پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہا۔ یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیز گاروں میں ہوتا۔ یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جاتا ہو تو میں نیکو کاروں میں ہو جاؤں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله الباقي على الدوام، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، أحمده سبحانه وأشكره، وأسأله التوفيق للتوبة والإنابة. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف کا سزاوار اللہ ہے۔ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کی بادشاہی ہے۔ اور اس کے لئے تعریف ہے۔ اور وہی ہر چیز پر قادر بھی ہے۔ میں اس رب پاک کی حمد اور اس کا شکر بیان کرتا ہوں اور اس سے توبہ وانابت کی توفیق مانگتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد! مسلمانو! اللہ سے ڈرو اس کی طاعت و بندگی کرو اور قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ ہو خود اپنا محاسبہ کرو اپنے نفس کا جائزہ لو اور رب العالمین کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
﴿يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَة﴾ (الحاقه: 18)
’’اس روز تم پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی۔‘‘
لہٰدا! قبل اس کے کہ تمہاری زندگی ختم ہو عمر جواب دے اور موت کی بے ہوشی طاری ہو اپنے بچاؤ کا سامان کر لو۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ۸۸ فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ ۙ۬ وَّ جَنَّتُ نَعِیْمٍ۸۹ وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِۙ۹۰ فَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِؕ۹۱ وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَۙ۹۲ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍۙ۹۳ وَّ تَصْلِیَةُ جَحِیْمٍ۹۴ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِۚ۹۵﴾ (الواقعۃ:88تا 95)
’’اگر وہ اللہ کے مقربین میں سے ہے۔ تو اس کے لئے آرام اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ ہیں۔ اور اگر دو دائیں ہاتھ والوں میں سے ہے۔ تو کہا جائے گا کہ تجھ پر سلام ہو کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے۔ اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے۔ تو اس کے لئے کھولتے پانی کی ضیافت ہے۔ اور جہنم میں داخل کیا جاتا بیشک یہ حق الیقین ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔