اولاد کے حقوق
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا أُولٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرٌّا ومُقَاماً) (سورة الفرقان: 74تا -77)
’’رحمان کے بندے وہ ہیں جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند بالا خانے دیئے جائیں گئے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔‘‘
اولاد کے لئے ہر مخلص کو خواہش ہوتی ہے حتی کہ نبیوں نے بھی طلب اولاد کے لئے دعا مانگی ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ دعا مانگی تھی۔
﴿رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ﴾ (ال عمران: 38)
’’اے پروردگار! تو عطا فرما اپنی جانب سے نیک اولاد تو ہی تو دعاؤں کا سننے والا ہے۔‘‘
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی:
﴿رَبِّ هَبْ لِّي مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (الصافات: 100)
’’اے اللہ! تو ہمیں نیک اولاد عطا فرما۔‘‘
نیک اولاد اللہ تعالٰی کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جسے قرہ عین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کیا گیا ہے، جن کے یہاں ہوتی ہے وہ بہت خوش و خرم رہتے ہیں اور جن کے اولاد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اسی صدمہ میں پڑے رہتے ہیں، چہرے پر پژمردگی چھائی رہتی ہے نہ چہرے پر مسرت کے آثار ہیں، نہ گھر میں چہل پہل اور خوشی ہے، کیونکہ دل کا سرور اور قرۃ العیون نہیں ہے اور جب اولاد ہو جاتی ہے تو گویا سب نعمتیں مل جاتی ہیں، ماں حمل میں بڑی تکلیف اٹھاتی ہے اور وضع حمل کے وقت بھی بڑی پریشانی اٹھاتی ہے اور جب اولاد ہو جاتی ہے تو گویا سب نعمتیں مل جاتی ہیں اور بچے کی پرورش میں سالوں مشقت برداشت کرتی ہے باپ کو بھی بڑی محنت اور جفا کشی کرنی پڑتی ہے جب یہ نعمت یعنی بچہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائے، تو جب اسے صاف ستھرا کر کے نہلا دھلا چکیں تو دیندار آدمی سے اس کے دائیں کان میں اذان دلائیں اور بائیں کان میں تکبیر کہلوائیں پھر اس کے بعد تحنیک کریں، یعنی کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجور وغیرہ چبا کر بچے کے تالو میں لگادیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں:
(يُؤْتَى بِالصّبْيَانِ فَيُرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَّنِكُهُمْ)[1]
’’کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچوں کو لایا جاتا۔ آپ ان کے حق میں برکت کی دعا کرتے اور ان کے تالو میں کھجور چبا کر لگا دیتے۔“
حضرت اسماء بنت ابی بکر ﷺ کے بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس بچہ کو رسول اللہ ﷺ کی گود مبارک میں دے دیا آپ ﷺ نے کھجور چبا کر اس کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا اور اس کے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔[1]
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش کے وقت آپ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی تھی۔[3]
(2) بچے کی پیدائش پر خوشی ہوتی ہے یعنی عمومًا لڑکوں کے پیدا ہونے پر لوگ خوش ہوتے ہیں اور لڑکیوں کی پیدائش کے وقت ناخوش ہوتے ہیں یہ مشرکانہ اور جاہلانہ رسم ہے قرآن مجید میں ان کی اس حماقت کو یوں بیان کیا ہے:
﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثٰى ظَلَّ وَجْهَهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ﴾ (النحل: 58)
’’اور جب ان میں سے کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو غم کی وجہ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الطهارة، باب حكم بول الطفل الرضيع و كيفية غسله.
[2] بخاري: كتاب مناقب الانصار، باب هجرة النبىﷺ و اصحابه الى المدينه.
[3] ابوداؤد: كتاب الأدب، باب الصبى يولد فيؤذن في أذنه: (488/4)
[4] ترمذي: کتاب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود: (62/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا منہ کالا ہو جاتا ہے اور غصہ میں بھر جاتا ہے۔‘‘
حقیقت میں ان لوگوں کی نادانی ہے لڑکا اور لڑکی دونوں کا خالق خدا ہے اور دونوں رحمت کا سبب بنتے ہیں جس طرح لڑکوں سے فائدہ کی امید ہوتی ہے لڑکیوں سے بھی اس کی توقع ہو سکتی ہے، جن لڑکوں کے پیدا ہونے پر خوش ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ ان کے حق میں برے ثابت ہوں اور جن لڑکیوں کی پیدائش سے ناخوش ہوتے ہیں وہ ان کے حق میں باعث خیر و برکت ثابت ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿ وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠ ﴾ (البقرة: 216)
’’یعنی کیا تعجب ہے کہ جس چیز کو تم برا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جس چیز کو اچھا سمجھتے ہو وہ تمہارے لئے بری ہو خدا ہی خوب جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔‘‘
یعنی کہ ان دونوں لڑکوں اور لڑکیوں میں کون زیادہ نفع بخش ثابت ہوتا ہے اور کون زیادہ نقصان دینے والا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿اٰبَائُكُمْ وَاَبْنَائُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ أَيُّهُمُ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا﴾ (النساء:11)
’’ تم اپنے باپ بیٹوں میں سے یہ نہیں جانتے کہ نفع پہنچانے میں سب سے زیادہ کون قریب ہے۔‘‘
بعض دفعہ لڑ کے ہی تکلیف اور نقصان کا سبب بنتے ہیں اور لڑکیاں خیر و برکت کا سبب بنتی ہیں۔ حدیثوں میں لڑکیوں کی پرورش کی بڑی تعریف آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کو بالغ ہونے تک پرورش کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔[1]
بچے کی پیدائش کے بعد اگر ماں کے دودھ ہے اور وہ پلانے کے لئے خوشی سے تیار ہے تو وہی پلائے کیونکہ دودھ میں اچھائی اور برائی کا اثر ہے۔
بچہ کے پیدا ہونے کے ساتویں روز بچہ کے سر کے بالوں کو منڈا کر چاندی کے برابر تول کر اس چاندی کو صدقہ و خیرات کر دینا چاہئے اور اس کے بعد اللہ کے نام پر بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے جیسا کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا:
(كُلُّ غُلَامٍ رَهِيِّنٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذَبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهٖ وَيُسَمَّى فِيْهِ وَيُحَلَّقُ رَأْسُهُ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب البر والصلة، باب فضل الاحسان الى البنات: 6695)
[2] ابو داود: كتاب الأضاحي، باب في العقيقة: 65/3، ترمذى: كتاب الأضاحي: (364/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہے ساتویں روز اس کی طرف سے کوئی جانور ذبح کیا جائے اور اسی دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بالوں کو مونڈ دیا جائے۔“
عقیقہ اس جانور کو کہتے ہیں، جو نو زائیدہ بچے کی طرف سے خدا کے شکریہ میں ذبح کیا جاتا ہے لڑکے کی جانب سے دو جانور خواہ بکری اور بکرا ہوں یا دونوں ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک ہو رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا:
(عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَتَتَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ)[1]
’’لڑکے سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جائے۔‘‘
عقیقہ کے دن بچے کا کوئی اچھا سا اسلامی نام رکھو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: سب سے زیادہ پسندیدہ نام اللہ کے نزدیک عبداللہ، عبدالرحمن ہیں۔ اگر کسی کا اچھا نام نہیں ہے تو اس کو بدل کر اچھا نام رکھ لینا چاہئے، عقیقہ میں مذکورہ بالا کام مسنون ہیں لیکن بعض جگہ اس عقیقہ میں بھی ناجائز رسمیں ادا کی جاتی ہیں ان کو معلوم کر کے چھوڑنے اور چھڑانے کی کوشش کرو۔
بچہ کا ختنہ کرنا بھی سنت ہے اس سنت پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے اس زمانے میں یہ گویا شعار اسلام سے ہے۔ اس سے مسلمان غیر مسلمان سے پہچانا جاتا ہے اس لئے بعض لوگ ختنہ کو مسلمانی کہتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی (80) برس کی عمر میں اپنے ہاتھ سے اپنا ختنہ کیا تھا۔
اگر کسی وجہ سے نابالغی کی حالت میں ختنہ نہیں ہو سکا تو بلوغت کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے ختنہ کے موقعہ پر بھی بہت سی خراب رسمیں ادا کی جاتی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے جیسے ختنہ کی دعوت اور ناچ اور گانا بجانا وغیرہ۔
حضانت اور پرورش کا حق مال ہی کو ہے۔ اپنے بچے کو صحیح طور پر وہی پرورش کر سکتی ہے وہی دودھ پلائے اور بدن اور کپڑے وغیرہ کی صفائی کرے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ؕ وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ۗ وَ عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۲﴾ (البقرة: 233)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: باب ماجاء في العقيقة: (3620/2)
[2] مسلم: كتاب الأداب، باب النهى التكنى بابى القاسم و بيان ما يستحب من الاسماء (206/2)
[3] بخاري: كتاب الاستئذان باب الختان بعد الكبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مائیں اپنی اولادوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراد ہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کی روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور ہو، ہر شخص کو اس کی حیثیت کے مطابق تکلیف دی جاتی ہے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے۔ وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پس اگر دونوں یعنی ماں باپ اپنی رضا مندی اور باہمی مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوا لینے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ تم مطابق دستور جو ان کو دینا ہو ان کے حوالے کر دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔‘‘
(1) ماں کا بچے کو دودھ پلانا ایک فطری محبت کی بنا پر ہے اسی طرح سے صفائی کرنا بھی ہے یعنی روزانہ بچے کا ہاتھ منہ دھونا اور بدن صاف رکھنا ضروری ہے۔
(2) پیشاب پاخانے کے بعد فورًا ہی پانی سے اس جگہ کو دھو ڈالنا ضروری ہے صرف کپڑے اور چیتھڑے سے پونچھنے پر بس نہیں کرنا چاہئے اس سے بچے کے بدن میں خارش ہوتی ہے اگر سردی کا موسم ہے تو معمولی گرم پانی سے استنجا کرانا چاہئے۔
(3) گرمی کے زمانے میں بچے کو روزانہ نہلانا چاہئے، اس سے صفائی کے علاوہ چستی رہے گی اور صحت اچھی رہے گی اور سردیوں سے گرم پانی سے گاہے گاہے ضرور نہلا نا چاہئے اور صابون سے نہلانا ضروری ہے۔
(4) کبھی کبھی تیل وغیرہ سے بدن کی مالش بھی کر دینا چاہئے اس سے اعضاء مضبوط ہو جاتے ہیں۔
(5) حتی الامکان بچے کو اپنے سے علیحدہ دوسری جگہ چار پائی پر سلایا جائے اور برابر اس کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے دونوں جانب تکئے رکھ دیئے جائیں تاکہ بچہ گرنے نہ پائے اور بچے کی کروٹیں بدلتی رہنا چاہئے؟ اپنے ساتھ سلانے میں تکلیف اور دب جانے کا اندیشہ ہے۔
(6) بچے کو ماں ہی دودھ پلائے ماں کا دودھ بچے کے لئے زیادہ مناسب ہے دودھ پلانے کے لیے وقت کا خیال رکھنا چاہئے جب وہ روئے فوراً اسی وقت دودھ پلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، بعض ناتجربہ کار عورتیں رونے سے دودھ پلانے لگتی ہیں یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ بے زبان ہوتا ہے اپنے آرام و تکلیف کو نہیں کہہ سکتا، بعض دفعہ کسی تکلیف سے یا پیٹ کے درد سے روتا ہے تو ایسی صورت میں دودھ دینے سے تکلیف زیادہ ہو گی اگر کسی انا کا دودھ پلانا ہے تو نیک خلیق دیندار اور تندرست انا کا دودھ پلانا چاہئے۔
(7) بچے کو زیادہ دیر تک گود میں نہیں لے رکھنا چاہئے ورنہ اس کا عادی ہو جاتا ہے یہ اس کے حق میں نقصان دہ ہے اور اس سے عموماً صحت خراب ہو جاتی ہے اس کو کسی نرم بستر پر سلاد دینا چاہئے وہ خود بخود پاؤں کی حرکت سے ورزش کرے اس سے اس کے ہاتھ پاؤں مضبوط ہو جائیں گے۔
(8) بچے کو کسی چیز سے ڈرانا نہیں چاہئے، بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ روتے ہوئے بچے کو کسی چیز کا نام لے کر چپ کرانا چاہتی ہیں، بعض مرتبہ بچہ ڈر کر خاموش بھی ہو جاتا ہے یہ بہت بری عادت ہے اس سے بچہ ڈرپوک اور کمزور ہو جاتا ہے اور زندگی بھر کے لئے بزدل ہو جاتا ہے۔
(9) بچے کو سلانے کے لئے افیون وغیرہ نہیں دینا چاہئے، بعض عورتیں بچے کے سلانے کے لئے یہ تدبیر کرتی ہیں کہ اسے معمولی ہی افیون چٹا دیتی ہیں، تاکہ وہ نشے میں چپ چاپ پڑا رہے یہ بہت بری عادت ہے زندگی بھر کا افیونی بن جائے گا اور ساری زندگی خراب ہو جائے گی۔
(10) بچے کو زیادہ بناؤ سنگار نہیں کرنا چاہئے، معمولی اور سادہ لباس پہنانا چاہئے اور صاف ستھرا رکھنا منہ ناک کو برابر صاف کرتے رہنا چاہئے۔
(11) جب بچہ کچھ سمجھدار ہو جائے اور کھانا کھانے لگے تو اگر وہ اپنے ہاتھ سے کھا پی سکتا ہے تو اس کو داہنے ہاتھ سے کھانے کی عادت ڈلواؤ تو زندگی بھر یہی عادت پڑی رہے گی۔
(12) بچپن میں بچوں کو کھیل کا زیادہ شوق ہوتا ہے تو اس میں ان کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے لیکن برے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے روکنا چاہئے تاکہ برائی کا اثر نہ پڑنے پائے۔
(13) سمجھدار بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور سائلوں کو کھانا اور روپیہ پیسہ دلائیں تاکہ ان کو بھی دینے کی عادت پڑ جائے۔
(14) جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسم کھانے سے بچے کو ہمیشہ بچاتے رہو اور اس پر اسے تنبیہ اور خدا کے خوف سے ڈراتے رہو اور چوری چغلی اور دیگر بری باتوں سے نفرت دلاتے رہو۔
(15) سات برس کی عمر میں نماز کی تاکید کرو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مُرُوا أولادَكُمُ بِالصَّلوةِ وَهُمْ أَبْنَاء سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ) [1]
’’جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیں اور دس برس کی عمر میں اگر نماز نہ پڑھیں تو ان کو ماریں اور ان کو الگ الگ سلائیں۔‘‘
(16) قرآن مجید اور دینی کتابوں کی تعلیم دیں اور ادب اور تہذیب کی باتیں سکھائیں اچھا ادب صدقہ اور خیرات کرنے سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
(17) بچے کو اچھی تعلیم دینا دلانا ماں باپ کا فرض ہے اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے خواہ اس کی تعلیم میں کتنی ہی تکلیف برداشت کرنا پڑے اور کتنی ہی رقم خرچ کرنی پڑے حضرت امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے مشہور محدث اور عالم گزرے ہیں، جو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے بچپن کے زمانے میں ان کے والد کسی سفر میں چلے گئے چلتے وقت ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کو تیس ہزار اشرفیاں دے گئے تھے حضرت ربیعہ کی والدہ نے اپنے بچے کی اچھی تعلیم اور اچھی تربیت کے لے نیک عالموں اور بڑے بڑے محدثوں اور ادیبوں کے پاس بٹھایا اور بچے کی تعلیم و تربیت میں تیس ہزار اشرفیاں ختم کر دیں، حضرت ربیعہ لکھ پڑھ کر فارغ ہو گئے، تو ربیعہ کے والد ایک عرصہ کے بعد تشریف لائے تو بیوی سے دریافت کا کہ وہ تیس ہزار اشرفیاں کہاں ہیں؟ بیوی نے کہا بہت حفاظت سے رکھی ہیں، پھر جب مسجد میں آئے تو اپنے بیٹے امام ربیعہ کو دیکھا کہ درس حدیث کی مسند پر بیٹھے ہیں اور محدثین کو درس دے رہے ہیں اور لوگ ان کو اپنا امام اور پیشوا بنائے ہوئے ہیں، تو مارے خوشی کے پھولے نہ سمائے۔ جب گھر واپس تشریف لائے تو بیوی نے کہا کہ وہ تمام اشرفیاں تمہارے بیٹے کی تعلیم پر خرچ ہو چکی ہیں۔ آپ نے اب اپنے صاحبزادے کو دیکھ لیا ہے اب فرمائیے کہ آپ کی تیس ہزار اشرفیاں اچھی ہیں یا یہ دولت جو صاحبزادے کو حاصل ہوئی ہے تو وہ فرمانے لگے، بخدا اس عزت کے مقابلے میں اشرفیوں کی کیا حقیقت ہے، تم نے اشرفیوں کو ضائع نہیں کیا۔ ( تاریخ خطیب جلد 8 ص 422٬421)
بس جو آپ بچے کی تعلیم پر خرچ کرو گئے وہ ضائع نہیں ہوگا، بچوں کو قرآن مجید اور دینی کتابوں کی سب سے پہلے تعلیم دلاؤ تاکہ شروع ہی سے دین کا اثر پڑے جس کا اثر بڑھاپے تک رہے گا جو لوگ شروع ہی سے دنیاوی علوم کی تعلیم دلاتے ہیں وہ بچے عموما دیندار نہیں ہوتے کیونکہ علم کا اثر ہوتا ہے اگر بچے کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جائے تو اس کا اثر ہوگا، اور صرف دنیا کی تعلیم دی جائے تو اس کا اثر ہونا ظاہر ہے کیونکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داؤد: کتاب الصلاة باب متى يومر الغلام بالصلاة (185/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر دینی کتابوں میں بہت سی باتیں خلاف شرع ہوتی ہیں، بچہ پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہے بچے فطرۃ معصوم اور بہت صاف ستھرے ہوتے ہیں، جس رنگ میں ان کو رنگ دیا جاتا ہے وہی رنگ ہمیشہ قائم رہتا ہے اگر نیکیوں کے رنگ میں رنگا گیا تو ہمیشہ نیکی کا رنگ باقی رہے گا اور اگر برائیوں کے رنگ میں رنگا گیا تو اس کا اثر قائم رہے گا سچ ہے۔
﴿صِبْغَةَ اللهِ، وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً﴾ (البقرة: 138)
’’اور اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ اس سے زیادہ اچھا رنگ کس کا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
(كُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَاَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهٖ)[1]
’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو یہودی عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘
بچے چونکہ نقال ہوتے ہیں ماں باپ کے لئے اور استاد کو جس روش پر پاتے اور دیکھتے ہیں وہی طریقہ اختیار کر جاتے ہیں اور یہی نیک بچے ماں باپ کے لئے نیک دعائیں کرتے رہیں گئے جو مرنے کے بعد کار آمد ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُولَه)[2]
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد ان کاموں کا ثواب مسلسل جاری نہیں رہتا، مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا بلکہ ان کا ثواب برابر جاری رہتا ہے (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرتی ہے۔“
اور اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیں گے تو یہی بچے دنیا و آخرت میں ان کے لئے مفید اور کار آمد ثابت ہوں گے اور ماں باپ اور سر پرستوں کے ذمہ نہایت ضروری ہے کہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ناشائستہ باتوں سے بچاتے رہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۶﴾ (التحريم: 6 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبي فمات هل يصلى عليه (181/1)
[2] مسلم: كتاب الوصية باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته (41/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم کہا جائے بجالاتے ہیں۔‘‘
یعنی خود بھی ایسا کام کرو جس سے جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچا لو، والدین اور سر پرستوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اگر اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا گیا، تو آخرت میں بھی سخت باز پرس ہوگی ماں باپ ہی اولاد کو بگاڑتے اور بناتے ہیں اس لئے اولاد کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِى عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَّسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)[1].
’’سنو! تم سب اپنی رعیت کے محافظ ہو اور تم سب سے رعیت کی بابت پوچھا جائے گا، تو حاکم جو لوگوں کی اصلاح کے لئے مقرر کیا گیا ہے رعیت کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعیت کے احوال سے پو چھا جائے گا مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعیت یعنی اہل خانہ کی بابت پوچھا جائے گا عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی محافظ ہے اور اس سے ان کی بابت سوال کیا جائے گا آدمی کا غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت دریافت کیا جائے گا۔ سنو! تم سب کے سب راعی ہو اور تم سب اپنی رعیت کی بابت سوال کئے جاؤ گے۔“
یعنی ہر مسلمان کی ذمہ داری دہری ہے ایک تو وہ اپنے آپ کو ناپسندیدہ کاموں سے بچائے تاکہ آخرت میں اس کی پکڑ نہ ہو سکے اور دوسرے اپنے اہل و عیال کو ہر بری بات سے بچاتا رہے، جس سے دنیا و آخرت میں ان کو نقصان نہ پہنچے اسی طرح سے ہر ایک ذمہ دار اپنے ماتحت لوگوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہے، خصوصا اولاد کی بہت بڑی ذمہ داری ہے آئندہ نسلوں کا بگاڑ اور سدھار موجودہ نسلوں کے بگاڑ اور سدھار پر موقوف ہے اس میں ہر ماں باپ کا اور مربی اور سر پرست کا امتحان و آزمائش ہے اگر ان بچوں کو بنالیا تو کامیاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاحكام باب قول الله اطيعوا الله، مسلم كتاب الامارة باب فضيلة الإمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو گئے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۱۴ اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۱۵ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱ ﴾ (التغابن: 14 – 16)
’’اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں، خبر داران سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالی بخشے والا مہربان ہے تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہی ہے اور بہت بڑا خیر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سختے رہو اور مانتے چلے جاؤ اور راہ خدا میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہت بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔‘‘
یعنی بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد خدا سے روک دیتی ہے ان سے ہوشیار رہو اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو۔ بیوی بچوں اور مال کی خاطر نہ کسی انسان کی حق تلفی کرو اور نہ خدا کی نافرمانی پر تل جاؤ اور نہ ان کی محبت میں پھنس کر خدا کے حکموں کو پس پشت ڈالو تمہارے اہل و عیال اور بال بچے معصیت الہی کا سبب نہ بنیں اور نہ تم کسی ایک بچے کو دو اور دوسرے کو نہ دو، یہ حق تلفی ہو گئی اپنے بچوں کے درمیان بھی عدل و انصاف رکھو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ)[1]
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں انصاف اور برابری رکھو۔“
ظاہری حقوق میں سب برابر ہیں، البتہ باپ کے مرنے کے بعد لڑکے کا دوہرا حصہ اور لڑکی کا اکہرا حصہ ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۱۱﴾ (النساء: 11)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الهبة و فضلها باب الاشهاد في الهبة، ومسلم: كتاب الهبات باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة (37/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو مال متروکہ کی دو تہائی ملے گی اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اسے آدھا ملے گا اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد نہ ہو اور اگر ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے یہ حصہ اس وصیت کے بعد ہے جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ والدین کے مال میں اولاد کا حق ہے اسی طرح والدین کے ذمے یہ بھی ضروری ہے کہ جب وہ شادی و نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے نکاح کا بندو بست کر دیں اگر اس کی طرف توجہ نہیں تو خدانخواستہ کسی ناجائز کام میں مبتلاء ہو گئے تو والدین ہی گناہ گار ہوں گے۔
بعض والدین اپنے بچوں کو بچپن ہی میں کھلانے پلانے اور شادی بیاہ کے خوف سے مار ڈالتے اور زندہ در گور کر دیا کرتے تھے اب اسلام نے اولا د کشی سے منع کر دیا ہے اور یہ فرمایا:
﴿وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا﴾ (اسراء:31)
’’اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے مارنہ ڈالا کرو۔ ہم ہی ہیں جو ان کو اور تم کو روزی دیتے ہیں ان کا مار ڈالنا بے شبہ بڑا گنا ہے۔‘‘
قتل اولاد کے جرم کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کی ممانعت کو شرک کی ممانعت کے پہلو بہ پہلو جگہ دی گئی ہے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم ہوا کہ ان عربوں کو جنہوں نے اپنی طرف سے بہت کی چیز میں حرام بنالی ہیں، بتا دو کہ اصلی چیزیں انسان پر کیا حرام ہیں: ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ ۚ ﴾ (الانعام: 151 )
’’اے پیغمبر! کہہ دے کہ آؤ میں تم کو پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا حرام کیا ہے خدا کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور مفلسی کے ڈر سے اپنے بچوں کو نہ مار ڈالو ہم تم کو اور ان کو روزی دیتے ہیں۔‘‘
موجودہ زمانے میں بھی املاق یعنی محتاجی کے خوف سے برتھ کنٹرول پر زور دیا جا رہا ہے برتھ کنٹرول بھی اسی اولاد کشی میں داخل ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم ہی سب کو روزی پہنچاتے ہیں تم کو بھی اور تمہاری اولاد کو بھی پھر تم فقر و فاقہ کے خوف سے کیوں ایسی حرکت کرتے ہو جو شرعی اعتبار سے اور اخلاقی حیثیت سے جرم عظیم ہے۔ بخاري شریف میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہﷺ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا شرک۔ پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا والدین کی نافرمانی، پھر عرض کیا، اس کے بعد فرمایا یہ کہ تم اپنی اولا د کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گئی یہ جواب حقیقت میں آیت بالا کی تفسیر ہے ان ہی تعلیمات نبوت کے اس پرتو فیض نے والوں میں یہ یقین پیدا کر دیا کہ رازق خدا ہے اس کے ہاتھ میں رزق کی کنجی ہے ہر بچہ اپنے رزق کا سامان لے کر آتا ہے اس ایمان اور یقین نے اس جرم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا اور عرب کی سرزمین اس لعنت سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوگئی برتھ کنٹرول بھی ایک قسم کی اولاد کشی اور زندہ درگور کنی ہے۔[1]
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذَا الْمَوْءُوْدَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ (سورة التكوير: 8 – 9)
’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ گاڑی گئی ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے عزل کے بارے میں دریافت کیا، یعنی ہر وقت نطفہ کو باہر ڈال کر ضائع کر دینا تاکہ حمل ٹھہر نہ پانے یہ کیسا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ واد خفی ہے یعنی پوشیدگی سے اولاد کو مار ڈالنا ہے برتھ کنٹروں میں یہی ہوتا ہے کہ نطفے کو غیر شکل میں پھینک کر ضائع کیا جاتا ہے رحم میں نہیں جانے پاتا تو برتھ کنٹرول اور عزل کا ایک ہی حکم ہے برتھ کنٹرول اور ضبط ولادت اگر جائز ہوتا تو خصی ہونے کی اجازت دی جاتی حالانکہ انسانوں کو خصی ہونے کی ممانعت آئی ہے اور زیادہ سے زیادہ بچے جننے کی ترغیب دی گئی ہے۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب التفسير باب قوله تعالى فلا تجعلوا لله انداداً۔
[2] مسلم: كتاب النكاح باب جواز الغيلة وكراهة العزل (466/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(فَلْيَتَزَوَّجِ الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الَّامَمَ.)[1]
’’تم زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کیا کرو کیونکہ میں قیامت کے روز اپنی امت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسروں پر فخر کروں گا۔“
برتھ کنٹرول میں یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نسلی تحدید کو مختلف طریقے سے غلط قرار دیا ہے وہ بار بار مختلف طریقوں سے یہ بات انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ روزی دینا اس کا کام ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور روزی رسانی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر نہیں ڈالی ہے اور اگر کسی دوسرے پر ڈال دیتا تو وہ جس کو چاہتا روزی دیتا اور جس کو نہیں چاہتا تو روزی نہیں دیتا لیکن اللہ تعالیٰ سب کے لئے روزی پہنچانے کا ذمہ دار ہے خواہ وہ کمائی کرے یا نہ کرے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن عاصی ہو یا مطیع۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ۖؗ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۶۰ ﴾ (عنكبوت: 60)
’’اور کتنے ہی جاندار ہیں کہ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے وہی تم کو بھی رزق دیتا ہے۔‘‘
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۵۸﴾ (سورة الذاريات: 58)
’’در حقیقت اللہ تعالی ہی رزق دینے والا بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘
﴿لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۱۲﴾ (الشورى: 12)
’’آسمانوں اور زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہیں جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِیْنَ۲۰ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗ ؗ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۲۱﴾ (الحجر: 20 – 21)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداود: کتاب النکاح باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء۔ (176/2) نسائي كتاب النكاح باب كراهية تزويج العقيم (63/2) (3229)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور ہم نے زمین میں تمہارے لئے بھی معیشت کا سامان فراہم کیا ہے اور ان دوسروں کیلئے بھی جن کے رزاق تم نہیں ہو کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور ہم ان خزانوں سے جو چیز بھی نازل کرتے ہیں ایک سوچے سمجھے اندازے سے نازل کرتے ہیں۔‘‘
ان حقائق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کے ذمے جو کام ڈالتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے خزانوں سے وہ اپنا رزق تلاش کرنے کی سعی کر کے بالفاظ دیگر رزق دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور ڈھونڈنا انسان کا کام ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی اور برتھ کنٹرول کرنا اولا د کشی اور اولاد کی حق تلفی اللہ تعالیٰ ان حق تلفیوں سے بچائے اور دین حق پر قائم رکھے۔ آمین۔
﴿وَاٰخِر دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾