اپنا ماضی یاد رکھیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا، بلاشبہ اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔
إبراهيم : 5

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اس سے مراد کسی قوم کے یادگار تاریخی دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے، یا اپنے فرماں بردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔

گزرے ہوئے دنوں کو یاد رکھنا کیوں اہم ہے

اپنی تربیت اور اصلاح کے لیے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ایام کو یاد رکھنا بہت اہم ہے
اگر کوئی شخص ماضی میں غریب، غلام، مسکین یا یتیم تھا اور اب مالدار ہے تو اپنی غربت کے دن یاد رکھنے سے اس میں عاجزی رہے گی اور وہ تکبر اور اکڑ سے بچ سکتا ہے

اور اگر کسی پر ماضی میں بہت اچھے حالات گزرے ہوں یا اسے کسی بڑے حادثے سے قریب سے بچایا گیا ہو یا کسی مصیبت سے چھٹکارا ملا ہو تو ایسے واقعات کو یاد کرنے سے شکر گزاری پیدا ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ
تاکہ ہم اسے تمھارے لیے ایک یاد دہانی بنا دیں اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔
الحاقة : 12

ماضی کے بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو بہادر بناتے ہیں
بعض واقعات شکر گزاری کا سبب بنتے ہیں
بعض واقعات کو یاد کرنے سے انسان میں عاجزی پیدا ہوتی ہے
بعض واقعات انسان کو گناہوں سے بچاتے ہیں
اور بعض واقعات انسان کو مزید دھوکہ کھانے سے بچاتے ہیں

بہرحال تاریخ ایک عبرت ہے، سبق ہے اور نصیحت ہے

موسیٰ علیہ السلام کے دل میں بہادری اور بے خوفی پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا بچپن یاد دلایا

جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دعوت دینے کے لیے فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى
فرعون کی طرف جا، بے شک وہ سرکش ہوگیا ہے۔
طه : 24

تو موسی علیہ السلام نے اپنی جان کے قتل کا خدشہ ظاہر کیا اور فرمایا :
وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ
اور ان کا میرے ذمے ایک گناہ ہے، پس میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔
الشعراء : 14

سورہ طہ میں موسی علیہ السلام نے اپنے خوف کا یوں اظہار کیا
قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى
دونوں نے کہا اے ہمارے رب! یقینا ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا، یا کہ حد سے بڑھ جائے گا۔
طه : 45

اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ان کا بچپن یاد کروایا کہ دیکھو جب تم بالکل ہی نومولود بچے تھے اور اپنی کمزوری کی انتہا پر تھے اور دشمن تمہیں قتل کرنے کے درپے تھا حتی کہ آپ کو سمندر کی بے رحم موجوں کے بیچ ڈال دیا گیا تھا
تب میں ہی تھا جس نے آپ کو نہ صرف یہ کہ بچا لیا تھا بلکہ آپ کی والدہ محترمہ کے پاس واپس بھی لے آیا تھا
تو اگر میں نے کل آپ کو فرعون سے بچایا تھا تو آج بھی بچانے پر قادر ہوں لھذا آپ بے فکر ہو کر فرعون کے پاس جائیں
مزید تفصیل کا شوق رکھنے والے احباب سورہ طہ کی آیت نمبر 24 تا 40 کا مطالعہ کریں

بعد میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو قوم کے سامنے نصیحت کرنے کے لیے یہی طریقہ اپنانے کا حکم دیا

فرمایا :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا، بلاشبہ اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔
إبراهيم : 5

موسی علیہ السلام نے ماضی کے واقعات یاد دلا کر نصیحت کرنا شروع کر دی

صحیح مسلم میں ہے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے :
[ بَيْنَمَا مُوْسٰی عَلَيْهِ السَّلَامُ فِيْ قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللّٰهِ، وَأَيَّامُ اللّٰهِ نَعْمَاؤُهُ وَ بَلَاؤُهُ ]
[ مسلم : 172 / 2380 ]
’’ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں انھیں اللہ کے ایام کے ساتھ نصیحت کر رہے تھے اور ایام اللہ سے مراد اس کی نعمتیں اور اس کی مصیبتیں ہیں۔‘‘

موسی علیہ السلام اپنی قوم کو ماضی یاد دلاتے ہیں

کبھی غلامی، کمزوری، اور تکلیف کے دن یاد دلاتے تھے
فرمایا :
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے اور تمھارے بیٹے بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔
إبراهيم : 6

اور کبھی خوشحالی، فراوانی اور بادشاہی کے دن یاد دلاتے تھے
جیسا کہ فرمایا :
« وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ»
[ المائدۃ : ۲۰ ]
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔‘‘

شکر گزاری کے لیے ماضی کی چند باتیں یاد کرلیں

آج بہت لوگ عجیب قسم کی پریشانیوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں
لیکن ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ آئیں تھوڑا ماضی میں چلتے ہیں
تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاﺅ کیا تم اپنے والد سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟
اپنے بچپن کو ہی دیکھ لیں گھر میں صرف ایک پنکھا ہوتا تھا
فریج کا تصور بھی نہیں تھا
ایک روپے کی برف خرید کر لاتے تھے
ہمسایوں سے سالن مانگتے تھے
شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لیتے تھے
بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے۔
مرغی صرف بیماری کی حالت میں پکائی جاتی تھی
بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔
سائیکل خوش حالی کی علامت تھا اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا
گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی
پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا
اور لوگ کپڑے کے ”پونے“ میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آپ کا بچپن یاد کروا کے ایک نصیحت کی

اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو آپ کے بچپن کے کمزور ترین حالات، آپ کی یتیمی، آپ کی راستے سے ناواقفیت اور آپ کی انتہا درجے کی تنگدستی، یاد کرواتے ہوئے فرمایا :
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی۔
الضحى : 6
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى
اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا۔
الضحى : 7
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى
اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔
الضحى : 8

مطلب کہ آپ نے یتیمی اور اس کی تلخی اور بے چارگی دیکھی ہے اور اسی طرح آپ نے تنگ دستی بھی دیکھی ہے

ماضی کے یہ حالات بیان کرنے کے بعد فرمایا :
فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ
پس لیکن یتیم، پس (اس پر) سختی نہ کر۔
الضحى : 9
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ
اور لیکن سائل ، پس (اسے) مت جھڑک۔
الضحى : 10
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔
الضحى : 11

یعنی اپنی یتیمی کو یاد کرتے ہوئے یتیم پر سختی نہ کرو بلکہ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرو۔
اور اپنی ناواقفیت اور تنگدستی کو یاد کرتے ہوئے اگر کوئی علم کے متعلق سوال کرے یا مال کا سوال کرے
تو اسے ڈانٹنا ہرگز نہیں! بلکہ اس سے حسن خلق کے ساتھ پیش آئیں، اس کی حاجت پوری کریں یا اچھے طریقے سے معذرت پیش کر دیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو بادشاہوں جیسے گھمنڈ اور تکبر سے بچانے کے لیے اپنی ماں کی غربت کو یاد کیا

حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:
ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بات کرنے لگا۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب کی وجہ سے )اس کے کندھے کانپنے لگے(اس پر کپکپی طاری ہو گئی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :
هَوِّنْ عَلَيْكَ فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيدَ
ابن ماجه : 3312 ،صحيح
’’گھبراؤ مت‘میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تو ایک ایسی(عام سی غریب)عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘

کبھی غور کیا کہ والدین کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں بچپن کا حوالہ کیوں دیا گیا

اللہ تعالیٰ نے والدین کے لئے یہ دعا کرنے کا حکم دیا ہے :
(رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا)
اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم فرما جیسے ان دونوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے

اس دعا میں یہ خوبی ہے کہ اس دعا میں والدین کے بچپن میں پرورش کرنے کو یاد دلایا گیا ہے تاکہ ان کی قربانیوں کا احساس پیدا ہو اور ان کے لیے زیادہ اخلاص اور کوشش کے ساتھ دعا کی جائے ۔

مطلب کہ اپنا بچپن یاد کرو، بچپن میں والدین تمہیں شہزادے اور شہزادیوں کی طرح پالتے ہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم انہیں بڑھاپے میں بادشاہ اور ملکہ کی طرح رکھو

ایاز کا صندوق

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ ہمیں ایک واقعہ سنایا کرتے تھے
کہ محمود غزنوی کی فوج کا ایک کمانڈر تھا جس کا نام ایاز تھا بڑا کمانڈر بڑے عہدے پر فائز تھا بادشاہ کے ہاں بھی اس کا بڑا درجہ اور مقام تھا اس کے کمرے میں ایک صندوق تھا جسے ہررات کھول کر دیکھتا اور تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد بند کر کے سو جاتا
بالآخر جب اس صندوق کا راز کھلا تو ایاز نے بتایا کہ کبھی میں ایک غریب گھرانے کا فرد تھا ٹوٹی پھوٹی جوتی پہن کر اور ہاتھ میں چھانٹا پکڑ کر بکریاں چرایا کرتا تھا میں نے وہ جوتی، اور چھانٹا یہاں رکھا ہوا ہے
آج بڑی فوج کا چیف بن گیا ہوں تو روزانہ اسے دیکھتا ہوں تاکہ اپنی غربت اور کسمپرسی کے دن یاد رہیں اور فخر و غرور میں مبتلا نہ ہو جاؤں

مینار پاکستان کو یاد گار کیوں کہتے ہیں؟

لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک مینار بنایا گیا جسے یادگار بھی کہتے ہیں یہ مینار کیوں بنایا؟ اور بالخصوص اس کو یادگار کیوں کہا جاتا ہے؟
یہ مینار 23 مارچ 1940 کو مسلمانان ہند کی متفقہ طور پر پاس ہونے والی ایک قرار داد کی یاد کے طور پر بنایا گیا ہے جس میں دو قومی نظریہ سمیت دیگر اہم نکات پر مشتمل ایک بیانیہ رکھا گیا تھا اور ایک آزاد ریاست کے قیام کے لئے تحریک کو تیز کرنے کا عزم کیا گیا تھا
مینار کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد کو یاد رکھیں اور اسے بلا نہ دیں

قمری تقویم کا آغاز ہجرت سے کیوں کیا گیا

ایسے ہی امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے قمری تقویم کا آغاز ہجرت کے سال سے کیا تھا اسی لیے اسے سن ہجری بھی کہتے ہیں
ہجرت سے شروع کرنے کے پیچھے بھی یہی ذہن اور سوچ تھی کہ موجودہ اور بعد میں آنے والے سبھی مسلمان اسلام کی خاطر قربانیوں اور تکلیفوں سے بھری ہوئی اس عظیم ہجرت کو یاد رکھیں اور آئندہ بھی کسی بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار رہیں

زندہ رہنے کے لیے تاریخ کو یاد رکھنا بے حد ضروری ہے

اندلس میں ہر سال منعقد ہونے والی ایک مجلس

2 جنوری 1492ء میں سقوط اندلس ہوا تھا مسلمانوں کی حکومت ختم کر کے عیسائیوں نے وہاں پر اپنی حکومت قائم کی
آج تک ہر سال اندلس میں 2 جنوری کو ایک تقریب منعقد ہوتی ہے ایک شخص اندلسی لباس پہنے سر جھکا کر آتا ہے اور چابیوں کا گچھا دوسرے کو حوالے کرکے گزر جاتا ہے اور اس تقریب میں صلیبی لباس پہنے سینکڑوں افراد خوشی مناتے ہیں
چابی لے کر آنے والا اندلس کے آخری سلطان ابوعبدالله کا اور لینے والا شاہ فرنیننڈ کا کردار ادا کرتا ہے
اسے کہتے ہیں تاریخ سے جھڑے رہنا

بچے بوڑھے اور جوان مردو خواتین سب۔ یہ تالی بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سقوط اندلس کی یاد میں ہر سال منائی جانے والی تقریب ہے۔
جبکہ مسلمان کرسمس منانے میں مشغول۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

تاریخ سے واقفیت کا فائدہ

حافظ ابن الجوزی نے المنتظم میں، ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، اور ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے۔

سن 447 ہجری کو کچھ یہودیوں نے ایک تحریر پیش کی جس میں اُن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے جزیہ ختم کردیا تھا
یہ تحریر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی اور اس پر سعد بن معاذ سمیت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی گواہی بھی درج تھی۔
چنانچہ جب اس تحریر کو خلیفہ "القائم بامر اللہ” کے وزیر کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اسے "خطیب بغدادی” رحمہ اللہ کی خدمت میں رکھا، خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسے دیکھتے ہی کہا: "یہ من گھڑت تحریر ہے”
لوگوں نے پوچھا :
آپ کو کیسے معلوم ہوا؟!
کہنے لگے: سعد بن معاذ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اسلام قبول کرنے کے بعد کبھی اکھٹے ہی نہیں ہوئے!!
انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا :
خیبر 7 ہجری کو فتح ہوا، جبکہ سعد بن معاذ غزوہ بنی قریظہ کے بعد 5 ہجری کو جام شہادت نوش کر گئے!! یعنی فتحِ خیبر سے بھی 2 سال قبل!!
مزید برآں یہ بھی کہ سیدنا معاویہ فتح مکہ یعنی 8 ہجری کو مسلمان ہوئے ہیں!!
ان دلائل کی بنا پر وزیر نے یہودیوں کے دعوے کو مسترد کر دیا اور ان سے جزیہ وصول کیا۔

او بیعت رضوان والو

حنین کی جنگ میں جب وقتی طور پر مسلمان پیچھے کو بھاگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بلانے اور ان کے اندر بہادری اور شجاعت پھونکنے کے لیے ان کی جرأت اور بہادری پر مشتمل ایک سابقہ داستان کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں آواز لگائی

عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا :
’’ اے عباس ! کیکر ( کے درخت) والوں کو آواز دو۔‘‘
چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا کہ کیکر ( تلے بیعت رضوان کرنے) والے کہاں ہیں ؟
اللہ کی قسم! ان لوگوں نے جب میری آواز سنی تو وہ ’’ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں‘‘ کہتے ہوئے اس طرح دوڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔
[ مسلم : 1775 ]

بنی اسرائیل کو ان کے باپ کی اچھی خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے، خطاب

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا
اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا! بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔
الإسراء : 3

یعنی تم ان صالح لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی۔ مقصد بنی اسرائیل کو ایمان اور عمل صالح پر ابھارنا ہے کہ دیکھو تم کن لوگوں کی اولاد ہو، تمھارے لیے اپنے صالح آبا و اجداد کے نقش قدم پر چل کر ایک اللہ کی عبادت کا پابند رہنا، اپنے باپ نوح علیہ السلام کی طرح ہر وقت اسی کا شکر گزار رہنا اور اس کے سوا کسی کو اپنا وکیل، کارساز اور بھروسے کے قابل نہ سمجھنا لازم ہے۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

تیر چلاؤ، تمہارا باپ ماہر تیر انداز تھا

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تیر اندازی کی ترغیب دینے کے لیے ان کے باپ اسماعیل علیہ السلام کا حوالہ دیا
چنانچہ آپ نے فرمایا :
ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا
بخاري
اے اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو !
تیر چلاؤ، تمہارا باپ بھی بڑا ماہر تیر انداز تھا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ

اتنی جلدی تباہ ہو گئے ہو ابھی تک تو نبی کے کپڑے بوسیدہ ہوئے اور نہ ہی برتن ٹوٹے ہیں

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے مسجد میں حلقے بنا کر گٹھلیوں پر تکبیر، تہلیل اور تسبیح کرنے والے لوگوں کو دیکھا تو تو فورا بھانپ گئے کہ یہ سنت نہیں ہو سکتی بلکہ ضرور یہ کوئی نئی اختراع ہے
جلدی سے اس سارے معاملے کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو آگاہ کیا تو انہوں نے فوراً مسجد آ کر بڑے سخت لہجے میں کہا :
يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ
سنن دارمي
اے امت محمد ❗تم اتنی جلدی ہلاک ہو گئے ہو، ابھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کثیر تعداد میں موجود ہیں، ابھی تک تو آپ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے، اور نہ ہی آپ کے برتن ٹوٹے ہیں
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دین سے زیادہ اچھا دین لانا چاہتے ہو یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو

یوسف علیہ السلام کو جب برائی کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اپنا ماضی یاد کیا

جب ایک عورت نے آپ کو گناہ پر آمادہ کرنا چاہا
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ
اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔

تو یوسف علیہ السلام نے زمانہ ماضی میں اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے گناہ کا کام کرنے سے صاف انکار کر دیا
قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔
يوسف : 23

خواہ لمبی مدت گزر جائے مگر پھر بھی اپنا ماضی نہ بھولیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں ان سے پہلے کتاب دی گئی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
الحديد : 16

مدینے کے آزاد مسلمانوں کو مکہ میں گزرے ہوئے غلامی کے دن یاد کروائے تاکہ شکر گزاری پیدا ہو

ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ
اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک کرلے جائیں گے تو اس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمہیں قوت بخشی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
– الأنفال – آیت 26

اسلام جیسی نعمت کا احساس پیدا کرنے کے لیے زمانہ جاہلیت کے دن یاد کروائے گئے

جیسا کہ فرمایا :
وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
اور اس کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمھیں ہدایت دی ہے اور بلاشبہ اس سے پہلے تم یقینا گمراہوں سے تھے۔
البقرة : 198

ایسے ہی سورہ نساء میں فرمایا :
كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا۔ پس خوب تحقیق کر لو ، بے شک اللہ ہمیشہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا با خبر ہے۔
النساء : 94

اور سورہ آل عمران میں فرمایا :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو جائو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
آل عمران : 103

جابر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے استقامت اختیار کی اور دین اسلام کا مقدمہ خوب لڑا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں بیان کیا، جب اس بادشاہ نے کفار قریش کے وفد کی شکایت پر انھیں ساتھیوں سمیت بلا کر حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے فرمایا :
[ أَيُّهَا الْمَلِكُ ! كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِي الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الأَرْحَامَ، وَنُسِيْءُ الْجِوَارَ، يَأْكُلُ الْقَوِيُّ مِنَّا الضَّعِيْفَ، فَكُنَّا عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْنَا رَسُوْلاً مِّنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ، وَصِدْقَهُ ، وَأَمَانَتَهُ ، وَعَفَافَهُ، فَدَعَانَا إِلَی اللّٰهِ لِنُوَحِّدَهُ، وَنَعْبُدَهُ، وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُوْنِهِ مِنَ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ ]
[مسند أحمد : 1740، قال المحقق إسنادہ حسن ]
’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت والے لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے قوت والا کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب، صدق، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تھے۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور تھانوں سے یکسر علیحدگی اختیار کریں جن کی عبادت اللہ کو چھوڑ کر ہمارے آباواجداد کرتے تھے (اس کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کے احکام بیان فرمائے)۔‘‘

کیا تم محتاج نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے غنی کیا

غزوئہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں ( جوفتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا ۔
اس کا ان میں سے بعض لوگوں کو کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا ۔ آ پ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا :
يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمْ اللَّهُ بِي وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي
اے انصاریو ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھاپھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا ۔

آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ
بخاری : 4330
کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جارہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے جاؤ ؟

شہداء کو یاد کر کے رونے لگے اور روتے روتے کھانا چھوڑ دیا

حضرت عبدالرحمن بن عوف روزہ سے تھے۔ وقت افطار کھانا لایا گیا تو کہا: حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کر دیا گیا، حالاں کہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔انھیں ایک چادر کا کفن پہنایا گیا،سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانک دیے جاتے تو سر باہر نکل آتا۔ سیدنا حمزہ کو جام شہادت پلایا گیا، وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔
أُعْطِينَا مِنْ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ
بخاری : 1275
اب ہمیں دنیا میں خوب کشادگی دے دی گئی ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری نیکیاں جلد چکا دی گئی ہیں۔ پھر وہ رونے لگے اور روتے روتے کھانا چھوڑ دیا

صحیح بخاری حدیث نمبر 3464
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3464،

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ فَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا فَقَالَ أَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ هُوَ شَكَّ فِي ذَلِكَ إِنَّ الْأَبْرَصَ وَالْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ قَالَ فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا وَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ يَرُدُّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَنَمٍ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ تَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ لَهُ إِنَّ الْحُقُوقَ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ فَقَالَ لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِي وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي فَخُذْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ

آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے،ایک کوڑھی،دوسرا اندھا اورتیسرا گنجا،اللہ تعالی نے چاہا کہ ان کاامتحان لے۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان کےپاس ایک فرشتہ بھیجا۔فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھارنگ اوراچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔