اذان دینے کی اجرت کا مسئلہ

346۔سیدنا عثمان بن ابو العاص رضیاللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اپنی قوم کا

امام بنا دیں، آپﷺ نے فرمایا:

((أَنْتَ إِمَامُهُمْ، وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ، وَاتَّخِذُ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلٰى أَذَانِهِ أَجْرًا)) ((أخرجه أحمد:  16270، 16271، وأبو داود:531، والنسائي:23/2، وابن خزيمة:423، والطبراني في الكبير:  8365، والحاكم: 199/1، والبيهقي في السنن: 429/1)

’’تم اپنی قوم کے امام ہو۔ (تمھاری ذمہ داری ہے کہ امامت کرواتے ہوئے) ان میں سے سب سے کمزور کا خیال کرنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان دینے پر اجرت نہ لے۔“

توضیح و فوائد:  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مؤذن کا تقرر امام کی صوابدید پر موقوف ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اذان کی اجرت نہ لے۔ اذان میں اللہ کی توحید کا اعلان ہے، اس لیے اس اعلان کی اجرت کسی طرح مناسب نہیں، البتہ دیگر خدمات، مثلاً:  مسجد کی صفائی وغیرہ کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ والله أعلم.