انبیاء و صالحین کے درجات میں غلو اور ان کی حد سے زیادہ تعریف نا جائز، شرک کا ذریعہ اور ممدوح کو فتنے میں ڈالنے کا باعث ہے

747۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جو بت سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے، بعد میں انھی کی عرب کے ہاں عبادت ہونے لگی۔ وہ دومۃ الجندل میں بنو کلب کا بت تھا۔ سواع، بنو ہذیل کا اور یغوث مراد قبیلے کی شاخ بنو غطیف کا بت تھا جو وادی جرف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے۔ یعوق، بنو ہمدان کا بت تھا اور نسر کی قوم حمیر عبادت کرتی تھی جو ذوالکلاع کی اولاد سے تھے۔

یہ پانچوں سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب ان پر موت آئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ جن مقامات پر یہ بزرگ تشریف فرمایا کرتے تھے وہاں ان کی مورتیاں بنا لو اور ان کا نام ابھی بزرگوں کے نام پر رکھو، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت ان کی پوجا پاٹ نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنھوں نے بت قائم کیے تھے اور لوگوں میں علم نہ رہا تو ان کی پوجا پاٹ ہونے لگی۔(أخرجه البخاري:4920)

748۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے برِسر منبر کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ))

’’مجھے ایسا نہ بڑھاؤ جس طرح نصاری نے عیسی ابن مریم عام کو بڑھایا۔ بس میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہا کرو: تم یوں کہا کرو: ’’آپ ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ أخرجه البخاري: 3445)

749۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا: یا محمد! اے ہمارے سردار! ہمارے سردار کے بیٹے! ہم سب سے بہتر! ہمارے افضل ترین شخص کے فرزندا! تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ بِتَقْوَاكُمْ، وَلَا يَسْتَهْوِ يَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَبْدُ اللَهِ وَرَسُولُهُ، وَاللهِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنزَلَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ)) ((أخرجه أحمد:12551،13530، والضياء في المختارة:1627، وعبد بن حميد: 1309، والنسائي في

عمل اليوم والليلة: 248، 249، وابن حبان: 6240، والبيهقي في الدلائل:489/5)

’’لوگو! تقوی اختیار کرو۔ شیطان تمھیں بہکا نہ دے۔ میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نہیں پسند کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبے سے بڑھاؤ جو اللہ عز وجل نے مجھے عطا کیا ہے۔‘‘

750۔ سیدنا  عبد اللہ بن سخیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت

میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا: آپ ہمارے (سید) سردار ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((السَّيِّدُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى)) ’’سید (اور حقیقی سردار) اللہ تبارک و تعالی ہے۔‘‘

ہم نے کہا: آپ ہمارے صاحب فضل و فضیلت اور صاحب جو دوسخا ہیں۔ تو آپ سیﷺ نے فرمایا:

((قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ)) (أخرجه أبو داود: 4806، والنسائي في الكبرى10003،10005)

’’تم اس طرح کی بات تو کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنالے۔ (کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔‘‘

151 سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری شب زفاف کی صبح میرے پاس نبیﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم بیٹھے ہو۔ کچھ بچیاں اس وقت دف بجا رہی تھیں اور میرے ان آباء و اجداد کے اوصاف گا رہی تھیں جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بچی گاتے گاتے کہنے لگی: ہم میں ہے ایک نبی جو جانتا ہے کل کی بات۔

اس وقت نبی اﷺ نے فرمایا: ((لا تَقُولِي هٰكَذَا، وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ))

’’اس طرح نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح تم پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘

سنن بیہقی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں، (نبیﷺ نے فرمایا:)

((سُبْحَانَ اللهِ، لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللهُ، لَا تَقُولُوا هٰكَذَا وَقُولُوا: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ، فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ)) . (أخرجه البخاري: 4001، 5147، والبيهقي:298/7)

’’سبحان اللہ کل کی بات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تم اس طرح نہ کہو ( بلکہ ) یوں کہوا ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔ ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔ ہمیں بھی مبارک تمھیں بھی مبارک‘‘

752۔  سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کی ہم نے ایک شخص سے سنا، وہ دوسرے شخص

کی تعریف کر رہا تھا اور اس کی تعریف میں مبالغے سے کام لے رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:  ((أهلكتم))

’’تم نے اسے ہلاک کر دیا۔‘‘

يا فرمايا: ((قَطَعْتُمْ ظَهْرَ الرَّجُلِ)) ’’تم نے اس شخص کی کمر توڑ دی ہے۔‘‘(أخرجه البخاري: 2663،6060، ومسلم:3001)

753۔ سیدنا ابوبکرہ  رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نے نبیﷺ کے پاس کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپﷺ نے کئی مرتبہ فرمایا:

((وَيْلَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ))

’’تجھ پر افسوس۔ ہے! تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔“

پھر آپﷺ نے تلقین فرمائی:

((مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لَا مَحَالَةً فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ فَلَانًا وَاللهُ حَسِيبُهُ، وَلَا أَزْكِّى عَلَى اللّهِ أَحَدًا، أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذٰلِكَ مِنْهُ)) (أخرجه البخاري:2662، 6061، 6062، ومسلم:3000)

’’تم میں سے اگر کوئی اپنے بھائی کی ضرور تعریف کرنا چاہتا ہو تو اسے یوں کہنا چاہیے: اللہ ہی فلاں

شخص کے متعلق صحیح علم رکھتا ہے۔ میں اس کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہراتا۔ میں اسے ایسا ایسا

گمان کرتا ہوں، بشرطیکہ وہ اس کی اس خوبی سے واقف ہو۔”

754۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما

رہے تھے: ((إِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ)) (أخرجه ابن ماجه:3743)

’’ایک دوسرے کی تعریف سے پر ہیز کرو، بلاشبہ یہ ذبح کرنے کے برابر ہے۔‘‘

755۔ سیدنا مقداد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:

((أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَحْثِيَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التَّرَابَ)) (أخرجه مسلم:3002)

’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں۔‘‘