اذکار ،وظائف اور دعاؤں کے انسانی جسم پر اثرات
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ.(الرعد : 28)
وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں ۔ سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ.(البقرة : 152)
سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی:أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ،وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِیْ
’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں
حصن المسلم، مسلمان کا حفاظتی قلعہ
عصر حاضر میں اذکار، وظائف اور دعاؤں کے سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والی کتاب سعید بن وھب القحطاني رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کی کتاب ہے جس کا نام انہوں نے  حصن المسلم  رکھا ہے گویا اس نام میں کتاب کا خلاصہ سمودیا گیا ہے حصن المسلم کا معنی ہے ایک مسلمان کا (دشمن، وبا، آفت مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کا) مضبوط قلعہ
جیسے حالت جنگ میں دشمن سے بچنے کے لیے بسااوقات قلعہ بند ہونا پڑتا ہے ایسے ہی مختلف دعاؤں، اذکار اور وظائف کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارد گرد ایک قلعہ بنا رکھا اب ہمیں اس قلعہ میں داخل ہو کر اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنا ہے
شیطان اس قلعے کو گرانا چاہتا ہے
دوسری جانب دشمنِ انسان شیطان ہے وہ چاہتا ہے مسلمان اس قلعے کی حفاظت میں نہ جائیں یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ.(المجادلة : 19)
شیطان ان پر غالب آگیا، سو اس نے انھیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو! یقینا شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
جہاد افغان کے ایک مجاہد کا ایمان افروز واقعہ
میں نے اسیر جہاد شیخ عبد الرحمن الداخل حفظہ اللہ تعالیٰ سے افغانستان میں روسی جنگ کے دور کا ایک واقعہ سنا
 آپ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایک مجاہد ساتھی ٹرک پر مجاہدین کا سامان لوڈ کیئے جا رہا تھا کہ دشمن نے سامان لوٹنے کی غرض سے پیچھا شروع کر دیا اس بھائی کو بھی دشمن کے پیچھا کرنے کی خبر مل گئی
 زیادہ پریشانی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب اس بھائی کا ٹرک چلتے چلتے کسی فنی خرابی کے باعث بند ہو گیا اب اس نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح یہ سٹارٹ ہو جائے لیکن وہ ٹرک تھا کہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ہر گزرتے لمحے دشمن قریب سے قریب ہوتا جا رہا تھا سوچنے لگا اگر کچھ دیر مزید یوں ہی گزر گئی تو گرفتاری یا شہادت یقینی ہوگی
 اس نے کیا کیا کہ دو رکعت نماز ادا کی سجدے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی سلام پھیرنے کے بعد دوبارہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اللہ کا نام لیا چابی لگائی، سٹارٹ کیا تو گاڑی فوراً چل پڑی اور یوں وہ بھائی اللہ کی مدد سے اپنی جان اور مال دونوں کو بچانے میں کامیاب ہو گیا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ
یا وہ جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمھیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت ہی کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔
النمل : 62
‏قال بقية : كنا مع إبراهيم بن أدهم في البحر فهاجت ريح واضطربت السفينة ، وبكوا، فقلنا : يا أبا إسحاق، فقال : يا حي حين لا حي، ويا حي قبل كل حي، ويا حي بعد كل حي، يا حي ، يا قيوم، يا محسن، يا مجمل ! قد أريتنا قدرتك، فأرنا عفوك . فهدأت السفينة من ساعته
– سير أعلام النبلاء ( ٣٩١/٧)
اللہ کے نام کی تاثیر
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ
غزوۂ ذات الرقاع  ۷ھ میں جو صلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا۔ اس سفر سے واپسی پر ایک قابل ذکر واقعہ پیش آیا جسے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
اتفاق سے دوپہر کو ایسے مقام پر پہنچے جہاں خار دار درخت بہت تھے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں اتر پڑے۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی الگ الگ درختوں کے سائے میں ٹھہرے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہرے اور تلوار درخت سے لٹکا دی (اور سوگئے) جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ بھی سو رہے تھے۔
« ثُمَّ اِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلَّمَ یَدْعُوْنَا ، فَجِئْنَاہ فَاِذَا عِنْدَہُ اَعْرَابِیٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلمَ : اِنَّ ہٰذَا اخْتَرَطَ سَیْفِیْ وَاَنَا نَائِمٌ فَا سْتَیْقَظْتُ وَہُوَفی یَدِہ صَلْتًا فَقَالَ لِیْ ! "مَنْ یَمْنِعُکَ مِنِّیْ؟ قُلْتُ ! اللّٰہُ ! فَہَا ہُوَ ذاجَالِسٌ” ثُمَّ لَم یُعَاقبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم»
 یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم کو بلانے لگے۔ہم آئے تو دیکھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک گنوار (غورث بن حارث) بیٹھا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: پتہ ہے ابھی اس گنوار نے کیا کیا؟ میں سورہا تھا کہ اس نے میری تلوار سونت لی۔ میں جاگا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں دیکھی۔کہنے لگا! اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا’’ میرا اللہ‘ ‘دیکھو وہ گنوار یہ بیٹھا ہے۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو کوئی سزا نہ دی۔)
سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے
 وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
 اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے
طلاق 3
اللہ تعالیٰ کا نام بابرکت ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کاموں کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، کیونکہ اللہ کا نام بابرکت ہے اور اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا
فرمایا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔
العلق : 1
اور فرمایا
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
بہت برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔
الرحمن : 78
اور فرمایا
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
اور اپنے رب کا نام صبح اور پچھلے پہر یاد کیا کر۔
الإنسان : 25
اور فرمایا
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔
الأعلى : 14
وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى
اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی ۔
الأعلى : 15
بسم اللہ پرایک ڈاکٹرکاتجربہ
 و تقول الدكتور بوقري :
"قد حضرت له محاضرة في كلية دار الحكمة وله كتاب عن تأثير الكلام على الماء وكيف يصبح مثل الألماس والكريستال بتصوير جزيئاته حين يسمع كلاما حسنا ومن ذلك تجربة أن يتعرض الماء لقول (بسم الله) فوجد أن شكل جزيئاته تتغير إلى شكل جميل جدا , ولاعجب أن ديننا يدعونا لنقول بسم الله قبل الأكل والشرب، لما في ذلك من الخير والبركة كما نحن موقنين، وثبت أن له تأثيرا فعليا على تكوين الطعام والشراب وتغير جزيئاته بشكل أفضل
وہ کہتے ہیں کہ کلیہ دار الحکمہ میں انہوں نے کئی مشاہدات کیئے ہیں (ان کی پانی پر کلام کی تاثیر کے حوالے سے ایک کتاب بھی ہے) کہ پانی جب اچھی کلام سنتا ہے تو اس کے اجزاء کیسے صاف شفاف پتھر اور شیشے کی طرح چمکدار اور خوبصورت ہو جاتے ہیں
ان کے تجربات میں سے ہے کہ وہ پانی پر بسم اللہ پڑھتے تو دیکھتے کہ اس کے اجزاء بہت ہی خوبصورت شکل میں تبدیل ہو جاتے
اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ہمارے دین میں تو ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھا کریں کیونکہ اس میں خیر و برکت ہے اور اسی پر ہمارا یقین ہے
اور یہ بات اس تجربہ سے بھی ثابت ہو گئی کہ بسم اللہ کا کھانے پینے کو اچھی شکل میں تبدیل کرنے کا اثر ہے
کتےکاشکار اور بسم اللہ کا فرق
کسی عالم سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں ایک طرف تو کتے کے منہ ڈالنے کی وجہ سے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے
جبکہ دوسری طرف اگر کتا شکار کیلئے چھوڑا جائے حتی کہ اس کے دانت شکار کیئے ہوئے جانور کے جسم میں پیوست ہوچکے ہوتے ہیں
لیکن اسے محض ایک آدھ مرتبہ دھوکر ہی کھالینے کا حکم ہے
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کے درمیان بسم اللہ کی تاثیر اور تعلیم کا فرق ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
 فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
 تو اس میں سے کھائو جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
المائدة : 4
بسم اللہ کی برکت سے دروازے کھلنا ختم ہو گئے
استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
"ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ رات کو اچانک گھر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، تو انھوں نے رات بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کرنے کی نصیحت کی تو دروازوں کا کھلنا ختم ہو گیا۔”
(تفسیر القرآن الكريم)
 اور یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا :
 [ وَ أَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَ أَوْكُوْا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَ خَمِّرُوْا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوْا عَلَيْهَا شَيْئًا وَ أَطْفِؤا مَصَابِيْحَكُمْ ]
 [ بخاري، الأشربۃ، باب تغطیۃ الإناء : ۵۶۲۳۔ مسلم : ۹۷؍۲۰۱۲ ]
 ’’ (جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو) دروازے بند کر لو اور اس وقت اللہ کا نام لو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو، خواہ کسی چیز کو چوڑائی میں رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔‘‘
اچانک مصیبت سے بچنے کے لیے انتہائی مؤثر کلام
سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
جس نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِه شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ وَھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم
ُ (اس اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے)،
 جس نے صبح کے وقت یہ دعا تین بار پڑھی تو ان شاء اللہ رات تک اس کو اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی،
 اسی طرح جس نے شام کو یہ عمل کیا تو صبح تک ان شاء اللہ اس کو کوئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی۔
مسند احمد : 528
=====تلاوت قرآن کریم کے فوائد و ثمرات
قرآن تو سراپا شفاء ہے
فرمایا
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ
 کہہ دے یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے
فصلت 44
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔
الإسراء : 82
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ
اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔
يونس : 57
گوجرانوالہ میں ہمارے ایک دوست کا واقعہ
میاں امجد صاحب وحدت روڈ گوجرانوالہ میں رہتے ہیں ہمارے اچھے دوست ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ وحدت روڈ پر ہم نے ایک مکان خریدا ہے (جہاں آجکل وہ رہائش پذیر ہیں) اس مکان کے متعلق علاقے میں مشہور تھا کہ یہاں جن بھوت رہتے ہیں اس کے مالک اسے بیچنا چاہتے تھے لیکن کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں تھا پانچ مرلے سے زائد جگہ پر بہترین تین منزلہ عمارت خوبصورت گھر بنا ہوا ہے ہم نے اللہ کا نام لیا اور وہ مکان خرید لیا جب ہم ادھر شفٹ ہوئے سامان منتقل کرلیا رہائش اختیار کی تو ہمیں کئی ایک بار ایسا محسوس ہوا لائٹوں کا خود ہی آن ہو جانا پانی کی ٹؤٹی کا خود ہی کھل جانا وغیرہ
تو میں نے اپنے بیوی بچوں کو نماز پنجگانہ اور تلاوت قرآن پاک کی باقاعدگی پر توجہ دلائی اور گھر میں موبائل-فون پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآن کی آواز گونجتی رہی اس کے بعد عرصہ گزر گیا ہم نے کبھی ایسی کوئی شکایت محسوس نہیں کی
والحمد للہ علی ذلک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روا یت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :
 لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ
 "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔”
مسلم 1824
 حضرت ابو  امامہ باہلی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حدیث بیان کی،انھوں کہا: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے ہوئے سنا:
 اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ
سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔”
معاویہ نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ باطل پرستوں سے ساحر(جادوگر) مراد ہیں۔
مسلم 1874
ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 «الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ، مَنْ قَرَأَهُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ»
  سورئہ بقرہ کی آیتیں ( امن الرسول سے آخر تک ) ایسی ہیں کہ جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتی ہیں ۔
بخاري 4008
سورہ فاتحہ کی تاثیر
سانپ کے ڈسے کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا دم
 ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ایک سفر میں تھے، راستے میں اترے تو ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی : ’’قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے لوگ غائب ہیں تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟‘‘ چنانچہ اس کے ساتھ ایک آدمی گیا جس کے متعلق ہمیں دم کرنے کا گمان نہیں تھا، اس نے اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا۔ سردار نے اسے تیس بکریاں دینے کو کہا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا : ’’کیا تم اچھی طرح دم کر لیا کرتے تھے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں، میں نے صرف ام الکتاب کے ساتھ دم کیا ہے۔‘‘ ہم نے کہا : ’’جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچیں کچھ نہ کرو۔‘‘ جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ (بکریاں) تقسیم کر لو اور میرا حصہ بھی رکھو۔‘‘
 [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل فاتحۃ الکتاب : ۵۰۰۷ ]
بخاری کی ایک روایت (۵۷۳۶) میں ہے کہ ان لوگوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا تھا، جب انھوں نے دم کی درخواست کی تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے یہ کہہ کر کہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی تیس بکریوں کی شرط طے کی تھی۔
مسلم (۲۲۰۱) میں ہے کہ یہ دم کرنے والے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے
پاگل آدمی ٹھیک ہوگیا
خارجہ بن صلت کے چچا (علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اسلام لے آئے، پھر واپس گئے تو ان کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک پاگل آدمی لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔ اس کے گھر والے کہنے لگے : ’’تمھارا یہ ساتھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خیر لے کر آیا ہے تو تمھارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کرو؟‘‘ تو میں نے اسے فاتحۃ الکتاب کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انھوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو (سارا واقعہ) بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ آپ نے فرمایا : ’’بکریاں لے لو! مجھے اپنی عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ جانے) تم نے تو حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔‘‘
[ أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقٰی : ۳۸۹۶ ]
ہمارے شیخ حضرت حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کا فاتحہ سے دم
حافظ صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
 یہ سورت بہترین دم ہے، سانپ کے زہر جیسی خطرناک بیماری اور دیوانگی جیسی مشکل سے درست ہونے والی بیماری کا دور ہونا اس کی بے انتہا شفائی تاثیر کی دلیل ہے۔ میری ہمشیرہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اور بیساکھی کے سہارے سے چلتی تھی، اس کی تندرست ٹانگ بھی بے کار ہو گئی، سارے گھر والے سخت مصیبت میں پھنس گئے، میرے والد صاحب کو ایک عالم نے سورۂ فاتحہ کا دم کرنے کی تاکید کی۔ تیرھویں دن ہمشیرہ دیوار کے سہارے سے ٹانگ پر کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی ٹانگ بالکل تندرست ہو گئی۔ تقریباً چالیس برس ہو گئے آج تک وہ بیساکھی کے ساتھ اس ٹانگ پر چلتی پھرتی ہے۔ مجھے زندگی میں دو تین دفعہ نہایت سخت بیماری پیش آئی، علاج کے ساتھ ساتھ گھر والے سورۂ فاتحہ کا دم کرتے رہے، اگرچہ کچھ مدت لگی مگر اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔ (الحمد للہ)
تفسیر القرآن الكريم
  ابن القیم رحمہ اللہ کا واقعہ
فرماتے ہیں مکہ مکرمہ میں میرے اوپر ایسا وقت بھی آیا کہ میں بیمار ہو گیا اور میرے پاس کوئی طبیب نہ تھا اور نہ ہی کوئی دوا مل رہی تھی لہذا میں نے اپنا علاج سورہ فاتحہ سے شروع کردیا اور پھر میں نے اس کی حیران کن تاثیر دیکھی میں چند گھونٹ زمزم لے کر اس پر کئی مرتبہ فاتحہ پڑھتا پھر اسے پی لیتا اس سے مجھے مکمل شفا مل گئی پھر تو میں بہت ساری تکلیفوں میں اسے اختیار کرنے لگا اور مجھے شفا مل جاتی چنانچہ میں ہر اس شخص کو جو کسی بھی قسم کی شکایت کرتا، یہ علاج بتانے لگا اور ان میں سے بہت سارے لوگ جلد شفا یاب ہونے لگے
زادالمعاد 178/4
=====معوذتین کے متعلق
کسی بھی قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کے لیے سورۂ فلق اور سورۂ ناس جیسی کوئی چیز نہیں۔ ان سورتوں میں تمام جسمانی و روحانی آفات سے بچانے اور انھیں دور کرنے کی زبردست تاثیر موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے، خصوصاً پناہ کے باب میں ان کو بے مثل قرار دیا ہے۔
 (1) عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ أَلَمْ تَرَ آيَاتٍ أُنْزِلَتِ اللَّيْلَةَ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ : «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ » وَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ » ]
 [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ المعوذتین : ۸۱۴]
 ’’کیا تم نے وہ آیات نہیں دیکھیں جو آج رات نازل کی گئی ہیں، جن کی مثل کبھی دیکھی ہی نہیں گئی؟ وہ سورۂ فلق اور سورۂ ناس ہیں۔‘‘
(2) ابن عابس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
 [ أَلاَ أُخْبِرُكَ بِأَفْضَلِ مَا يَتَعَوَّذُ بِهِ الْمُتَعَوِّذُوْنَ؟ قَالَ بَلٰي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» وَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ » هَاتَيْنِ السُّوْرَتَيْنِ ]
 [ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین : ۵۴۳۴ ]
 ’’کیا میں تمھیں سب سے بہتر وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ پکڑنے والے پناہ پکڑتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ اور ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ یہ دو سورتیں۔‘‘
(3) عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
 [ خَرَجْنَا فِيْ لَيْلَةٍ مَّطِيْرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيْدَةٍ نَطْلُبُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيْ لَنَا، قَالَ فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ قُلْ، فَقُلْتُ مَا أَقُوْلُ؟ قَالَ قُلْ « قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ» وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِيْنَ تُمْسِيْ وَ تُصْبِحُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ]
 [ترمذي، الدعوات، باب الدعاء عند النوم : ۳۵۷۵، وقال الألباني حسن ]
 ’’ہم ایک بارش اور سخت اندھیرے والی رات میں نکلے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے، تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں۔ چنانچہ میں آپ سے جا ملا، تو آپ نے فرمایا : ’’کہو۔‘‘ میں نے کچھ نہ کہا، آپ نے پھر فرمایا : ’’کہو۔‘‘ تو میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : ’’کہو۔‘‘ میں نے کہا : ’’میں کیا کہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ اور معوذتین صبح و شام تین تین مرتبہ کہہ، یہ تجھے ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔‘‘
(4) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
 ’’معوذ تین نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں سے اور انسان کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب معوذتین اتریں تو آپ نے ان دونوں کو معمول بنا لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا۔‘‘
 [ ترمذي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في الرقیۃ بالمعوذتین : ۲۰۵۸ ]
ترمذی نے اسے حسن صحیح اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
 (5) عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے متعلق پوچھا۔ عقبہ فرماتے ہیں کہ (ہم نے یہ سوال کیا تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان دونوں سورتوں کے ساتھ صبح کی جماعت کروائی۔
 [ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین : ۵۴۳۶، وصححہ الألباني ]
 اس سے معلوم ہوا کہ ان کا نام معوذتین معروف تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے لمبی سورتوں کی جگہ انھیں کافی قرار دیا۔ [ دیکھیے ترمذي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في الرقیۃ بالمعوذتین : ۲۰۵۸]
 (6) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے پھر ان میں پھونکتے۔ دونوں میں ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘، ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ اور ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ پڑھتے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیرتے۔ پھیرنے کی ابتدا سر ،چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے۔ آپ اس طرح تین مرتبہ کرتے۔‘‘
[ بخاري، فضائل القرآن، باب فضل المعوذات : ۵۰۱۷ ]
(7) عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے روایت ہے :
 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے۔ جب آپ کا درد بہت بڑھ گیا تو میں آپ پر پڑھتی اور آپ ہی کا ہاتھ اس ہاتھ کی برکت کی امید سے (آپ کے جسم پر) پھیرتی تھی۔‘‘
 [ بخاري، الاستعاذۃ، باب ما جاء في المعوذات : ۵۰۱۶ ]
 ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ان تینوں سورتوں کو مذکورہ اوقات میں روزانہ پڑھنا چاہیے، یہ ہر قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں اور جن و انس میں سے شیاطین کے شرور و آفات سے بھی اللہ کی پناہ میں رکھتی ہیں
آیت الکرسی پڑھیں اور مال و جان محفوظ بنائیں
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے، اس میں ان کا زکوٰۃ الفطر کی حفاظت پر مامور ہونا اور ایک شخص کا تین دن آ کر چوری کی کوشش کرنا، دو مرتبہ گرفتار ہو کر منتیں کرکے چھوٹنا اور تیسری دفعہ گرفتار ہونے پر انھیں یہ بتانا مذکور ہے کہ جب تم بستر پر آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، تو لازماً اللہ کی طرف سے تم پر ایک حفاظت کرنے والا مقرر ہو گا اور تمھارے صبح کرنے تک کوئی شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تمھارے قیدی کا کیا بنا ؟‘‘ میں نے سارا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یاد رکھو ! اس نے تمھیں سچ بتایا، حالانکہ وہ بہت جھوٹا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا :’’وہ شیطان تھا۔‘‘
[بخاری، الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک … : ۲۳۱۱، ۵۰۱۰ ]
 ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا اپنا ایک احاطہ تھا اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ جن آتاتھا اور اس میں سے اٹھا لے جاتا تھا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا:’ جاؤ جب دیکھو کہ وہ آیاہوا ہے تو کہو: بسم اللہ ( اللہ کے نام سے) رسول اللہ ﷺ کی بات مان’، ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا تو وہ قسمیں کھاکھاکر کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو، دوبارہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا، چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑدیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیے تو آپ نے ان سے پوچھا ،’ تمہارے قید ی نے کیاکیا؟!’ انہوں نے کہا: اس نے قسمیں کھائیں کہ اب وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔ آپ نے فرمایا:’ اس نے جھوٹ کہا: وہ جھوٹ بولنے کاعادی ہے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے اسے دوبارہ پکڑا ، اس نے پھر قسمیں کھائیں کہ اسے چھوڑ دو، وہ دوبارہ نہ آئے گا تو انہوں نے اسے (دوبارہ) چھوڑدیا، پھر وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا:’ تمہارے قیدی نے کیاکیا؟ ‘انہوں نے کہا: اس نے قسم کھائی کہ وہ پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا: اس نے جھوٹ کہا، وہ تو جھوٹ بولنے کا عادی ہے’۔ (پھر جب وہ آیا) توا نہوں نے اسے پکڑ لیا،اور کہا :اب تمہیں نبی اکرمﷺ کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑدو، میں تمہیں ایک چیز یعنی آیت الکرسی بتارہاہوں ۔ تم اسے اپنے گھر میں پڑھ لیاکرو۔ تمہارے قریب شیطان نہ آئے گا اور نہ ہی کوئی اور آئے گا’، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا: ‘تمہارے قیدی نے کیاکیا؟’ تو انہوں نے آپ کو وہ سب کچھ بتایا جو اس نے کہاتھا۔ آپﷺ نے فرمایا:’ اس نے بات تو صحیح کہی ہے، لیکن وہ ہے پکا جھوٹا’۔
ترمذي 2880
گھر سے باہر نکلنے کی دعا دور رہے گی ہر بلا
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ-
” جب بندہ اپنے گھر سے نکلے اور یہ کلمات کہہ لے :«بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله» ” اﷲ کے نام سے ، میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کسی شر اور برائی سے بچنا اور کسی نیکی یا خیر کا حاصل ہونا اﷲ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ “
قَالَ:- يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ
  تو اس وقت اسے یہ کہا جاتا ہے : تجھے ہدایت ملی ، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا ( ہر بلا سے ) ۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تیرا داؤ ایسے آدمی پر کیونکر چلے جسے ہدایت دی گئی ، اس کی کفایت کر دی گئی اور اسے بچا لیا گیا ۔ “
ابو داؤد 5095
کتنا سعادت مند ہے وہ بندہ جو بلا مشقت اللہ تعالیٰ کی امان حاصل کرتا اور شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے چاہیے کہ ان ازکار سے غفلت نہ برتی جائے۔
=====ان شاء اللہ کی تاثیر
جب بھی کسی کام کا عزم، ارادہ یا وعدہ کریں تو ان شاءاللہ ضرور بولا کریں اس کلمہ کے فوائد و ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ان شاءاللہ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا
اور کسی چیز کے بارے میں ہرگز نہ کہہ کہ میں یہ کام کل ضرور کرنے والا ہوں۔
الكهف : 23
إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کو یاد کر جب تو بھول جائے اور کہہ امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے قریب تر بھلائی کی ہدایت دے گا۔
الكهف : 24
ان شاء اللہ پر عدم اعتماد کا نقصان
 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا
 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ قَالَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ قَالَ لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقَالَ لَهُ لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ قُلْتُ طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا
 کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گےے ۔ آپ جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں ، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھودے گا ۔ آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ ” کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ گناہوں کو دھودے گا ۔ اس نے اس پر کہا : آپ کہتے ہیں گناہوں کودھونے والا ہے ۔ ہر گز نہیں ۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا ( راوی نے ) تثور کہا ( دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے ) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش ماررہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھاتو پھر یوں ہی ہوگا ۔
بخاری 3420
 طبرانی میں ہے کہ دوسرے روز وہ مرگیا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
ان شاء اللہ، میں اتنی برکت ہے کہ کافر(یاجوج ماجوج) بھی کہیں گے تو دیوار دوبارہ موٹی نہیں ہوگی اور وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
 إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ حَفَرُوا حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْتَثْنَوْا فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ فَيَحْفِرُونَهُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ فَيُنْشِفُونَ الْمَاءَ وَيَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ فَيَقُولُونَ قَهَرْنَا أَهْلَ الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ فَيَبْعَثُ اللَّهُ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ لَتَسْمَنُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ
‘‘یاجوج ماجوج روزانہ (دیوار) کھودتے ہیں حتی کہ جب (اتنی کم موٹی رہ جاتی ہے کہ) انہیں سورج کی روشنی (اس کے آرپار) نظر آنے کے قریب ہوتی ہے تو ان کا افسر کہتا ہے: واپس چلو، اس (باقی دیوار) کو ہم کل کھود ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے پھر پہلے سے بھی انتہائی سخت کر دیتا ہے۔ جب ان کا مقرر وقت آئے گا اور اللہ تعالی کی منشاء ہو گی کہ انہیں لوگوں تک پہنچنے دے تو وہ کھودیں گے، جب وہ سورج کی روشنی دیکھنے کے قریب ہوں گے تو ان کا افسر کہے گا: چلو، اس کو ہم کل کھود لیں گے ان شاء اللہ۔ وہ اللہ کی مرضی کا ذکر کریں گے تو (اس کی یہ برکت ہو گی کہ) جب (صبح کو) واپس آئیں گے تو اسے اسی حالت میں پائیں گے جیسی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اسے کھود کر لوگوں کے سامنے نکل آئیں گے، اور پانی پی کر ختم کر دیں گے۔ لوگ ان سے بچاؤ کے لئے قلعہ بند ہو جائیں گے۔ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو تیر خون سے تربتر واپس آئیں گے۔ تب وہ کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر غالب آگئے۔ تب اللہ ان کی گدیوں میں کیڑے پیدا کر دے گا جن سے وہ ہلاک ہو جائیں گے’’۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہات میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور ان پر چربی چڑھ جائے گی’’۔
ابن ماجہ 4080
اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہتے تو اللہ تعالیٰ انہیں ایک سو بیٹوں سے نوازتے
سلیمان علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا :
 [ لَأَطُوْفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلٰي مِائَةِ امْرَأَةٍ أَوْ تِسْعٍ وَّتِسْعِيْنَ، كُلُّهُنَّ يَأْتِيْ بِفَارِسٍ يُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ قُلْ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، فَلَمْ يَقُلْ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ! لَوْ قَالَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، لَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فُرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ ]
 [ بخاري، الجہاد والسیر، باب من طلب الولد للجہاد : ۲۸۱۹ ]
’’آج رات میں اپنی سو (۱۰۰) یا فرمایا ننانوے (۹۹) عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ہر عورت ایک بیٹا جنے گی، جو جہاد فی سبیل اللہ کا شہ سوار ہو گا۔‘‘ ان کے ایک ساتھی نے کہا : ’’ان شاء اللہ کہیے۔‘‘ مگر سلیمان علیہ السلام نے (مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے) ان شاء اللہ نہ کہا، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو حمل ہوا اور وہ بھی ادھورا بیٹا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو سب عورتوں کے بیٹے ہوتے جو شہ سوار ہوتے اور سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔‘‘
اللہ اکبر کی تاثیر
====نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تسکین دینے کے لیے تکبیر کہنے کا حکمِ الہی
 جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنھما نے وحی رک جانے کے عرصہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا :
’’اس حالت میں کہ میں چلا جا رہا تھا میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ وہ فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا، میں اس سے ڈر گیا اور واپس آکر کہا : ’’مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
اے کمبل میں لپٹنے والے!
المدثر : 1
قُمْ فَأَنْذِرْ
اٹھ کھڑا ہو، پس ڈرا۔
المدثر : 2
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
اور اپنے رب ہی کی پس بڑائی بیان کر۔
المدثر : 3
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
اور اپنے کپڑے پس پاک رکھ۔
المدثر : 4
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
اور پلیدگی کوپس چھوڑ دے۔
المدثر : 5
   فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَ تَوَاتَرَ
 پھر وحی گرم ہو گئی اور مسلسل آنے لگی۔
 [بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي… : ۴۔ مسلم : ۱۶۱ ]
اور سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا
 وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا
 اور اس کی بڑائی بیان کر، خوب بڑائی بیان کرنا۔
الإسراء : 111
دشمنِ انسان، شیطان پر اللہ اکبر کا وار
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتّٰی لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِيْنَ ، فَإِذَا قُضِيَ النِّدَاءُ أَقْبَلَ، حَتّٰی إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ ، حَتّٰی إِذَا قُضِيَ التَّثْوِيْبُ أَقْبَلَ حَتّٰی يَخْطُرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ ، يَقُوْلُ اذْكُرْ كَذَا ، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ ، حَتّٰی يَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ يَدْرِيْ كَمْ صَلّٰی ]
 [ بخاري، الأذان، باب فضل التأذین : ۶۰۸ ]
’’جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ دے کر بھاگ جاتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے۔ جب اذان پوری ہوتی ہے تو آجاتا ہے، پھر جب نماز کی اقامت ہوتی ہے چلا جاتا ہے، جب اقامت مکمل ہوتی ہے تو واپس آکر آدمی اور اس کے دل کے درمیان خیالات ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر، وہ چیزیں جو اسے یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ آدمی کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ ‘‘
=اللہ اکبر=نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین کلمات میں سے
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 لَأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ
 "یہ بات کہ میں ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا للہ واللہ اکبر” کہوں، مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔”
مسلم
=====اللہ اکبر اور ایک شہر کی فتح
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
 سَمِعْتُمْ بِمَدِينَةٍ جَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَرِّ وَجَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَحْرِ قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَغْزُوَهَا سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ بَنِي إِسْحَقَ فَإِذَا جَاءُوهَا نَزَلُوا فَلَمْ يُقَاتِلُوا بِسِلَاحٍ وَلَمْ يَرْمُوا بِسَهْمٍ قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ فَيَسْقُطُ أَحَدُ جَانِبَيْهَا قَالَ ثَوْرٌ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ الَّذِي فِي الْبَحْرِ ثُمَّ يَقُولُوا الثَّانِيَةَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ فَيَسْقُطُ جَانِبُهَا الْآخَرُ ثُمَّ يَقُولُوا الثَّالِثَةَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ فَيُفَرَّجُ لَهُمْ فَيَدْخُلُوهَا فَيَغْنَمُوا فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْمَغَانِمَ إِذْ جَاءَهُمْ الصَّرِيخُ فَقَالَ إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَرَجَ فَيَتْرُكُونَ كُلَّ شَيْءٍ وَيَرْجِعُونَ
 ” تم نے ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں ہے اور دوسری جانب سمندر میں ہے؟”انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی ،جی ہاں،اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کے خلاف بنو اسحاق میں سے ستر ہزار لوگ جہاد کریں گے،وہاں پہنچ کر وہ اتریں گے تو ہتھیار اس سے جنگ کریں گے نہ تیر اندازی کریں گے،وہ  کہیں گے،لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر،تو اس(شہر) کی ایک جانب  گرجائےگی۔”
ثور نے کہا:میں ہی جانتا ہوں کہ انھوں(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے وہی(کنارہ) کیا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:”جو سمندر میں ہے،پھر وہ دوسری بار لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہیں گے تو اس(شہر) کا دوسرا کنارابھی گرجائے گا،پھر وہ تیسری بار لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر کہیں گے تو ان کے لیے راستہ کھل جائے گا اور وہ اس(شہر) میں داخل ہوجائیں گے اور غنائم حاصل کریں گے۔جب وہ مال غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے تو ایک چیختی ہوئی آواز آئے گی جو کہےگی :دجال نمودار ہوگیا۔چنانچہ وہ(مسلمان) ہر چیز چھوڑدیں گے اور  واپس  پلٹ پڑیں گے۔”
مسلم 7333
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
 "قول العبد الله أكبر خيرٌ من الدنيا وما فيها "
(الجامع لأحكام القرءان للقرطبي١٠/٣٤٥ )
 انسان کا ایک مرتبہ اللہ اکبر کہنا دنیا اور دنیا کے اندر پائی جانے والی تمام جیزوں سے بہتر ہے
اللہ اکبر ،کس توپ کا نام ہے
جب روس کی فوج افغانستان میں بدترین شکست کھا کر نکل رہی تھی تو ایک روسی فوجی نے جاتے وقت ایک مسلمان سے پوچھا کہ اللہ اکبر آپ کی کونسی توپ کا نام ہے۔۔
کیونکہ جب ہم جنگ میں یہ نعرہ سنتے تھے تو اس کے بعد ہماری جانی نقصان بہت زیادہ ہوتی تھی مسلمان نے کہا یہ توپ کا نام نہیں یہ ایک ذکر ہے جس کا مطلب ہے۔۔۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔۔
اس فوجی نے کہا بس یہ آواز یہ ذکر ہماری شکست کی اصلی وجہ ہے کیونکہ جنگ کے دوران ہم بندوقوں، توپوں،اور گولیوں سے نہیں بلکہ اللہ اکبر کی آواز سے بہت ڈرتے تھے۔۔
آج بھی اللہ اکبر کا دور ہے۔۔۔کل بھی اللہ اکبر کا دور تھا۔اور آئیندہ بھی اللہ اکبر کا دور رہے گا۔۔۔ان شاءاللہ
اللہ تیری بادشاہت سب سے بلند۔۔ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ کی۔۔۔
 ====ماشاء اللہ،  لاقوۃ الا باللہ کی تاثیر
باغ کا مالک ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہتا تونقصان سے بچ جاتا
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے دو باغات والے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا ہے
ایک مسلمان تھا اور دوسرا کافر تھا
مسلم نے کافر سے کہاکہ تو جب بھی اپنے باغ میں داخل ہو تو ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہا کر لیکن اس نے اس کی بات نہ مانی نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا سارا باغ تباہ ہو کر رہ گیا
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
اور ان کے لیے ایک مثال بیان کر، دو آدمی ہیں، جن میں سے ایک کے لیے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ہم نے ان دونوں کو کھجور کے درختوں سے گھیر دیا اور دونوں کے درمیان کچھ کھیتی رکھی۔
الكهف : 32
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا
دونوں باغوں نے اپنا پھل دیا اور اس سے کچھ کمی نہ کی اور ہم نے دونوں کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔
الكهف : 33
وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا
اور اس کے لیے بہت سا پھل تھاتو اس نے اپنے ساتھی سے، جب اس سے باتیں کررہا تھا، کہا میں تجھ سے مال میں زیادہ اور نفری کے لحاظ سے زیادہ باعزت ہوں۔
الكهف : 34
وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا
اور وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ کبھی برباد ہوگا۔
الكهف : 35
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا
اور نہ میں قیامت کو گمان کرتا ہوں کہ قائم ہونے والی ہے اور واقعی اگر مجھے میرے رب کی طرف لوٹایا گیا تو یقینا میں ضرور اس سے بہتر لوٹنے کی جگہ پاؤں گا۔
الكهف : 36
قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
اس کے ساتھی نے، جب کہ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، اس سے کہا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر تجھے ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنا دیا۔
الكهف : 37
لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا
لیکن میں، تو وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
الكهف : 38
وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَوَلَدًا
اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو توُ نے یہ کیوں نہ کہا ’’جو اللہ نے چاہا، کچھ قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے‘‘اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں۔
الكهف : 39
فَعَسَى رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِنْ جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا
تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا کر دے اور اس پر آسمان سے کوئی عذاب بھیج دے تو وہ چٹیل میدان ہو جائے۔
الكهف : 40
أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا
یا اس کا پانی گہرا ہو جائے، پھر تو اسے کبھی تلاش نہ کر سکے گا۔
الكهف : 41
وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اور اس کا سارا پھل مارا گیا تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنی ہتھیلیاں ملتا تھا اس پر جو اس میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتوں سمیت گرا ہوا تھا اور کہتا تھا اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔
الكهف : 42
وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا
اور اللہ کے سوا اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اس کی مدد کرتے اور نہ وہ (خود) بچنے والا تھا۔
الكهف : 43
هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا
وہاں ہر طرح کی مدد اللہ سچے کے اختیار میں ہے، وہ ثواب دینے میں بہتر اور انجام کی رو سے زیادہ اچھا ہے۔
الكهف : 44
سبحان اللہ کی تاثیر
باغ والے اگر سبحان اللہ کہتے تو نقصان سے بچ جاتے
سورہ قلم میں اللہ تعالیٰ نے باغ کے مالک تین نوجوانوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروگرام بنایا تھا کہ صبح اندھیرے میں بہت جلدی اپنے باغ کا سارا پھل توڑ لیں گے اور کسی غریب یتیم مسکین کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیں گے
جس وقت یہ پروگرام بنا رہے تھے تب ان میں سے جو سب سے بہتر تھا اس نے انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتے ہوئے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ غرباء و مساکین کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی نکالیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) بھی بیان کریں لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی پھر جب طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح صبح اپنے باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ سارا باغ تو جل کر راکھ بن چکا ہے
تب
 قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ
ان میں سے بہتر نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے۔
القلم : 28
پھر وہ اللہ کی تسبیح کرنے لگے
قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ
انھوں نے کہا ہمارا رب پاک ہے، بلاشبہ ہم ہی ظالم تھے۔
القلم : 29
اور ایک دوسرے کو ملامت بھی کرنے لگے
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ
پھر ان کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوا،آپس میں ملامت کرتے تھے۔
القلم : 30
قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ
انھوں نے کہا ہائے ہماری ہلاکت! یقینا ہم ہی حد سے بڑھے ہوئے تھے۔
القلم : 31
عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ
امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔یقینا (اب) ہم اپنے رب ہی کی طرف راغب ہونے والے ہیں۔
القلم : 32
اگر یونس علیہ السلام، اللہ کی تسبیح نہ کرتے توقیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور بلاشبہ یونس یقینا رسولوں میں سے تھا۔
الصافات : 139
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔
الصافات : 140
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ
پھر وہ قرعہ میں شریک ہو ا تو ہارنے والوں میں سے ہو گیا۔
الصافات : 141
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ
پھر مچھلی نے اسے نگل لیا، اس حال میں کہ وہ مستحق ملامت تھا۔
الصافات : 142
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ
پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔
الصافات : 143
لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔
الصافات : 144
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ
پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔
الصافات : 145
وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ
اور ہم نے اس پر ایک بیل دار پودا اگا دیا۔
الصافات : 146
 سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ دَعْوَةُ ذِي النُّوْنِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِيْ بَطْنِ الْحُوْتِ « لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» فَإِنَّهٗ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰهُ لَهٗ ]
[ ترمذي، الدعوات، باب في دعوۃ ذي النون : ۳۵۰۵۔ مسند أحمد : 170/1، ح : ۱۶۴۴، و صححہ الألباني ]
’’ذو النون (یونس علیہ السلام ) کی دعا، جو اس نے مچھلی کے پیٹ میں کی « لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» کوئی مسلم آدمی اس کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔‘‘
الحمد للہ کہنے کی تاثیر
کسی مریض کو دیکھیں تو اس مرض سے بچنے کی تدبیر
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’
 مَنْ رَأَى مُبْتَلًى فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا لَمْ يُصِبْهُ ذَلِكَ الْبَلَاءُ
 جو شخص کسی شخص کو مصیبت میں مبتلا دیکھے پھر کہے:’الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً لَمْ یُصِبْہُ ذَلِکَ الْبَلاَئُ ‘ تو اسے یہ بلا نہ پہنچے گی’۔
نوٹ:( سندمیں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں ، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۲۰۶، ۲۷۳۷،وتراجع الالبا نی ۲۲۸)
چھینک آئے تو الحمد للہ کہیں
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ
 جب تم میں سے کوئی چھینکے تو الحمدللہ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ( راوی کو شبہ تھا ) ” یرحمک اللہ “ کہے ۔ جب ساتھی یرحمک اللہ کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ” یھدیکم اللہ ویصلح بالکم “
(اللہ تمہیں سیدھے راستہ پر رکھے اور تمہارے حالات درست کرے۔)بخاری 6224