اپنے نیک اعمال سنبھالئے

❄ اعمال کئے نہ کئے برابر ❄ اعمال متقین کے قبول ہوتے ہیں
❄ اعمال کی قبولیت کے لئے دعا کرنا ❄ اعمال میں دوام
❄کچھ کاموں کی وجہ سے نیک اعمال کی بربادی
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [المائدہ: 27]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالی نے ہر انسان کو بڑی بڑی نعمتوں اور قیمتی چیزوں سے نوازا ہے لیکن ایک مسلمان اور مومن کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ اس کے نیک اعمال ہوا کرتے ہیں جو اس نے دن رات محنت اور مشقت کر کے کمائے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے! نیک اعمال کرنا اور نیکی کرنا بڑا آسان ہے لیکن نیکی کو سنبھالنا اور قبولیت کے درجے تک لے کے جانا بہت زیادہ مشکل ہے۔ نیکی کی بہت زیادہ اہمیت ہے کل قیامت والے دن نیکیوں کی بنیاد پر ہی ہم جنت میں جائیں گے اگر وہاں ایک نیکی بھی ہمارے نامہ اعمال میں کم ہو گئی تو میدان محشر میں کوئی شخص بھی ہمیں ایک نیکی دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا اس لیے ہمیں اپنے نیک اعمال کی فکر کرنا چاہیے۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم نیک اعمال کے حوالے سے چند ضروری باتیں سمجھیں گے کیونکہ یہ بہت زیادہ فکر مندی کی بات ہے کہ انسان وقت پر نماز پڑھے ، وہ وقت پر جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آئے اور وہ دین اسلام کے باقی سارے کام بڑھ چڑھ کر کرے لیکن جب وہ اللہ کے دربار میں پہنچے تو اس کے سارے کے سارے نیک اعمال برباد ہوئے ہوں۔
1۔ اعمال کئے نہ کئے برابر
ہمارے کچھ نیک اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کیے یا نہ کیے برابر ہوتے ہیں وہ اللہ کے دربار میں قبول ہی نہیں ہوتے اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں:
۱۔توجہ اور خشوع و خضوع کا نہ ہونا:
اس بندے کی عبادت قبول نہیں ہوتی اور اس کا نیک عمل کیا یا نہ کیا برابر ہوتا ہے جس بندے کی عبادت کرتے ہوئے توجہ نہ ہو اور خشوع و خضوع نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اس کے بعد ایک اور شخص آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا ؛
ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ” واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔”
وہ شخص واپس گیا اور پہلے کی طرح نماز پڑھی اور پھر آ کر سلام کیا۔ لیکن آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا ؛
ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ” واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔”
آپ نے اس طرح تین مرتبہ کیا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس کے علاوہ اور کوئی اچھا طریقہ نہیں جانتا، اس لیے آپ مجھے نماز سکھا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا ؛
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا
” جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے تکبیر تحریمہ کہہ۔ پھر آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تجھ کو یاد ہو اس کی تلاوت کر۔ اس کے بعد رکوع کر، اچھی طرح سے رکوع ہو لے تو پھر سر اٹھا کر پوری طرح کھڑا ہو جا۔ اس کے بعد سجدہ کر پورے اطمینان کے ساتھ۔ پھر سر اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔ اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کر۔” [بخاری: 757]
عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي فَطَفَّفَ فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ مُنْذُ كَمْ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ قَالَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ مَا صَلَّيْتَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ لَمِتَّ عَلَى غَيْرِ فِطْرَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُخَفِّفُ وَيُتِمُّ وَيُحْسِنُ [بخاری: 1313]
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے ایک آدمی کو ناقص نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت حذیفہ نے اس سے پوچھا: تو کتنے عرصے سے ایسی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: چالیس سال سے۔ آپ نے فرمایا: یقین کر چالیس سال سے تو نے نماز پڑھی ہی نہیں اور اگر تو اسی قسم کی نماز پڑھتا پڑھتا مر جاتا تو حضرت محمد ﷺ کے دین پر فوت نہ ہوتا۔ پھر آپ کہنے لگے: بلاشبہ انسان ہلکی نماز پڑھنے کے باوجود مکمل اور اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے: لایتم الركوع والسجود ’’وہ رکوع و سجود مکمل نہیں کر رہا تھا‘‘ [بخاری: 791]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی، اور (اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا’۔ [ترمذی: 3479 حسنہ الالبانی]
۲۔ سنت کی اتباع نہ کرنا:
دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سنت کے مطابق عمل نہیں کرتا ، کیونکہ کوئی بھی جتنا مرضی بڑا ہو اگر وہ سنت کے مطابق نہیں ہے تو مردود اور نامقبول ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے؛
مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ] بخاری:2697 [
’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے۔‘‘
ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا؛
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ] مسلم:4493[
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا؛
وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ
کہ "ہمارا آنحضرت ﷺ سے کیامقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔” ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا؛
أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي [بخاری: 5063]
"کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔”
ایک شخص منع وقت میں نفل پڑھنے لگا تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اسے روکا۔ وہ کہنے لگا: بھلا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر بھی سزا دے گا؟ فرمایا: اللہ تجھے نماز پڑھنے پر نہیں بلکہ سنت کی مخالفت کرنے پر سزا دے گا۔۔! [مصنف عبدالرزاق: 333/3]
2۔ اعمال متقین کے قبول ہوتے ہیں
نیک اعمال اس آدمی کے قبول ہوتے ہیں جو متقی ہو اللہ تعالی نے قران مجید میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [المائدہ: 27]
ترجمہ: اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔
اور جو بندہ متقی نہ ہو یعنی تنہائی میں اللہ سے نہ ڈرتا ہو ،اس کی جلوت اور خلوت ایک نہ ہو تو اس کے نیک اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔
عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا قَالَ ثَوْبَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنْ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا [ابن ماجہ: 4245 صححہ الالبانی]
ترجمہ: حضرت ثو با ن ؓ سے روا یت ہے ۔ نبی ﷺ نے فر یا ۔ میں اپنی امت کے ان افراد کو ضرور پہچا ن لو ں گا ۔جو قیا مت کے دن تہامہ کے پہا ڑوں جیسی سفید (روشن ) نیکیا ں لے کر حا ضر ہو ں گے تو اللہ عز وجل ان (نیکیوں کو ) بکھرے ہو ئے غبا ر میں تبد یل کر دے گا۔ حضرتے ثوبا ن نے عر ض کیا اللہ کے رسول ان کی صفا ت بیان فر دیجیے ۔ان(کی خرابیوں) کو ہمارے لئے واضح کر دیجیے۔ کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان میں شا مل ہو جا ئیں ۔اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے آ پ نے فر یا ۔ وہ تمھا رے بھا ئی ہیں اور تمھا ری جنس سے ہیں اور را ت کی عبا دت کا حصہ حا صل کر تے ہیں جس طرح تم کر تے ہو ۔ لیکن وہ ایسے لو گ ہیں کہ انھیں جب تنہا ئی میں اللہ کے حرا م کر دہ گناہوں کا مو قع ملتا ہے ۔ تو ان کا ارتکا ب کر لیتے ہیں ۔
3۔ اعمال کی قبولیت کے لئے دعا کرنا
کوئی بھی نیک عمل کرنے کے بعد غافل نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ اس نیک عمل کی قبولیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ تعمیر کیا ہے خانہ کعبہ تعمیر کرنے کے بعد وہ دونوں دعا کرتے ہیں؛
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [البقرہ: 127]
ترجمہ: اور جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے صبح کے اذکار میں ایک دعا سکھلائی ہے اس دعا میں بھی عمل کی قبولیت کا سوال کیا ہے؛
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا [ابن ماجہ: 925 صححہ الالبانی] ’’اے اللہ! میں تجھ سے فائدہ دینے والے علم ، پاک رزق اور قبول ہونے والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔ ‘‘
اس لیے امام مالک بن دینار رحمہ اللّٰہ کا قول ہے:
الْخَوْفُ عَلَى الْعَمَلِ أَنَّ لَا يَتَقَبَّلَ أَشَدُّ مِنْ الْعَمَلِ
نیک عمل کے قبول نہ ہونے کا خوف عمل کرنے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔“
سیدنا فضالہ بن عبید رحمہ اللّٰہ عمل کی قبولیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
لأَنْ أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ تَقَبَّلَ مِنِّى مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فيها
"کاش! میں اس بات کو جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے رائی کے برابر عمل قبول کر لیا ہے تو یہ بات مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔” [الاخلاص والنية لابن الدنيا: 49/1]
4۔ اعمال میں دوام
اللہ کے پسندیدہ اور محبوب اعمال وہ ہیں جن کو ہمیشگی ، دوام اور تسلسل کے ساتھ کیا جائے۔
عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الجَنَّةَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ»
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا درمیانی چال اختیار کرو اور بلندپروازی نہ کرو اور عمل کرتے رہو، تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں داخل کرسکے گا ، میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے ۔ خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔[بخاری: 6464] اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرائض میں کمی کر کے ان کو دوام اور تسلسل کے ساتھ ادا کیا جائے۔ فرض تو فرض ہیں ان کو ادا کرنا ضروری ہے ، ان کے علاوہ تہجد اور اشراق وغیرہ ہیں ، ایک مومن اور مسلمان چاہے دو رکعت ہی ادا کرے لیکن تسلسل کے ساتھ ادا کرے
5۔ کچھ کاموں کی وجہ سے نیک اعمال کی بربادی
ہمارے کچھ کاموں کی وجہ سے ہمارے نیک اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں وہ چند کام یہ ہیں:
شرک:
اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا ، حاجت روائی اور مشکل کشائی کے اختیارات کسی اور کو دینا شرک کہلاتا ہے اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے نیک اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ [الانعام: 88]
"اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو یقیناً ان سے ضائع ہوجاتا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔”
دوسرے مقام پر نبیﷺ سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ؛
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ [الزمر: 65]
”اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے“۔ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے مشرکین ِ مکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا ؛
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ بِالْکُفْرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ وَ فِی النَّارِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ [التوبہ: 17]
’’ مشرکوں کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کفر کی خود گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ان کے اعمال غارت ہوچکے۔اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
مشرکین مکہ طوافِ بیت اللہ، حج اور عمرہ جیسے بڑے بڑے اعمال کرتے تھے، اس کے علاوہ حجاج کو پانی بھی پلاتے تھے، لیکن وہ اِس کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتے تھے اور کافر بھی تھے۔تو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں واضح کردیا کہ ان کے اعمال ان کے شرک اور کفر کی وجہ سے برباد ہوچکے۔
ریاکاری:
اعمال میں اخلاص لازم ہے۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَة وَیُؤتُوْا الزَّكَاة وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمة ] البینہ: 5 [
’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘ ’اخلاص‘کا معنی ہے:پاک صاف کرنا۔یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا۔عبادت میں کسی کو شریک کرنے یا دکھلاوے کی نیت کرنے سے عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛
أَنَا أَغْنَی الشُّرَكَائِ عَنِ الشِّرْکِ ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْهِ مَعِیَ غَیْری تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ
’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔اور جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ ] مسلم:2985[
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ مَالَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْءَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْءَ لَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ [نسائی: 3140 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا: آپﷺفرمائیں‘ ایک شخص جنگ کو جاتا ہے۔ ثواب اور شہرت دونوں کا طلب گار ہے۔ اسے کیا ملے گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ اس شخص نے سوال تین دفعہ دہرایا۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور صرف اس کی رضا مندی مقصود ہو۔
❄سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ (جمگھٹے کے بعد) لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چھٹ گئے تو اہل شام میں سے ناتل (بن قیس جزامی رئیس اہل شام) نے ان سے کہا: شیخ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔” [مسلم: 4923]

تین لوگ:
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ( ﷺ )نے فرمایا؛
ثَلَاثَةٌ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ آذَانَهُمْ الْعَبْدُ الْآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ [ترمذی: 360 حسنہ الالبانی]
‘تین لوگوں کی نمازان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی: ایک بھگوڑے غلام کی جب تک کہ وہ(اپنے مالک کے پاس) لوٹ نہ آئے، دوسرے عورت کی جورات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرے اس امام کی جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں’۔
شوقیہ کتّا رکھنا:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛
مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا، لَيْسَ بِكَلْبِ مَاشِيَةٍ، أَوْ ضَارِيَةٍ، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطَانِ
جس نے ایسا کتا پالا جو نہ مویشی کی حفاظت کے لیے ہے اور نہ شکار کرنے کے لیے تو روزانہ اس کی نیکیوں میں سے دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے ۔ [بخاری: 5480]
شراب پینا:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بن عَمْرِو مرفوعاً: الْخَمْرُ أُمُّ الْخَبَائِثِ، وَمَنْ شَرِبَهَا لَمْ يَقْبَلِ اللهُ مِنْهُ صَلاتَهُ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، فَإِنْ مَاتَ وَهِيَ فِي بَطْنِهِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً [سلسلہ صحیحہ: 1636] ترجمہ: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ: شراب خبائث كی جڑ (ام الخبائث)ہے۔ جس شخص نے شراب پی اللہ تعالیٰ چالیس دن تك اس كی نماز قبول نہیں كرے گا، اگر وہ مرگیا اور شراب اس كے پیٹ میں ہوئی تو وہ جاہلیت كی موت مرے گا.
کاہن/نجومی کے پاس جانا:
عَنْ صَفِيَّةَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً» [مسلم: 5821]
ترجمہ: سیدہ صفیہ نے نبی ﷺ کی ایک اہلیہ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی، کہ آپ نے فرما یا: "جو شخص کسی غیب کی خبر یں سنا نے والے کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس راتوں تک اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
قطع تعلقی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا [مسلم: 6544]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا، اس بندے کےسوا جس کی اپنے بھائی کے ساتھ عداوت ہو، چنانچہ کہا جاتا ہے:ان دونون کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔”
❄❄❄❄❄