انبیائے کرام سے نسبت و رشتہ داری توحید اور عمل صالح کے بغیر بے کار ہے
153۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾ ’’(اے پیغمبر!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔‘‘
تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
((يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا، يَا عَنَاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. لا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةً رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةً بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِيْنِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:2763، 3527، ومُسْلِمٌ:206)
’’اے جمعیت قریش!….یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خرید لوں میں اللہ کے حضور تمھارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف! میں اللہ کی طرف سے تمھارا دفاع نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے عذاب سے تمہیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کر سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد (ﷺ) جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کر سکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمھارا دفاع نہیں کر سکوں گا۔“
154۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں:
((یَا فَاطِمَةُ أَلْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّی لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا إِلَّا أَن لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:204)
’’اے فاطمہ (بنت رسول اللہﷺ)! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ تعالی کی طرف سے (کسی مؤاخذے کی صورت میں) تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، ہاں! تم لوگوں کے ساتھ رشتہ ہے۔ اُسے میں اسی طرح جوڑتا رہوں گا جس طرح جوڑنا چاہیے۔‘‘
توضیح و فوائد: ایمان و توحید اور عمل صالح کے بغیر نجات ممکن نہیں، خواہ کوئی شخص خاندانی طور پر کتناہی معزز ہو۔ دنیا میں سب سے معزز خاندان رسول اکرمﷺ کا خاندان ہے۔ آپﷺ نے واضح فرما دیا کہ اگر میری بیٹی بھی توحید اور عمل صالح کی راہ چھوڑ کر کہے کہ میں آخری نبی کی بیٹی ہوں تو اسے بھی یہ رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، تاہم اگر ایمان و توحید اور عمل صالح کے ساتھ ساتھ رسول اکرم ﷺ سے رشتہ داری بھی ہے تو یہ سونے پر سہاگا ہے اس کا اضافی فائدہ اور عزت ضرور نصیب ہوگی جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ((كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَّوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا سَبَبِی وَنسَبِي))
’’میرے تعلق اور رشتہ داری کے علاوہ ہر سسرالی اور نسبی رشتہ داری روز قیامت ختم ہو جائے‘‘(الصحيحة للألباني، حديث: 2036)
اسی طرح بعض روایات میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
’’میرے اصل رشتہ دار متقی اور پرہیز گار لوگ ہیں۔‘‘ (سنن أبي داؤد، حدیث:4242)
155۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَأْخُذُ رَجُلٌ بِيَدِ أَبِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرِيدُ أَنْ يُّدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، فَيُنَادَى:أَلَا إِنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلْهَا مُشْرِكٌ…))
’’قیامت کے دن کوئی آدمی اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں داخل کرنا چاہے گا تو آواز دی جائے گی، خبر دارا جنت میں کوئی مشرک داخل نہیں ہو گا۔ ‘‘
وہ کہے گا:اے میرے رب یہ تو میرا باپ ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: ((فَيُحَوَّلُ فِي صُوْرَةٍ قَبِيْحَةٍ وَرِيحٍ مُنْتِنَةٍ فَيَتُرُكُهُ)) (أخرجه ابن حبان في صحيحه:645)
’’پھر اسے نہایت قبیح اور بد بو دار صورت میں بدل دیا جائے گا تو وہ اسے چھوڑ دے گا۔ ‘‘
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے کہ اس سے مراد ابراہیم علیہ السلام (اور ان کے والد)
ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ اللہ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ وہ کون تھے۔
156۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ((في النَّارِ)) ’’آگ میں ہے۔‘‘ پھر جب وہ پلٹ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا:
((إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ)) ’’بلاشبہ میرا باپ اور تمھارا باپ آگ میں ہیں۔‘‘(أخرجه مسلم:203)
157۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلَهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2699)
’’جس شخص کے اعمال نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے آگے نہیں کر سکتا۔‘‘
توضیح و فوائد: اگر کوئی شخص اپنے برے اعمال کی وجہ سے دوزخ کا حق دار ٹھہر چکا ہو تو اس کا حسب و نسب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
158۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا، آپﷺ نے اسے بہت بڑا گناہ اور خطر ناک جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا:
((لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ نَفْسٌ لَهَا صِيَاحٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3073، وَمُسْلِمٌ(
’’میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس طرح آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو کر بلبلا رہا ہو اور وہ کہے:اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیے اور میں جواب میں کہوں: میں تمھارے لیے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمھیں (دنیا ہی میں) حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو کر ہنہنا رہا ہو، وہ کہے:اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے اور میں کہوں کہ میں تمھارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، میں نے تمھیں حق پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری سوار ہو کر ممیا رہی ہو، وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے اور میں کہوں: میں تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمھیں حق سے آگاہ کر دیا تھا، میں تم میں سے کسی شخص کو روز قیامت اس حالت میں نہ دیکھوں کہ اس کی گردن پر کسی شخص کی جان سوار ہو اور وہ (ظلم کی دہائی دیتے ہوئے) چیخیں مار رہی ہو اور وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے اور میں کہوں: میں تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تمھیں سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کپڑا لدا ہوا پھڑ پھڑا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے، میں کہوں تمھارے لیے میرے بس میں کچھ نہیں، میں نے تم کو سب کچھ سے آگاہ کر دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر نہ بولنے والا مال (سونا چاندی) لدا ہوا ہو، وہ کہے:اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے، میں کہوں:جمھارے لیے میرے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں، میں نے تم کو (انجام کی) خبر پہنچا دی تھی۔ “
توضیح و فوائد: رسول اکرم علیم کی شفاعت برحق ہے۔ اس سے ہر مومن مستفید ہوگا۔ لیکن اس شفاعت کو شرعی احکام سے فرار کا ذریعہ بنانا جائز نہیں کیونکہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ شفاعت کا مستحق ہوگا یا نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اسے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا، اس لیے ہمیں پابندی سے شرعی احکام پر عمل کرنا چاہیے اور ہم اس کے پابند ہیں۔
……………….