عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل واعمال
اہم عناصر خطبہ:
01.عشرۂ ذوالحجہ کی اہمیت
02.عشرۂ ذو الحجہ کے فضائل
03.عشرۂ ذو الحجہ میں مستحب اعمال
04.قربانی کی اہمیت
برادرانِ اسلام!
اللہ تعالیٰ نے چونکہ ہر انسان کو اپنی عبادت کیليے ہی پیدا کیا ہے اس ليے اسے چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اس کی منشا کے مطابق گذارے اور اس کی عبادت کے ذریعے اس کے تقرب کیليے کوشاں رہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے بعض حسین مواقع ایسے بھی عطا کئے ہیں کہ جن میں انسانوں کو اس کی عبادت کیليے کمر بستہ ہو جانا چاہئے اور مختلف ومتنوع اعمال صالحہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ان مبارک مواقع میں سے ایک موقعہ عشرۂ ذو الحجہ کا ہے۔ یہ وہ ایام ہیں جن کے افضل الایام ہونے کی شہادت رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان میں نیک عمل کی بڑی تاکید فرمائی ہے بلکہ ﷲ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں ایک مقام پر ان ایام کی قسم بھی کھائی ہے۔ فرمایا:
﴿وَٱلْفَجْرِ ﴿١﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ﴿٢﴾ (الفجر89: 2-1)
’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘
جمہور مفسرین کے نزدیک دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی رائے کو صحیح کہا ہے۔
اور ﷲ تعالیٰ کا ان ایام کی قسم کھانا ہی انکی عظمت اور فضیلت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ عظیم باری تعالیٰ کسی عظمت والی شئے کی قسم ہی کھاتا ہے۔
لہٰذا ﷲ کے بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان ایام میں اعمال صالحہ کے ليے خوب محنت کریں اور ان کی آمد کو اپنے ليے باعث ِ شرف اور نیکی سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَٱلَّذِينَ جَٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَمَعَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٦٩﴾ (العنکبوت29 : 69)
’’اور جو لوگ ہمارے دین کی خاطر کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستے دکھا دیں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
ﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرنے اور ان سے خوب مستفید ہونے کی توفیق دے۔
عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل
(1) دنیا کے تمام ایام میں یہ ایام افضل ہیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَفْضَلُ أَیَّامِ الدُّنْیَا أَیّامُ الْعَشْرِ یَعْنِیْ عَشْرَ ذِیْ الْحِجَّةِ، قِیْلَ: وَلَا مِثْلُھُنَّ فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ؟ قَالَ وَلَا مِثْلُھُنَّ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلَّا رَجُلٌ عَفَّرَ وَجْھَهُ فِی التُّرَابِ) (رواہ البزار وابن حبان وصححہ الألباني في صحیح الترغیب والترہیب:1150)
’’دنیا کے سارے ایام کے مقابلے میں دس ایام (یعنی عشرۂ ذوالحجہ) سب سے زیادہ افضل ہیں۔ آپ سے استفسار کیا گیا کہ اگر اتنے ہی دن جہاد فی سبیل اﷲ میں گذارے جائیں تو وہ بھی ان کے برابر نہیں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل ﷲ میں گذارے ہوئے دن بھی ان جیسے نہیں سوائے اس شخص کے کہ جو شہید ہو جائے۔‘‘
اور حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَا مِنْ أَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھَا أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھَذِہِ الأیَّامِ یَعْنِیْ أَیَّامَ الْعَشْرِ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، ثُمَّ لَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَیْئٍ) (رواہ أحمد۔ واللفظ لہ۔ والبخاري بمعناہ :969)
’’عمل ِصالح کے ليے یہ ایام (یعنی ماہِ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن) ﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول ﷲ! کیا ﷲ کے راستے میں جہاد کرنا بھی (اتنا محبوب) نہیں؟ آپ نے فرمایا: ﷲ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا محبوب نہیں‘ سوائے اس کے کہ انسان اپنی جان ومال کے ساتھ نکلے اور پھر کسی بھی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔‘‘
یعنی مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ کر ڈالے اور خود بھی شہید ہو جائے، تو یقینا اِس کا عمل زیادہ محبوب ہوگا ورنہ اِس کو چھوڑ کر باقی تمام اعمال اللہ تعالیٰ کو اِن ایام میں زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔
ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یوں ہے:
(مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْکیٰ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ خَیْرٍ یَعْمَلُهُ فِی عَشْرِ الْأضْحیٰ)
’’ وہ خیر کا عمل جو قربانی کے عشرہ میں کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس سے زیادہ پاکیزہ اور اُس سے زیادہ اجر والا عمل کوئی نہیں۔‘‘
پوچھا گیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، سوائے اُس شخص کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلے، پھر مال بھی قربان کر دے اور اپنی جان بھی۔‘‘
راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ اِس حدیث کی بناء پر سعید بن جبیر رحمہ اللہ جب عشرۂ ذو الحجہ شروع ہوتا تو عبادات میں اتنی محنت کرتے کہ اُن جیسی عبادت کرنا دوسروں کیليے مشکل ہو جاتا۔ (صحیح الترغیب والترہیب للألباني:1148)
لہذا ہمیں بھی سلف صالحین رحمہ اللہ کے اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اِس عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ کیونکہ کسی عمل خیر پر اُس کے کرنے والے کو جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ اِس عشرہ میں عطا کرتا ہے وہ اِس حدیث کے مطابق کسی اورعشرہ میں عطا نہیں کرتا۔
(2) انہی ایام میں یومِ عرفہ بھی ہے
جی ہاں، یومِ عرفہ جو حج کا اصل دن ہے اور اسی میں حج کا سب سے بڑا رکن (وقوفِ عرفہ) ادا کیا جاتا ہے وہ بھی انہی دنوں میں آتا ہے۔ وہ عظیم دن کہ جس میں اللہ تعالیٰ اہلِ عرفات کیليے عام مغفرت کا اعلان کرتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے۔ اِس بناء پر اگر ایامِ عشرۂ ذوالحجہ میں سے کسی دن کو کوئی فضیلت نہ ہوتی تو صرف یومِ عرفہ ہی ان سارے ایام کی فضیلت کے ليے کافی ہوتا۔
(3) انہی ایام میں یومِ نحر بھی ہے
بعض علماء کے نزدیک یومِ نحر (قربانی کا دن) سال کے تمام دنوں سے افضل ہے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(أَعْظَمُ الأَیَّامِ عِنْدَا یَوْمُ النَّحْرِ وَ یَوْمُ القَرِّ) (سنن أبي داؤد والنسائي۔وصححہ الألباني)
’’ﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ باوقار اور عظمت والا دن یومِ نحر (یعنی دس ذو الحجہ کا دن) ہے۔ پھر اس کے بعد (منیٰ میں) ٹھہرنے کا دن (یعنی گیارہ ذو الحجہ) ہے۔‘‘
(4) ان ایام میں متعدد اہم ترین عبادتیں جمع ہوتی ہیں
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ (وَالَّذِی یَظْهَرُ أَنَّ السَّبَبَ فِی امْتِیَازِ عَشْرِ ذِی الْحِجَّةِ لِمَکَانِ اجْتِمَاعِ أُمَّهَاتِ الْعِبَادَۃِ فِیْهِ وَهِیَ الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجُّ، وَلَا یَتَأَتّٰی ذَلِكَ فِی غَیْرِہ) (فتح الباري:460/2)
’’عشرۂ ذوالحجہ کی امتیازی فضیلت کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری اہم ترین عبادتیں اس عشرہ میں جمع ہو جاتی ہیں اور وہ ہیں: نماز، روزہ، صدقہ اور حج۔ اِس کے علاوہ دیگر مناسبتوں میں یہ ساری عبادتیں اس طرح جمع نہیں ہوتی ہیں۔‘‘
*عشرۂ ذوالحجہ کے مستحب اعمال
عزیزان گرامی! جب آپ یہ سمجھ گئے کہ عام ایام کی بہ نسبت عشرۂ ذوالحجہ میں عمل صالح کی بڑی فضیلت ہے تو ﷲ تعالیٰ نے جو سنہری موقع عطا کیا ہے اس کو غنیمت جانیں اور عشرۂ ذوالحجہ کا خصوصی اہتمام کریں۔ یہ حسین فرصتیں اور سازگار مواقع بار بار نہیں آیا کرتے۔ اس ليے ان ایام میں عبادت کی خوب کوشش کیجئے جیسا کہ ہمارے اسلاف ان مواقع کو بالکل نہ گنواتے اور اعمال صالحہ میں اپنی بے انتہا دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اسلاف ِکرام تین عشروں کی بڑی قدر کیا کرتے تھے‘ رمضان کا آخری عشرہ اور ذوالحجہ اور محرم کا پہلا عشرہ۔‘‘
ان ایام میں جو جو اعمال مستحب ہیں اور جن کا تمام مسلمانوں کو خصوصی اہتمام کرنا چاہئے وہ یہ ہیں:
(1) مناسکِ حج اور عمرہ کی ادائیگی:
عشرۂ ذوالحجہ میں کئے جانے والے اعمال میں سب سے افضل عمل حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ﷲ تعالیٰ جس شخص کو اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے مطابق حجِ بیت ﷲ اور ادائے عمرہ کی توفیق دیتا ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنت ہی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(الْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إلَّا الْجَنّةُ) (متفق علیہ)
’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ اپنے درمیان کے (گناہوں) کے ليے کفارہ ہے۔ اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔‘‘
حج مبرور وہ حج ہے جو طریقۂ نبوی کے مطابق کیا جائے اور جو تمام قسم کے گناہوں مثلا ریا، جماع اور فسق وفجور والی باتوں سے بالکل پاک ہو اور سراپا نیک اعمال وکردار سے معمور ہو۔
(2) روزہ رکھنا:
روزہ بھی عملِ صالح کی جنس سے ہے بلکہ ﷲ کے نزدیک سب سے افضل اور محبوب اعمال میں سے ایک عمل ہے۔
حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَا ِمنْ عَبْدٍ یَصُوْمُ یَوْمًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إلَّا بَاعَدَ اللّٰہُ بِذٰلِكَ الْیَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا) (صحیح البخاري:2840،صحیح مسلم:1153)
’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے۔‘‘
یہ روزہ کی عمومی فضیلت ہے اور جہاں تک عشرۂ ذو الحجہ میں روزے رکھنے کا تعلق ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سے کسی سے مروی ہے کہ
(کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَصُوْمُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّةِ، وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ) (سنن أبي داؤد:الصیام باب فی صوم العشر:2437 وصححہ الألباني)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھتے تھے، اسی طرح یوم ِعاشوراء کا اور ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔‘‘
اِس بناء پر عشرۂ ذو الحجہ یعنی اِس ماہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ہے کہ
(مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم صَائِمًا فِی الْعَشْرِ قَطُّ) (صحیح مسلم:1176)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرۂ ذو الحجہ میں کبھی روزے کی حالت میں نہیں دیکھا۔‘‘
تو اِس کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں: ’’اِس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ عشرۂ ذوالحجہ یعنی ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا مکروہ ہے! جبکہ علماء اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ ان نو ایام کا روزہ رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے بلکہ یہ تو نہایت درجہ مستحب ہے خاص طور پر نو ذو الحجہ کا روزہ جس کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہیں۔ اِس کے علاوہ صحیح بخاری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ ’’ان ایام میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کو باقی تمام ایام کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہوتا ہے۔‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا، اِس کا یہ معنی ہے کہ کسی بیماری کے عارضہ یا سفر وغیرہ کی بناء پر روزہ نہیں رکھا۔ اور ان کا یہ کہنا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ایام میں روزہ کی حالت میں نہیں دیکھا تو ان کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ پھر امام نووی رحمہ اللہ نے ابو داؤد کی وہی حدیث بطور دلیل ذکر کی ہے جس کا تذکرہ ہم ابھی کر چکے ہیں۔‘‘ (شرح النووي لصحیح مسلم:58/4)
جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس قول کے بارے میں کہنا ہے کہ شاید یہ اِس ليے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کسی عمل کو پسند تو کرتے تھے لیکن اُس کی فرضیت کے خوف کی وجہ سے اسے ترک کر دیتے تھے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے بھی فرضیت کے اندیشہ کی بناء پر چھوڑ دیا ہو۔ (فتح الباري:460/2)
بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی جو بھی تاویل ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمومی ارشاد ہے کہ اِن ایام میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے تو اُس میں روزہ بھی آتا ہے اور روزہ کے فضائل متعدد احادیث سے ثابت ہیں۔
واضح رہے کہ ایامِ عشرۂ ذوالحجہ میں سے یومِ عرفہ کے روزے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(صَوْمُ یَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَةَ الّتِیْ قَبْلَهُ وَالّتِیْ بَعْدَہُ) (صحیح مسلم:1162)
’’یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے ﷲ سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہوں کے ليے کفارہ بن جائے گا۔‘‘
لہٰذا نو ذو الحجہ (یعنی یومِ عرفہ) کا روزہ رکھنا سنت ہے۔
(3) نماز پڑھنا:
نماز سب سے زیادہ عظمت اور فضیلت والا عمل ہے‘ اس ليے اسے پورا سال وقت کی پابندی اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ خصوصا ان ایام میں فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل پڑھنا اور انکا اہتمام بھی کرنا چاہئے کیونکہ نوافل ﷲ سے قریب کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ: مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُهُ عَلَیْهِ، وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِهِ، وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّهُ) (صحیح البخاري:6502)
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے (یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے۔ (یعنی اس کے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘
(4) ﷲ کا ذکر کرنا:
اِن مبارک ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہئے۔
حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَا مِنْ أیَّامٍ أعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أحَبُّ إلَیْهِ الْعَمَلُ فِیْھِنَّ مِنْ ھَذِہِ الأیَّامِ الْْعَشْرِ، فَأکْثِرُوْا فِیْھِنَّ مِنَ التَّھْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ) (رواہ أحمد:323/9و296/10وقال الأرناؤط : صحیح)
’’ﷲ کے نزدیک نہایت عظمت والے اور محبوب دن ایامِ عشرۂ ذی الحجہ کے مقابلے میں کوئی دن نہیں ہیں‘ اس ليے ان ایام میں لا إلهَ إلَّا ﷲ‘ ﷲ أکبر اور الحمد ﷲ جیسے اذکار کثرت سے کیا کرو۔‘‘
اور ذکر اللہ کا اِس سے بڑا فائدہ کیا ہوگا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِیْ، فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِیْ نَفْسِیْ، وَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَأٍ ذَکَرْتُهُ فِیْ مَلَأٍ خَیْرٍ مِّنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُهُ هَرْوَلَةً) (صحیح البخاري،التوحید،باب قول اﷲ{وَیُحَذِّرُکُمُ اﷲُ نَفْسَہُ}:7405،صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبة،باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰٰ:2675)
’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں۔ اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی جماعت میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا (دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے) اس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث تو عام ذکر کے بارے میں ہے اور جہاں تک اِن کلمات کا تعلق ہے جن کے بار بار پڑھنے کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا توان کے بڑے فوائد ہیں۔
حضرت ابومالک الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(اَلطَّهُوْرُ شَطْرُ الْإِیْمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَآنِ (أَوْ تَمْلَأ) مَا بَیْنَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضِ …) (صحیح مسلم:223)
’’پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔ ’’الحمد ﷲ‘‘ ترازو کو (اجرو ثواب سے) بھر دے گا۔ اور ’’سبحان ﷲ‘‘ اور ’’الحمد ﷲ‘‘ یہ دونوں کلمات زمین وآسمان کے درمیانے خلاء کو (اجر وثواب سے) بھر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس کے علاوہ ان کلمات مبارکہ کے مزید فوائد یہ ہیں:
01.یہ تسبیحات اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب کلام ہیں
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَحَبُّ الْکَلاَمِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ أَرْبَعٌ، لَا یَضُرُّكَ بِأَیِّهِنَّ بَدَأْتَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ) (صحیح مسلم:2137)
’’چار کلمات اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب ہیں۔ آپ پر کوئی حرج نہیں کہ ان میں سے جس سے چاہیں ابتداء کریں اور وہ ہیں: (سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ)‘‘
02.یہ تسبیحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَأَنْ أَقُوْلَ سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ) (صحیح مسلم:2695)
’’اگر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ کہوں تو یہ مجھے ہر اس چیز سے محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوا۔‘‘(یعنی دنیا کی ہر چیزسے)
03.جنت میں شجر کاری
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَقِیْتُ إِبْرَاهِیْمَ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِی، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَقْرِیْٔ أُمَّتَكَ مِنِّی السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَیِّبَةُ التُّرْبَةِ، عَذْبَةُ الْمَاءِ، وَأَنَّهَا قِیْعَانٌ، غِرَاسُهَا: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ) (سنن الترمذي:3462۔وصححہ الألباني)
’’اسراء ومعراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے کہا: اے محمد! اپنی امت کو میری طرف سے سلام پہنچا دینا اور انہیں آگاہ کرنا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی ہے، اس کا پانی انتہائی میٹھا اور اس کی زمین بالکل ہموار اور زرخیز ہے اور (سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ) کے ساتھ اس میں شجر کاری کی جا سکتی ہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ شجر کاری کر رہے تھے کہ ان کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! کیا میں تمھیں اس سے بہتر شجر کاری نہ بتاؤں؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم (سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ) کہا کرو، ہر ایک کے بدلے میں تمھارے ليے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا۔ (سنن ابن ماجہ:3807 وصححہ الألباني)
04.حضرت عبد اللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَا عَلَی الْأرْضِ رَجُلٌ یَقُوْلُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، إِلَّا کَفَّرَتْ عَنْهُ ذُنُوبَهُ وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْر) (سنن الترمذي:3460 وحسنہ الألباني)
’’خطۂ زمین پر جو شخص بھی یہ کلمات کہے: لا إلهَ إلا اللہ واللہ أکبر، وسبحان اللہ والحمد للہ، ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ تو اس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔‘‘
05.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس سے گذرے جس کے پتے خشک ہو چکے تھے، آپ نے اپنا عصا اس کو مارا تو اس کے خشک پتے جھڑ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوبِ الْعَبْدِ کَمَا تَسَاقَطَ وَرَقُ هذِہِ الشَّجَرَۃِ) (سنن الترمذي:3533وحسنہ الألباني)
’’بے شک یہ کلمات (الحمد ﷲ وسبحان ﷲ، ولا إله إلا ﷲ وﷲ أکبر) بندے کے گناہوں کو ایسے جھاڑتے ہیں جیسا کہ اس درخت کے پتے جھڑ گئے ہیں۔‘‘
06.اللہ تعالیٰ نے ان تسبیحات کو اپنے بندوں کیليے چن لیا ہے اور ان پر بہت بڑا اجر وثواب مرتب کیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و ابو سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی مِنَ الْکَلاَمِ أَرْبَعًا: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، فَمَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ کُتِبَ لَهُ عِشْرُونَ حَسَنَةً، وَحُطَّتْ عَنْهُ عِشْرُونَ سَیِّئَةً، وَمَنْ قَالَ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ فَمِثْلُ ذَلِكَ، وَمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ فَمِثْلُ ذَلِكَ، وَمَنْ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ کُتِبَتْ لَهُ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً وَحُطَّ عَنْهُ ثَلَاثُونَ خَطِیْئَةً) (مسند أحمد و مستدرک حاکم۔ وصححہ الألباني فی صحیح الجامع:1718)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کلام میں سے چار (کلمات کو) چن لیا ہے: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لہٰذا جو شخص سبحان ﷲ کہے اس کیليے بیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے بیس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور جو شخص ﷲ أکبر کہے اس کیليے بھی اسی طرح اور جو شخص لا إله إلا ﷲ کہے اس کیليے بھی اسی طرح اور جو شخص اپنی طرف سے الحمد ﷲ رب العالمین کہے تو اس کیليے تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے تیس گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اپنی طرف سے الحمد ﷲ رب العالمین کہنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ کسی سبب کے بغیر الحمد ﷲ رب العالمین کہے تو اس پر اسے زیادہ اجر وثواب ملے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے مثلا کھانے پینے یا سونے سے بیدار ہونے کے بعد۔
07.یہ تسبیحات ڈھال ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (خُذُوْا جُنَّتَکُمْ) ’’اپنی ڈھال لے لو۔‘‘
ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن سے بچاؤ کیليے ڈھال جو ہمارے سروں پر آ پہنچا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، جہنم سے بچاؤ کیليے ڈھال۔‘‘ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(قُوْلُوْا: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، فَإِنَّهُنَّ یَأْتِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُنْجِیَاتٍ وَمُقَدِّمَاتٍ، وَهُنَّ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ) (الحاکم۔وصححہ الألباني فی صحیح الجامع:3214)
’’تم یہ کلمات پڑھا کرو: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، کیونکہ یہ قیامت کے دن (جہنم سے) نجات دہندہ اور (جنت کی طرف) آگے بڑھانے والے ہونگے اور یہی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔‘‘
08.یہ تسبیحات عرش کے ارد گرد اپنے پڑھنے والے کا ذکر کرتی ہیں
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ مِمَّا تَذْکُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللّٰہِ: اَلتَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَالتَّهْلِیْلُ وَالتَّحْمِیْدُ، یَنْعَطِفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ لَهُنَّ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ، تَذْکُرُ بِصَاحِبِهَا، أَمَا یُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ لَهُ، أَوْ لَایَزَالُ لَهُ مَنْ یَّذْکُرُ بِهِ) (سنن ابن ماجہ:3809 وصححہ الألباني)
’’اللہ تعالیٰ کی بزرگی سے جو تم یاد کرتے ہو، یہ تسبیحات بھی ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ یہ عرش باری تعالیٰ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور ان سے شہد کی مکھیوں کی آواز کی طرح ایک آواز آتی ہے جس میں وہ اپنے پڑھنے والے کا تذکرہ کرتی ہیں۔ تو کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کاتذکرہ کرنے والا بنے؟‘‘
09.تسبیحات میں سے ہر ایک صدقہ ہے
جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأجُورِ، یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ) یعنی ’’مال والے لوگ اجر وثواب لے گئے، وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، اور اپنے بچے ہوئے مالوں کے ساتھ صدقہ بھی کرتے ہیں‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَوَ لَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مَا تَصَدَّقُونَ؟ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَهْلِیْلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَةٌ…) (صحیح مسلم:1006)
’’کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے ليے بھی صدقہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا؟ بے شک ہر (سبحان ﷲ) صدقہ ہے۔ ہر (ﷲ أکبر) صدقہ ہے اور ہر (الحمد ﷲ) صدقہ ہے۔ اور ہر (لا إله إلا ﷲ) صدقہ ہے۔ نیکی کا ہر حکم صدقہ ہے اور ہر برائی سے روکنا صدقہ ہے۔۔۔۔۔‘‘
اِن کلماتِ مبارکہ کے اِن عظیم فوائد کے پیش نظر ہمیں عام طور پر بھی اور خاص طور پر اِن ایام میں بھی ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہئے۔
خاص طور تکبیرات کا تو اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُوهُرَیْرَۃَ یَخْرُجَانِ إِلَی السُّوْقِ فِیْ أَیَّامِ الْعَشْرِ، یُکَبِّرَانِ وَیُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِیْرِهِمَا) (صحیح البخاري:العیدین باب فضل العمل فی أیام التشریق)
’’حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (ماہِ ذو الحجہ کے) ان دس دنوں میں بازار کو نکل جاتے اور تکبیر کہتے رہتے۔ پھر دوسرے لوگ بھی انکی تکبیر سن کر تکبیرات پڑھتے۔‘‘
ان ایام میں عموما جہری تکبیریں کہنا اور آواز زیادہ سے زیادہ بلند کرنا مستحب ہے۔ خصوصا یومِ عرفہ کی نمازِ فجر سے لیکر 13 ذو الحجہ کی عصر کی نماز تک اِس دوران ہر فرض نماز کے بعد جہرا تکبیرات پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
ان پانچ ایام میں فرائض کے بعد تکبیرات کا پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سمیت متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔ (إرواء الغلیل:125/3)
تکبیرات کے الفاظ یہ ہیں: (اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہی الفاظ کے ساتھ تکبیرات پڑھتے تھے۔ ان کی ابتداء میں ’اللہ اکبر‘ دو مرتبہ ہے۔ جبکہ ایک روایت میں ان سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ابتداء میں ’اللہ اکبر‘ تین مرتبہ پڑھتے تھے۔
جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یوں کہتے تھے: (اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ وَأَجَلُّ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ عَلٰی مَا هَدَانَا) (أیضا)
یہ تکبیرات اجتماعی طور پر نہ پڑھی جائیں۔ اس ليے کہ یہ نہ تو ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اور نہ سلف صالحین کے عمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر تکبیرات پڑھے۔
(5) صدقہ کرنا:
صدقہ کرنا بھی ان اعمالِ صالحہ میں سے ایک ہے جو ان دنوں میں مسلمانوں کے ليے مستحب ہیں۔ ﷲ نے صدقہ کا تاکیدی حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنفِقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَٰعَةٌ ۗ وَٱلْكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴿٢٥٤﴾ (البقرۃ2:254)
’’اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔ اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَانَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ) (رواہ مسلم)
’’کسی مال کا صدقہ نکالنا اس مال کو گھٹاتا نہیں۔‘‘
لہٰذا ہمیں خصوصا ان ایام میں زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام اعمال کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
برادران اسلام! عشرۂ ذو الحجہ میں مستحب اعمال کے بارے میں ہم نے تفصیلی گفتگو کی۔ اب انہی اعمال میں سے ایک اور عمل جس کی شریعت میں تاکید کی گئی ہے اور اسے بھی اِسی عشرہ کے اختتام پر انجام دینا ہوتا ہے اور وہ ہے:
(6) قربانی
قربانی کرنا ﷲ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے جس پر آپ نے ہر سال عمل فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں کتاب الأضاحی کے تحت ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: باب سنۃ الأضحیۃ پھر انھوں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِی یَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّی، ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأهْلِهِ، لَیْسَ مِنَ النُّسُكِ فِی شَیْیٍٔ) (صحیح البخاري:5545)
’’آج کے دن ہم سب سے پہلے نماز عید پڑھیں گے، پھر واپس لوٹ کر قربانی کریں گے۔ جو شخص اسی طرح کرے گا وہ ہماری سنت کو پا لے گا۔ اور جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کرے گا تو وہ بس گوشت ہی اپنے گھر والوں کو پیش کرے گا، قربانی نہیں ہوگی۔‘‘
یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ قربانی سنت ہے، واجب نہیں۔
اس کے علاوہ سنن ترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: (ضَحّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیه وسلم وَالْمُسْلِمُوْنَ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی تھی۔‘‘ سائل نے پھر یہی سوا ل کیا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا:(أَتَعْقِلُ؟ ضَحّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَالْمُسْلِمُوْنَ) ’’کیا تمھیں کچھ عقل ہے؟ (میں کہہ رہا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی تھی۔‘‘ (سنن الترمذي:1506وقال : حدیث حسن صحیح)
امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں: (وَالْعَمَلُ عَلٰی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأضْحِیَةَ لَیْسَتْ وَاجِبَةً، وَلٰکِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یُسْتَحَبُّ أَنْ یُّعْمَلَ بِهَا) ’’اسی حدیث کی بناء پر اہلِ علم کے نزدیک قربانی واجب نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جس پر عمل کرنا مستحب ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(أَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بِالْمَدِیْنَةِ عَشْرَ سِنِیْنَ یُضَحِّی کُلَّ سَنَةٍ) (سنن الترمذي:1507وقال : حدیث حسن)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے۔ اِس دوران آپ ہر سال قربانی کرتے رہے۔‘‘
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ قربانی واجب نہیں، تاہم جو شخص اس کی استطاعت رکھتا ہو وہ قربانی ضرور کرے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ یُضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرْ مُصَلَّانَا) (رواہ الحاکم وحسنہ الألباني فی صحیح الترغیب والترہیب:1087)
’’جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ارشاد فرمایا تھا:
(یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلٰی کُلِّ أَهْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَة…) (سنن أبي داؤد:2788،سنن الترمذي:1518،سنن ابن ماجہ:3125وصححہ الألباني)
’’اے لوگو! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ضروری ہے۔‘‘
لہٰذا اگر استطاعت ہو تو قربانی نہیں چھوڑنی چاہئے۔
بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ قربانی صرف حجاج کیليے ہے باقی لوگوں کیليے نہیں ہے۔ جبکہ ہم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول ابھی ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ قربانی صرف حجاج کیليے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کیليے ہے۔ حجاج تو حج کے واجبات ادا کرنے کیليے قربانی کرتے ہیں اورسنتِ ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ جبکہ دیگر مسلمان پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم یُضَحِّیْ بِکَبْشَیْنِ وَأَنَا أُضَحِّی بِکَبْشَیْنِ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کے ساتھ قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی اسی طرح دو مینڈھے ہی قربان کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري:5553)
ظاہر ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل روایت کر رہے ہیں کہ آپ دو مینڈھوں کے ساتھ قربانی کرتے تھے تو یہ عمل مدینہ منورہ میں تھا کیونکہ حج تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مرتبہ کیا تھا اور اس میں آپ نے سو اونٹ قربان کئے تھے۔ بلکہ سنن ابو داؤد میں اسی حدیث کے الفاظ میں (بالمدینۃ) کی صراحت موجود ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کے علاوہ بھی قربانی کرتے تھے۔ (سنن أبي داؤد:2793۔وصححہ الألباني)
اس کے علاوہ جو حدیث ہم نے صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کی ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آج کے دن ہم سب سے پہلے نماز عید پڑھیں گے، پھر واپس لوٹ کر قربانی کریں گے۔‘‘ تو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قربانی تمام مسلمانوں کیليے مسنون ہے صرف حاجیوں کیليے نہیں، کیونکہ اگر قربانی صرف حاجیوں کیليے ہی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں فرماتے کہ آج کے دن ہم پہلے نماز عید پڑھیں گے اور پھر قربانی کریں گے! جبکہ حجاج تو دس ذو الحجہ کو نماز عید نہیں پڑھتے اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں نماز عید پڑھی تھی۔
لہٰذا دنیا بھر کے مسلمانوں کو اِس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔
عزیزان گرامی! قربانی کے اہم مسائل تو ہم خطبۂ عید الاضحی میں ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ البتہ کچھ مسائل ایسے ہیں جنھیں عید سے پہلے بیان کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہیں:
مسئلہ نمبر:01
جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد حجامت نہ بنوائے اور ناخن وغیرہ نہ تراشے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَنْ رَأیٰ هِلَالَ ذِی الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ یُّضَحِّیَ فَلَا یَأْخُذْ مِنْ شَعْرِہٖ وَلَا مِنْ أَظْفَارِہٖ) (صحیح مسلم:1977)
’’جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ ذو الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد حجامت نہ بنوائے اور نہ ہی اپنے ناخن تراشے۔‘‘
مسئلہ نمبر:02
قربانی کیليے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ گائے، اونٹ، بھیڑ، بکری کی جنس سے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ﴾ (الحج22 :34)
’’اور ہر امت کیليے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کئے ہیں تاکہ وہ اُن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں (یعنی ذبح کریں) جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں۔‘‘
آیتِ کریمہ میں ﴿بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ﴾ سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہی ہیں۔
اسی ليے امام نووی رحمہ اللہ نے تمام مسلمانوں کا اِس پر اجماع نقل کیا ہے کہ قربانی میں صرف یہی جانور ہی کفایت کر سکتے ہیں۔ (شرح مسلم للنووي:125/13)
مسئلہ نمبر:03
قربانی کے جانور کا عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے مثلا لنگڑا پن، بھینگا پن، انتہائی لاغر وکمزور یا بیمار ہونا۔ لہٰذا اُس جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں جس میں ان عیبوں میں سے کوئی عیب پایا جاتا ہو۔ تو ان میں سے کوئی عیب بھی جانور میں نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح نہ کان کٹا ہو اور نہ ہی سینگ ٹوٹا ہو۔ تاہم جانور کا خصّی ہونا عیب نہیں ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(أَرْبَعٌ لَا تَجُوْزُ فِی الْأضَاحِیْ: اَلْعَوْرَائُ بَیِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِیْضَةُ بَیِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَائُ بَیِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْکَسِیْرُ الَّتِی لَا تُنْقِیْ) (سنن أبي داؤد:2802،سنن الترمذي:1497وصححہ الألباني)
’’قربانیوں میں چار قسم کے جانور جائز نہیں: وہ جانور جو بھینگا ہو اور اس کا بھینگا پن بالکل واضح ہو۔ وہ جانور جو مریض ہو اور اس کی بیماری بالکل عیاں ہو۔ وہ جانور جو لنگڑا ہو اور اس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو۔ اور وہ انتہائی کمزور ولاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔‘‘
مسئلہ نمبر:04
جانور کی عمر: قربانی کا جانور موٹا تازہ ہونے کے ساتھ دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ صرف بھیڑ یا دنبے میں گنجائش ہے کہ اگر دو دانتا نہ مل سکے تو ایک سال کا بھی کفایت کرجائے گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَا تَذْبَحُوْا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ یَّعْسُرَعَلَیْکُمْ، فَتَذْبَحُوْا جَذْعَةً مِنَ الضَّأْنِ) (صحیح مسلم:1963)
’’تم دو دانتا جانور ہی ذبح کرو، ہاں اگر تم تنگدست ہو تو ایک سال کی بھیڑ (یا دنبہ) ذبح کر لو۔‘‘
تاہم کچھ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تنگدستی نہ بھی ہو تو بھی ایک سال کی بھیڑ یا دنبہ کے ساتھ قربانی کرنا جائز ہے۔ اسی بات کو صاحب ِ تحفۃ الأحوذی نے بھی راجح قرار دیا ہے۔ (تحفة الأحوذي:440/4)
مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ الْجَذْعَ یُوْفِی مِمَّا یُوْفِی مِنْهُ الثَّنِیُّ) ’’بے شک ایک سال کا دنبہ اُس چیز سے کفایت کر جاتا ہے جس سے دو دانتا کفایت کرتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داؤد:2799۔ وصححہ الألباني)
اِس حدیث میں اگرچہ (الجذع) کا لفظ مطلق ہے اور اس میں دنبہ اور بکرا دونوں شامل ہیں، لیکن ایک اور حدیث کی بناء پر اسے دنبہ کے ساتھ مقید کرنا ضروری ہے۔ اور وہ ہے حضرت براء رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کے خالو نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تِلْكَ شَاۃُ لَحْمٍ) ’’وہ تو صرف گوشت کی خاطر (ذبح شدہ) بکری ہے۔‘‘ (یعنی قربانی نہیں ہے) تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا بکرا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ضَحِّ بِهَا وَلَا تَصْلُحُ لِغَیْرِكِ) ’’تم اسی کو قربان کر دو اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کیليے جائز نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري:5556،صحیح مسلم:1961)
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک سال کا بکرا قربانی میں کفایت نہیں کرتا۔
مسئلہ نمبر:05
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت عید الأضحی کی نماز کے بعد ہے۔ لہٰذا نمازِ عید پڑھنے سے پہلے قربانی نہیں کرنی چاہئے۔
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قربانی کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ابھی آپ نمازِ عید سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ نے ان جانوروں کا گوشت دیکھا جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی قربان کر دیا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنْ کَانَ ذَبَحَ أُضْحِیَتَهُ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّیَ۔ أَوْ نُصَلِّیَ۔ فَلْیَذْبَحْ مَکَانَهَا أُخْرَی، وَمَنْ کَانَ لَمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاسْمِ اللّٰہِ) (صحیح البخاري:985،صحیح مسلم:1960)
’’جس شخص نے قربانی کا جانور نمازِ عید سے پہلے ہی ذبح کر دیا تھا وہ اُس کی جگہ اور جانور ذبح کرے۔ اور جس نے ذبح نہیں کیا تھا وہ ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھ کر ذبح کر دے۔‘‘
اور حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خالو نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تِلْكَ شَاۃُ لَحْمٍ) ’’وہ تو صرف گوشت کی خاطر (ذبح شدہ) بکری ہے۔‘‘ (یعنی قربانی نہیں ہے) تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا بکرا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ضَحِّ بِهَا وَلاَ تَصْلُحُ لِغَیْرِكَ) ’’تم اسی کو قربان کر دو اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کیليے جائز نہیں۔‘‘
اس کے بعد آپ نے فرمایا: (مَنْ ضَحّٰی قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِه، وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِیْنَ) (صحیح البخاري:5556،صحیح مسلم:1961)
’’جو شخص نمازِ عید سے پہلے قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے ليے جانور ذبح کرتا ہے۔ اور جو شخص نمازِ عید کے بعد قربانی کرتا ہے تو اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔‘‘
مسئلہ نمبر:06
ایک بکرا یا بکری، یا ایک بھیڑ یا دنبہ تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتا ہے۔ اس ليے گھر کے ہر فرد کی جانب سے الگ الگ جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اگر نیت صرف یہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ فلاں نے اپنی طرف سے الگ قربانی کی ہے، یا صرف اس ليے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ میں نے اپنی طرف سے الگ قربانی کی ہے تویہ ریاکاری ہے جو حرام ہے۔
عطاء بن یساررحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب الأنصاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قربانیاں کس طرح ہوتی تھیں؟ تو انھوں نے جواب دیا:
(کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ فَیَأْکُلُونَ وَیُطْعِمُونَ حَتّٰی تَبَاهِی النَّاسُ فَصَارَتْ کَمَا تَرَی) (سنن الترمذي:1505۔ وصححہ الألباني)
’’ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربان کرتا تھا، پھر وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ (پھر اسی طرح بدستور ہوتا رہا) یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے اور اب جو لوگوں کی حالت ہے وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔‘‘
لہٰذا ایک دوسرے پر فخر کرنے کیليے نہیں بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے قربانی کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُۥ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾ (الأنعام 6: 163-162)
’’کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ تعالیٰ کیليے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہو۔‘‘
مسئلہ نمبر:07
گائے میں سات آدمی اور اونٹ میں سات یا دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم فِی سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأضْحٰی فَاشْتَرَکْنَا فِی الْبَقَرَۃِ سَبْعَةً وَفِی َالْبَعِیْرِ عَشْرَۃً) (سنن الترمذي:1501۔ وصححہ الألباني)
’’ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الأضحی آگئی۔ چنانچہ ہم نے گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد شریک ہو کر قربانی کی۔‘‘
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَةٍ) (سنن أبي داؤد :2808۔ وصححہ الألباني)
’’گائے سات افراد سے اور اونٹ بھی سات افراد سے کفایت کر سکتا ہے۔‘‘
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ گائے میں سات افراد اور اونٹ میں سات یا دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔
مسئلہ نمبر:08
نمازِعید کیليے گھر سے کچھ کھائے پیئے بغیر تکبیریں پڑھتے ہوئے عید گاہ کی طرف جائیے۔ حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(کَانَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم لَا یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی یَطْعَمَ، وَلَا یَطْعَمُ یَوْمَ الْأضْحٰی حَتّٰی یُصَلِّیَ) (سنن الترمذي:542۔وصححہ الألباني)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھا لیتے۔ اور عید الاضحی کے روز نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ نمازِ عید پڑھ لیتے تھے۔‘‘
مسئلہ نمبر:09
خواتین کو بھی ہر حال میں عید گاہ کو لے کر جائیں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بھی عید گاہ میں جانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ حتی کہ حیض والی خواتین کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا کہ وہ گھر سے ضرور نکلیں، تاہم وہ عید گاہ سے باہر بیٹھیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ (صحیح البخاري:974،صحیح مسلم :890)
مسئلہ نمبر:10
عید گاہ میں پہنچ کر امام کی اقتداء میں نمازِ عید ادا کریں جس کی پہلی رکعت میں امام قراء ت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں پانچ زائد تکبیریں کہے گا۔ مقتدی حضرات بھی امام کے ساتھ یہ تکبیرات کہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر امام خطبہ دے گا۔
برادرانِ اسلام! قربانی کے دیگر اہم مسائل ہم ان شاء اللہ تعالیٰ خطبۂ عید الاضحی میں ذکر کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ذوالحجہ کے اِس پہلے عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی توفیق دے۔ آمین