امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی کا حکم

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۝۷﴾ (سور الاحزاب آيت:72)
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
نیز ارشاد فر مایا: ﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾ (سورة النساء، آیت:58)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں تا کیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ۔
ارشاد ربانی ہے ﴿ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ۝۲﴾ (سور القصص، آیت:26)
ترجمہ: ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔
نيز فرمايا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ۪ۙ﴾ (سورۂ معارج: آیت 32)
ترجمہ: اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ فِي مَجْلِسٍ يحدث القوم جَاءَ أعرابي فقال: متى السَّاعَةُ فَمَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ يُحدث. حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ قَالَ: اينَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَارَسُولَ اللهِ قَالَ: فَإِذَا ضيعت الأمانة فانتظرِ السَّاعَةَ، قَالَ : كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قال: إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: كتاب العلم، باب من سئل علما وهو مشتغل في حديثه فأتم الحديث ثم أجاب السائل)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی اس مجلس میں تھے جس میں آپ قوم کو نصیحت فرمارہے تھے کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور آپ سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے اپنی نصیحت جاری رکھی یہاں تک کہ جب آپ نے اپنی بات مکمل کر لی تو پوچھا وہ شخص کہاں ہے جس نے قیامت کے بارے میں سوال کیا ؟ آدمی نے کہا یا رسول اللہ میں ہوں، آپ نے فرمایا کہ جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو، آدمی نے پوچھا ضائع کرنے کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جب سیادت نااہل کو سونپ دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: مَا خَطَبَنَا النَّبِيِّ الله إِلَّا قَالَ: لَا إيمَانَ لِمَنْ لا أَمَانَةَ لَهُ، وَلا دِينَ لِمَنْ لا عهد لَهُ (اخرجه احمد).
(مسند احمد (۲۱۰/۳) باقی مسند المكثرين، باب مسند أنس بن مالك رضي الله عنه، وصححه الألباني في صحيح الجامع: (7179).
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کم ہی خطبہ دیا ہو گا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس کے پاس امانت داری نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کے پاس ایفاء عهد نہیں اس کا دین نہیں۔
تشریح:
اللہ تعالی نے امانت داری کو اہل جنت کے صفات میں شمار فرمایا ہے اور امانت داری کا حکم دیا ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس امانت داری نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کے پاس ایفاء عہد نہیں اس کا دین نہیں، امانت میں خیانت کرنا قیامت کی نشانیوں اور علامتوں میں سے ہے نیز امانت میں خیانت کرنا منافقین کی علامت بھی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں امانت دار بنائے اور خیانت کرنے سے محفوظ رکھے۔
فوائد:
٭ امانت کی حفاظت ضروری ہے۔
٭ امانت کی حفاظت ایمان کی علامت ہے۔
٭ امانت کو صاحب امانت تک پہنچانے کا حکم ہے۔
٭٭٭٭٭