اشرف مخلوق انسان یا فرشتے ؟

﴿وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰی كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠۝﴾ (الاسراء:70)
’’یقینًا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘
کا ئنات میں انسان کا مقام و مرتبہ اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے سے آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔
انسان یقینًا اک نہایت ہی معزز و مکرم اور شرف و فضیلت والی مخلوق ہے، لیکن کیا و و علی الاطلاق تمام مخلوقات سے افضل واشرف ہے؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل معلوم نہیں ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ:
﴿ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰی كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠﴾ (الاسراء:70)
’’ اللہ فرماتے ہیں:ہم نے انسان کو بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی ہے۔‘‘
تو انسان کویقینًا بہت سی مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے، مگر سب پر نہیں۔ بلکہ اس کے بر عکس حدیث کی روشنی میں فرشتوں کا سب سے افضل واشرف ہونا ثابت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ))
’’اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ فقراء مہاجرین ہوں گے۔‘‘
((الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الشُّغُورُ وَ يُتَّقٰى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُم وَحَاجَتَهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاء))
’’وہ فقراء مہاجرین کہ جن سے مورچے بھرے جاتے ہیں، یعنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اور حملہ آور دشمن کو روکتے ہوئے وہ پیش پیش ہوتے ہیں اور ڈھال کا کام دیتے ہیں۔‘‘
((يُتَّقٰى بِهِمُ الْمَكَارِهُ،)) ’’پُر مشقت اور ناپسندیدہ کاموں سے ان کے ذریعے بچا جاتا ہے۔ یعنی وہ ہر خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔‘‘
((وَيَمُوْتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيْعُ لَهَاقَضَاءً))
’’اور ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے، تو اس کی خواہش دل میں ہی رہ جاتی ہے، اسے پورا نہیں کر سکتا ۔‘‘
یعنی وہ اپنی معمولی سی خواہش بھی پوری نہیں کر سکتے ورنہ تمام کی تمام خواہشات تو کبھی بھی نہ کسی کی پوری ہوئی ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔
((فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ))
’’تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا حکم دے گا۔‘‘
((اِئْتُوهُم فَحَيُّوْهُمْ))
’’کہ جاؤ اور ان کا خیر مقدم کرو، ان کا استقبال کرو۔‘‘
((فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ وَخَيْرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ اَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَاتِي هٰؤُلَاءِ فَنُسَلَّمَ عَلَيْهِمْ))
’’تو فرشتے اللہ تعالی سے عرض کریں کے انتظار کرتے ہوئے حکمت معلوم کرتے ہوئے، کہ ہم تیرے آسمان کے رہائشی ہیں، اور تیری مخلوقات میں سے سب سے افضل ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان کے پاس جا کر انہیں سلام کریں۔ اور استقبال کریں ؟‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ فرشتے کہیں گے۔
((وَإِنَّكَ تُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ قَبْلَنَا))
’’کہ تو ہم سے پہلے ان کو جنت میں داخل کرے گا ؟‘‘
((قَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا)) (مسند احمد:6570)
’’تو اللہ تعالی فرشتوں کی ان باتوں کی نفی نہیں فرمائیں گے بلکہ فرمائیں گے کہ دو ایسے بندے ہیں جو میری عبادت کرتے تھے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔‘‘
((قَالَ فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ ، وَيَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ
بَابِ سَلْمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى النَّارِ))(الرعد:24)
’’ تو تب فرشتے ان کے پاس آئیں گے، پھر آپﷺ نے سورہ رعد کی آیت تلاوت فرمائی: ”تو فرشتے ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ن سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو پس کیا ہی خوب ہے آخرت کا گھر۔‘‘
تو اس حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے سب سے افضل ہیں۔ جہاں تک انسان کی فضیلت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت فضیلت والا ہے، اور بہت کی مخلوقات سے افضل ہے اور انسان کی فضیلت کے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ دلائل ہیں۔
مگر انسان کو اپنی فضیلت ثابت کرنا ہوتی ہے۔
اللہ تعالی نے فرشتوں کو پیدا فرمایا اور انہیں عقل سے نوازا مگر ان میں خواہشات اور شہوات نہیں رکھیں ۔
جانوروں کو پیدا فرمایا اور ان میں خواہشات و شہوات رکھیں مگر عقل نہیں دی ، سوائے اک محدود سی عقل کے۔
اور انسان کو پیدا فرمایا تو اس کو عقل سے بھی نوازا اور اس میں خواہشات و شہوات بھی رکھیں۔ پس اگر انسان کی عقل اس کی خواہشات پر غالب آگئی تو اس نے اپنی فضیلت ثابت کر دی اور اس کا شمار فرشتوں کی طرح ہوگا۔
لیکن اگر اس کی شہوات اور خواہشات اس کی عقل پر غالب آگئیں تو اس نے اپنی قضیات کھو دی اور اس کا شمار جانوروں کی طرح ہوگا، بلکہ (بل هم اضل) قرار پائے گا کہ وہ جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا ہے، کیونکہ جانور اگر اپنی خواہشات میں مگن ہیں تو ان کے پاس ایک عذر موجود ہے کہ انہیں عقل نہیں دی گئی، جبکہ انسان کو تو عقل بھی دی گئی ہے جو کہ صحیح اور غلط میں فرق و تمیز کرتی ہے۔ اچھے اور برے اور نفع و نقصان کی پہچان کراتی ہے۔ تو انسان کے اپنی فضیلت ثابت کرنے اور اپنی فضیلت کھونے کو ایک اس انداز میں بھی بیان فرمایا گیا کہ:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا) (الشمس:9-10)
’’یقینًا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کر لیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔‘‘
تو انسان جیسا کہ گزشتہ جمعہ عرض کیا تھا کہ معاشرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور اپنی حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ایک خود ساختہ معیار کی روشنی میں، جبکہ حقائق کی روشنی میں اور اسلام کے مقرر کردہ اصول وضوابط کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو نتائج مختلف ہوتے ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی حیثیت کا معیار اس دنیا میں اور آخرت میں لوگوں کے بنائے ہوئے معیار سے مختلف ہے۔
اس وقت ہم اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے، صرف صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تابعین عظام اور علماء کرام رحمہم اللہ کے چند پر حکمت اقوال کا تذکرہ کریں گے۔ ان شاء اللہ
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((النَّاسُ ثَلَاثَةٌ))
’’حیثیت کے اعتبار سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں ۔‘‘
((فَعَالِمٌ رَبَّانِي))
’’عالم ربانی، یعنی دین کا علم رکھنے والا عالم ‘‘
((وَمُتَعَلِّمٌ عَلٰى سَبِيْلِ نَجَاةٍ))
’’اور نجات کی غرض سے علم حاصل کرنے والا طالب علم ‘‘
وَهَمَجٌ رُعَاعٌ، أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقِ)) (تاریخ دمشق، ج:5، ص:251)
’’اور تیسرا احمق و نادان عامّی جوہر ہانک لگانے والے کے پیچھے چل نکلنے والا ہے ۔‘‘
یعنی لوگوں کی صرف یہی تین قسمیں ہیں، ان سے باہر کوئی انسان نہیں، ان کے علاوہ کوئی اپنے آپ کو چاہے کچھ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرے اور چاہے کسی بھی حیثیت کا دعوی کرے مگر حقیقت میں لوگوں کی صرف یہی تین قسمیں ہیں، چوتھی کوئی نہیں، لہٰذا کوئی اپنی حیثیت جاننا چاہے تو ان تینوں میں اپنے آپ کو ڈھونڈے کہ آدمی کی چوتھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یعنی فضیلت کے اعتبار سے سب سے مقدم عالم ربانی ہے کہ جسے دوسروں کی خیر خواہی مطلوب ہے، اور دوسرے نمبر پر وہ جسے اپنی خیر خواہی مطلوب ہے، اور اپنی نجات کی فکر ہے۔ لہٰذا اس کے لیے وہ مقدور بھر کوشش کرتا ہے، لیکچر ز سنتا ہے، کتاب پڑھتا ہے، دین کے مسائل معلوم کرتا ہے، کیونکہ اسے اپنی نجات کی فکر ہے۔ اور تیسرا شخص تین میں نہ تیرہ میں، اس کی کوئی حیثیت نہیں، وہ ہر اس شخص کے ساتھ ہے جس کا نعر ہ اسے پسند آ گیا۔
((أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقِ))
’’وہ ہر ہانکنے والے کی پکار پر چلا جاتا ہے۔‘‘
جس طرح چرواہا آواز لگاتا ہے تو بھیڑ بکریاں اس کی آواز کے مطابق چلنے لگتی ہیں، انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کہا ہے، بس صرف آواز کے پیچھے چلتے ہیں۔ وہ کہے مظاہر و کرو، مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں، وہ کہے توڑ پھوڑ کر وہ تھوڑ پھوڑ کرنے لگ جاتے ہیں، وہ کہے ہڑتال کرو ہڑتال کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ اس نے صحیح کہا ہے یا غلط ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((فَإِنَّهُمُ الْأَكْثَرُونَ عَدَدًا، أَلْاَقَلُّوْنَ عِنْدَ اللهِ قَدْرًا))
’’ایسے لوگ تعداد میں زیادہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں قدر و قیمت میں کم ہیں۔‘‘
((وَهُمْ حَطَبُ كُلِّ فِتْنَةِ))
’’ایسے ہی لوگ ہر فتنے کا ایند حسن ہوتے ہیں۔‘‘
((بِهِمْ تُوقَدُ، وَيُشَبُّ ضِرَامُهَا))
’’انہی سے آگ لگائی جاتی ہے اور انہی سے بھڑ کائی جاتی ہے ۔‘‘
((وَهٰؤُلاءِ مِنْ أَضَرِّ الْخَلْقِ عَلَى الْأَدْيَانِ)) (مفتاح دار السعادة، ج:1، ص:359)
’’اور یہی لوگ ادیان کے لیے سب سے خطر ناک اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ‘‘
اور امام ابن القیم رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کی تشریح کرتے ہوئے آخر میں فرمایا:
((فَإِنَّ الرَّجُلَ إِمَّا أَنْ يَّكُونَ بَصِيرًا))
’’کہ آدمی یا تو صاحب بصیرت و بصارت ہوتا ہے، یعنی صاحب علم اور دانا و بینا ہوتا ہے۔‘‘
((أَوْ أَعْمٰى مُتَمَسِّكًا بِبَصِيْرٍ يَقُوْدُهُ))
’’یا وہ خود تو نا بینا ہے مگر کسی بینا کا ہاتھ تھام رکھا ہوتا ہے، جو اس کی رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔
((أوْ أَعْمٰى يَسِيرُ بِلا قَائِد)) (مفتاح دار السعادة لابن القيم ، ج:1 ، ص:362)
’’یا دو نا بینا بھی ہوتا ہے اور بغیر کسی قائد و رہنما کے بھی چل رہا ہوتا ہے۔‘‘
اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسے شخص کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس لیے امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
((لَوْلَا الْعُلَمَاءُ لَكَانَ النَّاسُ كَالْبَهَائِم))( سنن الصالحين وسنن العابدين لأبي الوليد الباجي، ص:249، رقم:851)
’’ اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ چو پاؤں کی طرح ہوتے ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تو لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے، اپنی اپنی قسم ان میں سے تلاش کریں، ان تینوں میں سے ہم کسی نہ کسی ایک میں ضرور موجود ہوں گے۔ مشہور تابعی امام ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ نے انہی اقسام کو ایک دوسرے انداز میں پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ فرمایا:
إِذَا مَا مَاتَ ذُو عِلْمٍ وَ تَقْوٰى
فَقَدْ ثُلِمَتْ مِنَ الإسلام ثُلْمَة
’’جب کوئی صاحب علم و تقوی فوت ہوتا ہے تو اسلام میں اک دراڑ پڑ جاتی ہے۔‘‘
وَ مَوْتُ الْحَاكِمِ العَدْلِ الْمُوَلَّى
بِحُكْمِ الشَّرْعِ مَنْقَصَةٌ وَنِقْمَة
’’اور ایک عادل حکمران کا فوت ہونا جو شریعت کے حکم کے مطابق حکومت کرتا ہو، نقص اور نقمت ہے۔‘‘
وَمَوتُ الْعَابِدِ القَوّامِ لَيْلًا
يُنَاجِي رَبَّهُ فِي كُلِّ ظُلمَة
’’اور عابد و زاہد، شب زندہ دار اور تہجد گزار کا فوت ہونا بھی جو رات کی تاریکی میں اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے۔‘‘
وموت فتًي كثير الجود محلٌ
فَاِنَّ بقاءهُ خير ونعمة
’’اور کثیر السخاوت نوجوان کی موت جدْب و قحط سالی ہے، اور اس کی زندگی اور بقا خیر اور نعمت ہے۔‘‘
وَمَوتُ الْفَارِسِ الضِّرْغَامِ هَدْمٌ
فَكَمْ شَهِدَتْ لَهُ فِي الحرب عزمة
’’ اور اک شیر شہوار کی موت شکستگی اور تباہی ہے، میدان جنگ میں اس کے کتنے ہی فیصلہ کن مواقف اس کی گواہی دیتے ہیں۔‘‘
فحسبك خمسة يبكي عليهم
وباقي النَّاسِ تَخْفِيفٌ ورحمة
’’بس یہ پانچ ہی ہیں جن پر آنسو بہائے جاتے ہیں، ان کے علاوہ جو ہیں ان کے فوت ہونے سے زمین کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ اور بندوں کے لیے اللہ تعالی کی رحمت ہے۔‘‘
وباقي النَّاسِ هَمَجٌ رُعَاعٌ
وفي إيجادهم لله حكمة.( طبقات الشافعية، للسيكي، ج:8، ص:100)
’’اور باقی لوگ عامی اور احمق و نادان ہیں، انہیں پیدا کرنے میں اللہ کی حکمت ہے۔‘‘
ان اشعار کی تشریح کا تو یہ مقام نہیں ہے، البتہ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں اپنی حیثیت معلوم کرنا ہو تو ان مذکورہ پانچ صفات میں اپنے آپ کو تلاش کریں، اگر ان میں نہیں ہیں۔ تو پھر جان لیں کہ آپ اللہ کی زمین پر بوجھ ہیں اور اس کے بندوں کے لیے باعث اذیت ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی جب فوت ہوتا ہے تو یا تو وہ مستریح ہوتا ہے یا مستراح منہ ہوتا ہے، یعنی یا تو اس کی دنیا کی پریشانیوں سے جان چھوٹ جاتی ہے یا اس کے شر سے لوگوں کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ ہم کون سی قسم میں سے ہیں۔
ان اشعار میں امام ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ نے جو یہ فرمایا کہ
فحسبك خمسة يبكى عليهم
وباقي النَّاسِ تَخْفِيفٌ ورحمة
’’بس یہ پانچ ہی ہیں جن پر رویا جاتا ہے، اور باقی لوگوں کا جانا زمین کا بوجھ ہلکا ہوتا اور لوگوں کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے۔‘‘
تویقینًا کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی موت پر زمین و آسمان روتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی موت پر اللہ کی مخلوق سکھ کا سانس لیتی ہے۔
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ جو ایک بہت بڑے عالم اور تابعی تھے، روایت کرتے ہیں کہ:
((آتَى ابْن عَبَّاسٍ رضي الله عنهما رَجُلٌ ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ . فَهَلْ تَبْكِي السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ عَلَى أَحَدٍ؟))
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اس نے کہا: اے ابوالعباس! آپ کا الله عز وجل کے اس فرمان کے متعلق کیا خیال ہے پھر نہ ان پر آسمان اور زمین روئے اور نہ وہ مہلت دیے گئے۔ تو کیا کسی شخص پر آسمان اور زمین روتے ہیں؟‘‘ ((قَالَ نَعَمْ: إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ إِلَّا لَهُ بَابٌ فِي السَّمَاءِ يَنزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ، وَفِيهِ يَصْعَدُ عَمَلُهُ))
’’آپ نے فرمایا: جی ہاں ! مخلوق میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر آسمان میں اس کا ایک دروازہ ہے اس سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے اور اس میں اس کا عمل چڑھتا ہے۔ ((فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ فَاُغْلِقَ بَابُهُ فِي السَّمَاءِ الَّذِي كَانَ يَصْعَدُ فِيهِ عَمَلُه، ويَنزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ ، بَكَى عَلَيْهِ))
’’چنانچہ مومن بندہ جب فوت ہوتا ہے تو آسمان میں اس کا وہ دروازہ جس میں اس کا عمل چڑھتا اور اس سے اس کا رزق اترتا تھا بند کر دیا جاتا ہے تو وہ اس (آدمی) پر روتا ہے۔ ((وَإِذَا فَقَدَهُ مُصَلَّاهُ مِنَ الْأَرْضِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّيهَا فِيهَا، وَيَذْكُرُ اللهَ فِيهَا بَكَتْ عَلَيْهِ))
’’اور جب زمین میں سے اس کی جائے نماز اسے کم پاتی ہے کہ جہاں وہ نماز پڑھتا اور اللہ کا ذکر کرتا تھا تو زمین کا وہ حصہ اس پر روتا ہے۔‘‘
((وَإِنَّ قَوْمَ فِرْعَوْنَ لَمْ يَكُن لَهُمْ فِي الأَرْضِ آثار صالحة ، وَلَمْ يكُن يَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ مِنْهُمْ خَيْرٌ، قَالَ: فَلَمْ تَبكِ عَلَيْهِم السَّمَاءُ وَالأَرْضِ)).( شعب الإيمان للبيهقي:3018)
’’اور بے شک قوم فرعون کے لیے زمین میں کوئی نیک آثار نہیں تھے اور نہ ان کے لیے آسمان میں کوئی بھلائی چڑھی ہے لہذا وہ ان پر نہیں روئے ۔‘‘
بہر حال مال و دولت، عزت و عظمت اور فضل و شرف کا معیاریقینًا نہیں ہے۔ دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں معیار نہیں ہے وہ تو آل فرعون کے پاس بھی بہت تھیں۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ۝۲۵ وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ۝۲۶ وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ۝۲۷ كَذٰلِكَ ۫ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۝۲۸ فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠۝۲۹﴾ (الدحان:25 تا 29)
’’ وہ کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے، کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے ، اور میش و عشرت کا سامان کے جن میں وہ مزے کر رہے تھے، مگر اس کا انجام کچھ یوں ہوا کہ ہم نے ان سب چیزوں کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا، اور پھر ان پر آسمان رویا اور نہ زمین، اور نہ ہی وہ ذراسی بھی مہلت دیے گئے ۔‘‘
اس لیے دین کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑیں کہ یہی دنیا اور آخرت میں حقیقی شرف و فضلت کا سبب ہے، اور یہی حقیقی مقام و مرتبہ ہے۔
……………………