اولیاء اللہ کے گستاخ کا انجام

اہم عناصر :
❄ولی کسے کہتے ہیں؟ ❄ اولیاء اللہ کے گستاخ کا انجام
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ]فصلت: 31[
ذی وقار سامعین!
توحید اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور شرک سب سے بڑی نجاست ہے ، وہ بندہ کائنات کا خوش قسمت ترین بندہ ہے جو توحید پرست ہے ، اللہ کو ایک ماننے والا ہے، جو بندہ اللہ تعالیٰ سے شرک کرتا ہے اس کی دنیا بھی برباد ہوجا تی ہے اور آخرت بھی۔
شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کوحاجت روا ، مشکل کشااور لائقِ عبادت سمجھنا ، شرک کرنے والے کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ تم قبر پہ جا کر سجدہ کرتے ہو ، فلاں شخص کو مشکل کے وقت پکارتے ہو ، یہ شرک ہے تو کہا جاتا ہے کہ تم اولیاء کے گستاخ ہو۔
اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں اس بات کو سمجھیں گے کہ ولی کون ہوتا ہے؟ ولی کی فضیلت کیا ہے؟ اور گساخِ اولیاء کا انجام کیا ہوتا ہے؟
ولی کسے کہتے ہیں؟
ولی کے معنی لغت میں مددگار ، دوست اور قریب کے ہیں ، اس اعتبار سے اولیاءاللہ کے معنی ہوں گے وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت کی اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا۔
اس تعریف سے پتہ چلا کہ ولی کسی خاص ہیئت اور خاص لباس والے کو نہیں کہتے بلکہ ہر وہ شخص ولی ہے جو توحید پرست ہے ، اللہ کی اطاعت کرنے والا اور گناہوں سے بچنے والا ہے۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” من كان مؤمناً تقيّاً كان لله وليّاً ، ومَن لم يكن كذلك فليس بولي لله ، وإن كان معه بعض الإيمان والتقوى كان فيه شيءٌ من الولاية ” انتهى .
"جو مومن متقی ہو وہ اللہ کے نزدیک ولی ہے ، اور جو ایسا نہ ہو تو وہ اللہ کا ولی نہیں اور اگر اس میں ایمان و تقوٰی کی بعض خوبیاں ہوں تو اس میں ولی ہونے کی بعض چیزیں ہیں۔” ]فتاوى مهمة” :ص83[
انہی اولیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
"سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور بچا کرتے تھے۔ انھی کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔” ]یونس: 64تا62[
❄اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
"اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔” ]البقرہ: 257[
اور حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ قَالَ فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ قَالَ فَيُبْغِضُونَهُ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ
"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، کہا: تو جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتاہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، کہا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل کو بُلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغج رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو، تو جبرئیل اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ے، تم بھی اس سے بغض رکھو، کہا: تو وہ (سب) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے۔” [صحیح مسلم: 6705]
اولیاء اللہ کے گستاخ کا انجام
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں؛
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ترجمہ: بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ ]فصلت: 31-30[
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے دوست ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں ، اس مدد کے کئی طریقے ہیں ، ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے اولیاء کے گستاخوں کو نشانِ عبرت بنادیتے ہیں
جیسا کہ قا علیہ السلام فرماتے ہیں؛
إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔”
[صحیح بخاری: 6502]
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے اولیاء کے دشمنوں سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
گستاخِ رسولﷺبدر کے کنویں میں:
انبیاء کرام علیہم السلام سب سے بڑے ولی ہیں جو ان کی گستاخی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نشانِ عبرت بنا کے رکھ دیتے ہیں ، اس کی صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہﷺخانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور کفار قریش کی ایک جماعت بھی وہاں مجلس لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا؛
أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَى هَذَا المُرَائِي أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلاَنٍ، فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلاَهَا، فَيَجِيءُ بِهِ، ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ
"کیا تم اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا جو فلاں خاندان کی ذبح شدہ اونٹنی کے پاس جائے اور اس کے گوبر، خون اور بچہ دانی کو اٹھا کر لائے؟ پھر اس کا انتظار کرے، جب یہ سجدے میں جائے تو ان تمام چیزوں کو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے؟”
چنانچہ اس جماعت کا سب سے بڑا بدبخت اس کام کے لیے تیار ہوا اور اسے اٹھا لایا۔ پھر جب رسول اللہﷺسجدے میں گر گئے
وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ؟وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا، فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ
تو اس نے سب کچھ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا۔ نبیﷺبحالت سجدہ ٹھہرے رہے اور کافر (رسول اللہ ﷺ کی) اس حالت پر بری طرح ہنستے رہے۔ اور وہ ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرتے جا رہے تھے۔
کسی نے حضرت فاطمہ‬ رضی اللہ عنہا کو اطلاع دی۔ حضرت فاطمہ‬ رضی اللہ عنہا  ا‬س وقت کم عمر بچی تھیں، چنانچہ وہ اطلاع پاتے ہی دوڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہﷺاس وقت سجدے ہی کی حالت میں تھے۔ حضرت فاطمہ‬ رضی اللہ عنہا نے یہ تمام چیزیں رسول اللہﷺکے کندھوں سے دور کر دیں، پھر کفار کی طرف رخ کر کے انہیں سخت برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہﷺنماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ان کے خلاف  بددعا کی؛ «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ»، ثُمَّ سَمَّى: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بْنِ الوَلِيدِ»
 ’’اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ پھر آپ نے نام لے کر بددعا فرمائی: ’’اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل)، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود   فرماتے ہیں؛
فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى القَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ
"اللہ کی قسم! میں نے ان (نامزد) تمام لوگوں کو غزوہ بدر والے دن مردہ حالت میں گرے پڑے دیکھا۔ پھر ان کی لاشوں کو کھینچ کر بدر کے گندے کنویں میں ڈال دیا گیا۔”
رسول اللہﷺنے (ان کے متعلق) فرمایا؛
وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القَلِيبِ لَعْنَةً
’’جو لوگ بدر کے کنویں میں ڈالنے گئے ہیں ان پر اللہ کی لعنت مسلط کر دی گئی ہے۔‘‘
[صحیح بخاری: 520]
ایک سال سے پہلے پہلے۔۔۔۔:
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں؛
رسول اللہﷺنے دس جاسوس بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاری  کو امیر مقرر فرمایا۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلے کا نام بنو لحیان تھا۔ اس قبیلے کے سو تیر انداز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ آخر کار اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کھجوریں کھائی تھیں۔ انہوں نے گٹھلیاں دیکھ کر کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں۔ اب وہ ان کے نشانات قدم پر چلتے رہے۔ جب حضرت عاصم   اور ان کے ساتھیوں نے انہیں دیکھا تو انہوں نے ایک اونچی جگہ پر پناہ لی۔ انہوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ نیچے اترو اور خود کو ہمارے حوالے کر دو۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عاصم   نے کہا: اے ساتھیو! میں ہرگز کسی کافر کی ذمہ داری پر نہیں اتروں گا۔ پھر انہوں نے دعا کی: ’’اے اللہ! اپنے نبی ﷺ کو ہمارے حالات کی خبر دے۔‘‘  پھر کافروں نے انہیں تیر مارنا شروع کر دیے حتی کہ حضرت عاصم   کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے عہد و پیمان پر تین شخص نیچے اترے۔ یہ حضرات حضرت خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں سے تانتیں اتار کر ان کے ساتھ انہیں مضبوط باندھ دیا۔ تیسرے شخص نے کہا: یہ تمہاری پہلی بدشکنی ہے۔ میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے ان مقتول ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے، چنانچہ وہ حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے گئے اور انہیں فروخت کر دیا اور یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے حضرت خبیب   کو خرید لیا کیونکہ انہوں ہی نے حارث بن عامر کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب   کچھ دنوں تک ان کے ہاں قید رہے۔ آخر انہوں نے ان کے قتل کو آخری شکل دی۔ ان دنوں حضرت خبیب   نے حارث کی ایک لڑکی سے استرہ مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کر لیں۔ اس نے استرہ دے دیا۔ اتفاق سے ان کا ایک چھوٹا سا بیٹا (کھیلتے کھیلتے) حضرت خبیب   کے پاس چلا گیا جبکہ وہ اس سے بےخبر تھی۔ جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ انہوں نے اس (بچے) کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت گھبرائی۔ اس نے کہا: میری گھبراہٹ کو محسوس کر کے حضرت خبیب   نے کہا: تمہیں اندیشہ ہے میں اس بچے کو قتل کر دوں گا۔ تم یقین رکھو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ اس خاتون نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! ایک دن میں نے انہیں دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں خوشہ انگور لیے ان کو کھا رہے ہیں، حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ تو اللہ کا بھیجا ہوا رزق تھا جو اس نے خبیب کو عطا فرمایا تھا۔ پھر بنو حارث انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو حضرت خبیب   نے ان سے کہا:مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے مہلت دے دی تو انہوں نے دو رکعات ادا کیں، فراغت کے بعد کہا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں گھبرا گیا ہوں تو میں ضرور نماز لمبی کرتا۔ پھر انہوں نے دعا کی:
للَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا
’’اے اللہ! ان میں ایک ایک کو تباہی سے دوچار کر دے اور ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑ۔‘‘
پھر یہ اشعار پڑھے؛
فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي
وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
” جب میں اسلام پر قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے ۔
اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔ “
اس کے بعد عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت خبیب ہی نے مسلمانوں کے لیے طریقہ جاری کیا کہ قید کر کے قتل کیا جائے تو نماز ادا کرنے کی سنت ادا کرے۔  [صحیح بخاری: 3989- 4086]
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں؛
"جب سیدنا خبیب  نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ایک آدمی بد دعا کےخوف سے زمین پر لیٹ گیا اور
 فَلَمْ يَحُلِ الْحَوْلُ وَمِنْهُمْ أَحَدٌ حَيٌّ غَيْرَ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي لَبَدَ بِالْأَرْضِ
ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان قاتلوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہا سوائے اس ایک شخص کے جو خوف کی وجہ سے زمین پر لیٹ گیا تھا۔”
مجھے حضرت سعد کی بد دعا لگ گئی ہے:
حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر سے حضرت سعد بن ابی وقاص کی شکایت کی تو حضرت عمر نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر نے انہیں بلا بھیجا اور کہا؛
يَا أَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي
"اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔”
انہوں نے جواب دیا؛
أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ العِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيَيْنِ
"اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہﷺکی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔”
حضرت عمر نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ اہل کوفہ سے حضرت سعد سے متعلق شکایات کی تحقیق کریں) انہوں نے وہاں جا کر کوئی مسجد نہ چھوڑی جہاں حضرت سعد کا حال نہ پوچھا ہو۔ سب لوگوں نے ان کی تعریف کی۔ پھر وہ قبیلہ عبس کی مسجد میں گئے تو وہاں ایک شخص کھڑا ہوا جس کی کنیت ابوسعدہ تھی اور اسے اسامہ بن قتادہ کہا جاتا تھا، وہ بولا؛
أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ
"جب تم نے ہمیں قسم دلائی ہے تو سنیں! سعد   جہاد میں لشکر کے ساتھ خود نہ جاتے تھے اور نہ ہی مال غنیمت میں برابر تقسیم کرتے تھے، نیز مقدمات میں انصاف سے کام نہ لیتے تھے۔”
 حضرت سعد نے یہ سن کر کہا؛
أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ
"اللہ کی قسم! میں تجھے تین بد دعائیں دیتا ہوں: اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر دے، اس کی فقیری بڑھا دے اور آفتوں میں پھنسا دے۔”
(چنانچہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب اس سے اس کا حال دریافت کیا جاتا تو کہتا؛
شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ
"میں ایک آفت رسیدہ، دراز عمر بوڑھا ہوں۔ مجھے حضرت سعد   کی بددعا لگ گئی ہے۔” عبدالملک راوی کہتا ہے؛
فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ
"میں نے بھی اسے دیکھا تھا۔ بڑھاپے کی حالت میں اس کے دونوں ابرو آنکھوں پر گرنے کے باوجود وہ راستے چلتی لڑکیوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا پھرتا تھا۔”
[صحیح بخاری: 755]
مجھے سعید بن زید کی بد دعا لگ گئی ہے:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، أَنَّ أَرْوَى خَاصَمَتْهُ فِي بَعْضِ دَارِهِ، فَقَالَ: دَعُوهَا وَإِيَّاهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، طُوِّقَهُ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا، وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا، قَالَ: ” فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا
ترجمہ : حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل نے بیان کی کہ ارویٰ نے ان کے ساتھ گھر کے کسی حصے کے بارے میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا: اسے اور گھر کو چھوڑ دو، (جو چاہے کرتی رہے) میں نے رسول اللہﷺسے سنا تھا، آپ فرما رہے تھے: "جس نے حق کے بغیر ایک بالشت زمین بھی حاصل کی، قیامت کے دن وہ سات زمینوں (تک) اس کی گردن کا طوق بنا دی جائے گی۔” (پھر اس کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر انہوں نے دعا کی) اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کے گھر ہی میں اس کی قبر بنا دے۔
(محمد بن زید نے) کہا: میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی: مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گزر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔[صحیح مسلم: 4133]
قاتلین حسین  کا انجام:
❄عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً ثُمَّ خَرَجَتْ فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ ثُمَّ قَالُوا قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔[ترمذی: 3780 صححہ الالبانی]
❄حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
"جن بد بختوں نے حسین کو شہیدکیا، ان میں سے کم ہی کوئی ہوگا، جو مرنے سے پہلے پہلے کسی مصیبت، آفت یا بیماری میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ اکثر پاگل پن کا شکار ہو کر مرے۔”
[البدایۃ والنھایۃ: 202/8]
گستاخِ عثمان کا انجام:
❄طعمہ بن عمرو رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں؛
ایک شخص سوکھ چکا تھا اور لاغرونحیف ہو کر عبادت سے عاجز آ چکا تھا، اُس سے پوچھا گیا کہ تجھے کیا ہوا؟ کہنے لگا؛
إِنِّي كُنْتُ حَلَفْتُ أَنْ أَلْطُمَ عُثْمَانَ، فَلَمَّا قُتِلَ جِئْتُ فَلَطَمْتُهُ، فَقَالَتْ لِي امْرَأَتُهُ: أَشَلَّ اللَّهُ يَمِينَكَ، وَصَلَّى وَجْهَكَ النَّارَ، فَقَدْ شَلَّتْ يَمِينِي وَأَنَا أَخَافُ.
میں نے قسم کھائی تھی کہ عثمان کو تھپڑ ماروں گا۔ جب وہ شہید ہوئے تو میں نے جاکر انہیں تھپڑ مارا، ان کی زوجہ نے مجھے بددعا دی کہ اللہ تعالی تیرا (یہ) ہاتھ شل کر دے اور تیرا چہرہ جہنم میں جلائے، اب میرا ہاتھ شل ہو چکا ہے اور میں (دوسری بددعا سے) خوف زدہ ہوں۔ [مجابوا الدعوة لابن أبي الدنيا:33]
❄محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا اسی دوران ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اللہ مجھے بخش دے اور میں نہیں گمان کرتاکہ تو مجھے بخشے گا۔ میں نے اس سے کہا، اللہ کے بندے میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں، ایسا تو کوئی نہیں کہتا۔ اس نے کہا کہ میں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان کے چہرے پر طمانچہ لگاؤں گا۔ جب وہ شہید ہو گئے اور ان کی چارپائی گھر میں رکھی گئی لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوا گویا کہ میں جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں، میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے کفن کا کپڑا اٹھایا اور چہرہ پر طمانچہ مار دیا اور پھر کپڑا ڈھانک دیا۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے اس کے ہاتھ کو لکڑی کی طرح سوکھا ہوا دیکھا۔[تاریخ دمشق: ص 458]
❄ثقہ تابعی ابو نضرہ منذر بن مالک رحمہ علیہ بیان کرتے ہیں؛
كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فَسَبَّ رَجُلٌ عُثْمَانَ فَنَهَيْنَاهُ فَلَمْ يَنْتَهِ فَأَرْعَدَتْ ثُمَّ جَاءَتْ صَاعِقَةٌ فَأَحْرَقَتْهُ »
ہم مدینہ میں تھے کہ وہاں ایک شخص سیدنا عثمان کو گالی دینا شروع ہو گیا، ہم نے اسے اس سے روکا، لیکن وہ باذ نہ آیا تو(اچانک)بادل گر جا، پھر (آسمان سے) بجلی آئی تو اس نے اسے جلا دیا۔ [ كتاب الثقات لابن حبان :١٠٥/٧، وإسناده حسن لذاته ]
❄وعن أبي قلابة، قال: كنت في رفقة بالشام سمعت صوت رجل يقول: يا ويلاه النار، وإذا رجل مقطوع اليدين والرجلين من الحقوين، أعمى العينين، منكبًا لوجهه، فسألته عن حاله فقال: إني قد كنت ممن دخل على عثمان الدار، فلما دنوت منه صرخت زوجته فلطمتها فقال: «ما لك قطع اللَّه يديك ورجليك وأعمى عينيك وأدخلك النار!»، فأخذتني رعدة عظيمة وخرجت هاربًا فأصابني ما ترى ولم يبقى من دعائه إلا النار
ابوقلابہ سے مروی ہے ’’میں نے شام کے بازار میں ایک آدمی کی آواز سنی جو ’’آگ آگ‘‘ چیخ رہا تھا۔ میں قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ٹخنوں سے کٹے ہوئے ہیں اور دونوں آنکھوں سے اندھا منہ کے بل زمین پر پڑا گھسٹ رہا ہے اور ’’آگ آگ‘‘ چیخ رہا ہے میں نے اس سے حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت عثمان کے گھر گھسے تھے۔ جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ چیخنے لگیں۔ میں نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔ حضرت عثمان نے کہا؛
"تجھے کیا ہو گیا؟ عورت پر ناحق ہاتھ اٹھاتا ہے خدا تیرے ہاتھ پائوں کاٹے تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کرے اور تجھے آگ میں ڈالے۔ مجھے بہت خوف معلوم ہوا اور میں نکل بھاگا۔ اب میری یہ حالت ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ صرف آگ کی بد دعا باقی رہ گئی ہے۔”[الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ: ج 3 ص 41]
  دوسرا خطبہ
آج کے خطبہ میں ، ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے اس بات کو سمجھا ہے کہ ہر وہ شخص اللہ کا ولی ہے جو توحید پرست ، متقی ، پرہیز گار اور عبادت گزار ہے۔ اولیاء اللہ کا شان ، مقام اور رتبہ بہت زیادہ ہے ، اللہ تعالیٰ قرانِ مجید میں فرماتے ہیں؛
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ترجمہ: ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ ]فصلت: 31-30[
اسی طرح آقا علیہ السلام فرماتے ہیں؛
إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔” [صحیح بخاری: 6502]
اس آیتِ کریمہ اور حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے اولیاء کی توہین اور گستاخی برداشت نہیں کرتا ، گستاخی کرنے والے کو دنیا میں نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
آقا علیہ السلام کو مشرکینِ مکہ نے ہریشان کیا ، آقا علیہ السلام نے ان کے خلاف بد دعا کی ، تو پریشان کرنے والے تباہ و برباد ہو گئے۔
سیدنا خبیب بن عدی کو ناحق شہید کرنے والے ان کی بد دعا کی وجہ سے ایک سال کے اندر اندر جہنم واصل ہوئے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص ، سیدنا سعید بن زید ، سیدنا عثمان اور سیدنا حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گستاخوں کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لئے نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔
 ❄❄❄❄❄