عزّت کا مالک کون۔۔؟

اہم عناصر :
❄ عزّت کا مالک اللہ ہے ❄ مومن صاحبِ عزت ہے
❄ عزت کے لئے صحیح راستہ اختیار کریں ❄ تکلّفات میں عزت تلاش نہ کریں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ‌ بِيَدِكَ الۡخَيۡرُ‌ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ [آل عمران: 26]
ذی وقار سامعین!
ہر انسان کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ میرے پاس تین چیزیں ضرور ہوں ، وہ تین چیزیں دولت ، اولاد اور عزت ہے اور ہر انسان ان تینوں چیزوں کو حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے حلال و حرام کی تمیز کو بھی بھول جاتا ہے. دولت اور اولاد دونوں اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن اس کے باوجود بعض لوگ معاشرے میں یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ دولت جاتی ہے تو چلی جائے ، اولاد جاتی ہے تو چلی جائے لیکن عزت نہیں جانی چاہیے. میرا معاشرے میں مقام ، مرتبہ اور وقار ہونا چاہیے میں گلی محلے اور بازار میں نکلوں تو میں سر جھکا کے نہ چلوں بلکہ عزت اور احترام کے ساتھ سر اٹھا کے چلوں. اس بات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عزت کی کتنی زیادہ اہمیت ہے. آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ تعالی کی توفیق و رحمت سے یہ سمجھیں گے کہ عزت کس کے ہاتھ میں ہے اور عزت کن لوگوں کی ہوتی ہے اور عزت حاصل کرنے کے لیے غلط راستے اختیار کرنے سے عزت نہیں ملتی. اگر مل بھی جائے تو وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ بعض دفعہ تو وہ ذلت ہوتی ہے۔
عزّت کا مالک اللہ ہے
❄ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [آل عمران: 26]
"كہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔”
❄ مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا [فاطر: 10]
"جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔”
❄ وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [یونس: 65]
اور تجھے ان کی بات غمگین نہ کرے، بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے، وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ ❄ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور ( غصے میں ) بد دعا کر گئیں
اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُوهَ الْمُومِسَاتِ
اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔
جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔
فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ قَالَ الرَّاعِي
لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ (خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا!
(قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔ [مسلم: 6508]
اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ساری دنیا بھی مل کر اگر آپ کے خلاف ہوجائے اور آپکو ذلیل کرنا چاہے تو جب تک اللہ نہ چاہے نہیں کرسکتی۔
❄ حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ حضرت موسیٰ بڑے ہی شرم والے اوربدن ڈھانپنےوالے تھے۔ ان کی حیا کی وجہ سے ان کےبدن کا کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ بنی اسرائیل کےجولوگ انہیں اذیت پہنچانےکے درپے تھے ، وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ، ان لوگوں نےکہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپا نے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اوربیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالی کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ کو ان کی ہفوات سے پاک دکھلائے۔ ایک دن حضرت موسیٰ اکیلے غسل کرنےکےلیے آئے اور ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیے۔ پھر غسل شروع کیا۔جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کےلیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔
فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ
حضرت موسیٰ نےاپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرے کپڑےدے دے۔
آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور
فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ
ان سب نے آپ کوننگا دیکھ لیا ، اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالی نے ان کی تہمت سے ان کی برأت کردی۔ اب پتھر بھی رگ گیا اور آپ نےکپڑا اٹھاکر پہنا۔ پھر پتھر کواپنے عصا سے مارنے لگے۔ خدا کی قسم اس پتھر پرحضرت موسیٰ کےمارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑگئے تھے۔ اللہ تعالی کےاس فرمان ؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا
” تم ان کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نےموسیٰ کی اذیت دی تھی ، پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالی نےانہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اورعزت والے تھے۔”
میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ [بخاری: 3404]
❄ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور انھیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی (جو دلہن تھی) نہانے کو نکلی ، اس کا کمر بند(ہار) سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے (سرخ رنگ کی وجہ سے) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا ، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی ، یہاں تک کہ انھوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔
اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے ( اسے دیکھ کر ) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند!
اس (لونڈی) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ (یا یہ کہا کہ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ
وَيَوْمَ الوِشَاحِ مِنْ أَعَاجِيبِ رَبِّنَا … أَلاَ إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الكُفْرِ أَنْجَانِي
” کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ ”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا
مَا شَأْنُكِ، لاَ تَقْعُدِينَ مَعِي مَقْعَدًا إِلَّا قُلْتِ هَذَا؟ قَالَتْ: فَحَدَّثَتْنِي بِهَذَا الحَدِيثِ
آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔ [بخاری: 439]
❄ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ہیں. جن کے ساتھ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو سب سے زیادہ پیار تھا ، منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہتان لگا دیا اور خوب پروپیگنڈا کیا ، آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک مہینہ سے زیادہ دنوں تک پریشان رہے ۔
ان منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کردار کو داغدار کرنا چاہا اور اور ان کے مقام و مرتبہ کو گھٹانا چاہا تو اللہ رب العزت نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برأت میں آسمان سے قرآن مجید نازل کر دیا اور یہ بتا دیا کہ عائشہ پاک اور صاف ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل کر کے ان کی عزت کو اور بڑھا دیا۔ [تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں بخاری: 2661]

مومن صاحبِ عزت ہے
❄ يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ [المنافقون: 8]
"وہ کہتے ہیں یقیناً اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔ ”
❄ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک غزوہ (تبوک) میں تھا اور میں نے (منافقوں کے سردار) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ
لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَلَئِنْ رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِهِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ
” جو لوگ (مہاجرین) رسول کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ سے جدا ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔”
میں نے اس کا ذکر اپنے چچا (سعدبن عبادہ انصاری) سے کیا یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھالی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی ۔
فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ
اس پر آنحضرت ﷺ نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔
میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ…
اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ؛
إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ "اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے۔” [بخاری: 4900]
❄ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ترمذی میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ : وَاللّٰهِ ! لاَ تَنْقَلِبُ حَتّٰی تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيْلُ وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْعَزِيْزُ فَفَعَلَ [ترمذي: ۳۳۱۵صححہ الالبانی]
’’تو اس (عبداللہ بن اُبی) کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : ’’اللہ کی قسم! تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ ﷺ ہی عزیز ہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔‘‘
اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عزت مومن اور مسلمان کی ہے ، کافر اور منافق کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ان کے عزیزوں سے ہی ذلیل و رسوا کروادیتا ہے اور آنے والے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔
عزّت کے لئے صحیح راستہ اختیار کریں
❄ اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا [النساء: 139]
"وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ تو بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔”
❄ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملکِ شام کے سفر پر نکلے اور ان کے ساتھ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، راستے میں ایک کیچڑ والی جگہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اونٹنی سے اترے، اپنے جوتے اتارے اور کندھے پر رکھ کر اونٹنی کی نکیل پکڑ کر چلنے لگے۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہا: اے امیر المومنین! آپ ایسا کر رہے ہیں، مجھے اچھا نہیں لگتا کہ شہر کے لوگ آپ کو اس حالت میں دیکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’خبردار اے ابو عبیدہ! اگر یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی تو میں اسے (سزا دے کر) امتِ محمدیہ کے لیے عبرت بنا دیتا؛
نحن قوم أعزنا الله بالإسلام فإن ابتغينا العزة في غيره أذلنا الله
ہم ذلیل قوم تھے، اللہ نے اسلام کی بدولت ہمیں عزت عطا فرمائی، ہم اللہ کی دی ہوئی دولتِ اسلام کے سوا کسی چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ذلت ہی دے گا۔‘‘
[المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث ۲۱۴]
تکلّفات میں عزت تلاش نہ کریں
لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھے کپڑوں ، اچھے جوتوں اور اچھی گاڑیوں میں عزت ہے ، جبکہ یہ عزت کا معیار نہیں ہے ، آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمیں سمجھایا ہے کہ تکلفات میں عزت نہیں ہے بلکہ دین داری اور اسلام میں عزت ہے
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ» [مسلم: 6543]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ [مسلم: 6682]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہت سے غبار میں اٹے ہوئے (غریب الوطن، مسافر) بکھرے ہوئے بالوں والے، دروازوں سے دھتکار دیے جانے والے لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ پر (اعتماد کر کے) قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔”
❄ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ، فَقَالَ لرَجُلٍ عِنْدَهُ جَالِسٍ: «مَا رَأْيُكَ فِي هَذَا» فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ، هَذَا وَاللَّهِ حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَا رَأْيُكَ فِي هَذَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ المُسْلِمِينَ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لاَ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لاَ يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لاَ يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الأَرْضِ مِثْلَ هَذَا» [بخاری: 6447]
ترجمہ: سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے جو آپ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، پوچھا کہ اس شخص ( گزرے والے ) کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ معزز لوگوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح کردیا جائے ۔ اگر یہ سفارش کرے تو ان کی سفارش قبول کرلی جائے۔ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گزرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے متعلق بھی پوچھا کہ ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! یہ صاحب مسلمانوں کے غریب طبقہ سے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اگریہ نکاح کاپیغام بھیجےں تو ان کا نکاح نہ کیا جائے ، اگر یہ کسی کی سفارش کرےں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگرکچھ کہیں تو ان کی بات نہ سنی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا۔ اللہ کے نزدیک یہ پچھلا محتاج شخص اگلے مالدار شخص سے (اگرچہ ایسے آدمی زمین بھر کر ہوں) بہتر ہے۔
❄ عَنِ ابنِ مسعودٍ ، أنَّهُ كانَ يجتَني سواكًا منَ الأراكِ ، وَكانَ دَقيقَ السَّاقينِ ، فجَعَلتِ الرِّيحُ تَكْفؤُهُ ، فضَحِكَ القومُ منهُ ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ : مِمَّ تضحَكونَ؟ قالوا : يا نبيَّ اللَّهِ ، مِن دقَّةِ ساقيهِ ، فقالَ : والَّذي نَفسي بيدِهِ ، لَهُما أثقلُ في الميزانِ مِن أُحُدٍ[مسند أحمد:39991]
ترجمہ: ابن مسعود‏ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ پیلو(مسواک کے درخت) پر مسواک توڑنے چڑھے اور وہ پتلی پنڈلیوں والے تھے تو ہوا انہیں ادھر ادھر جھکانے لگی ، اس پر قوم (صحابہ) ہنسنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم لوگ کس لئے ہنس رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیااے اللہ کے نبی ! ان کی پنڈلیوں کی باریکی کی وجہ سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبصے میں میری جان ہے ، یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔
❄ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی ” جس کا نام زاہر تھا ” دیہات سے آتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی نہ کوئی ہدیہ لے کر آتا تھا اور جب واپس جانے لگتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بہت کچھ دے کر رخصت فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ” إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ ”
” زاہر ہمارا دیہات ہے اور ہم اس کا شہر ہیں۔”
نبی ﷺ اس سے محبت فرماتے تھے گو وہ رنگت کے اعتبار سے قابل صورت نہ تھا۔ ایک دن زاہر اپنے سامان کے پاس کھڑے اسے بیچ رہے تھے کہ نبی ﷺ پیچھے سے آئے اور انہیں لپٹ کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے، وہ کہنے لگے کہ کون ہے، مجھے چھوڑ دو، انہوں نے ذرا غور کیا تو نبی ﷺ کو پہچان گئے اور اپنی پشت نبی ﷺ کے سینے کے اور قریب کرنے لگے، نبی ﷺ آواز لگانے لگے کہ ؛
” مَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ ؟ ”
” اس غلام کو کون خریدے گا؟”
انہوں نے عرض کیا
"يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ وَاللَّهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا ”
اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے کھوٹا سکہ پائیں گے۔
نبی صلی ﷺ نے فرمایا ؛
لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ ” أَوْ قَالَ : ” لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ أَنْتَ غَالٍ.
لیکن تم اللہ کے نزدیک کھوٹا سکہ نہیں ہو، بلکہ تمہاری بڑی قیمت ہے۔ [مسند احمد: 12648صحیح]
❄ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام تھے ، دنیاوی لحاظ سے کوئی حسب و نسب والے یا مال و دولت والے نہیں تھے لیکن اسلام و ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کتنی عزّت اور شان عطاء فرمائی.. ؟
دو احادیث ملاحظہ فرمائیں؛
1۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ عُمَرُ يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِي بِلَالًا [بخاری: 3754] ترجمہ: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار بلال رضی اللہ عنہ کو انہوں نے آزاد کروایا ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ [بخاری: 1149]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں نےاس وضو سے نفل نماز پڑھی جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
❄❄❄❄❄