’’اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھی گفتگو کریں

فرمایا

«وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا » [ البقرۃ : ۸۳ ]

’’اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔‘‘

ہمارے حافظ صاحب لکھتے ہیں

یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلم یا کافر، دوست یا دشمن کی تخصیص کیے بغیر ہر ایک سے ایسی بات کرنے کا حکم دیا ہے جس سے بہتر بات آدمی نہ کہہ سکتا ہو۔ اس کے لیے لازماً اسے بولنے سے پہلے سوچنا ہو گا

ایک عالم نے کہا کہ میں نے جب بھی اپنی طرف سے اچھی سے اچھی بات کہی، پھر اس پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس سے بھی بہتر بات کہی جا سکتی تھی۔

گفتگو میں حسن انتخاب کے چند نمونے

امام جعفر بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"رؤي أعرابي في إبل ملأت الوادي ،

فقيل له : لمن هذه الإبل؟

قال : لله في يدي ". التذكرة الحمدونية 2 / 462

ایک دیہاتی کو اتنے زیادہ اونٹوں میں دیکھا گیا جنہوں نے ساری وادی کو بھر دیا اس سے پوچھا گیا یہ اونٹ کس کے ہیں اس نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کے ہیں اس نے میرے ہاتھ میں تھما دیے ہیں

ابن عثیمین چھوٹے نہیں تھے

ہمارے فاضل دوست شیخ حافظ محمد حامد یونس حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ عظیم فقیہ و مربی فضيلة الشیخ حافظ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ سے پوچھا:

ابن عثیمین بڑے عالم تھے یا ابن باز؟

تو شیخ فرمانے لگے:

ابن عثیمین چھوٹے نہیں تھے لیکن ابن باز بڑے تھے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے اہل النار کی بجائے اہل الضوء کہا

عمر رضی اللہ عنہ کا یا اھل النار کی بجائے یا اھل الضوء بولنا

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو آگ جلاتے دیکھا تو انہیں آواز دی

"اے روشنی والو "

آواز یوں بھی دی جاسکتی تھی "اے آگ والو ” لیکن جن کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی ان کا اسلوب ہی دلنشین اور اپنائیت والا ہوتا تھا۔

(رواه عبد الله بن احمد في الفضائل (290/ 1 ح: 382))

علامہ ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ نے دوران درس کچھ توقف کیا؛ پھر حاضرین میں سے ایک شخص سے پوچھا: میں کیا کہہ رہا تھا؟ وہ کہنے لگا: مجھے نہیں معلوم۔ شیخ نے فرمایا: پھر درس میں کس لیے بیٹھے ہو؟ کہا: حدیث میں آتا ہے کہ ذکر خدا میں مشغول لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والے بھی محروم نہیں رہتے!

یہ سننا کہ تھا کہ شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ ہم نے اسے سکھانا چاہا مگر خود ہمیں اس سے سیکھنے کو مل گیا!!

اچھی بات کہو یا خاموش رہو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابٌ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ،6018)

اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔

خاموشی کے فوائد

‏قالوا سكتَّ وقد خُوصمتَ قلتُ لهم

إنَّ الجــواب لباب الشـر مفتاحُ

والصَّمْتُ عن جاهلٍ أو أحمقٍ شرفٌ

وفيه أيضًا لصَوْنِ العِرْضِ إصلاحُ

إنَّ الأسودَ لَتُخشى وهي صامتةٌ

والكلبُ يخْسَى لَعَمرِي وهو نبَّاحُ [ديوان الشافعي صـ ٧٥]

اچھی بات کہنے والے کے لیے جنت کے کمرے

علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرٰی ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُوْنِهَا وَ بُطُوْنُهَا مِنْ ظُهُوْرِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ!؟ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ أَدَامَ الصِّيَامَ وَ صَلّٰی لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ غرف الجنۃ : ۲۵۲۷، و قال الألباني حسن ]

’’جنت میں ایسے اونچے محل ہیں جن کے باہر کے حصے ان کے اندر کے حصوں سے اور اندر کے حصے باہر کے حصوں سے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ایک اعرابی نے اٹھ کر پوچھا : ’’اے اللہ کے نبی! وہ کن کے لیے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لیے جو پاکیزہ گفتگو کریں اور کھانا کھلائیں اور روزوں پر ہمیشگی کریں اور اللہ کے لیے نماز پڑھیں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘

لغویات، فضولیات اور جھوٹ سے خالی، جنت کا پاکیزہ ماحول

جنت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ آدمی کے کان وہاں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ ہی جھوٹ ۔ اس نعمت کی قدر وہی جانتا ہے جسے ان کاموں سے نفرت ہو، پھر اسے بے ہودہ بکنے والوں اور جھوٹ بولنے والے بدتمیزوں سے واسطہ رہتا ہو ۔

فرمایا

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا (النبأ : 35)

وہ اس میں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ ( ایک دوسرے کو) جھٹلانا۔

سورہ واقعہ میں ہے

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا (الواقعة : 25)

وہ اس میں نہ بے ہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔

إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا (الواقعة : 269

مگر یہ کہنا کہ سلام ہے، سلام ہے۔

اہل جنت پاکیزہ گفتگو کے عادی بنائے جائیں گے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج : 24)

اور انھیں پاکیزہ بات کی طرف ہدایت کی گئی اور انھیں تمام تعریفوں کے مالک کے راستے کی طرف ہدایت کی گئی۔

اور فرمایا

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (يونس : 10)

ان کی دعا ان میں یہ ہوگی’’پاک ہے تو اے اللہ!‘‘ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

پاکیزہ کلمات، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف عروج پکڑتے ہیں

مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر : 10)

جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پاکیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہو گی۔

’’ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ‘‘ (پاکیزہ بات) سے مراد بعض نے کلمہ توحید ’’لاالٰہ الا اللہ ‘‘ لیا ہے، مگر لفظ عام ہے، اس میں کلمہ اسلام کے ساتھ ذکر، دعا، تلاوتِ قرآن، تعلیم، تربیت اور دعوت سبھی شامل ہیں، یعنی ہر پاکیزہ بات اسی کی طرف چڑھتی ہے اور وہی اسے قبول کرتا اور بلندی عطا کرتا ہے۔ ناپاک اور خبیث باتیں عروج حاصل کرہی نہیں سکتیں

(تفسیرالقرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

اچھے کلمے سے مراد اور اس کی مثال

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (إبراهيم : 24)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (إبراهيم : 25)

وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

اچھی بات کہنے کا فائدہ

دشمن بھی دوست بن جاتا ہے

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (فصلت : 34)

اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔

طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے :

[ أَمَرَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَ الْحِلْمِ وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَائَةِ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمَهُمُ اللّٰهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ، كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ] [ طبري : ۳۰۷۹۴۔ السنن الکبرٰی للبیہقي : 45/7، ح : ۱۳۶۸۰ ]

’’اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انھیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لیے زیر ہو جائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔‘‘

گائے کو اچھے کلمات کہنے کا فائدہ

وفي القصة أن مصنعا للألبان في نيوزلندا له فرعان أحدهما في شمال البلاد والآخر في جنوبها ، وكان الإنتاج متفاوتاً بينهما بشكل كبير رغم تطابق جميع ظروف الموقعين وتجهزياتهما وآلية العمل فهما ونوعية الأبقار !!. مما جعل المالك يحتار في سبب إختلاف كمية الانتاج بين الأول والثاني . وبعد إجراء الأبحاث والدراسات توصلوا إلى النتيجة التي كانت مفاجئة لهم .. وهي أن المصنع الأول يعمل فيه العدد نفسه من الأشخاص، لكن المفارقة الغريبة كانت أن تعاملهم مع الأبقار مختلفاً للغاية، إذ لديهم تقدير كبير لها ويعبرون عنه يومياً كل صباح قبل بدء حلب الأبقار حيث يطلون عليها مبتسمين مخاطبين كل بقرة شخصياً بقول :

صباح الخير يا بقرة !! (GOOD MORNING COW ) وهذا هو سبب زيادة إنتاجها

اسی لیے اپنے جانوروں کو گالیاں دینا یا برا کہنا منع ہے

حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک باندی ایک اونٹنی پر سوار تھی جس پر لوگوں کا کچھ سامان بھی لدا ہوا تھا، اچانک اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اس وقت پہاڑ (کے درے نے) گزرنے والوں کا راستہ تنگ کر دیا تھا۔ اس باندی نے (اونٹنی کو تیز کرنے کے لیے زور سے) کہا: چل (تیز چلو تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ جائیں، جب وہ اونٹنی تیز نہ ہوئی تو کہنے لگی: )

اللَّهُمَّ الْعَنْهَا

اے اللہ! اس پر لعنت بھیج

(حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے) کہا:

و نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُصَاحِبْنَا نَاقَةٌ عَلَيْهَا لَعْنَةٌ (مسلم، كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،بَابُ النَّهْيِ عَنْ لَعْنِ الدَّوَابِّ وَغَيْرِهَا6606)

ت "وہ اونٹنی جس پر لعنت ہو ہمارے ساتھ (شریک سفر) نہ ہو۔”

یاجوج ماجوج کو اچھے کلمے کا فائدہ

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

‘‘یاجوج ماجوج روزانہ (دیوار) کھودتے ہیں حتی کہ جب (اتنی کم موٹی رہ جاتی ہے کہ) انہیں سورج کی روشنی (اس کے آرپار) نظر آنے کے قریب ہوتی ہے تو ان کا افسر کہتا ہے: واپس چلو، اس (باقی دیوار) کو ہم کل کھود ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے پھر پہلے سے بھی انتہائی سخت کر دیتا ہے۔ جب ان کا مقرر وقت آئے گا اور اللہ تعالی کی منشاء ہو گی کہ انہیں لوگوں تک پہنچنے دے تو وہ کھودیں گے، جب وہ سورج کی روشنی دیکھنے کے قریب ہوں گے تو ان کا افسر کہے گا: چلو، اس کو ہم کل کھود لیں گے ان شاء اللہ وہ اللہ کی مرضی کا ذکر کریں گے تو (اس کی یہ برکت ہو گی کہ) جب (صبح کو) واپس آئیں گے تو اسے اسی حالت میں پائیں گے جیسی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اسے کھود کر لوگوں کے سامنے نکل آئیں گے، اور پانی پی کر ختم کر دیں گے۔ لوگ ان سے بچاؤ کے لئے قلعہ بند ہو جائیں گے۔ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو تیر خون سے تربتر واپس آئیں گے۔ تب وہ کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر غالب آگئے۔ تب اللہ ان کی گدیوں میں کیڑے پیدا کر دے گا جن سے وہ ہلاک ہو جائیں گے’’۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہات میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور ان پر چربی چڑھ جائے گی’’۔ (ابن ماجہ 4080)

اچھی بات کہنا صدقہ ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«كُلُّ سُلاَمَى عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ يَوْمٍ، يُعِينُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ، يُحَامِلُهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ، وَكُلُّ خَطْوَةٍ يَمْشِيهَا إِلَى الصَّلاَةِ صَدَقَةٌ، وَدَلُّ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ» (بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ فَضْلِ مَنْ حَمَلَ مَتَاعَ صَاحِبِهِ فِي السَّفَرِ،2891)

روزانہ انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے کہ اس کو سہارا دے کر اس کی سواری پر سوار کرادے یا اس کا سامان اس پر اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ اچھا اور پاک لفظ بھی ( زبان سے نکالنا ) صدقہ ہے ۔ ہرقدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور ( کسی مسافر کو ) راستہ بتادینا بھی صدقہ ہے ۔

فقیر کو اچھی بات کہنا ایسے صدقے سے بہتر ہے جس میں تکلیف ہو

قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (البقرة : 263)

اچھی بات اور معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے پیچھے کسی طرح کا تکلیف پہنچانا ہو اور اللہ بہت بے پروا، بے حد برد بار ہے۔

اچھی بات کہہ کر جہنم کی آگ سے بچو

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگی اور چہرے سے اعراض ونا گوار ی کا اظہار کیا

پھر فرمایا

«اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ» (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ طِيبِ الكَلاَمِ6023)

جہنم سے بچو ۔ خواہ آدھی کھجور ہی ( کسی کو ) صدقہ کرکے ہو سکے اور اگر کسی کو یہ بھی میسر نہ ہوتو اچھی بات کرکے ہی

زبان کی حفاظت جنت کی ضمانت

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ» (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ،6474)

میرے لئے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز ( زبان ) اور دونوں پاؤں کے درمیان کی چیز ( شرمگاہ ) کی ذمہ داری دے دے میں اس کے لئے جنت کی ذمہ داری دے دوں گا۔

اچھی بات کہنے کی توفیق بڑے نصیب کی بات ہے

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (فصلت : 35)

اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔

انقلاب برپا کرنے والے جملے

وقولوا للناس حسناً

ایک جملے نے تہجد کا پابند بنا دیا

01.ایک مرتبہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے حضرت حفصہ – رضی اللہ عنہا – سے ان کے بھائی عبد اللہ بن عمر – رضی اللہ عنہ – کے بارے میں فرمایا : "نعم الرجل عبد الله لو يصلي من الليل” –

"عبد اللہ خوب لڑکا ہے، کاش رات میں نماز پڑھا کرتا”.

اس جملہ نے عبد اللہ بن عمر کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا، ان کے لڑکے سالم کہتے ہیں :

"وكان بعد لاينام من الليل إلا قليلاً” –

"اس کے بعد عبد اللہ بن عمر – رضی اللہ عنہما – رات میں بہت کم سوتے تھے(زیادہ عبادت کرتے تھے) ".

ایک جملے نے صحیح بخاری لکھنے پر آمادہ کردیا

امام بخاری – رحمہ اللہ – کے استاد امام اسحاق بن راہویہ – رحمہ اللہ – نے ایک دفعہ اپنی علمی مجلس میں اس امر کا اظہار کیا کہ : "لو جمعتم ما صح من أحاديث رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ” – "کاش تم لوگ صحیح احادیث پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کر دیتے…”

امام بخاری فرماتے ہیں:

"فوقع ذلك في قلبي، فأخذت في جمع الجامع الصحيح” – "کہ استاد محترم کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی، (میں نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی) ، اور صحیح احادیث کو جمع کرنا شروع کر دیا”

انہی دنوں امام بخاری نے ایک خواب دیکھا کہ وہ پنکھے کے ذریعے رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – کے چہرہ مبارک سے مکھیاں اڑا رہے ہیں، اس خواب کی تعبیر یوں کی گئی کہ آپ نبی کریم – صلی اللہ علیہ وسلم – کے کلام مبارک سے کذب وافترا کی مکھیاں دور فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – کے فرمودات کے متعلق کوئی خدمت لے گا چنانچہ صحیح بخاری کی تالیف دراصل آپ کے استاذ محترم کی خواہش کی تکمیل اور آپ کے خواب کی تعبیر ہے.

فهذه الجملة أخرجت للأمة أصح كتاب بعد كتاب الله، وهو صحيح البخاري.

امام ذہبی کو محدث بنانے والا جملہ

امام ذہبی کے خط(تحریر) کو دیکھ کر ان کے استاد امام برزالی نے تعریف کرتے ہوئے کہا : "يا بني! إن خطك يشبه خط المحدثين” – یعنی "میرے بیٹے! تیری تحریر تو محدثین کی تحریر جیسی ہے”.

امام ذہبی کہتے ہیں : "فحبب الله إليّ علم الحديث”.

اس جملہ نے امام ذہبی – رحمہ اللہ – کو محنت کرنے پر مجبور کر دیا اور آگے چل کر دنیا کے امام بن گئے

نذیر حسین دھلوی کی تعلیم کا سبب بننے والا جملہ

شیخ الکل فی الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی – رحمہ اللہ – کو بچپن میں پڑھنے لکھنے سے زیادہ کھیل کود، تیراکی اور شہ سواری کا شوق تھا، آپ کے والد کے پاس اکثر ایک برہمن آتا جاتا تھا، ایک روز اس نے میاں صاحب سے کہا :

"میاں! تم اتنے بڑے ہوگئے اور کچھ پڑھا نہیں، دیکھو تمہارے خاندان میں سب لوگ مولوی ہیں اور تم جاہل ہو”.

یہ جملہ نشتر کا کام کر گیا اور آپ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہوگئے.

فجر کے وقت بچوں کو اٹھاتے وقت ایک عورت کے بہترین کلمات

ایک عورت اپنے بچوں کو نماز فجر کے لیے یہ کہہ کر بیدار کیا کرتی تھی.”_*

اٹھو، میں نہیں چاہتی کہ جنت میں ہم میں سے کوئی کم ہو.”

برے کلمے سے مراد اور اس کی مثال

وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (إبراهيم : 26)

اور گندی بات کی مثال ایک گندے پودے کی طرح ہے، جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا گیا، اس کے لیے کچھ بھی قرار نہیں۔

اچھی بات نہ کہنے کا نقصان

فرمایا

وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا (الإسراء : 53)

اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔

یہاں احسن بات نہ کہنے کا نقصان بیان فرمایا کہ زبان سے ناہموار بات نکلنے پر شیطان آپس میں جھگڑا اور دشمنی ڈال دیتا ہے۔

اسی طرح کافر سے احسن بات نہ کہنے کا نتیجہ اس کا اسلام سے مزید دوری ہو گا۔ اس لیے اس کی طرف سے برائی کا جواب بھی احسن طریقے سے دینا لازم ہے۔

اچھی اور بری گفتگو کا کھانے پر اثر

ایک جاپانی ماہر کا تجربہ

ایک جاپانی ماہر نے مختلف اشیاء پر پاکیزہ کلمات کی اچھی تاثیر کے حوالے سے اپنے کئی تجربات بیان کیے ہیں

ان میں سے ایک تجربہ، اس نے ایک ہی طرح کے دو برتنوں میں چاول رکھے ایک کے پاس اچھی پاکیزہ گفتگو کرتا اور دوسرے کے پاس بری گفتگو کرتا، اس نے دیکھا کہ جس کے پاس بری کلام کہتا تھا اس برتن کے چاول ایک دن کے بعد خراب ہو گئے اور جس کے پاس اچھی کلام کرتا تھا وہ تین دن تک عمدہ حالت میں رہے

نازیبا کلمات کا پانی پر اثر

عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

[ حَسْبُكَ مِنْ صَفِيَّةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ غَيْرُ مُسَدَّدٍ تَعْنِيْ قَصِيْرَةً، فَقَالَ لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ قَالَتْ وَحَكَيْتُ لَهُ إِنْسَانًا فَقَالَ مَا أُحِبُّ أَنِّيْ حَكَيْتُ إِنْسَانًا وَ إِنَّ لِيْ كَذَا وَكَذَا] [ أبوداوٗد، الأدب، باب في الغیبۃ : ۴۸۷۵، وقال الألباني صحیح ]

’’آپ کو صفیہ سے یہی کچھ کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔‘‘ مسدد کے علاوہ دوسرے راوی نے وضاحت کی کہ مراد ان کے قد کا چھوٹا ہونا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یقینا تم نے ایسی بات کی ہے کہ اگر سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو سارے پانی کو خراب کر دے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا: ’’اور میں نے آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری ( تو اس کا کیا حکم ہے)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل اتاروں، خواہ مجھے یہ یہ کچھ مل جائے۔‘‘

لوگ،بری گفتگو اور سخت زبان والے کوچھوڑ دیتے ہیں

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران : 159)

پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

حنین کے میدان میں چند نازیبا کلمات اور ان کا وبال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تو ان مہاجرین و انصار کا تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ اہل مکہ ( طلقاء) میں سے شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی، اس پر بہت سے مسلمانوں میں عجب (خود پسندی) اور ایک قسم کا غرور پیدا ہو گیا، حتیٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (التوبة : 25)

بلاشبہ یقینا اللہ نے بہت سی جگہوںمیں تمھاری مدد فرمائی اور حنین کے دن بھی، جب تمھاری کثرت نے تمھیں خود پسند بنا دیا، پھر وہ تمھارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ وہ فراخ تھی،پھر تم پیٹھ پھیرتے ہوئے لوٹ گئے۔

اچھے اور برے کلمے کا نتیجہ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن رِضْوانِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بها دَرَجاتٍ، وإنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ) (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ،6478)

بندہ اللہ کی رضامندی کے لئے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کردیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی نارضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیںدیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ، مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا، يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ المَشْرِقِ» (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ،6477)

بندہ ایک بات زبان سے نکالتاہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں ( کتنی کفر اور بے ادبی کی بات ہے ) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گرپڑتا ہے جتنی پچھم سے پورب دور ہے۔

اسماعیل علیہ السلام کی دو بیویوں کے دو بول اور اس کا نتیجہ

اسماعیل علیہ السلام کی دو بیویوں کے الگ الگ دو جملے اور ان پر مرتب ہونے والے نتیجے سے ہر طالب علم واقف ہے

جب ابراهيم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ملنے کے لیے گئے تو اسماعیل کو گھر نہ پایا ان کی بیوی سے پوچھا کہ اسماعیل کہاں ہیں اور تمہارے حالات کیسے اور گزر بسر کیسا ہو رہا ہے تو اس نے انتہائی ناشکرے الفاظ میں کہا کہ کیا بتاؤں اسماعیل شکار کرتا ہے بس کبھی مل گیا تو کھا لیتے ہیں ورنہ بھوکے ہی مرتے ہیں

ابراہیم علیہ السلام کو اس کے یہ ناشکرے الفاظ پسند نہیں آئے تو اپنے بیٹے کو پیغام دیا کہ اسے طلاق دے دے

پھر ایک دن دوبارہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اب کی بار پھر ایسا ہی ہوا کہ اسماعیل گھر میں نہیں تھے تو ابراہیم علیہ السلام نے انکی بیوی سے پوچھا کہ تمہارے حالات کیسے ہیں گزر بسر کیسا ہو رہا ہے تو اس اللہ کی بندی نے انتہائی شکرگزار الفاظ میں جواب دیا کہنے لگی اللہ کا شکر ہے میرا خاوند شکار کرتا ہے لوگ روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور ہم گوشت کے مزے لیتے ہیں ہیں ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بہو سے یہ شکر والے الفاظ سن کر اپنے بیٹے کو پیغام دیا کہ اسے طلاق نہیں دینی

زہریلے جملے

ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ

ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟؟؟

ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ!!!!

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟؟؟

ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟؟؟

ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ!!!!

ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎﯾﺎ، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﻣﺎﺭﭘﯿﭧ ﮨﻮﺋﯽﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﺩﮮﺩﯼ!!!!

ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ؟؟؟

ﺍﺱ ﻓﻀﻮﻝ ﺟﻤﻠﮯ ﺳﮯﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ

تمهارا باس، ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے

اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا!!

تم کہاں کام کرتے ہو؟؟

حامد : فلاں دکان میں!!

ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے؟؟

حامد:18000 روپے!!

زید: 18000 روپے بس،تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے پیسوں میں؟؟

حامد ۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں!!

میٹنگ ختم ہوئی!!

کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوگیا ، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردی، جسے مالک نے رد کردیا، نوجوان نے جاب چھوڑ دی اور بے روزگار ہوگیا،پہلے اس کے پاس کام تھا اب کام نہیں رہا

سنا ہے مریم کو طلاق ہوگئی؟ ایسا کیا ہوگیا بہن؟ جوان بیٹی گھر بیٹھ جائے تو ماں باپ کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔

بہن! آپکی بیٹی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی؟ کیا رشتے نہیں آئے؟

یہ وہ چند ایسے جملے ہیں جو تیر سے زیادہ تیز اور خنجر سے زیادہ نوکدار ثابت ہوتے ہیں اور جگر چھلنی کردیتے ہیں۔ جبکہ ان جملوں کا استعمال ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ کہنے والے تو کہہ جاتے ہیں لیکن جن سے کہا جاتا ہے، ان کے دل کا خون ہوجاتا ہے، راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہے۔

”اپنے بھائی کی خوشیوں کے قاتل نہ بنو۔

وہ تمہیں کہتا ہے میں نے شادی کر لی ہے، تم کہتے ہو مجھے تو بلایا ہی نہیں! وہ کہتا ہے فلاں جگہ نوکری لگ گئی، تم کہتے ہو پہلے مشورہ تو کر لیتے! وہ کہتا ہے میں نے گاڑی لی ہے، تم کہتے ہو بندہ پوچھ ہی لیتا ہے۔ جب بھی وہ کسی نعمت کا ذکر کرتا ہے، تم اسے ملامت کرنے لگتے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ اسے دعا دو، اس کی خوشی میں شریک ہو، اسے مبارکباد پیش کرو، حدیث میں آتا ہے کسی مسلمان کو خوش کرنا الله کے ہاں پسندیدہ ترین عمل ہے۔“

(د. عبد الرحمن العميسان حفظه الله)

لوگوں کی بری باتوں کا جواب اچھی باتوں سے دیں

مکہ کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن، شاعر، جادوگر اور دیوانہ وغیرہ کہتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا جواب دینے کے لیے اچھے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ (المؤمنون : 96)

اس طریقے سے برائی کو ہٹا جو سب سے اچھا ہو، ہم زیادہ جاننے والے ہیں جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کفار کی ہر برائی اور زیادتی کا جواب ایسے طریقے سے دیں جو اچھا ہی نہیں، سب سے اچھا ہو۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں، اور کس طرح آپ کو برے القابات سے نوازتے ہیں

جھگڑا کرتے وقت بھی اچھا طریقہ اور اچھی گفتگو اختیار کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (فصلت : 34)

اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔

میں تو محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم

مکہ کے کافر دشمنی میں آپ کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ کہتے بلکہ اس کی ضد میں مذمم نام سے آپ کو پکارتے یعنی مذمت کیا ہوا برا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذمم میرا نام ہی نہیں ہے، جو مذمم ہوگا اسی پر ان کی گالیاں پڑیں گی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَلَا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ (بخاری ،كِتَابُ المَنَاقِبِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ3533 )

تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی گالیوں اور لعنت ملامت کو کس طرح دور کرتاہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر براکہتے ، اس پر لعنت کرتے ہیں ۔ حالانکہ میں تومحمد ہوں ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی بدتمیزی کا جواب بھی دے دیا اور اپنی زبان مبارک کو آلودہ بھی نہ ہونے دیا

عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا :

[ اَلسَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ! ]

’’اے ابو القاسم! تجھ پر موت ہو۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَعَلَيْكُمْ ]

’’اور وہ تمھی پر ہو۔‘‘

عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے کہا :

[ بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَالذَّامُ ]

’’بلکہ تم پر موت اور مذمت ہو۔‘‘

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يَا عَائِشَةُ! لَا تَكُوْنِيْ فَاحِشَةً ]

’’اے عائشہ! نازیبا الفاظ کہنے والی نہ بن۔‘‘

عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا :

’’آپ نے وہ نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟‘‘

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَوَ لَيْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَيْهِمُ الَّذِيْ قَالُوْا، قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ ]

’’تو کیا میں نے وہ بات انھی پر لوٹا نہیں دی جو انھوں نے کہی ہے؟

میں نے کہہ دیا ’’وَعَلَيْكُمْ ‘‘ کہ ’’وہ تمھی پر ہو۔‘‘

[ مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب بالسلام… : ۱۱ /۲۱۶۵۔ مسند أحمد : ۶ /۲۲۹، ۲۳۰، ح : ۲۵۹۷۸ ]

میں تو صرف ایمان والوں کی ماں ہوں

امام عروہ بن زبیر کہتے ہیں ایک شخص کے پاس ماں جی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا ذکر کیا گیا تو اس نے ماں جی پر طعن وجرح کی اسے کہا گیا

کیا تو اپنی ماں کے بارے طعن وجرح کرتا ہے وہ کہتا ہے وہ میری ماں ہرگز نہیں ہے یہ بات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تک پنہچی تو اماں جی نے فرمایا:

صدق ، أنا أم المؤمنين، وأما الكافرون فلست لهم بأم.

شرح أصول اعتقاد أهل السنة:

(2768) واللفظ له وسنده حسن لذاته۔ الشريعة للآجرى:5/2427،(1908)

اس نے بالکل سچ کہا ہے میں کسی کافر کی ماں ہرگز نہیں ہوں، میں تو صرف ایمان والوں کی ماں ہوں ۔

دس سالوں میں اپنے خادم انس کو ایک مرتبہ بھی نہیں ڈانٹا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

” خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، وَاللهِ مَا قَالَ لِي: أُفًّا قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا؟ وَهَلَّا فَعَلْتَ كَذَا؟ "

(مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6011)

میں نے (تقریباً)دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اللہ کی قسم! آپ مجھ سے کبھی اُف تک نہیں کہا اور نہ کبھی کسی چیز لے لیے مجھ سے یہ کہا کہ تم نے فلا ں کا م کیوں کیا؟ یا فلا ں کا م کیوں نہ کیا۔؟

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں اخلاق کے سب سے اچھے تھے،آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا ،میں نے کہا :اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا ۔حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرورجا ؤں گا۔تومیں چلا گیا حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا ،وہ بازار میں کھیل رہے تھے

فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي

پھر اچانک (میں نے دیکھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا

میں نے آپ کی طرف دیکھا تو

وَهُوَ يَضْحَكُ،

آپ ہنس رہے تھے۔

آپ نے فرمایا:

«يَا أُنَيْسُ أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟»

"اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں (جانے کو) میں نے کہا تھا ؟”میں نے کہا جی! ہاں ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جا رہا ہوں۔

(مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6015)

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا گالی دینے والے کو جواب

ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو گالی دی تو کہنے لگے اگر قیامت نہ آنا ہوتی تو میں تجھے جواب دیتا

نثر الدرر 285/1

امام شافعی رحمہ اللہ کا گالی دینے والے کو شائستہ جواب

الإمام الشافعي جاءه رجل خارجا من المسجد فقال له : أنت الشافعي ؟

– فقال : أجل .

– قال : إنك فاجر فاسق .

من هذا ؟ الشافعي رحمه، الذي كان كما قال الإمام أحمد : كالشمس للدنيا وكالعافية للأبدان.

فقال الشافعي: اللهم إن كان عبدك هذا صادقا فيما يقول فاغفر لي وارحمني وتب علي وإن كان غير ذلك-لم يرضى أن يقول: وإن كان كاذبا- فاغفر له وارحمه وتب عليه

کذاب نہ کہو بلکہ لیس بشیئ کہو

امام شافعی رحمہ اللّٰہ کے شاگرد مزنی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے کسی شخص پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے کذاب (بہت بڑا جھوٹا) کہہ دیا۔ امام رحمہ اللّٰہ نے سنا تو فرمایا: ابو ابراہیم! اپنے الفاظ کو خوب صورت جامہ پہناؤ؛ یہ نہ کہو کہ فلاں کذاب ہے بل کہ یوں کہو: اس کی بات کوئی شے نہیں! (یعنی قطعا ناقابل التفات ہے!)

(فتح المغیث از محدث سخاوی)

امام وکیع رحمه الله کو کسی نے گالی دی تو انھوں نے اسے جواب نا دیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟ تو انھوں نے کہا ہم نے علم کس لیے سیکھا ہے؟ (روضة العقلاء:166)

اختلاف کے باوجود علامہ کے لقب سے لکھتے رہے

دکتور بشار عواد معروف لکھتے ہیں

میں نے 300 مقامات پر علامہ البانی سے اختلاف کیا اور ہر مرتبہ علامہ کہہ کر ہی ان کا ذکر کیا!

اپنے نفس کو گندا نہ کہو بوجھل کہہ لو

ابو امامہ بن سہل حنیف نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :

«لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ خَبُثَتْ نَفْسِي، وَلْيَقُلْ لَقِسَتْ نَفْسِي»

(مسلم،كِتَابُ الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا،بَاب كَرَاهَةِ قَوْلِ الْإِنْسَانِ خَبُثَتْ نَفْسِي، 5880)

” تم میں سے کو ئی شخص یہ نہ کہے۔ میراجی گندا ہو گیا ہے ، بلکہ یہ کہے ،کہ میراجی بوجھل ہو گیا ہے۔(یا میری طبیعت خراب ہو گئی ہے۔)

عاصیہ ،کو جمیلہ سے بدل دیا

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ وَقَالَ أَنْتِ جَمِيلَةُ (مسلم، كِتَابُ الْآدَابِ،5604)

عاصیہ(نافرمانی کرنے والی) کانام تبدیل کردیا اور فرمایا:”تم جمیلہ(خوبصورت) ہو۔”

مسلم ہی کی اس سے اگلی روایت میں ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک صاحبزادی تھی

حزن کو سہل سے بدل دیں

عَبْدُ الحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ نے کہا :میں سعید بن مسیب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے دادا حزن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا

: مَا اسْمُكَ ؟

کہ تمہارا نام کیا ہے؟

انہوں نے کہا:

اسْمِي حَزْنٌ .

کہ میرا نام حزن ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ

کہ تم سہل ہو

انہوں نے کہا :

مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي .

کہ میں تو اپنے باپ کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔

سعید بن مسیب نے کہا:

فَمَا زَالَتْ فِينَا الْحُزُونَةُ بَعْدُ (بخاری كِتَابُ الأَدَبِ،6193)

اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔ «حزونة» سے صعوبت مراد ہے۔

یثرب سے مدینہ

مدینہ کا نام یثرب سے تبدیل کر دیا کیونکہ اس کا معنی درست نہیں تھا

اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ تثريب سے مشتق ہے جس کا معنی ڈانٹ ڈپٹ ہے یا ثرب سے جس کا معنی فساد اور خرابی ہے دونوں معانی قبیح ہیں (فتح الباری)