انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل انسان
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت
اہم عناصرِ خطبہ :
01. تذکرہ ایک عظیم شخصیت کا
02. ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تعارف
03. فضائل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
04. عملی زندگی کے بعض پہلو
05. خصوصیاتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
06. خلیفۂ اول کے بعض اہم کارنامے
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! آج ہم ایک عظیم شخصیت کا ذکرِ خیر کر رہے ہیں ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس کے متعلق تمام اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے کہ وہ انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت کے بعد سب سے افضل جماعت یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل ہیں ۔ اورجن کو اللہ تعالی نے بہت ہی بلند مرتبہ نصیب کیا ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس نے سفر وحضرمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور نہ صرف یہ کہ اپنی تمام تر جسمانی توانائیاں اسلام کیلئے وقف کردیں بلکہ اللہ کے راستے میں اپنا پورا مال بھی خرچ کردیا ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس نے رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس وقت نصرت ومدد کی جب ما سوا ئے چند ایک کے باقی سب لوگ آپ کو رسوا کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی اس وقت تصدیق کی جب ما سوا ئے چند ایک کے باقی سب لوگ آپ کوجھٹلا رہے تھے ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس کے ایمان کو پوری امت کے ایمان کے ساتھ تولا گیا تو اس کے ایمان کا وزن زیادہ تھا۔
٭ وہ شخصیت کہ جس کو اللہ تعالی نے ہجرتِ مدینہ کے تاریخی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بننے کا شرف نصیب کیا ۔
٭ وہ شخصیت کہ جس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔
٭وہ شخصیت کہ جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سر انجام دیا ۔
٭وہ شخصیت کہ جس کو غیروں نے تو نشانہ بنایا ہی ، لیکن اپنوں نے بھی ان کی قدر اُس طرح نہ کی جیسی کرنی چاہئے تھی ۔
٭ وہ شخصیت کہ جو اسلام قبول کرنے کے بعد زندگی بھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی مشیر ووزیر رہے ۔ اور جب انتقال ہوا تو قبر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ملی ۔
اِس شخصیت سے میری مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم اسی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کریں گے ، ان شاء اللہ تعالی ۔ اور خطبہ کے آغاز میں ہی ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اِس عظیم شخصیت سے محبت کرنا ہمارے ایمان کا جزو ہے ۔ اور کسی مومن کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اِس شخصیت سے دلی محبت کا اظہار نہ کرے ۔ جس انسان کے دل میں اِس شخصیت کے بارے میں کوئی جھول ہے یا وہ ان سے محبت کرنا اپنے ایمان کا لازمی حصہ نہیں سمجھتا تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہو گا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت اسی شخصیت کے ساتھ تھی ۔ جیسا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ
( أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ ؟ ) ’’ آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔
میں نے کہا : مردوں میں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
میں نے کہا : پھر کون ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ [ البخاری :۳۶۶۲، مسلم : ۲۳۸۴]
جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا ، کیا کسی سچے مومن کو اُن سے اظہار محبت کرنے میں کوئی تردد ہو سکتا ہے ! ہرگز نہیں۔بلکہ سچا مومن تو صدقِ دل کے ساتھ ان سے محبت کرنا اور ان کے فضائل ومناقب کا تذکرہ کرنا تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ اس لئے ہر داعی وواعظ پر ان کا یہ حق ہے کہ وہ ان کے فضائل کا تذکرہ کرے ، ان کی عملی زندگی کا مطالعہ کرے اور ان کیلئے دعائے خیر کرے ۔ اسی لئے آج ہم انھیں موضوعِ خطبہ بنا رہے ہیں ۔
اورآئیے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کون تھے ؟
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تعارف
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام’ عبد اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب القرشی التیمی‘ تھا مگر آپ ابو بکر بن ابی قحافۃ کے نام سے زیادہ معروف تھے ۔ آپ کی پیدائش منٰی میں ہوئی جوکہ مکہ مکرمہ میں چند مقدس مقامات میں سے ایک ہے ۔
آپ کے والد کا اصل نام تو عثمان بن عمرو تھا، تاہم وہ ابو قحافہ کی کنیت کے ساتھ زیادہ مشہورتھے ۔ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہوئے ۔جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والد کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَوْ أَقْرَرْتَ الشَّیْخَ فِی بَیْتِہِ لَأتَیْنَاہُ ) [ صحیح ابن حبان : ۵۴۷۲ بإسناد صحیح ]
’’ اگر آپ اِس بزرگ کو گھر میں ہی رہنے دیتے تو ہم خود ان کے پاس آ جاتے ۔ ‘‘
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ان کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہی زیادہ بہتر تھا ۔ اِس موقعہ پر ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مبارکباد دی ۔ [ السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ ج ۱ ص ۵۷۷]
اور چونکہ ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے تو آپ نے فرمایا :
( غَیِّرُوْا ہٰذَا بِشَیْیٍٔ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ ) [ مسلم : ۲۱۰۲]
’’ اِس سفیدی کو کسی رنگ کے ساتھ بدل دو اور سیاہ رنگ لگانے سے بچو ۔ ‘‘
جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلمی بنت صخر تھا اور کنیت ام الخیر تھی ۔ انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ آئیے ان کے قبولِ اسلام کا واقعہ سنئے ۔
اِس واقعہ سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ خود ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کتنی اذیتیں برداشت کیں ۔ اور انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر شدید محبت تھی !
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کی تعداد ۳۸ تھی ،جمع ہوئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اصرار کیا کہ دعوت کا کام اب خفیہ طور پر نہیں بلکہ ظاہر ہو کر کر نا چاہئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( یَا أَبَا بَکْرٍ ! إِنَّا قَلِیْلٌ ) ’’ ابو بکر ! ہم ابھی قلیل تعداد میں ہیں ۔ ‘‘
لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ مسلسل اصرار کرتے رہے حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر تیار ہو گئے ۔ چنانچہ مسلمان مسجد حرام کے کونوں میں آگئے اور ہر شخص اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تشریف فرما تھے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے لوگوں میں خطبہ دینا شروع کردیا ۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگوں کو علی الاعلان بلانے والے پہلے شخص تھے۔
مشرکین کی طرف سے رد عمل یہ ہوا کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں پر کود پڑے ۔ ان کی شدید پٹائی کی ، ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ان کی زد میں آئے ، انھیں بہت مارا گیا بلکہ قدموں تلے روندا گیا ۔ بد بخت عتبہ بن ربیعہ ان کے قریب آیا اور انھیں پیوند لگے جوتے سے مارنے لگا ۔ اس نے ان کے چہرے کو بھی نشانہ بنایا اور ان کے پیٹ پر چڑھ گیا حتی کہ ان کی حالت یہ ہوگئی کہ چہرے اور ناک سے ان کی پہچان ممکن نہ تھی ۔ اسی دوران ان کے قبیلے (بنو تیم ) کے لوگ دوڑتے
ہوئے آئے اور انھوں نے قریش کو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پیچھے دھکیل دیا ۔ بنو تیم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں اٹھا کر ان کے گھر لے آئے اور انھیں یقین تھا کہ یہ اب مر جائیں گے ۔ وہ مسجد میں واپس لوٹے اور اعلان کیا کہ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کریں گے ۔
اِس کے بعد بنو تیم دوبارہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور وہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد ’ابو قحافہ ‘ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بار بار بلانے لگے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ بے ہوش تھے اور ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آ رہا تھا۔ آخر کار دن کے اختتام پر وہ بولنے کے قابل ہوگئے تو انھوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘
اِس پر بنو تیم ان کی ملامت کرنے لگے اور انھیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ تاہم جاتے جاتے وہ ان کی والدہ ام الخیر کو اتنا کہہ گئے کہ اِس کا خیال رکھنا اور کچھ کھانے پینے کیلئے ضرور دینا ۔
جب والدہ کو ان کے ساتھ تنہائی میں بات کرنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے اصرار کیا کہ کچھ نہ کچھ کھا پی لو ۔ لیکن ان کی ایک ہی بات تھی کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘
ام الخیر نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے تمھارے ساتھی کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : جائیں اور ام جمیل بنت خطاب سے پوچھ کے آئیں۔
وہ گئیں اور ام جمیل سے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔
ام جمیل نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے نہ ابو بکر کا پتہ ہے اور نہ محمد بن عبد اللہ کا ۔ ہاں اگر تم چاہو تو میں تمھارے بیٹے کے پاس چلوں ؟ ( اصل میں اُس وقت ام جمیل رضی اللہ عنہا مسلمان ہو چکی تھیں لیکن وہ اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کررہی تھیں ۔ اور انھیں پتہ تھا کہ ام الخیر ابھی مسلمان نہیں ہوئیں ، اس لئے انھوں نے مکمل احتیاط کرتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا کہ کہیں ام الخیر کو یہ خبر نہ ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حالت کے بارے میں اطمئنان حاصل کرنا چاہتی تھیں ، اس لئے انھوں نے پیش کش کی کہ اگر ام الخیر کو منظور ہو تو وہ ان کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلی جائیں )
ام الخیر نے کہا : ٹھیک ہے تم میرے ساتھ چلو ۔
ام جمیل رضی اللہ عنہا نے جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھی تو انھوں نے چیختے ہوئے اعلان کیا کہ
’ جنھوں نے ابو بکر کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے وہ یقینی طور پر برے اور کافر لوگ ہیں اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان سے ضرور انتقام لے گا ۔ ‘
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پھر بھی وہی سوال کیا کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘
ام جمیل نے کہا : یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں ! تو انھوں نے کہا : کوئی پروا نہیں ۔
ام جمیل نے کہا : وہ ٹھیک ٹھاک ہیں ۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ کہاں ہیں ؟ ام جمیل نے کہا : دار ارقم میں ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’ اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پیوں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہ ہو جاؤں ۔ ‘
وہ دونوں (ام الخیر اور ام جمیل ) لوگوں کی آمد ورفت کے رک جانے کا انتظار کرنے لگیں ۔ جب ماحول پرسکون ہو گیا تو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سہارا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لپٹ گئے اور ان کو بوسہ دیا ۔ پھر مسلمان بھی ان سے لپٹ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حالت دیکھی تو آپ پر شدید رقت طاری ہوئی ۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پہ قربان ، اب میں ٹھیک ہوں ۔ بس اُس بد بخت نے میرے چہرے کی جو حالت کردی ہے اس سے بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔ اور یہ میری والدہ ہیں جو اپنے بیٹے کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہیں ۔ آپ با برکت ہیں ، لہذا آپ انھیں اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کیلئے دعا بھی کریں ، شاید اللہ تعالی آپ کے ذریعے انھیں جہنم سے بچا لے !
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے دعا کی اور انھیں اللہ تعالی کی طرف دعوت دی ۔ وہ فورا مسلمان ہو گئیں ۔ [ البدایۃ والنہایۃ : ج ۳ ص ۲۹۔ ۳۰ بإسناد رجالہ ثقات ۔ وقال الہیثمی فی المجمع : ج ۹ ص ۴۶۔ ۴۷ : رواہ البزار ورجالہ رجال الصحیح غیر إسماعیل بن أبی الحرث وہو ثقۃ ]
محترم حضرات ! اِس واقعہ میں کئی باتیں نہایت ہی سبق آموز ہیں :
01. ابو بکر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار یہ مطالبہ کرنا کہ دعوت الی اللہ کا کام چھپ چھپا کر نہیں بلکہ ظاہری طور پر کیا جائے ، یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایمانی شجاعت کا ثبوت ہے ۔
02. قبولِ اسلام کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کی خاطر بہت اذیتیں برداشت کیں ۔ آپ کو اِس سلسلے میں اتنا مارا گیا کہ لوگوں کو ان کی موت کا یقین ہو گیا ۔
03. ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کس قدر پیوست تھی کہ بے ہوشی کے بعد جیسے ہی ہوش میں آئے تو پہلا سوال ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا ۔ پھر کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کردیا جب تک کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جایا جائے ۔
04. اِس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی ہدایت کیلئے کتنے فکرمند تھے ۔ انھوں نے خصوصی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے حق میں دعا کریں اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دیں ، شاید اللہ تعالی انھیں جہنم سے بچا لے ۔
یہ تو ذکر تھا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والدین کا ۔ اور جہاں تک ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیویوں اور ان کی اولاد کا تعلق ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں بھی دو عورتوں سے شادی کی تھی اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دو خواتین سے شادی کی ۔ جاہلیت میں ( قتیلہ بنت عبد العزی اور ام رومان رضی اللہ عنہا ) سے جبکہ اسلام قبول کرنے کے بعد (اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور حبیبہ بنت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہا ) سے شادی کی ۔
قتیلہ بنت عبد العزی سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے ۔ جبکہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے ۔ اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا پہلے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، انہی کے ساتھ انھوں نے ہجرتِ حبشہ بھی کی ۔ پھر جب وہ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تو ان سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی ۔ ان سے ان کے بیٹے محمد بن ابی بکر اُس وقت پیدا ہوئے جب اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ جار ہی تھیں تو ذو الحلیفہ کے مقام پر ان کی پیدائش ہوئی ۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی تھی ۔
حبیبہ بنت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہا کے بطن سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئی تھیں ۔ یوں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے تھے ۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ اور زمانۂ جاہلیت
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت کے ایام میں بھی قریش کے درمیان اخلاق وکردار کے اعتبار سے ایک مثالی انسان سمجھے جاتے تھے ۔آپ ان میں بڑے ہی دلعزیز اور نہایت با اخلاق تھے ۔ لوگ ان سے مشاورت کیلئے خصوصی طور پر ان کے ہاں جمع ہوتے او ر ضروری معاملات میں ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت میں شراب نوشی اور اِس طرح کی دیگر برائیوں سے اجتناب کرتے تھے جو اُس وقت معاشرے میں بری طرح پھیلی ہوئی تھیں اور جن کے لوگ بہت ہی دلدادہ تھے ۔
جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت میں بتوں کی پوجا بھی نہیں کرتے تھے ۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے والد انھیں بتوں کے پاس لے کر گئے اور کہا : دیکھو ! یہ ہیں تمھارے معبود، تم انہی کی پوجا کیا کرو ۔ پھر وہ چلے گئے ۔تو میں نے ایک بت کے قریب جا کر کہا : میں بھوکا ہوں ، مجھے کچھ کھلاؤ ۔ تو اُس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے کہا :
میرے پاس پہننے کو لباس نہیں ہے تو مجھے پہننے کیلئے کپڑے دو ۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ چنانچہ میں نے ایک پتھر اٹھا کے اسے دے مارا جس سے وہ چہرے کے بل نیچے گر گیا ۔ [ التاریخ الاسلامی : ج ۳ ص ۳۱ ]
’ صدیق ‘ کا لقب کیوں ملا ؟
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جنھیں ’ صدیق ‘ کا لقب ملا ۔ کیوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے واقعۂ معراج کے بارے میں سنتے ہی اُس کی تصدیق کردی تھی۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم اپنے ساتھی کی بات مانو گے ؟ وہ دعوی کرتا ہے کہ ایک ہی رات میں بیت المقدس گیا اور مکہ واپس لوٹ آیا ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : انھوں نے واقعتا ایسی بات کی ہے ؟
لوگوں نے کہا : ہاں ، بالکل کی ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تب انھوں نے سچ فرمایا ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ جواب دیا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اِس سے بھی دور کے معاملے میں کرتا ہوں جب وہ آسمان سے وحی نازل ہونے کی خبر دیتے ہیں ۔
راوی کہتے ہیں : اسی لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ’ صدیق ‘کہا گیا ۔ [ دلائل النبوۃ للبیہقی ۔ وصححہ الألبانی فی الإسراء والمعراج : ص ۶۰ ۔۶۱ ]
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ’ صدیق ‘ کے لقب کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ( یہ سب ) احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا۔ اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( أُثْبُتْ أُحُدُ ، فَإِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وَصِدِّیْقٌ وَشَہِیْدَانِ ) [ البخاری : ۳۶۷۵]
’’ احد پہاڑ ! تم مت ہلو ، اس لئے کہ اِس وقت تمھارے اوپر نبی ، صدیق اور دو شہید ہیں ۔ ‘‘
فضائل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ آپ نے سن لیا ۔ اب مزید فضائل پیش ِ خدمت ہیں ۔
01. جہنم سے آزادی کا پروانہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ’ عتیق ‘ کے لقب سے نوازا جس کا معنی ہے : ’ جہنم کی آگ سے آزاد کردہ ۔ ‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
( أَبْشِرْ ، فَأَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ ) [ ترمذی : ۳۶۷۹۔ وصححہ الألبانی ]
’’ تمھیں خوشخبری ہو کہ تمھیں اللہ تعالی نے جہنم کی آگ سے آزاد کردیا ہے ۔ ‘‘
تب سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ’ عتیق ‘ کہا جانے لگا ۔
02. جنت کی خوشخبری
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے نام لیکر جنت کی خوشخبری دی ۔ ان میں سرِ فہرست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عمر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عثمان رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، علی رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، طلحہ رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، زبیر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، سعید بن زید رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں۔ ‘‘ [ الترمذی ، مسند احمد ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۵۰ ]
اسی طرح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا :
( ہٰذَانِ سَیِّدَا کُہُوْلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ مِنَ الْأوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ إِلَّا النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ ) [ ترمذی : ۳۶۶۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ یہ دونوں انبیاء ورسل علیہم السلام کے علاوہ باقی تمام اول وآخر اہل جنت میں عمر رسیدہ لوگوں کے سردار ہونگے‘‘
اورحضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے اس کے دروازے پر رہنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔
پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اجازت
دے دو اور اسے بھی جنت کی بشارت سنا دو اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہو گی ۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ۔ [ البخاری : ۳۶۹۵، مسلم : ۲۴۰۳]
03. ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جنت کے ہر دروازے سے بلایا جائے گا
چونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اعمالِ خیر میں سبقت لے جانے والے تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دی تھی کہ آپ کو جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا کہ آپ آئیں اورجنت میں داخل ہو جائیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ نُوْدِیَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ : یَا عَبْدَ اللّٰہِ ہٰذَا خَیْرٌ ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلاَۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّلاَۃِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الْجِہَادِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّیَامِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الرَّیَّانِ ، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَۃِ )
’’ جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا ( ایک نہیں بلکہ دو ) خرچ کرتا ہے اسے جنت کے دروازوں سے پکار کر کہا جائے گا : اے اللہ کے بندے ! یہ ( دروازہ ) تمہارے لئے بہتر ہے ۔ لہذا نمازی کو باب الصلاۃ سے پکارا جائے گا ، مجاہد کو باب الجہاد سے پکارا جائے گا ، روزہ دار کو باب الریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والے کو باب الصدقۃ سے پکارا جائے گا۔ ‘‘
چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جس شخص کو ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گااسے تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ تو کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(نَعَمْ وَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْہُمْ ) [البخاری : ۱۸۹۷ ، ۳۶۶۶ ،مسلم : ۱۰۲۷ ]
’’ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہی لوگوں میں سے ہونگے ۔ ‘‘
دشمنوں نے بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فضائل کا اعتراف کیا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب مسلمانوں کو ( اذیتیں دے کر ) آزمائش میں ڈالا گیا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے سرزمین ِ حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب ( برک الغماد ) نامی مقام پر پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہو گئی جو ( القارۃ ) قبیلے کا سردار تھا۔اس نے پوچھا : ابو بکر ! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا : مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے ، اس لئے اب میں زمین میں چل پھر کر اللہ کی عبادت کرنا چاہتا ہوں ۔ تو اس نے
کہا : ( فَإِنَّ مِثْلَکَ یَا أَبَا بَکْر لَا یَخْرُجُ وَلاَ یُخْرَجُ ، إِنَّکَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ )
’’ ابو بکر ! آپ جیسے کو نہ توخود نکلنا چاہئے اور نہ ہی اسے نکالا جانا چاہئے ۔ آپ توتہی دست کو کما کر دیتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ، بوجھ برداشت کرتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور حق کے واقعات ( تمام خصالِ خیر ) میں مدد کرتے ہیں ۔‘‘
پھر اس نے کہا : میں آپ کو پناہ دیتا ہوں ، آپ واپس لوٹ جائیں اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کریں ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے ۔ خود ابن الدغنہ بھی ان کے ساتھ آیا اور شام کے وقت اس نے اشرافِ قریش کے ہاں چکر لگایا اوران سے کہا : ( إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَا یَخْرُجُ مِثْلُہُ وَلَا یُخْرَجُ ، أَتُخْرِجُوْنَ رَجُلاً یَکْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَیَصِلُ الرَّحِمَ ، وَیَحْمِلُ الْکَلَّ ، وَیَقْرِی الضَّیْفَ ، وَیُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ ) [ البخاری ۔ کتاب مناقب الأنصار باب ہجرۃ النبی وأصحابہ : ۳۹۰۵ ]
’’ ابو بکر جیسے کو تو نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ ہی اسے نکالا جانا چاہئے ۔ قریش کی جماعت ! کیا تم اس شخص کو نکالتے ہو جوتہی دست کو کما کر دیتا ہے ، صلہ رحمی کرتا ہے ، بوجھ برداشت کرتا ہے ، مہمان نواز ہے اور حق کے واقعات ( تمام خصالِ خیر ) میں مدد کرتا ہے ۔‘‘
چنانچہ ابن الدغنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو پناہ دی تھی قریش نے اسے تسلیم کرلیا اور وہ ان کی باتوں کو جھٹلا نہ سکے ۔
اِس واقعہ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ قریش باوجود مخالفت اور دشمنی کے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اعلی اخلاق او ر ان کے فضائل ومناقب کا انکار نہ کر سکے ۔ بلکہ انھوں نے ایک کافر کی زبانی بیان ہونے والے ان کے اعلی اوصاف کو تسلیم کیا ۔ وہ کیوں ایسا نہ کرتے ؟ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ہی اعلی انسان کہ جن کی صفاتِ حمیدہ کا انکار ممکن ہی نہ تھا۔
محترم حضرات ! آپ ذرا غور کریں کہ ابن الدغنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جو اوصاف ذکر کئے بالکل یہی اوصاف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس وقت بیان کئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرا کر گھر پہنچے تھے ۔ یہ ایک اور دلیل ہے اِس بات کی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نہایت عظیم انسان تھے کہ ان میں بھی وہی صفات پائی جاتی تھیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے پہلے صدیقین کا تذکرہ فرمایا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [ النساء : 69]
عملی زندگی کے بعض پہلو
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عملی زندگی کے بعض پہلو ہم ذکر کرتے ہیں کیونکہ اِس شخصیت کے محض فضائل ومناقب کا تذکرہ ہی کافی نہیں ہے جب تک کہ ان کی عملی زندگی کو نمایاں نہ کیا جائے ۔ عملی زندگی سے ہی ان کی عظمت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے ۔
01. حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تمام اعمالِ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جاتے تھے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمُ الْیَومَ صَائِمًا ؟ ) ’’ آج تم میں سے کون ہے جو روزے سے ہو ؟ ‘‘
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں روزے سے ہوں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( فَمَنْ تَبِعَ مِنْکُمُ الْیَومَ جَنَازَۃً ؟ )
’’ آج تم میں سے کس نے نمازہ جنازہ اور تدفین ِ میت میں شرکت کی ؟ ‘‘
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْکُمُ الْیَومَ مِسْکِیْنًا ؟ )’’ آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ؟ ‘‘
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( فَمَنْ عَادَ مِنْکُمُ الْیَومَ مَرِیْضًا ؟ )’’ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ؟‘‘
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَا اجْتَمَعْنَ فِی امْرِیئٍ إلِاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ )
’’ یہ خصلتیں جس میں جمع ہو جائیں وہ یقینا جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ [ مسلم : ۱۰۲۷]
اِس حدیث میں جہاں اِس بات کا ثبوت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اعمالِ خیر میں سب سے زیادہ سبقت لے جانے والے تھے وہاں اِس کا ثبوت بھی ہے کہ جو شخص اِن تمام اعمال کو ایک ہی دن میں انجام دے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔
02. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال اللہ کے راستے میں خرچ کردیا
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق
سے اُس دن میرے پاس مال موجود تھا ۔ میں نے دل میں کہا : آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جانے کا بہترین موقعہ ہے ، لہذا میں اپنا آدھا مال لے آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ میں نے کہا : جتنا مال آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اتنا ہی گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں ۔
پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا مال لے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ تو انھوں نے کہا : میں ان کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ تب میں نے کہا :میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔ [ابو داؤد : ۱۶۷۸۔وحسنہ الألبانی]
03. حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ محض اللہ تعالی کی رضا کیلئے غلاموں کو آزاد کراتے تھے ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی٭ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ٭ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی ٭ اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی ٭ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ [اللیل: 17۔21 ]
’’ اور جو پرہیز گار ہو گا اسے اُس ( آگ ) سے دور رکھا جائے گا جس نے پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیا۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا ۔ بلکہ اس نے تو محض اپنے رب برتر کی رضا کیلئے ( مال خرچ کیا ) اور جلد ہی وہ راضی ہو جائے گا ۔ ‘‘
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے اُس شخص کی دو صفات ذکر کی ہیں جسے جہنم کی آگ سے دور رکھا جائے گا۔ پہلی صفت یہ کہ وہ متقی اورپرہیزگار ہو ۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی پاکیزگی اورمحض اللہ تعالی کی رضا کیلئے مال خرچ کرتا ہو ۔ اِس لئے نہیں کہ کسی کا اس پر کوئی احسان ہو تو وہ اُس کا بدلہ چکانے کیلئے مال خرچ کرے ۔
اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن خاص طور پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف ہے جن میں یہ دونوں صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ وہ پرہیزگار بھی تھے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے بھی تھے ۔ خصوصا ان غلاموں کو آزاد کرانے میں مال خرچ کرتے تھے جو مسلمان ہو جاتے تھے تو ان کے مالک انھیں بری طرح پیٹتے اور دردناک ایذائیں دیتے تھے ۔ ان کی یہ کیفیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہ ہوتی تو آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ انھیں خرید کر آزاد کردو ۔ چنانچہ وہ منہ مانگی قیمت دے کر انھیں خرید لیتے ، پھر انھیں آزاد کردیتے۔ تقریبا سترہ غلاموں کو کافروں کے عذاب سے نجات دلا کر انھیں آزاد کیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وہ سات غلام آزاد کرائے جنھیں اللہ تعالی پر ایمان لانے کی پاداش میں عذاب دیا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ [ مستدرک حاکم ۳/۲۸۴ : صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی ]
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل یقینا اللہ تعالی کی رضا کیلئے ہی تھا ورنہ ان پر ان غلاموں میں سے کسی کا کوئی احسان نہ تھا کہ وہ اس کا بدلہ چکاتے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں یہ خوشخبری دی کہ ﴿ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾ ’’ وہ عنقریب راضی ہو جائے گا ۔ ‘‘
04. حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے ۔ انہی میں سے ایک مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو ایک محتاج آدمی تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ انھیں کچھ ماہوار وظیفہ دیا کرتے تھے ۔ لیکن جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقوں کی جانب سے بدکاری کی تہمت لگائی گئی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے تو ان کی صف میں یہ مسطح بھی رضی اللہ عنہ شامل ہو گئے ۔ چنانچہ آسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھالی کہ
( وَاللّٰہِ لَا أُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَۃَ )’’ اللہ کی قسم ! اب جبکہ اِس مسطح رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی ہے تو میں اس پر کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا ۔ ‘‘
تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿ وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [النور: 22 ]
’’ اور تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ معاف کر دینا اور در گذر کر دینا چاہئے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ وہ بہت معاف کرنے والا ، بڑامہربان ہے ۔ ‘‘
اِس آیت میں اللہ تعالی نے عفو و رگذر کی تلقین کی اور فرمایا کہ ’’ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ( بَلٰی وَاللّٰہِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا )
’’ کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم یقینا یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کردے ۔ ‘‘
اس کے بعد انھوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا ۔ [ البخاری ۔ التفسیر، باب (إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشۃ … ) : ۴۷۵۷ ]
اِس واقعہ سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے ، وہاں ان کی ایک اور عظیم صفت کا بھی پتہ چلتا ہے اور وہ ہے عفو ودرگذر۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُس شخص کو معاف کردیا جو اُن کی
لختِ جگر پر بدکاری کی تہمت لگانے والے لوگوں میں شامل ہو گیا تھا اور ان کیلئے ذہنی اذیت اورشدید پریشانی کا سبب بنا تھا ۔ یقینا یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم لوگوں کی ہی صفت ہو سکتی ہے ورنہ عام طور پر ایسے شخص کو زندگی بھر معاف نہیں کیا جاتا اور اسے ہر طرح سے انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
05. تقوی اور پرہیز گاری
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ انتہائی متقی اور بڑے ہی پرہیز گار تھے ۔ اِس کا اندازہ آپ اِس واقعہ سے کر سکتے ہیں :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ایک دن کھانے کی کوئی چیزلے کر آیا تو انھوں نے اس میں سے کچھ کھا لیا ۔ پھر غلام نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو کچھ آپ نے کھایا ہے یہ کہاں سے آیا ہے ؟ انھوں نے پوچھا : کہاں سے آیا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کیلئے کہانت کی تھی ۔ میں کہانت جانتا تو نہ تھا البتہ میں اسے دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا ۔ آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے یہی کھانا مجھے دیا جس سے آپ نے بھی کھایا ہے ! چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں داخل کیا اور کوشش کرکے جو کچھ ان کے پیٹ میں تھا اسے قے کر ڈالا ۔ پھر انھوں نے کہا : اگر یہ میری جان لئے بغیر باہر نہ نکلتا تو پھر بھی میں اس کی پروا نہ کرتا ۔ اے اللہ ! جو کچھ میری رگوں اور انتڑیوں میں رہ گیا ہے اس سے میں بیزاری کا اظہار کرتا ہوں ۔ [ البخاری : ۳۸۴۲ ]
06. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع
ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیشہ نبی کریم رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے رہے۔
عروۃ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سب سے بڑی بد سلوکی کی اُس کے بارے میں مجھے بتائیں ۔ تو انھوں نے کہا :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے ایک کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر اسے مروڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا بڑی شدت کے ساتھ گھونٹنے لگا ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے ، اس کو اس کے کندھوں سے پکڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹا دیا ۔ اور فرمایا :
﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ﴾ ’’ کیا تم اِس آدمی کو اِس لئے مارنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ ‘‘ [البخاری : ۳۸۵۶]
07. ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت ہی رقیق القلب تھے
جی ہاں ، جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت ہی نرم دل انسان تھے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مرتبہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : چلو آج ام ایمن رضی اللہ عنہا کی زیارت کیلئے چلتے ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے ۔ چنانچہ ہم جب ان کے ہاں پہنچے تو وہ رونے لگ گئیں ۔ تو ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نے کہا : آپ کیوں روتی ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ ان کیلئے بہتر ہے ۔ تو انھوں نے کہا :
( مَا أَبْکِی أَنْ أَکُوْنَ أَعْلَمَ أَنَّ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلٰکِنْ أَبْکِی أَنَّ الْوَحْیَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَائِ ) [ مسلم : ۲۴۵۴]
’’ مجھے پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جو کچھ اللہ تعالی کے ہاں ہے وہ ان کیلئے بہتر ہے ۔ میں تو صرف اِس لئے رو رہی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا نزول منقطع ہو چکا ہے ۔ ‘‘ یہ بات ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما دونوں کے رونے کا سبب بنی ، چنانچہ وہ بھی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ زور زور سے رونے لگ گئے ۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کیلئے کہا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ ) ’’ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ ‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ رَقِیْقٌ ، إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ غَلَبَہُ الْبُکَائُ )
’’ بے شک ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت نرم دل ہیں ، جب قرآن پڑھتے ہیں توان پر رونا غالب آجاتا ہے ۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مُرُوْہُ فَلْیُصَلِّ ) ’’ انھیں حکم دو کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ ‘‘ [ متفق علیہ ]
08. تواضع اور انکساری
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت ہی متواضع انسان تھے ۔ تکبر اور بڑائی کی بجائے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے تھے ۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
( مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )
’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کرتے ہوئے گھسیٹے اس کی طرف اللہ تعالی قیامت کے روز دیکھنا بھی گوارا نہ کرے گا ۔ ‘‘
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا کپڑا ایک طرف سے نیچے کو ڈھلک جاتا ہے الا یہ کہ میں ہر وقت اس کا خیال رکھوں ، تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ( إِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِکَ خُیَلَائَ )
’’ آپ یقینا ایسا تکبر کے ساتھ نہیں کرتے ۔ ‘‘ [ البخاری : ۳۶۶۵ ]
اِس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے تکبر کی نفی کردی جواس بات کی دلیل ہے کہ ان میں ایسی چیز ہرگز نہ تھی ۔
اورسعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اپنی فوجوں کو شام کی طرف روانہ کیا تو انھوں نے ان پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا ۔ پھر جب وہ سواریوں پر سوار ہوئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ انھیں الوداع کہنے کیلئے ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل دئیے حتی کہ وہ ثنیۃ الوداع تک پہنچ گئے ۔ تینوں امراء نے کہا : اے خلیفۂ رسول اللہ !آپ پیدل چل رہے رہیں اور ہم سواریوں پر سوار ہیں! تو انھوں نے جواب دیا : ( إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہٰذِہِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ) ’’ میں سمجھتا ہوں کہ میرے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں ۔ ‘‘ [ رواہ مالک فی المؤطأ : ۹۷۱والبیہقی:۱۸۵۹۲ ]
یہ ہے عاجزی وانکساری کہ خلیفۃ المسلمین پیدل چل رہا ہے اور اس کے ما تحت فوجی افسران سواریوں پر سوار ہیں ۔ اوراسے خلیفہ اپنے لئے شرف سمجھتا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ تصور کرتا ہے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بعض خصوصیات
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کئی خصوصیات ایسی ہیں جو باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی میں نہیں ہیں۔ان میں سے اہم خصوصیات یہ ہیں :
01. سب سے پہلے مسلمان
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آزاد لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَا مَعَہُ إِلَّا خَمْسَۃُ أَعْبُدٍ وَامْرَأَتَانِ وَأبُوْ بَکْرٍ ) [ البخاری : ۳۶۶۰ ، ۳۸۵۷]
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت دیکھا جب آپ کے ساتھ ( اسلام قبول کرنے والے خوش نصیبوں میں ) صرف پانچ غلام ، دو خواتین اور ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔ ‘‘
پانچ غلاموں سے مراد بلال رضی اللہ عنہ ، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، عامر بن فہیرۃ رضی اللہ عنہ جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ، ابو فکیہۃ رضی اللہ عنہ ( صفوان بن امیہ کے غلام ) اور یاسر رضی اللہ عنہ ( عمار رضی اللہ عنہ کے والد ) ہیں ۔ اور دو خواتین سے مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا اور سمیہ رضی اللہ عنہا یا ام ایمن رضی اللہ عنہا ہیں ۔
اِس سے ثابت ہوا کہ آزاد لوگوں میں سب سے پہلے جس شخصیت کو اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
انھوں نے کس طرح اسلام قبول کیا ، آئیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنیں کہ انھوں نے کیسے اسلام قبول کیا ۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ خاص اور گہرے دوست تھے ۔اور جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ابو بکر ! یہ تمہارا دوست دیوانہ ہو گیا ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں انھیں کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا : وہ دیکھو ، وہ مسجد میں بیٹھا ایک معبود کی عبادت کی طرف دعوت دے رہا ہے اور وہ دعوی کرتا ہے کہ اسے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ا نہوں نے واقعتا ایسی بات کی ہے ؟ انھوں نے کہا :ہاں جاؤ دیکھو وہ مسجد میں بیٹھا یہی تو کہہ رہا ہے ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ان سے پوچھا : ابو القاسم! مجھے آپ کی طرف سے کیا بات پہنچی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ابو بکر ! آپ کو کیا بات پہنچی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اکیلئے اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں ابو بکر ! اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اور مجھے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق بنایا ہے اور مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا ہے ۔ ‘‘
تب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے آپ سے کبھی جھوٹی بات نہیں سنی ہے اور آپ واقعتا رسالت کے اہل ہیں کیونکہ آپ امین ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپ کا کردار اچھا ہے ۔ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے ، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کی اور آپ کی تصدیق کی ۔ اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ جو دین لے کر آئے ہیں وہ بالکل برحق ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جہاں کہیں بلایا انھوں نے کبھی پس وپیش نہیں کی ۔ [ الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ : ۱/۴۱۵]
یعنی ابتدائی دور میں جب دیگر لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے تو اس وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کیا ، نہ صرف رسو ل تسلیم کیا بلکہ اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ بھی دیا ۔ یہ وہ بات ہے جس کا اعتراف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے ۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ اِس طرح آئے کہ انھوں نے اپنے کپڑے کا ایک کونا اتنا اٹھایا ہوا تھا کہ گھٹنا ظاہر ہو رہا تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اِس حالت میں آتے دیکھ کر فرمایا :
( أَمَّا صَاحِبُکُمْ فَقَدْ غَامَرَ ) ’’ تمھارا ساتھی کسی سے لڑ کر آ رہا ہے ۔‘‘ ( ان پر غصہ کے آثار نمایاں تھے )
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سلام کہا اور پھر گویا ہوئے : یا رسول اللہ ! میرے اور ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی بات تھی، پھر میں نے پہل کی اور ندامت کا اظہار کیا ۔ اور میں نے ان سے معافی مانگی لیکن انھوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اِس لیے اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا :
( یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ ) ’’ ابو بکر ! اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے ۔ ‘‘
اِس کے بعد ہوا یوں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو بھی شرمندگی ہوئی اور وہ سیدھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر چلے گئے ۔ پوچھا : کیا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ؟ جواب ملا : نہیں ہیں ۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام پیش کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناراضگی کے آثار اِس قدر نمایاں ہونے لگے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خوف محسوس ہوا ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں نے ہی ظلم کیا تھا ۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی ۔ پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ بَعَثَنِیْ إِلَیْکُمْ فَقُلْتُمْ : کَذَبْتَ ، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : صَدَقَ ، وَوَاسَانِیْ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ ، فَہَلْ أَنْتُمْ تَارِکُوْ لِیْ صَاحِبِیْ ؟ ) [ البخاری : ۳۶۶۱]
’’ مجھے اللہ تعالی نے نبی بنا کر بھیجا تو تم نے مجھے جھٹلا دیا ، جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنے نفس اور مال کے ساتھ میری ہمدردی کی ۔ تو کیا تم میرے ساتھی کو میری خاطر چھوڑ سکتے ہو ؟ ‘‘
اورحضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِہٖ وَمَالِہٖ أَبُو بَکْرٍ ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلاً غَیْرَ رَبِّیْ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ ، وَلٰکِنْ أُخُوَّۃُ الْإِسْلاَمِ وَمَوَدَّتُہُ ، لَا یَبْقَیَنَّ فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابُ أَبِیْ بَکْرٍ ) [ البخاری : ۳۶۵۴، مسلم : ۲۳۸۲]
’’ میرا ساتھ نبھانے اور مال خرچ کرنے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اور اگر میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بناتا ، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور اس کی محبت ہی کافی ہے ۔ مسجد کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے بابِ ابو بکر کے ۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی تبلیغ شروع کردی ۔ چنانچہ ان کی دعوت پر بہت سارے لوگ مشرف بااسلام ہوئے ۔ خاص طور پر ان میں عشرہ مبشرہ میں سے وہ چھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں نام لے کر جنتی قرار دیا تھا۔
02. ہجرتِ مدینہ کے ساتھی
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ وہ سفر وحضر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے حتی کہ سفر ہجرت میں بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہی اپنا رفیق ِ سفر بنایا۔ [ البخاری : ۳۶۵۲]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا :
’’ مجھے وہ شہر خواب میں دکھایا گیا ہے جس کی طرف تم نے ہجرت کرنی ہے ، اس میں کھجور کے درخت بہت زیادہ ہیں اور وہ سیاہ پتھروں والی دو زمینوں کے درمیان واقع ہے ۔ ‘‘
چنانچہ بہت سارے مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرلی، حتی کہ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہ بھی واپس آگئے اور مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ منورہ کے لئے تیاری کرلی تھی لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا : ’’ابھی رُک جاؤ ، ہوسکتا ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی جائے ۔‘‘ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا باپ آپ پر قربان ہو ، کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ ہاں ‘‘ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں ۔ انھوں نے دوسواریوں کو اس سفر کے لئے خوب تیار کر لیا ۔ [ البخاری :۲۱۷۵،۳۶۹۲،۵۴۷۰ ]
پھر جب قریش مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ہجرت کا آخری پروگرام طے کیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ، اچانک کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ دیکھو ! وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے آرہے ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے اس وقت کبھی ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :
’’ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضروری امر کی بناء پر ہی اس وقت آرہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کے پاس جو دوسرے لوگ ہیں انھیں کسی اور کمرے میں بھیج دو ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ اے اﷲ کے رسول ! یہ آپ کے گھر والے ہی تو ہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ،کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہجرت کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تو لیجئے ان دو سواریوں میں سے ایک آپ لے لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن میں یہ سواری قیمت کے عوض لوں گا ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر ہم نے دونوں کا سامانِ سفر جلدی سے تیار کیا اور ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ حضرت
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنی پیٹی کا ایک حصہ کاٹ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا ۔اسی لئے انھیں ’’ ذات النطاقین ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ [ البخاری ۔ ۲۳۱۸ و ۳۹۰۶ ]
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غارِ ثور میں
دونوں مسافر رات کے اندھیرے میں ایک کٹھن اور انتہائی مشکل راستہ طے کرکے غارِ ثور تک پہنچے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر رُکنے کے لئے کہا اور خود اندر چلے گئے ۔ اندر جاکر اسے صاف کیا ، اس کی ایک جانب ایک سوراخ دیکھا تو اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کا منہ بند کردیا ۔ ابھی دو سوراخ اور بھی تھے جن میں انھوں نے اپنے پاؤں رکھ دئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر تشریف لانے کے لئے کہا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سوگئے ۔ اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاؤں پر کسی زہریلے جانور نے کاٹا لیکن آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کی خاطر بالکل حرکت نہ کی۔ البتہ آپ کے آنسو نہ رُک سکے ۔ چند آنسو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھی گرے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رونے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! کسی چیز نے مجھے کاٹ لیا ہے ۔ تو آپ اٹھے اور جس جگہ پر زہریلے جانور نے کاٹا تھا وہاں آپ نے اپنا لُعابِ مبارک لگایا ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا درد جاتا رہا ۔ [الرحیق المختوم ( عربی ) : ۱۶۴]
قریش کے سراغ رساں افراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے کرتے اس غار کے دہانے پر جا پہنچے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں غار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا ، میں نے اپناسر اوپر کواٹھایا تو مجھے تلاش کرنے والے لوگوں کے قدم نظر آئے ۔ میں نے کہا : اے اﷲ کے نبی ! اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی نظر نیچے جھکالی تو وہ یقینا ہمیں دیکھ لے گا۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یَا أَبَا بَکْر ! مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا ) [ البخاری :۳۶۵۳۔مسلم :۲۳۸۱]
’’اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اﷲ ہے ۔‘‘
3۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مضبوط موقف
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اِس دار فانی سے رخصت ہو گئے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت ہی گہرا صدمہ پہنچا جس سے وہ نہایت افسردہ اور ان کے حوصلے بہت ہی پست ہو گئے ۔ حتی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اور شجاع صحابی نے بھی یہ کہہ دیا کہ ( وَاللّٰہِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ) ’’ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے ۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت نہیں آئی ۔ اور عنقریب
اللہ تعالی انھیں اٹھائے گا اور یقیناآپ اِن لوگوں کے ( جو آپ کی موت کی باتیں کر رہے ہیں ) ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے ۔ ‘‘
اسی دوران ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے ، انھو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا ، پھر آپ کا بوسہ لیا اور فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ تعالی کبھی آپ کو دو موتوں کا ذائقہ نہیں چکھائے گا ( یعنی جو موت آپ پر لکھی تھی وہ آ چکی) اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے قسم اٹھانے والے ! ٹھہر جاؤ ۔
پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا : ( أَلَا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ ) ’’ خبردار ! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ یہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں ۔ اور جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا تو وہ یقین کر لے کہ اللہ تعالی زندہ ہے ، اُس پر موت نہیں آئے گی ۔ ‘‘
اِس کے بعد انھوں نے یہ آیات پڑھیں : ﴿ اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ﴾ [الزمر:30]
﴿ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ﴾ [آل عمران: 144 ]
یہ سن کر لوگ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ کی قسم ! ایسے لگا کہ جیسے لوگوں کو یہ علم ہی نہ تھا کہ اللہ تعالی نے یہ آیت بھی نازل کی ہے ۔ حتی کہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو ان سے لوگوں کو اِس کا پتہ چلا ، اِس کے بعد ہر انسان اِس کی تلاوت کرنے لگا ۔ ‘‘
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے جب ابو بکر رضی اللہ عنہ سے یہ آیات سنیں تو دہشت زدہ رہ گیا حتی کہ میری ٹانگیں میرا وزن برداشت نہ کر سکیں اور میں زمین پر گر گیا ۔ پھر یہ آیات سن کرمجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ۔‘‘ [ البخاری : ۱۲۴۱ ، ۱۲۴۲ ، ۳۶۶۷ ، ۳۶۶۸ ، ۴۴۵۲ ، ۴۴۵۴ ]
اِس کربناک اور انتہائی المناک موقعہ پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ مضبوط موقف اُن کے مضبوط ایمان کی دلیل ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رمز شناس بھی تھے ۔جیسا کہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد کیا :
( إِنَّ عَبْدًا خَیَّرَہُ اللّٰہُ بَیْنَ أَنْ یُّؤْتِیَہُ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا مَا شَائَ وَبَیْنَ مَا عِنْدَہُ ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَہُ )
’’ بے شک ایک بندے کو اللہ تعالی نے اختیار دے دیا ہے کہ وہ جتنا چاہے اللہ تعالی اسے دنیا کا مال ودولت دے دے یا وہ اُس چیز کو چن لے جو اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ تو اس بندے نے اُس چیز کو چن لیا ہے جو اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ ‘‘ ( یعنی اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کر لیا ہے ۔ )
یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا : ہمارے ماں باپ آپ پہ قربان ہوں ۔
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی اس بات پر بڑے حیران ہوئے اور لوگوں نے کہا : دیکھو اِس بوڑھے کو کہ اللہ کے رسول تو بس اتنا فرما رہے ہیں کہ ایک بندے کو اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی منشا کے مطابق دنیا کا مال ودولت لے لے یا جو نعمتیں اللہ کے پاس ہیں وہ انھیں چن لے اور یہ ( ابو بکر رضی اللہ عنہ ) کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پہ قربان ہوں ! اصل بات یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا ( اور انھوں نے اس چیز کو چن لیا تھا جو اللہ کے پاس ہے ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت قریب آنے والا ہے۔ اور یہ اشارہ صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی سمجھ سکے کیونکہ) ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم سب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ جانتے تھے ۔ [ البخاری : ۳۹۰۴ ، ابن حبان : ۶۵۹۴]
اِس خطبہ کے آخر میں ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں اِس عظیم شخصیت سے سچی محبت کرنے اور ان کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق دے ۔۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! اب تک جس شخصیت کے فضائل ومناقب آپ نے سماعت کئے اسی شخصیت کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی سب سے پہلے خلیفہ بنے ۔
04. خلیفۂ اول
اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے افضل صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفۂ اول ہیں۔ انھیں یہ شرف کیسے نصیب ہوا آئیے اِس کا احوال معلوم کرتے ہیں ۔
خلافت کیلئے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ استحقاق خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث سے مأخوذ ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت کے دوران لوگوں کی امامت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی حکم دیا جو اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ جو شخص آپ کی حیات میں امامت کا مستحق ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
خلافت کا سب سے پہلا حقدار ہے۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیمار پڑ گئے ، پھر جب آپ کا مرض بہت حد تک بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا : ( مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ ) [ البخاری : ۶۷۸ ، مسلم : ۴۱۸]
’’ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ ‘‘
بلکہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مرض الموت میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی ۔ یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ امام تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی تھے۔
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ آنے کا حکم دیا ۔ اس نے پوچھا : اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( إِنْ لَّمْ تَجِدِیْنِیْ فَأْتِیْ أَبَا بَکْرٍ) [ ترمذی : ۳۶۲ ، ۳۶۳ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘
یہ حدیث واضح دلیل ہے اس بات پر کہ خلافت کے سب سے پہلے حقدار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض ( الموت ) میں مجھ سے کہا :
( أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ وَأَخَاکِ حَتّٰی أَکْتُبَ کِتَابًا ، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَّتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ وَیَقُوْلَ قَائِلٌ : أَنَا أَوْلٰی ، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ ) [ مسلم : ۲۳۸۷]
’’ جاؤ ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلا کر لاؤ تاکہ میں ایک دستاویز لکھ دوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا شخص تمنا کرے اور کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں ( خلافت کا ) زیادہ حقدار ہوں ۔ جبکہ اللہ اور تمام مومنین ابو بکر کے سوا کسی پر راضی نہیں ہو نگے ۔ ‘‘
ان تمام احادیث میں واضح اشارے موجود ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حقدار جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔
تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کی گواہی دیتے تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اشاروں کے ساتھ ساتھ خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں بھی انھیں سب سے افضل گردانا جاتا تھا ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے
تھے۔ چنانچہ ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے ، ان کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو افضل تصور کرتے تھے ۔ [ البخاری : ۳۶۵۵]
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل سمجھتے تھے
محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
میں نے کہا : پھر کون ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔
پھر مجھے خدشہ ہوا کہ اس کے بعد کہیں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام نہ لے لیں تو میں نے کہا : پھر آپ ہیں ؟
انھوں نے کہا : میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام شخص ہوں ۔ [ البخاری : ۳۶۷۱، ابو داؤد : ۴۶۲۹]
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب سقیفہ بنو ساعدہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا تو اس میں شریک ہونے والے تمام مہاجرین وانصار نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے خلیفہ ہیں ۔ پھر انھوں نے ان کی بیعت بھی کی ۔
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصارِ مدینہ سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کے ہاں جمع ہوئے اور انھو ں نے کہا : ( مِنَّا أَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیْرٌ ) ’’ ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے ہو گا ۔ ‘‘ یعنی ایک انصار میں سے اور ایک مہاجرین میں سے ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بات کرنا چاہا لیکن انھیں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خاموش کرادیا ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں تو صرف اس لئے بولنا چاہتا تھا کہ میں نے وہاں پر وہ گفتگو کرنے کی تیاری کر لی تھی جو مجھے اچھی لگتی تھی اور مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس قدر مؤثر گفتگو نہ کر سکیں ۔ لیکن جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو اس میں سب سے زیادہ بلاغت تھی ۔ انھو ں نے فرمایا :
( نَحْنُ الْأمَرَائُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَائُ ) ’’ ہم ( مہاجرین ) امیر اور آپ ( اے انصار) وزیر ہو نگے ۔ ‘‘
تو حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے کہا : ( لَا وَاللّٰہِ لَا نَفْعَلُ ، مِنَّا أَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیْرٌ ) ’’ اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک امیر ہم میں سے اور ایک آپ میں سے ہو گا ۔
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ، ہم امراء اور آپ وزراء ہو نگے ۔ (کیونکہ ) گھر ( وطن) کے لحاظ سے وہ (قریش ) عرب لوگوں میں سب سے افضل ہیں اور عادات اور افعال کے لحاظ سے ان میں عربیت سب سے زیادہ گہری ہے ۔ لہذا
تم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو ۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں بلکہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے افضل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی ۔ اس کے بعددیگر لوگوں نے بھی ان کی بیعت کی ۔ [ البخاری : کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت متخذا خلیلا : ۳۶۶۸]
اِس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بن گئے ۔
انھوں نے خلافت سنبھالتے ہی ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں :
’’ حمد وثناء کے بعد ، اے لوگو ! مجھے تمھارا ذمہ دار بنایا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ۔ اگر میں نے کوئی اچھا کام کیاتو تم میری معاونت کرنا اور اگر میں نے کوئی غلط کام کیا تو مجھے سیدھا کردینا ۔ سچ بولنا امانت ہے اور جھوٹ بولنا خیانت ہے ۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اللہ کی مشیئت کے ساتھ اس کا حق اس کو دلا دوں ۔ اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اللہ کی مشیئت کے ساتھ اس سے حق لے لوں ۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیتی ہے اللہ تعالی اس پر ذلت کو مسلط کردیتا ہے ۔ اور جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے اسے اللہ تعالی ضرور آزماتا ہے ۔ تم میری اطاعت اُس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں ۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم میری اطاعت نہ کرنا ۔ اب اٹھو اور نماز ادا کرو ، اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے ۔ ‘‘ [ البدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۲۴۸ ، ج ۶ ص ۳۰۱۔ قال ابن کثیر : إسنادہ صحیح ]
اِس تاریخی خطبہ میں ویسے تو تمام باتیں نہایت اہم ہیں لیکن ان کی آخری بات کہ ’ تم میری اطاعت اُس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں ۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم میری اطاعت نہ کرنا ۔‘ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک حکومت وسیاست کے تمام امور کا منبع ومصدر قرآن وحدیث ہی تھے ۔ انھوں نے ہمیشہ ان دونوں مصادر کو اپنے سامنے رکھا اور انہی کی روشنی میں حکومت وسلطنت کے امور چلاتے رہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا اور ان کے بعد آنے والے تمام خلفائے راشدین کا دور اِس امت کا سب سے تابناک دور تھا ۔ پھر جیسے جیسے حکمران قرآن وحدیث سے دور ہوتے چلے گئے ویسے ویسے اِس امت کی ذلت ورسوائی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
عہدِ صدیقی کے اہم کارنامے
محترم حضرات ! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو اس کا حق ادا کردیا ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کیلئے وہ سب کچھ کیا جو انھیں کرنا چاہئے تھا اور جو وہ کر سکتے تھے ۔ انھوں نے کمزور کو اس کا حق دلوایا ، طاقتور کو ظلم سے روکا ، عدل وانصاف قائم کیا اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سر انجام دینے کیلئے اپنی فوجوں کو مختلف سمتوں کی طرف روانہ کیا ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ہی تھی کہ کئی فتنوں نے سر اٹھا لیا ۔ کئی عرب قبائل مرتد ہو گئے ، مدینہ منورہ میں رہائش پذیر منافق اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہو گئے ، کئی جھوٹے لوگوں نے نبوت کا دعوی کردیااور اہلِ مدینہ پر اندرونی وبیرونی خطرات منڈلانے لگے ۔ لیکن اللہ رب العزت نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جس بصیرت سے نوازا تھاانھوں نے اسے بھر پور استعمال کرتے ہوئے ان تمام فتنوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
چونکہ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں مختلف حالات ، جنگ وصلح ، خوف وامن ، شدت وآسودگی ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اس لئے فہمِ اسلام میں ان کی شخصیت منفرد تھی ۔ اور اسی لئے وہ اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان اور تمام تند وتیز آندھیوں کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے ۔
خلافت سنبھالنے کے بعد ان کے اہم کارناموں کا تذکرہ اِس خطبہ میں تفصیل کے ساتھ تو نہیں کیا جا سکتا ، تاہم مختصر طور پر ہم ان کے بعض کارناموں کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں ۔
01. جیش ِ اسامہ کی روانگی
سب سے پہلا مسئلہ جیش ِ اسامہ کی شام کی طرف روانگی کا تھا جس کا حال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ بنایا جاتا توآج اللہ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا ۔ پھر انھوں نے یہی بات دوسری اور تیسری مرتبہ بھی کہی ۔ لوگوں نے کہا : بس کرو ابو ہریرہ ۔ تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سات سو فوجیوں کا سپہ سالار بنا کر شام کی طرف روانہ فرمایا ۔ جب اس لشکر نے ( ذو خشب) مقام پر پڑاؤ ڈالا تو اِدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور مدینہ کے ارد گرد بسنے والے کئی عرب قبائل مرتد ہو گئے ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک وفد کی شکل میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے ابو بکر ! اس لشکر کو واپس بلا لیجئے ، یہ شام کی طرف متوجہ ہے اور اِدھر مدینہ کے آس پاس عرب قبائل مرتد ہو رہے ہیں ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی حفاظت کرنے والا بھی کوئی نہ بچے تو میں پھر بھی اُس لشکر کو واپس آنے کا حکم نہیں دے سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا ۔ اور نہ ہی میں وہ جھنڈا سرنگوں کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہرایا تھا ۔
اس کے بعد انھوں نے لشکر اسامہ کو سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان کا جس قبیلے سے بھی گذر ہوتا اورجو مرتد ہونے کا سوچ رہا ہوتا اس قبیلے کے لوگ کہتے : اگر ان لوگوں کے پاس طاقت نہ ہوتی تو یہ اپنے گھروں سے نہ نکلتے ، اس لئے انھیں چھوڑ دو یہاں تک کہ ان کی رومیوں سے لڑائی ہو ۔ چنانچہ اس لشکر کی اہلِ روم سے لڑائی ہوئی، مسلمانوں نے رومیوں کو شکست سے دوچار کیا ، ان میں سے کئی لوگوں کو قتل کیا اور صحیح سالم واپس لوٹ آئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ مرتد ہونے کا سوچ رہے تھے وہ اسلام پر ثابت قدم رہے ۔ [ الاعتقاد والہدایۃ إلی سبیل الرشاد إلی مذہب السلف أہل السنۃ والجماعۃ للبیہقی ، ص : ۴۲۲ ]
02. مانعین زکاۃ کے خلاف اعلانِ جنگ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرمایا :
( وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عِقَالًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلٰی مَنْعِہٖ ) [ البخاری :۷۲۸۴ ، ۷۲۸۵ ، مسلم : ۲۰]
’’اللہ کی قسم ! جولوگ ایک رسی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ، اگرمجھے نہیں دیں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ اِس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اسلام کا دقیق فہم رکھتے تھے ۔ دین اسلام کیلئے نہایت غیرت مند تھے ۔ اور عہد نبوی میں دین اسلام جس شکل میں موجود تھا اس کو اس کی اصل ہیئت پر رکھنے کیلئے پر عزم تھے ۔
03. فتنۂ ارتداد کا سد باب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض عرب قبائل مرتد ہو گئے تھے جس کے کئی اسباب تھے ۔ اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ نومسلم لوگوں کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے جس سے وہ انتہائی بد دل ہوئے اور دین اسلام سے مرتد ہو گئے ۔ اسی طرح جاہلیت کی طرف لوٹنے کی چاہت ، اقتدار کی طمع ، قبائلی عصبیت اور حسد وغیرہ جیسے اسباب اس فتنہ کا موجب بنے ۔
مرتد ہونے والے لو گ کئی قسم کے تھے ۔ کچھ وہ تھے جنھوں نے ملتِ اسلام کو کلیتاً چھوڑ دیا اور کفر کی طرف واپس چلے گئے ۔ کچھ وہ تھے جنھوں نے جھوٹے مدعیان نبوت مثلا اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب وغیرہ کی پیروی کی ۔ اور کچھ وہ تھے جنھوں نے اسلام کے بعض احکام مثلا زکاۃ کا انکار کردیا تھا ۔
یہ بہت بڑا فتنہ تھا ۔ جب اِس خطرناک فتنہ کی لہر اٹھی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا سد باب کرنے کیلئے مختلف اقدامات کئے جن کے نتیجے میں یہ فتنہ دم توڑ گیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی پالیسی اختیار کی کہ جس سے مسلمانوں کو تقویت ملی ، دشمنان اسلام کمزور پڑ گئے اور مرتدین اپنی سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ جہاں کہیں مرتدین نے سر اٹھانے کی کوشش کی وہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر بھیجے جنھوں نے اِس فتنہ کو کچل کر رکھ دیا ۔ فتنۂ ارتداد کے خلاف جنگوں میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں بہت زیادہ اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے جنھیں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں پر ہی خرچ کیا ۔ اِس سے مسلمان مزید مضبوط ہو گئے اور روم وفارس کے دشمنانِ اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی تیاریاں کرنے لگے ۔
04. عہدِ صدیقی کی فتوحات
فتنۂ ارتداد کے خلاف جیسے ہی جنگ ختم ہوئی اور جزیرۂ عرب میں استقرار بحال ہو گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی فتوحات کیلئے منصوبہ بندی کی ۔ آپ نے فتح عراق کیلئے دو فوجیں تیار کیں ۔ ان میں سے ایک کی قیادت انھوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اور دوسری کی قیادت حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی ۔ چنانچہ ان فوجوں کے کفار کے ساتھ کئی معرکے ہوئے ۔ آخر کار اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عراق فتح کرنے کی توفیق دی اور ایک بڑا ملک مسلمانوں کے زیرِ اقتدار آگیا ۔
اسی طرح فتح شام کیلئے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی فوج کے چار لشکر تیار کئے۔ پہلا لشکر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دمشق کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے تین دن بعد دوسرا لشکر حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تبوک اور بلقاء سے ہوتے ہوئے بصری کی طرف روانہ ہوا ۔ پھر تیسرا لشکر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ ہوا جس کی منزل مقصود حمص تھی ۔ چوتھا لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فلسطین کی جانب روانہ ہوا ۔ پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جناب خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر حکم دیا کہ وہ عراق سے شام چلے جائیں اور چاروں لشکروں کو یرموک کے مقام پرخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جمع ہونے اور رومیوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم صادر کیا ۔ یہ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فوجی حکمت عملی تھی کہ انھوں نے اسلامی فوج کے ( کمانڈر ان چیف ) کی حیثیت سے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کرکے پہلے مختلف راستوں سے روانہ کیا ، پھر انھیں ایک جگہ جمع ہو کر ایک ہی
قائد کی قیادت میں کفار کے خلاف بر سر پیکار ہو نے کا حکم دیا ۔ چنانچہ رومیوں کے خلاف پہلا معرکہ ’اجنادین ‘ کے مقام پر ہوا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور رومیوں کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا ۔ پھر دوسرا فیصلہ کن معرکہ ’ یرموک ‘ میں ہوا ۔ اس میں بھی اللہ تعالی نے مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب کی۔ اسی معرکہ کے دوران ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے جس کی خبر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ہو چکی تھی لیکن انھوں نے جنگ کے خاتمے کے بعد ہی مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی ۔
05. جمعِ قرآن
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر مسیلمہ کذاب اور اس کی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے روانہ کیا ۔ ’ یمامہ ‘ کے مقام پر سخت جنگ ہوئی ۔ مسیلمہ مارا گیا اور اس کی فوج کو شکست ہوئی ۔ لیکن اِس معرکہ میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بہت سارے حفاظِ قرآن شہید ہوگئے ۔ چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خدشہ لاحق ہوا کہ اگر اسی طرح حفاظ قرآن شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن مجید ضائع نہ ہو جائے ۔ انھوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ خدشہ پیش کیا اور مشورہ دیا کہ وہ جمعِ قرآن کا حکم جاری کریں ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پہلے تو تردد کا اظہار کیا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے باربار کہنے پر اللہ تعالی نے انھیں اِس سلسلے میں شرحِ صدر نصیب کیا اور وہ اِس پر تیار ہو گئے ۔ انھوں نے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ ڈیوٹی سونپی ۔ انھوں نے بھی پہلے تردد کا اظہار کیا بلکہ انھوں نے کہا : اگر مجھے ایک پہاڑ کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو شاید وہ میرے لئے زیادہ آسان ہوتا بہ نسبت جمعِ قرآن کے ۔ لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اصرار کے بعد اللہ تعالی نے ان کا سینہ بھی اِس کام کیلئے کھول دیا ۔ چنانچہ انھوں نے کھجور کی چھڑیوں اور باریک پتھر کے صحیفوں پر لکھی گئی قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کو جمع کیا ۔ اسی طرح لوگوں کے سینوں میں محفوظ قرآن مجید کے مختلف اجزاء کو یکجاکیا ۔ [ البخاری : ۴۹۸۶]
اِس طرح قرآن مجید تحریری شکل میں جمع کردیا گیا جو عہدِ صدیقی کا بہت بڑا کارنامہ تھا ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے سچی محبت کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔