عورتوں کو ان کے خاوندوں کے لیے باعث سکون قرار دینے کا معنی؟

﴿وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۲۱﴾(الروم:21) اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہوں گے کہ انسانی معاشرے کی اکائی خاندان ہے، اور خاندان کی بنیاد اور اکائی مرد و زن ہے، میاں بیوی ہے اور میاں بیوی کی بنیاد نفس واحدہ ہے ایک جان ہے ) یعنی آدم علیہ السلام ہیں۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ﴾ (النساء:1)
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۔‘‘
یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداء ایک فرد سے کی اور وہ ایک فرد اور ایک جان آدم نمالین ہیں، اور اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اُن دونوں سے بہت مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے۔
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۱۳﴾ (الحجرات:13)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور پھر تمھاری قو میں اور برداریاں بنادیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔‘‘
تو یہ ہے خاندانی ڈھانچے کی بنیاد اور اصل ، ر با مقصد تخلیق تو مقصد تخلیق نوع انسانی اللہ تعالٰی کی عبادت ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون﴾ (الذاريات:56)
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
تو یہ مقصد تخلیق تمام انسانوں کا ہے، جس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں، البتہ اس بنیادی مقصد تخلیق کے بعد عورت کا ایک الگ سے ذیلی مقصد تخلیق بھی چلایا گیا ہے اور وہ ہے کہ مرد اس کے پاس سکون حاصل کرے۔
یہ بات خصوصی طور پر آدم علیہ السلام کے لیے بھی فرمائی گئی ، جیسا کہ فرمایا:
﴿ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا ۚ﴾(الاعراف:189)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تا کہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔‘‘
اور یہ بات نسل انسانی کے تمام مردوں کو مخاطب کر کے بھی کہی گئی: جیسا کہ فرمایا:
﴿﴿وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا﴾ (الروم:21)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اُس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں، تا کہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو۔‘‘
آپ ضرور اندازہ کر سکتے ہوں گے کہ وہ کام کتنا اہم ہوگا جسے کسی مخلوق کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہو، اور وہ کام کتنا اہم ہوگا جسے اللہ تعالی کی قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہو۔
یعنی مرد کی جنس ہی سے اُس کی بیوی بنانا اور اسے اس کے سکون کے لیے بنانا ، تو اللہ کی مخلوقات میں اور کائنات کے نظام میں یہ دو بہت ہی اہم معاملے ہیں اور ان میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں پوشید ہیں مگر اللہ تعالی کی نشانیوں اور علامتوں کی عقدہ کشائی اور اظہار ان
لوگوں پر ہوتا ہے جو اُن پر غور و فکر کرتے ہیں
﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُونَ ) (الجاثية:13)
’’یقینًا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘
تو آئیے اس میں اللہ تعالی کی قدرت و عظمت کی نشانیاں، علامتیں اور حکمتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کی دلیل اور نشانی ہے کہ وہ چاہے تو انسان کو بغیر ماں اور باپ کے محض مٹی سے پیدا کر دے جس طرح آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ، وہ چاہے تو کسی کو بغیر باپ کے صرف ماں سے پیدا کر دے جس طرح عیسی علیہ السلام کو پیدا فرمایا ، وہ چاہے تو کسی کو بغیر ماں کے صرف مرد سے پیدا کر دے جس طرح حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا۔ تو یہ سب اس کی قدرت اور عظمت کی نشانیاں ہیں اور انہی میں سے ایک یہ نشانی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت حواء علیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا اور ان کے کون کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی کے لیے یہ ہرگز مشکل نہ تھا کہ آدم علیہ السلام کی بیوی کو کسی اور مخلوق سے پیدا فرما دیتے، جنات سے یا کسی اور مخلوق سے خصوصی طور پر کوئی اور مخلوق معرض وجود میں لاکر، جیسے حوریں جنت میں انسان کی بیویاں ہوں گی جو کہ ایک دوسری مخلوق ہیں ۔ گھر انسان کی جنس سے اس کی بیوی بنانے میں اُس کی قدرت و عظمت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور اس میں حکمتیں بھی ہیں۔
جنت میں دوسری مخلوق سے انسان کے لیے بیویاں بنائیں، یہ تو ایک خصوصی معاملہ ہے، مگر دنیا چونکہ دار الامتحان ہے اس لیے یہاں ایک دوسرا معاملہ کیا جاتا ہے، یہاں ہر چیز آزمائش ہے، نعمت بھی آزمائش ہے اور تکلیف بھی آزمائش ہے
﴿ ِ۟الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ﴾ (الملك:2)
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے ۔‘‘
زندگی بھی آزمائش ہے اور موت بھی آزمائش ہے، دولت بھی آزمائش ہے، اولاد بھی آزمائش ہے، خاوند کے لیے بیوی آزمائش ہے اور بیوی کے لیے خاوند آزمائش ہے اس لیے دنیا میں میاں بیوی کا جوڑا ایک دوسرے کے لیے آزمائش ہے۔ چنانچہ دنیا میں جنت والی بیوی نہیں دی گئی جو کہ سراسر رحمت اور فضل ہے، البتہ مرد کی ہی جنس سے ضرور اس کی بیوی بنائی گئی ہے تا کہ اسے سکون حاصل ہو۔
اپنی ہی جنس سے بیوی ہونے میں ایک طرح کا سکون ہوتا ہی ہے کیونکہ انسان فطرتا اپنی ہی جنس سے مانوس ہوتا ہے، ہر انسان اس شخص سے زیادہ قربت محسوس کرتا ہے اور زیادہ مانوس ہوتا ہے جس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مماثلت ہو، طبیعت اور مزاج میں، عادات، یا
دوسرے شعبوں میں اور اس مماثلت میں ایک ہی جنس کا ہونا بھی ہے۔
اور دوسرا سکون اسے بیوی کے رویے، حسن سلوک اور طرز عمل سے ہوتا ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ مرد کو سکون پہنچانے کا اہتمام کرے۔ چنانچہ نیک اور صالح بیوی کی صفات بیان کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا:
((إن أمرها أطاعته، وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ)) (سنن ابن ماجه:1958)
’’اگر اس کا خاوند اسے کوئی حکم کرے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کر دے۔‘‘
اور آدمی کسی کو دیکھ کر خوش کب ہوتا ہے، جب دوسرا شخص خندہ پیشانی سے پیش آئے، نظروں سے ہمدردی اور خیر خواہی جھلک رہی ہو، جب آدمی اس کی طرف سے اپنائیت محسوس کرے، اس کے چہرے پر خوشی کے جذبات اور گرمجوشی کے احساسات نظر آتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ سکون کی ضرورت کا صرف مرد کے لیے ہی کیوں ذکر کیا گیا اور سکون پہنچانے کی ذمہ داری عورت پر ہی کیوں ڈالی گئی ہے حالانکہ سکون تو ہر انسان کی ضرورت ہے اور ہر انسان سکون کے لیے زندگی بھر سر گرداں رہتا ہے۔
تو اصل بات یہ ہے کہ سکون کی عورت کی نسبت مرد کو زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ یہ اس کی معاشرے میں حیثیت اور ذمہ داریوں کی نوعیت کے تقاضوں کے مطابق ہے، اس اصل اس قاعدے اور ضا پہلے اور ضرورت اور تقاضے اور اس کی حقیقت کو اگر نظر انداز کیا جائے تو گھر میں ہرگز سکون نہیں آسکتا، گھر کا ماحول اچھا نہیں ہو سکتا، جس طرح اللہ تعالی نے ازدواجی زندگی کو ڈیزائن کیا ہے اس طرح نہیں چل سکتی۔ گھر سے باہر مرد کی ذمہ داریاں کیا ہیں، اس کے کاموں کی نوعیت کیا ہے کہ جس کی بناء پر اسے گھر میں آنے کے بعد سکون کی ضرورت ہوتی ہے؟
آئیے جانتے ہیں۔
سکون ذہنی اور قلبی اطمینان کا نام ہے اور ایک لحاظ سے جسمانی راحت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کی ضد ہے، قلق، اضطراب، بے چینی ، گھبراہٹ اور پریشانی و غیر ہو۔
سکون کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے اور سکون کا لغوی معنی ہے، ساکن ، جامد اور غیر متحرک ہونا ، جس حرف پر سکون اور جزم ہو، اسے ساکن کہتے ہیں یعنی غیر متحرک، اس کے پر عکس جس حرف پر زیر، زبر، یا پیش ہو اسے متحرک کہتے ہوں۔ تو عورت کا دائرہ عمل معاشرے میں ساکن اور غیر متحرک یا شبہ متحرک کی صورت میں ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ)) (الاحزاب:33)
’’اور اپنے گھروں قرار پکڑو، تک رہو۔‘‘
جبکہ مرد کا دائرہ کار وسیع ہے اور متحرک جزو کی حیثیت سے ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری کما کر لانے کی ہے، اور مرد جب رزق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے بہت سے مسائل اور بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا کام جس نوعیت کا بھی ہو، اسے لامحالہ دن میں
دو ایک بار کسی ایسی صورت سے دو چار ہونا پڑتا ہے جس میں تھے سے آدمی کا دماغ کھولنے لگتا ہے، آپ جتنا بھی اچھا بن کر رہنے کی کوشش کریں، کوئی نہ کوئی شخص دن میں آپ کو ایسا ضرور مل جائے گا جو آپ کو جلی کٹی سنا دے گا، جس کے جواب میں اگر چہ آپ کچھ نہ کہیں، خاموش رہیں مگر اندر ہی اندر سے وہ آپ کو تمکین اور بے چین ضرور کر دے گا۔ کوئی کام جو بظاہر آپ کو بڑا صاف ستھرا، آرام دہ اور پرسکون نظر آتا ہو، اس میں کوئی نہ کوئی پریشانی کا عنصر ضرور موجود ہوتا ہے۔ اکثر صورتوں میں رزق کما کر لانا ، دوسروں کے منہ سے نوالا چھینے کے مترادف ہوتا ہے، آفس جاب عموماً صاف ستھری اور پرسکون معلوم ہوتی ہے، کہ آدمی صبح صاف ستھرے کپڑے پہن کر جاتا ہے، دفتر میں صاف ستھرے اور پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتا ہے اور شام کو آرام سے گھر واپس لوٹتا ہے، مگر حقیقت میں وہ کام بھی اتنا آسان نہیں ہوتا، آفس میں کیا کیا سیاست کھیلی جاتی ہے، ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا سازشیں کی جاتی ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کسی طرح کوشش کی جاتی ہے یہ ایک الگ داستان ہے۔
اور اگر وہ کسی سرکاری دفتر میں ونڈو میں بیٹھ کر پیلک ڈیلینگ کرتا ہے تو پھر تو سمجھ لیجئے کہ دن میں اس کا پارہ کوئی سو بار تو اوپر نیچے ہوتا ہوگا، کیونکہ جتنی شکلیں، اتنی عقلیں۔ اللہ تعالی نے ہر آدمی کا مزاج مختلف بنایا ہے، اس کی عادتیں ، اس کا انداز گفتگو اس کی قوت برداشت مختلف بنائی ہے، اور آدمی اگر دن میں سو لوگوں کو ڈیل کرتا ہو تو کم از کم دس پندرہو تو ایسے ضرور مل جائیں گے جو جو اس کا دماغ گھما کے رکھ دیتے ہوں گے۔ اور اگر آدمی فیلڈ میں کام کرتا ہو، جیسے ٹیکسی کا بزنس ہے، تو پھر تو ایک ساتھ بہت سی پریشانیاں متوقع ہوتی ہیں، اسی طرح آٹو رپیئر کا کام ہو، گراسری سٹور ہو یا ریسٹورینٹ کا بزنس ہو، سب میں، دن میں کئی بار تو تکرار تو ہو ہی جاتا ہے۔ تو جب آدمی دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد ، تھکا ہارا، ذہنی قلبی اور نفسیاتی دباؤ اور پریشانیوں کا شکار ہو کر گھر واپس آتا ہے، تو آپ دیکھتے ہوں گے کہ بسا اوقات وہ آکر صوفے پر بیٹھتا نہیں بلکہ اپنے آپ کو گرا دیتا ہے اور ایک لمبی سانس لیتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ تھکاوٹ سے چور ہو چکا ہے اور گھر آ کر گویا اس نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی بیوی سے کیا توقع کرتا ہوگا ، یہی نا کہ وہ اس کے پاس آکر بیٹھے، اس کا حال چال پوچھے اور ایسے پیار بھرے اور ہمدردانہ انداز سے بات کرے کہ آدمی محسوس کرے کہ دنیا میں اگر کوئی اس کا صحیح معنوں میں ہمدرد اور غمخوار ہے تو وہ اس کی بیوی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر اس کے گھر داخل ہوتے ہی عورت کی چیخ و چنگھاڑ اور طعن و تشنیع سخنی پڑ جائے اور شکوے شکایات سننے کو ملیں ، تو پھر آپ آدمی کی کیفیت کا اندازہ کر سکتے اور اس کے رد عمل کی توقع بھی کر سکتے ہیں، یا جب آدمی گھر واپس آئے تو اس کی بیوی سر باندھ کر لیٹی ہوئی نظر آئے، جب کہ سارا دن اس نے صوفے پر بیٹھ کر ڈرامے دیکھنے میں صرف کیا ہو، یا ایک طرف آدمی گھر میں داخل ہو رہا ہو اور دوسری طرف عورت جاب کر کے آ رہی ہو اور دونوں نے اپنا اپنا برگر ہاتھ میں پکڑا ہو، تو کون کس کے لیے سکون کا باعث بنے گا اور گھر میں سکون کہاں سے آئے گا۔ ممکن ہے بہت سی عورتیں اپنے خاوند کی اس کیفیت اور ضرورت کو نہ سمجھتی ہوں، لیکن جب ان کا بیٹا وہی کام کر کے آیا ہو تو پھر ان کو بہت ترس اور پیار آتا ہے اور بھاگ بھاگ کر اس کی خدمت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ تو سکون مرد کی ضرورت ہے اور سکون پہنچانا عورت کی ذمہ داری ہے اور سمجھ دار اور دیندار عورتیں اس کا لحاظ کرتی ہیں اور اپنی ذمہ داری خوب نبھاتی ہیں۔
نیک اور سمجھدار عورت اپنے خاوند کے مزاج کو بجھتی ہے، اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی خوشی اور پریشانی کو بھانپ لیتی ہے، اسے تسلی دیتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس کی غم خواری کرتی ہے۔ ایسی سمجھدار اور ہمدرد و غم خوار عورتوں کی اسلام میں کمی نہیں تھی، اور اب تو گویا دونوں طرف ایسے لوگوں کا قحط پڑ چکا ہے، بہر حال تاریخ اسلامی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں عورت کا اپنے خاوند کی پریشانی میں اس کے غم کا بوجھ ہلکا کرنے میں اک مثالی کردار رہا ہے، سب سے بڑھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ہمدردانہ اور مخلصانہ رویہ اور انداز رہا، جیسا کہ واقعہ مشہور ہے، آپ نے سن رکھا ہوگا:
آپﷺ غار حرا میں خلوت نشینی فرمایا کرتے تھے، جبریل علیہ السلام جب پہلی با روحی لے کر آئے تو ان سے مل کر جب آپﷺ گھر واپس تشریف لائے تو آپ ﷺکا دل دھک دھک کر رہا تھا، حضرت خدیجہ بنی ہونا سے فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو، چادر اوڑھا دی گئی۔
فرمایا: مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
((كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا))
’’قطعًا نہیں! خوش ہو جائے اللہ کی قسم اللہ تعالی آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔‘‘
((إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الكَلَّ وتكسب المعدوم وتقري الضيف وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ))(بخاري:6982)
’’آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بندو بست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح اور بھی واقعات ہیں۔
تو اک ہمدرد و غم خوار اور وفاشعار عورت کی صفات اور ذمہ داریوں میں ایک یہ بات بھی ہے کہ وہ دین کے معاملے میں مرد کی مددگار ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
جب آیت نازل ہوئی: ﴿ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝﴾ (التوبه:34)
’’جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے ۔‘‘
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((تَبًّا لِلذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ يَقُوْلَهَا ثَلَاثًا))
’’سونے چاندی والوں کے لیے ہلاکت ہو، تین بار فرمایا۔‘‘
((فَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ))
’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پر یہ بات بہت گراں گزری۔‘‘
کیونکہ وہ یہ سمجھے تھے کہ سرے سے سونا چاندی رکھنا ہی منع ہے، جب کہ اس کا مطلب تھا کہ وہ لوگ جو زکاۃ نہیں دیتے۔
((فَقَالُوا: أَيُّ الْمَالِ نَتَّخِذْ؟))
’’چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ پھر ہم کون سا مال رکھ سکتے ہیں؟‘‘
((فَقَالَ: قَلْبًا شَاكِرًا، وَلِسَانًا ذَاكِرًا، وَزَوْجَةً صالحة)) (المعجم الأوسط للطبراني:2274)
’’فرمایا: شکر کرنے والا ول، ذکر کرنے والی زبان اور نیک بیوی ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((وَزَوْجَةً مُؤْمِنَةً تُعِينُ أَحَدَكُمْ عَلَى أَمْرِ الْآخِرَةِ)) (ابن ماجة:1856)
’’اور ایمان والی بیوی جو تمھیں آخرت کے کاموں میں مدد کرے۔‘‘
…………..