عشرہ ذوالحجہ کے فضائل اور کرنے کے کام

﴿وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ (الفجر:1۔3)
’’قسم ہے فجر کی ۔ اور دس راتوں کی۔ اور جفت اور طاق کی۔ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اسلام کی ہدایت بخشی اور اُس کا احسان ہے کہ وہ ہماری تمام تر ستیوں ، کوتاہیوں، بے رغبتیوں، بے پرواہیوں اور بے نیازیوں کے باوجود ہمیں اپنے فضل و رحمت سے محروم نہیں کرتا، بلکہ وقفے وقفے سے نیکی کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے۔
حقیقت میں وہ اپنے بندوں کو ہرگز عذاب دینا نہیں چاہتا ، بشرطیکہ ہم بندے بن کر رہیں۔ فرمان الہی ہے:
﴿مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَأٰمَنْتُمْ﴾ (النساء:147)
’’ اللہ بھلا تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا، بشرطیکہ تم شکر گزار بنے رہو اور ایمان لائے رہو!‘‘
حالانکہ اگر وہ عذاب دینا بھی چاہے تو اُس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کوئی پوچھنے کا حق نہیں رکھتا اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔
﴿لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُونَ﴾ (الانبياء:23)
’’وہ اپنے کاموں کے لیے کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہے اور وہ سب جوابدہ ہیں۔‘‘
حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں:
((قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ فَاتَيْتُ أَبِي بْنَ كَعْبٍ))
’’فرماتے ہیں: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ وسوسہ پیدا ہوا تو میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوا ۔‘‘
((فَقُلْتُ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ، خِفْتُ أَنْ يَكُونَ فِيهِ هَلاكُ دِينِي وَأَمْرِي))
’’میں نے کہا: اے ابالمنذرا میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ وسوسہ پیدا ہو رہا ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس سے میری دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو جائے ۔ ‘‘
((فَقَالَ: يَابْنَ أَخِي إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَوْ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ)) (سنن الكبرى للبيهقي:20874، مختصر تاریخ دمشق ، ج:13 ، ص:228)
تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’بھتیجے! اللہ عز و جل اگر اپنے تمام آسمانوں اور تمام زمینوں کے مکینوں کو تمام زمینوں اور تمام آسمانوں کی مخلوقات کو عذاب دینا چاہے تو عذاب دے گا اور ظالم بھی نہیں ہوگا ۔‘‘
یعنی تمام مخلوقات اس کی ہیں، وہ جب چاہے بنائے، جب چاہے ختم کر دے، جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلت دے، جس کو چاہے دولت دے، جس کو چاہے محروم رکھے، اس کی مرضی ہے، کسی کا کیا حق ، کیا حیثیت اور کیا مجال ہے کہ اُس سے پوچھے کہ وہ کیا اور کیوں کر رہا ہے۔
تو وہ اگر کسی کو عذاب دینا چاہے تو وہ ظالم نہیں ہوگا اور نہ کوئی اس سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے لیکن:
((وَلَوْ رَحِمَهُمْ ، لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ لَهُم خَيْرًا مِنْ أعمالهم))
’’اور اگر وہ ان پر رحم فرمائے تو اُس کی رحمت اُن کے لئے ، ان کے اعمال سے بہتر ہوگی ۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّ لَكَ مِثْلَ أَحَدٍ ذَهَبًا أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللهِ مَا قَبِلَهُ اللهُ مِنْكَ حَتّٰى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ))
’’اور اگر تمھارے پاس اُحد پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور تم اسے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر دو تو وہ تم سے ہرگز قبول نہ کرے گا، جب تک تم تقدیر پر ایمان نہ رکھو اور جب تک یہ نہ جان لو کہ جو مصیبت تم پر آئی ہے وہ کسی صورت تم سے چوک نہیں سکتی تھی اہل نہیں سکتی تھی اور جو مصیبت تم سے مل گئی ہے وہ کسی صورت تمہیں پہنچے نہیں سکتی تھی ۔‘‘
((وَأَنَّكَ إِذَا مِتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ))
’’ اور اس عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے اگر تمہیں موت آگئی تو تم جہنم میں داخل ہوگے۔‘‘
((وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ))
’’اور کوئی حرج نہیں اگر تم بھائی عبداللہ بن مسعود کے پاس جا کر اُس سے بھی پوچھ لو۔‘‘
((فَأَتَيْتُ عَبْدَاللهِ بن مَسْعُودٍ فَسَأَلْتُهُ))
’’حضرت ابن الدیلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور اُن سے پوچھا۔‘‘
((فَقَالَ: مِثْلَ ذَالِكَ))
’’تو انہوں نے بھی یہی باتیں کیں ۔‘‘
((وَقَالَ لِي: لَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِي حُذَيْفَه بن الْيَمَانِ فَتَسْأَلَهُ))
’’اور کہا کہ کوئی حرج نہیں اگر تم حذیفہ بن یمان سے یہ جا کر پوچھ لو!‘‘
((فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ لِي مِثْلَ ذَلِكَ))
’’پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اُن سے پوچھا اور انہوں نے بھی یہی باتیں کہیں ۔‘‘
( وَقَالَ: اِئْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَلْهُ))
’’اور کہا کہ تم زید بن ثابت کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو!‘‘
((فاتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ))
’’میں زید بن ثابت بھی اللہ کے پاس آیا، ان سے پوچھا:‘‘
((فَقَالَ: سمعت رسول الله ﷺ يَقُولُ:))
’’تو انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ۔‘‘
((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ ، لَوْ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، وَأَهْلَ أَرْضِهِ لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ))
’’کہ اللہ عز وجل اگر تمام آسمانوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو عذاب دے گا تو اُس کا ان کو عذاب دینا ظلم نہیں ہوگا ۔‘‘
((وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ))
’’اور اگر وہ ان پر رحم کرے تو اُس کی رحمت اُن کے لئے ، ان کے اعمال سے بہتر ہوگی۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّ لَكَ مِثْلَ أَحَدٍ ذَهَبًا أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبْلَهُ اللهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ))
’’اور اگر تمھارے پاس احد پہاڑ برابر سونا بھی ہو اور اسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کر دو، تو وہ تم سے ہرگز قبول نہیں کرے گا، جب تک تقدیر پر ایمان نہ رکھو۔‘‘
((وَتَعْلَمَ ، أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ))
’’اور جب تک یہ نہ جان او علم الیقین کی حد تک کہ جو تکلیف تمہیں پہنچی ہے وہ ہرگز ٹلنے والی نہیں تھی۔‘‘
((وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ))
’’اور جو مل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی تھی۔‘‘
((وَأَنَّكَ إِنْ مِتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ)) (ابن ماجة ، کتاب المقدمة:77)
’’اور اگر اس عقیدے سے مختلف عقیدے پر تمہیں موت آئی تو جہنم میں جاؤ گے۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ بنیادی طور پر اللہ تعالی اپنے بندوں کو ہرگز عذاب دینا نہیں چاہتا، چنانچہ اس نے تمام لوگوں کے لیے مسلم ہوں یا کافر ہدایت کے راستے کھلے رکھے ہیں اور اُن پر حجت تمام کردی ہے، اس کے باوجود کہ وہ ہدایت کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرتے بلکہ اُس سے شدید نفرت کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
ایسے ہی وہ مسلمان جو اسلام پر عمل نہیں کرتے نہ صرف یہ کہ عمل نہیں کرتے بلکہ دین کا اور دینداروں کا مذاق اڑاتے ہیں، اور کھلے عام اسلام کی مخالفت کرتے ہیں، بے حیائی پھیلاتے ہیں، مگر اس کے باوجود اللہ تعالی بشمول اُن کے تمام مسلمانوں کے لیے تو بہ واستغفار کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
اور انہی موقعوں میں سے ایک موقع ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی صورت میں ہے، جو کہ غالبا آئند و جمعۃ المبارک سے شروع ہونے والا ہے۔
ماہ ذوالحجہ کے وہ مبارک ایام اگر چہ ہر سال آتے ہیں اور ہم ہر سال اس کے مسائل و احکام بھی سنتے ہیں، مگر چونکہ ایک تو دین کے حوالے سے ہمارا حافظہ ذرا کمزور ہے کہ دین کی باتیں ہمیں یاد نہیں رہتیں اور دوسرے یہ کہ وعظ و تزکیہ اور ترغیب و ترہیب سے ایک مسلمان کے دل میں نیکی کی رغبت پیدا ہوتی ہے دین کی طرف میلان اور رجحان بڑھتا ہے اور شوق عبادت کے جوش و جنون میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِكرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاريات:55)
’’نصیحت کرتے رہے کیونکہ نصیحت اہل ایمان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔‘‘
تو یاد دہانی اور نصیحت کے طور پر ان مبارک ایام کی فضیلت کا تذکرہ ایک بار پھر سنتے ہیں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ أَيَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الأيَّامِ، يَعْنِي عَشَرَ ذِي الْحِجَّةِ))
’’ماہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں کیا ہو ا عمل صالح اللہ تعالی کو اتنا پسند ہو، جتنا ان دنوں میں کیا جو عمل صالح اللہ تعالی کو پسند اور محبوب ہے ۔‘‘
((قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ))
’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا، کیا اللہ کی راہ میں کیا ہوا جہاد بھی نہیں؟‘‘
((قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ))
’’فرمایا: دوسرے دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی اتنا محبوب نہیں۔‘‘
((إِلَّا رَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ)) (ترمذي:757)
’’سوائے اس آدمی کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کے لیے نکالا اور پھر ان میں سے کوئی بھی چیز لے کر واپس نہ لوٹا۔‘‘
اور قرآن پاک میں اس کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے؟
﴿وَ الْفَجْرِۙ۝وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ۝ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ۝ وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِۚ۝ هَلْ فِیْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍؕ۝﴾ (الفجر:1۔5)
’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی، اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو، کیا اس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘
سورة الفجر کی ان آیات میں اللہ تعالی نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے اُن میں سے ایک قسم دس راتوں کی ہے، جس سے مرادذ والحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔
کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائے، مگر اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جس چیز کی چاہے قسم کھا سکتے ہیں، کیونکہ اس کی مخلوقات ہیں، اس کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کی قسم کھاتا ہے تو اس کی فضیلت اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ، تو ان چار چیزوں کی قسم کھانے کے بعد کہ جن میں سے ایک ذوالحجہ کے دس دن بھی ہیں، آخر میں فرمایا: (هل في ذلك قسم لذی حجر )
’’کیا اس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘
تو اللہ تعالی کے اس فرمان سے ان دس دنوں کی فضیلت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
تو معنی یہ ہوا کہ ماہ ذوالحجہ کہ پہلے دس دن بہت فضیلت والے ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں بہت اہمیت والے ہیں، چنانچہ ان دس دنوں میں کیا ہوا کوئی بھی عمل صالح اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے، نسبت دوسرے دنوں میں کئے ہوئے عمل صالح کے۔
اور عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جو کہ ایک تو خالص اللہ تعالی کے لیے ہو اور دوسرے سنت کے مطابق ہو اور اگر ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہو تو وہ عمل عمل صالح نہیں رہتا۔
اگر یہ جاننا چاہیں کہ یہ ایام اللہ تعالی کے ہاں اتنے با فضیلت کیوں ہیں ؟ تو جو ظاہری دلائل سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ یہ ایام فريضہ حج کی ادائیگی کے دنوں میں آتے ہیں اور حج کے ایام میں ایک دن یوم عرفہ کا بھی ہے جو کہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے، بلکہ یوم عرفہ کے بارے میں آپ سے ہم نے فرمایا: (الحج عرفة) حج تو عرفہ ہے یعنی حج کا سب سے اہم رکن عرفہ ہے۔
اور یوم عرفہ کی فضیلت میں سے ایک بات یہ ہے کہ اُس دن تمام دنوں سے بڑھ کر لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَا مِنْ يَوْمِ أَكْثَرَ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْداً مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ
عرفة))
’’یوم عرفہ کے سوا کوئی دن ایسا نہیں ہے، جس میں اللہ تعالی سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہوں۔‘‘
((وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟))(سنن ابن ماجه:3014)
’’اور اللہ تعالیٰ اُن کے قریب ہوتا ہے، یعنی اپنے فضل و رحمت کے ذریعے اُن کے قریب ہوتا ہے اور پھر حجاج پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے، یہ لوگ بھلا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
یعنی یہ لوگ جو اپنا گھر بار، اپنا وطن اور اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر آئے ہیں، اپنے مال خرچ کئے ہیں، سفر کی صعوبتیں اور مشقتیں سہتے ہیں تو کیا چاہتے ہیں؟ یہ بخشش و مغفرت کے طلبگار ہیں، اپنے رب کی رضا اور خوشنودی اور اس کا قرب چاہتے ہیں چنانچہ یہ حق دار ہیں کہ ان کی مرادیں بر لائی جائیں، ان کی دعائیں قبول کی جائیں اور انہیں فضل و رحمت اور بخشش و مغفرت سے نوازا جائے۔
تو ان دس دنوں کی فضیات کی ایک وجہ یہ ٹھہری کہ ان میں یوم عرفہ آتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان دس دنوں میں تمام بڑی بڑی عبادات جمع ہو جاتی ہیں، نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ۔ اور ان ایام کی فضیلت کا ایک پہلو یہ ملاحظہ کیجئے کہ بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد کہ جب انہیں غلامانہ زندگی سے نجات ملی اور ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہو گئی تو انہیں احکامات شریعت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو کوہ سینا پر میں دنوں کے لیے بلایا کہ اس پہاڑ پر رہ کر اور یکسو جو کر اللہ تعالی کی عبادت اور تفکر و تدبر میں گزاریں اور پھر اس میں مزید دس دنوں کا اضافہ کر دیا۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ۚ ﴾ (الاعراف:142)
’’اور ہم نے موسیٰ کو میں دن رات کے لیے طلب کیا، اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہوگئی ۔‘‘
تو مفسرین رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ وہ دس دن یہی عشرہ ذوالحجہ کے دن ہیں۔ تو ان ایام کی فضیلت جان لینے کے بعد اور ان میں نیک اعمال کا اجر و ثواب اور ترغیب معلوم کر لینے کے بعد یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان میں کون کون سے نیک عمل ہمیں کرنے چاہیں! نیک اعمال کا دائرہ تو یقینًا بہت وسیع ہے، مگر اُن میں سے چند اعمال کا کہ جن سے ہر شخص واقف ہے، ان سے مانوس ہے اور آسانی سے کئے بھی جا سکتے ہیں ذکر کرتے ہیں: ان کے سرفہرست ایک تو یوم عرفہ کا روزہ ہے، جو کہ 9 ذی الحجہ کا دن ہے اور اس کی فضیلت اور اجر و ثواب آپ کو معلوم ہی ہوگا، کیونکہ ہر سال سنتے ہیں اور وہ یہ کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ))
’’کہ اُس سے ایک گذشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔‘‘
اس کے علاوہ نماز، تلاوت قرآن پاک، صدقہ و خیرات اور تکبیرات و تسبیحات وغیرہ ہیں۔ ان دس دنوں میں 9 ذوالحجہ کے روزے کے علاوہ پہلے آٹھ دنوں کے روزے بھی مستحب ہیں ، مگر دسویں ذی الحجہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ عیدالاضحی کا دن ہے۔
اور حدیث میں ہے کہ:
((نَهَى النَّبِيُّ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ النَّحْرِ ))
’’ آپ سے ہم نے عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اسی طرح عیدالانی کے بعد کے تین دن بھی جو کہ ایام التشریق کہلاتے ہیں روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ آپ ﷺنے فرمایا:
((أَيَّامُ التَّشْرِيقِ: أَيَّامُ أَكْلِ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ))
’’کہ ایام التشریق (یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ) کے دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔‘‘
قربانی کے احکام میں یہ بات بھی آپ کو معلوم ہی ہوگی کہ ذو الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن وغیرہ نہیں کاٹنے چاہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ مﷺ نے فرمایا:
((إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِي فَلَا يَمَسَّ مِنْ شعره وبشره شيئاً)) (صحیح مسلم:1977) ’’جب ذوالحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے بالوں اور جسم میں سے کوئی چیز نہ چھوئے ، یعنی کچھ نہ کاٹتے۔‘‘
اور تکبیرات کے متعلق بھی ایک بار پھر ذہن میں تازہ کر لیں کہ یوم عرفہ کی فجر کی نماز سے لے کر 13ذو الحجہ کی عصر تک پڑھی جاتی ہیں نمازوں کے بعد بھی اور عام اوقات میں بھی۔ الله اكبر، الله اكبر ، لا اله الا الله، والله اكبر ، الله اكبر والله الحمد.
………………