انبیائے کرام علیہم السلام کا بیان
1074۔ سید نا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺجب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:
((اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ))(أخرجه البخاري: 1120، 6317، 7385، 7442، 7442، 7499، و مسلم:769))
’’اے اللہ! تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جوان میں ہے انھیں سنبھالنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تیرے ہی لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی سربراہی ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے۔ تو ہی ہر طرح کی تعریف کا سزاوار ہے۔ تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے تو خود بھی سچا ہے۔ اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے تیری ملاقات یقینی اور تیری بات برحق ہے۔ جنت اور دوزخ برحق ، تمام انبیاء برحق اور سیدنا محمدﷺ بھی برحق ہیں، نیز قیامت برحق ہے۔ اے اللہ ! میں تیرا فرماں بردار اور تجھے پر ایمان لایا ہوں، تجھی پر بھروسا کرتا اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد کے ساتھ مخالفین سے بر سر پیکار ہوں اورتچھی سے فیصلہ چاہتا ہوں۔ تو میرے آگے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہری گناہوں کو معاف کر دے۔ تو ہی پہلے تھا اور تو ہی آخر میں ہوگا۔ کوئی معبود نہیں مگر تو ہی یا تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: سیدنا محمدﷺ سمیت تمام انبیائے کرام برحق ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنے پسندیدہ افراد کو دینے اور ان پر وحی نازل فرمائی۔ اس مقدس طبقے کے افراد کو انبیاء عليهم السسلام کہتے ہیں۔ انبیائے کرام مختلف بوليو، کے لوگ تھے، ان کی قو میں الگ الگ تھیں، وه مختلف علاقوں میں آئے اور مختلف زبانوں میں آئے لیکن ان کا پیغام ایک ہی تھا کہ ایک ہی خالق و مالک کی بندگی کرو۔ اپنے اپنے دور میں ان کی شریعت برحق تھی۔ انبيائے کرام کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی خاتم النبيين سیدنا محمد ہ ہیں ۔ انہیں اللہ تعالی نے سب سے آخر میں تمام جنوں اور انسانوں کے لیے رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کے اللہ باب نبوت ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کسی کو عیسائی یا یہودی بننے کو حق نہیں کیونکہ آپ ﷺکی بعثت کے بعد پہلی تمام شریعتیں کا العدم ہو چکی ہیں۔
1075۔ سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسْوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى وَسَيَكُونَ الخُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ))
’’ بنی اسرائیل کی حکومت انبیاء علیہم السلام چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کاجانشین دوسرا نبی ہو جاتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہو گا، البتہ خلفاءہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔‘‘
صحا بہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ہو نے عرض کی: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
((فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ)) (أخرجه البخاري:3455 و مسلم :1842)
’’جب کوئی خلیفہ ہو جائے (اور تم نے اس سے بیعت کرلی ہو) تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو،
پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وهظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے اور کیا ؟‘‘
1076۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينًا كَانَ أَمْ لَا، وَمَا أَدْرِي أَذُو الْقَرْنَيْنِ كَانَ نَبِيًّا أَمْ لَا)) (أخرجه الحاكم:450/2، والبيهقي:329/8)
’’مجھے نہیں معلوم کہ تُبع ملعون تھا یا نہیں اور نہ مجھے یہ علم ہے کہ ذو القرنین نبی تھے یا نہیں۔‘‘
توضیح و فوائد: تبع یمن کا بادشاہ تھا۔ یہ مشرک تھا، آخر میں مسلمان ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیرا رہا۔ پہلے آپ کو اس کے بارے میں علم نہیں تھا، اس لیے آپ نے اس کے بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ بعد ازاں آپ کو علم ہو گیا کہ وہ ایک مسلمان تھا تو آپ نے اسے برا کہنے سے منع کر دیا جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں ہے۔ (الصحيحة للالبانی، حدیث: 2423) ذو القرنین کے بارے میں بھی راجح قول یہ ہے کہ وہ نیک اور عادل بادشاہ تھے جنھوں نے ساری دنیا پر حکومت کی۔ ان سے سکندرِ اعظم مراد نہیں ہے جس نے چین، ہندوستان اور فارسی وغیرہ کو فتح کیا تھا وہ کافر اور یونانی تھا جبکہ ذوالقرنین عربی تھے اور مسلمان تھے۔ ذوالقرنین ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھے جبکہ سکندر عیسی علیہ السلام سے تین سو سال پہلے گزر چکا تھا۔
1077۔ سیدنا جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا:
((إِنِّى أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى قَدِ اتّْخَذَنِي خَلِيلًا كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِدًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَا تَخَذْتُ أَيَا بَكْرٍ خَلِيلًا)) (أخرجه مسلم:532)
’’میں اللہ تعالی کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا۔‘‘
توضیح و فوائد: خلیل سب سے زیادہ عزیز اور گہرے دوست کو کہتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے مخلوق سے کسی کو خلیل نہیں بنایا کیو نکہ اللہ تعالی نے خود نبي کریم ﷺ کو اپنا خليل بناياہے۔
1078۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي فَقُلْتُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ وَأَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَكَاةً وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (أخرجه مسلم:2603)
’’میں نے اپنے سب سے پختہ عہدلیا ہے، میں نے کہا: میں ایک بشرہی ہوں ، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن ان کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرمائے‘‘
توضیح وفوائد: اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہو میں ایک یہ کہ تمام انبیاء علیہم السلام آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور سب کے بشرتھے۔ اللہ تعالی نے انھیں وحی کے ذریعے سے فضیلت بخشی ۔ لیکن فضیلت سے ان کی جنس نہیں ہوئی ، یعنی وہ اپنی فطرت میں خاکی تھے، خاکی ہی رہے، نوری نہیں بنے۔ انبیائے کرام کی سیرت کا سب سے زیادہ گراں مایہ پہلو یہ ہے کہ بحیثیت انسان تمام تر بشری تقاضوں کے باوجود انہوں نے بڑے سے بڑے آشوب اور آزمائش سے دو چار رہ کر بھی اللہ تعالی کی کامل اطاعت کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ دوسری یہ ہے کہ نبی رضی اللہ تعالی عنہ نے اگر کسی مسلمان کو بددعا دی اور وہ اس کا مستحق نہیں تھا تو اسے اس کے لیے رحمت اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنانے کی اللہ تعالی سے درخواست کی جو یقیناً مقبول ہے۔
1079۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة )) (أخرجه البخاري:4586)
’’ہر نبی کو اس کی بیماری میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو وہ دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔‘‘
اور آپ ﷺکو مرض الموت میں جب سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے:
﴿ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ﴾(النساء69:4)
(ان لوگوں کی رفاقت جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کی رفاقت ‘‘
میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے۔
توضیح وفوائد: انبیاء علیہم السلام کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ جب ان کا وقت اجل آتا تھا تو پہلے ایک فرشتہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور ان سے پوچھتا تھا کہ کیا آپ ابھی اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں یا موت کو قبول فرما کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا چاہتے ہیں؟ لیکن اس امتیاز سے ماورا ہو کر شاہراہ ِزندگی سے وہ بھی عام انسانوں کی طرح گزرتے تھے اور انہیں طرح طرح کی بیماریوں نا سازیوں اور سختیوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے (شدت کے لحاظ سے) دو آدمیوں کے برابر بخار ہوتا ہے۔ در حقیقت انبیائے کرام کو پیش آنے والی آزمائشیں بھی عام انسانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدت اور اذیت کے ساتھ پیش آتی تھیں جیسا کہ حدیث:1080 میں صراحت ہے۔
1080۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! سب سے سخت مصیبت کسی پر آتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْأنْبِيَاء ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَل يُبْتَلَي الرَّجُلُ عَلَى حَسَبٍ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِيْنِهِ صُلبًا اشْتَدَّ بَلاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابَتُلِيَ عَلٰى قَدْرِ دِينِهِ ، فَمَا يَبْرَحُ البَلاءُ بِالْعَبْدِ حَتّٰى يَتْرُكُهُ يَمْشِى عَلَى الْأَرْضِ، وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ)) (أخرجه الترمذي:2398، وابن ماجه:4023)
’’ نبیوں پر، پھر جو ان کے بعد سب سے افضل ہیں، پھر جو ان کے بعد افضل ہیں۔ بندے پر اس کے دین کے مطابق آزمائش آتی ہے۔ اگر وہ اپنے دین (اور ایمان) میں مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے۔ اگر اس کا ایمان نرم ہو تو اس کے ایمان کے مطابق آزمائش آتی ہے۔ بندے پر آزمائش اور مصیبت آتی رہتی ہے حتی کہ اسے ایسا کر کے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چل پھر رہا ہوتا ہے اور اس پر کوئی گناہ (باقی نہیں ہوتا۔‘‘
1081۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا)) (أخرجه مسلم:2379)
’’سيدنا زکریا علیہ السلام پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔‘‘
1082۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
((مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ))
’’اللہ تعالی نے کوئی بھی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ۔‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ نے بھی ؟ آپﷺ نے فرمایا:
((نعَمْ ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيط لِأَهْلِ مَكَّةَ)) (أخرجه البخاري:2262)
’’ہاں میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘
توضیح وفوائد: انبیاء علیہم السلام کو بھی عام لوگوں کی طرح کھانے پینے اور اوڑھنے اور پہنے کی ضرورتیں پیش آتی تھیں، چنانچہ اپنی گزر بسر کے لیے انھوں نے مختلف کام ہے، مثلا: زکر یا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔
کئی انبیاء نے اور بھی مختلف کام کیے ،حتیٰ کہ تمام انبیاء اپنے اپنے زمانے میں بکریاں بھی چراتے رہے۔ تاہم یہ دنیاوی گزران کے کام ان کی منصبی اور دعوتی ذمہ داریوں پر بھی اثر انداز نہیں ہوئے۔
1083۔ سید نا اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((إنَّ مِنْ أَفَضْلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمْعَةِ، فَأَكْثِرُوا عَلَىَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ))
’’تمھارے افضل دنوں میں سے جمعے کا دن فضیلت والا ہے، اس لیے اس دن مجھ پر کثرت سے پڑھا کرو۔ بلاشبہ تمھارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا، حالانکہ آپ کا جسم (قبر میں ) بوسیدہ ہو چکا ہوگا ؟
راوی کہتا ہے کہ انھوں نے تلبیت کے الفاظ کہے۔ فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ». (أخرجه أبو داؤد: 1047)، والنسائي:91/3 وابن ماجه:1636)
’’بے شک اللہ تعالی نے انبیاء ان کے جسم زمین پر حرام کر دیے ہیں۔‘‘
توضیح وفوائد: اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو یہ خصوصیت بخشی ہے کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے جسم قیامت تک محفوظ رہیں گے۔ قبر کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھا سکتی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں۔ برزخ کی زندگی کو دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں۔ اگر اللہ تعالی چاہے تو پیغمبروں کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کا جسم بھی محفوظ رہ سکتا ہے لیکن یہ ولایت کی دلیل ہرگز نہیں کیونکہ
بعض وقعہ کا فروں کا جسم بھی محفوظ رہتا ہے جیسا کہ فرعون کا جسم آج بھی موجود ہے۔
1084۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتّٰى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ)) (أخرجه أبو داود: 2041)
’’جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
توضیح وفوائد: روح لوٹانے اور جواب دینے کی کیفیت کا تعلق برزخی زندگی سے ہے۔ دنیاوی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ اس پر قیاس کرنا درست ہے کیونکہ وہ دنیاوی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ حدیث: 1085 اور 1086 میں مذکور نماز پڑھنے کا تعلق بھی برزخی زندگی سے ہے جس کی حقیقت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
1085۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اَلأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ)) (أخرجه أبو يعلى:3425)
’’انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
1086۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَرَرْتُ عَلٰى مُوسَى لَيْلَةً أُسْرِيَ فِي عِندَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِي قَبْرِهِ)) (أخرجه مسلم:2375، و 164)
’’میں معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
1087۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَا تُخَيِّرُوْا بَيْنَ الأَنْبِيَاء)) (أخرجه البخاري: 2412، 3398، 4638، 6917، 7427، ومسلم:2374)
((انبیاء علیہم السلام کے درمیان کسی کو دوسرے پر بہتر قرار نہ ہو۔‘‘
1088۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ الاَنْبِيَاءِ اللهِ)) (أخرجه البخاري:3414،ومسلم:2373)
’’اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو۔‘‘
1089۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ مسلمان کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس نے سید نامحمد کو سارے جہانوں ہے برتری دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا موسی علیہ السلام کو تمام ان جہاں پر برگزیدہ کیا! اس پر مسلمان نے ہاتھہ اٹھایا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ وہ یہودی نبی ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے اپنا اور مسلمان کا ماجرا کہہ سنایا۔ نبی ﷺ نے اس مسلمان کو بلا کر دریافت کیا تو اس نے سارا قصہ بیان کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
(( لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللهُ)) (أخرجه البخاري:2411، 3408،6517، ومسلم:2373)
’’تم مجھے موسی علیہ السلام پر برتری نہ دو کیونکہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور میں بھی بے ہوش ہو جاؤں گا اور سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا ایک پا یہ پکڑے کھڑے ہیں ۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش ہو کر مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی نے بے ہوشی سے مستثنٰی کر دیا۔‘‘
1090۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺسے عرض کی: اے خیر البریہ (تمام خلوقات سے افضل)!
آپ ﷺ نے فرمایا: ((ذاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلام ) ’’وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔‘‘(أخرجه أحمد:12826، 12907، ومسلم:2369، وأبو داود: 4672، والترمذي: 3352، والنسائي في
الكبرى:11692)
توضیح و فوائد: ایک نبی کو دوسرے پر اس طرح فضیلت دیتا کہ دوسرے کی تو ہین ہوں۔ یہ ناجائز اور حرام ہے۔ مطلق فضیلت دینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حدیث: 1089 اور 1090 سے واضح ہے۔
1091۔ سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كَيْفَ أَنتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ ، فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ)) (أخرجه البخاري:3449، ومُسْلِم:155و 246)
’’تم کیسے ہو گے جب ابن مریم تم میں اتریں گے اور تم میں سے (ہو کر) تمھاری امامت کرائیں گے!‘‘
1092۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ نَازِلٌ إِذَا رَايَتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ. رَجُلٌ مَرْبُوع إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَينَ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبَهُ بَلَلٌ ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ ، فَيُدَقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الجنزيرَ، وَيَضَعُ الجِزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللهُ في زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ المسيح الدَّجَّالَ، وَتَقَع الأَمَنَةُ فِي الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْأَسَدُ مَعَ الْإِبلِ وَالنَّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذئَابُ مَعَ الغَنَم، وَيَلْعَبَ الصبْيَانُ بِالحَيَّاتِ لَا تَضُرُّهُمْ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفّٰى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ)) (أخرجه أحمد:9270، وابن جبان 6814،6821)
’’میں عیسی ابن مریم پر تمام لوگوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ صورت حال یہ ہے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے جب تم انھیں دیکھو تو پہچان لینا وہ درمیانے قد اور سرخ و سفید رنگ جس میں سرخی کا غلبہ ہو، کے مالک ہوں گے سر کے بال اس طرح ہوں گے جیسے ابھی غسل کر کے نکلے ہوں اگر چہ وہ گیلے نہ ہوں۔ وہ اسلام پر لوگوں سے قتال کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے خنزیر کوقتل کریں گے اور جزیہ (ٹیکس) ختم کر دیں گے۔ ان کے زمانے میں اسلام کے علاوہ اللہ تعالی تمام مذاہب کو ختم کر دے گا اور وہ سے دجال کو قتل کر دیں گے۔ زمین میں ہر طرف امن و امان ہوگا۔ یہاں تک کہ شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتا گائیوں کے ساتھ اور بھیڑ یے بھیڑوں کے ساتھ ہوں گے۔ اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے جو انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ وہ زمین میں چالیس سال تک رہیں گے، پھر فوت کر لیے جائیں گے، پھر مسلمان ان کی نمازہ جنازہ پڑھیں گے۔ ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔‘‘
توضیح و فوائد: اللہ تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ قیامت کے قریب ان کا نزول ہو گا لیکن اس وقت وہ اپنی نبوت جاری نہیں کریں گے بلکہ سیدنا محمدﷺ کی شریعت کو اپنا ئیں گے۔ د جال کو قتل کر دیں گے، خنزیر کو ختم کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، ٹیکس بھی ختم کر دیں گے۔ اسلام پوری دنیا پر غالب آ جائے گا اور مثالی امن و امان قائم ہوگا، چالیس سال زندہ رہنے کے بعد عیسی علیہ السلام وفات پا جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
1093۔ سید نا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةِ الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ وَهِيَ حَيَّةٌ يَوْمَئذٍ)) (أخرجه مسلم:2538)’’
آج کوئی ایسا سانس لیتا ہوا انسان موجود نہیں کہ اس پر سو سال گزریں تو وہ اس دن بھی زندہ ہو ۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ جو انسان آج موجود ہے، وہ سو سال کے اندر اندر قوت ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں فرشتے اور جنات شامل نہیں ہیں۔
1094۔ سید نا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أنا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنَ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍِ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي ، وَأَنَا أَوَّلَ مَنْ تَنْشَّقُّ عَنْهُ الْأَرْضِ وَلَا فَخَرَ))(أخرجه أحمد: 10987، و الترمذي:3148، 3615)
’’میں روز قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میں فخر نہیں کرتا، میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہو گا اور کوئی فخر نہیں۔ اس دن تمام انبیاء آدم سمیت میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ اور سب سے پہلے میں ہی ہوں گے جس کی قبر شق ہوگی اور میں فخر نہیں کرتا ۔‘‘
1095۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ مَثْلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰى بَيْتًا، فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبْنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبْنَةُ، قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ)) (أخرجه البخاري:3535، ومسلم5959)
’’میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاءﷺ کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اسے بہت خوبصورت تیار کیا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ اب لوگ آکر اس کے ارد گرد گھومتے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
توضیح وفوائد: یہ سیدنا محمد ﷺ کی ختم نبوت کی بڑی روشن اور تھوری دلیل ہے جس کی کوئی تاویل ممکن نہیں۔ باب نبوت ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا۔ اب تا قیامت کوئی ظلی یا بروزی نہیں آسکتا، اگر کوئی دعوی کرے گا تو وہ دجال اور کذاب ہوگا۔
1096۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ)) (أخرجه مسلم:523)
’’مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے: مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، (دشمنوں پر) رعب و دبدبے کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے اموال غنيمت حلال کر دیے گئے ہیں، زمین میرے لیے پاک کرنے والی اور مسجد قرار دی گئی ہے، مجھے تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہے اور میرے ذریعے سے (نبوت کو مکمل کر کے) انبیاء ختم کر دیے گئے ہیں۔‘‘
………………