بچوں کی دینی تعلیم و تربیت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِۙ۝۱ وَ الْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِۙ۝۲ وَ شَاهِدٍ وَّ مَشْهُوْدٍؕ۝۳ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِۙ۝۴ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِۙ۝۵ اِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُعُوْدٌۙ۝۶ وَّ هُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُهُوْدٌؕ۝۷ وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ۝۸ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌؕ۝۹اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕ۝۱۰﴾(البروج: 1 تا 10)
’’بر جوں والے آسمان کی قسم، وعدہ کئے ہوئے دن کی قسم، حاضر ہونے والے حاضر کئے گئے کی قسم کہ خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ آگ تھی ایندھن والی۔ یہ لوگ اس کے پاس بیٹھے مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ ان مسلمانوں کو کسی گناہ کا بدلا نہیں دے رہے تھے۔ سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب لائق حمد پر ایمان رکھتے تھے جس کی آسمان وزمین میں بادشاہت ہے اور جو خدا ہر چیز پر حاضر اور خوب واقف ہے بے شک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر تو یہ بھی نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کے عذاب ہیں۔‘‘
بروج سے بڑے بڑے ستارے مراد ہیں اس سے چاند سورج کی بارہ منزلیں بھی بعض لوگوں نے مراد لی ہیں اور یوم الموعود سے مراد قیامت کا دن ، شاہد سے جمعہ کا دن اور مشہود سے عرفہ کا دن مراد ہے یعنی ان چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خندق والے ہلاک و برباد کر دیئے گئے ان خندق والوں کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ایک لمبی حدیث میں نہایت مفصل طریقے سے یہاں فرمایا ہے اور اس واقعہ کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند میں اور امام مسلم ہی نے اپنی صحیح مسلم میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔
اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادو گر تھا جب جادوگر بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ رہا ہے۔ مجھے کسی بچے کو سونپ دو کہ میں اسے جادو سکھا دوں۔ چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا۔ جب لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستہ میں ایک درویش کا گھر پڑتا جہاں وہ عبادت میں اور کبھی وعظ میں مشغول ہوتا۔ یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور اس کے طریق عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا اس طرح اب آتے جاتے یہاں رک جانا اس کا معمول بن گیا تھا۔ جادو گر بھی مارتا اور ماں باپ بھی۔ کیونکہ دونوں جگہ یہ دیر سے پہنچتا تھا ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے اپنی شکایت بیان کی تو درویش نے کہا کہ جب جادو گر تم سے دیر ہونے کی وجہ پوچھے تو کہہ دینا کہ گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والے بگڑیں تو کہہ دینا کہ آج جادوگر نے روک لیا تھا یوں ہی ایک زمانہ گذر گیا کہ ایک طرف تو وہ جادو سیکھتا تھا اور دوسری طرف کلام اللہ اور دین الہی سیکھتا تھا۔ ایک دن یہ کیا دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبر دست و ہیبت ناک جانور پڑا ہوا ہے اور لوگوں کی آمد ورفت بند کر رکھی ہے سب لوگ دونوں جانب حیران و پریشان کھڑے ہیں اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقع ہے کہ میں امتحان کر لوں کہ درویش کا دین خدا تعالیٰ کو پسند ہے یا جادوگر کا اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ خدا یا اگر تیرے نزدیک درویش کا دین اور اس کی تعلیم جادو گر سے زیادہ محبوب ہے تو اس خطرناک جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات ملے۔ پتھر کے لگتے ہی وہ جانورمر گیا۔ اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا پھر جا کر درویش کو خبر دی اس نے کہا کہ پیارے بچے! تو افضل ہے اب خدا کی طرف سے تمہاری آزمائش ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو تم کسی کو میری خبر نہ کرنا۔ اب اس بچے کے پاس حاجت مندوں کا تانتا لگ گیا اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے کوڑھی، جذامی اور ہر قسم کے بیمارا چھے ہونے لگے۔ بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں بھی یہ آواز پڑی وہ بڑے تحفے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تو مجھے شفا دے دے تو یہ سب میں تجھے دے دوں گا۔ اس نے کہا کہ شفا میرے ہاتھ میں نہیں میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا۔ شفا دینے والا تو اللہ وحدہ لاشریک ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں۔ وزیر نے اقرار کر لیا۔ بچے نے اس کے لئے دعا کی اللہ نے اسے شفا دے دی وہ بادشاہ کے دربار میں آیا جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا اور آنکھیں بالکل روشن تھیں۔ بادشاہ نے متعجب ہو کر پو چھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟ اس نے کہا میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا ہاں یعنی میں نے۔ وزیر نے کہا: نہیں میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ بادشاہ نے کہا اچھا تو کیا میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے۔ وزیر نے کہا: ہاں، میرا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے۔ بادشاہ اسے مارنا پیٹنا اور طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ یہ تعلیم تجھے کس نے دی؟ آخر اس نے بتا دیا کہ اس بچے کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا ہے۔ بادشاہ نے اس لڑکے کو بلوایا اور کہا۔ اب تو تم جادو میں خوب کامل ہو گئے ہو کہ اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے ہو، اس نے کہا غلط ہے نہ میں کسی کو شفا دے سکتا ہوں نہ جادو۔ شفا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بادشاہ کہنے لگا نہیں میرے ہاتھ میں ہے کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں۔ اس نے کہا: ہرگز نہیں۔ کہا: پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے۔ تو وہ کہنے لگا: ہاں میرا اور تیرا رب اللہ تعالٰی ہے۔ بادشاہ نے اب اسے طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ درویش کا پتہ لگا لیا۔ درویش کو بلا کر اس سے کہا کہ تو اسلام چھوڑ دے اور اس دین سے پلٹ جا۔ اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے آرے سے اسے چیر دیا اور دو ٹکڑے کر کے پھینک دیا۔
بادشاہ نے پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو اب بھی دین سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اسے فلاں پہاڑ پر لے جائیں اور اس کی بلند چوٹی پر پہنچ کر لڑکے سے اس کا دین چھوڑ دینے کو کہیں اگر مان گیا تو اچھا ہے ورنہ وہیں سے اس کو لڑھکا دیں چنانچہ یہ لوگ اسے لے گئے جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو اس نے اللہ تعالی سے دعا کی اللهم اکفنِيْهِم بِمَا شِئْتَ۔ خدایا جس طرح چاہے تو مجھے ان سے بچالے اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہ بچہ بچا رہا وہاں سے وہ اترا اور ہنسی خوشی پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آ گیا۔ بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا۔ میرے سپاہی کہاں ہیں۔ فرمایا: میرے خدا نے مجھے ان سے بچا لیا۔
بادشاہ نے کچھ اور سپاہی بلوائے اور ان سے کہا کہ اسے بستی میں بیٹھا کر لے جاؤ اور بیچوں بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ یہ اسے لے کر چلے اور پیچ و بیچ سمندر میں پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا تو پھر اس نے وہی دعا کی کہ بار الہا! جس طرح چاہے تو مجھے ان سے بچا۔ موج اٹھی اور وہ سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا۔ یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا۔ بادشاہ اس کو دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ اے بادشاہ! تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کر سکتا۔ ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا۔ تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر پھر کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تیر میرے کمان پر چڑھا اور بسم اللہ ربّ هذا الْغُلَامِ – یعنی اس اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے۔ کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک۔ وہ تیر مجھے لگے گا اور اس سے میں مروں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا۔ اس نے اپنا ہا تھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہو گیا۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین ہو گیا اور ہر طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں۔ امنا بِرَبِّ هَذَا الُغُلَامِ۔ ’’ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لے آئے‘‘
یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بہت گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے۔ اس لڑکے کی ترکیب ہم تو سمجھتے ہی نہیں۔ دیکھئے اس کا یہ اثر پڑا کہ سب لوگ اسکے مذہب پر ہو گئے اور مسلمان ہو گئے۔ ہم نے تو اسی لئے اسے قتل کیا کہ یہ مذہب کہیں پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا۔ اور سب مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ نے کہا اچھا ایسا کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ۔ ان میں لکڑیاں بھرو اور ان میں آگ لگا دو ، جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو۔ ان مسلمانوں نے صبر سہار کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کر لیا اور اس میں کود کر گرنے لگے البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ تھا وہ ذرا جھجکی تو اس بچے کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا: اماں کیا کر رہی ہو تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو چنا نچہ وہ بھی بچہ سمیت اس آگ میں شہید ہوگئی۔[1]
یہ ہیں توحید کے وہ پروانے جنہوں نے اس جلتی ہوئی آگ میں کود کر توحید اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا۔
اس واقعہ سے ہمیں بہت سے سبق اور عبرت کی باتیں حاصل ہو رہی ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اسلامی معاملات میں کسی قسم کی تکلیف جانی اور مالی اٹھانی پڑے تو ہم کو شوق سے برداشت کر لینی چاہیے اس کو عربی میں استقامت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اصحاب الاخدود کی طرح اور بہت سے واقعات ہیں۔ ہم استقامت کے سلسلے میں قرآن مجید کی چند آیتیں پیش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی صحابہ کرام کے سچے حالات بھی بیان کریں گے جس سے صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام کو ہمارے اسلاف کرام نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ۝۲۱۴﴾ (البقرة: 214)
’’کیا تم کو خیال ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر تم سے پہلوں کے سے احوال نہیں آئے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچتی رہی اور بہت زیادہ ہلائے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے کہنے لگے اللہ کی مدد کب آئے گی سن لو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔‘‘
پہلے لوگوں کو بھی اس میں جانچا گیا جن میں سے جھوٹے اور بچے کا فرق ظاہر ہوا۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الزهد، باب قصة اصحاب الاخدود و الساحر والراهب و الغلام (7511)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الٓمّٓۚ۝۱ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ۝۳﴾ (العنكبوت: 2 تا 3)
’’کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ صرف ان کے اس بات کے کہنے کی وجہ سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے چھوڑ دیں گے۔ ان سے پہلے لوگوں کو ہم نے خوب جانچا ہے اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچے ہیں اور انہیں بھی جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘
اگلوں کی استقامت کے ان احوال میں سے جن کو محمد رسول اللہﷺ نے اپنی امت کے سامنے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے وہ واقعہ ہے جس کو حضرت امام بخاري رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاري میں نقل کیا ہے کہ۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی مصیبتوں کا حال بیان کیا اور درخواست کی کہ ہمارے لئے دعا کیجئے۔ چونکہ یہ بھی ایک قسم کی بیتابی کا اظہار تھا اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا۔ کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایسا مرد بھی ہوا ہے کہ جس کو زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا اور آرے سے چیر کر اس کے دوٹکڑے کر دئیے جاتے تھے مگر باوجود اس کے وہ دین حق سے روگردانی نہیں کرتا۔ اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تار تار کر دیا جاتا تھا۔ مگر یہ تکلیف بھی اس کو اس کے دین سے نہ ہٹا سکتی تھی۔[1]
پہلے خطبوں میں استقامت کی بعض مثالیں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔ آج آپ خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر احوال بھی سن لیجئے جو نہایت ہی سبق آموز اور درد انگیز ہیں۔ ان کا واقعہ اس طرح لکھا ہوا ہے۔ کہ 3ھ میں غزوہ رجیع ہوا آنحضرتﷺ نے عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دس آدمیوں پر امیر بنا کر تبلیغ کے لئے روانہ فرمایا۔ عسفان اور مکہ کے درمیان میں بنی ہذیل کا ایک قبیلہ لحیان رہتا تھا اس کو خبر ہوگئی اس کے سو تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا سات آدمی اس جگہ لڑ کر شہید ہو گئے۔ تین شخص جن میں حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے زندہ بچے یہ تینوں جان بخشی کے عہد و پیمان پر پہاڑی کے نیچے اترے۔ تیراندازوں نے تیر کمان کے تانت کھول کر ان کے ہاتھ باندھے ایک غیرت مند مسلمان اس بے عزتی کو گوارہ نہ کر سکا اور مردانہ وار تر کر جان دے دی۔ اب صرف دو شخص باقی رہ گئے ان کو لے کر مکہ کے بازار میں فروخت کر دیا۔ اسلام کے اس یوسف کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا جسے غزوہ بدر میں حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ عقبہ بن حارث نے اپنے گھر میں لا کر قید کیا۔ ہاتھ میں جھکڑیاں تھیں اور موہب کو نگرانی پر مقرر کیا۔ عقبہ کی بیوی کھانا کھلاتے وقت ہاتھ کھول دیا کرتی تھی کئی مہینہ قید میں رہے شہر حرام گزر گئے تو قتل کی تیاریاں ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاكراه باب اخت و العرب والقتل والهوان على الكفر( 1027/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے موہب سے تین باتوں کی درخواست کی تھی: (1) آب شیریں پلانا (2) بتوں کا ذبیحہ نہ کھلانا (3) قتل سے پہلے خبر کر دینا۔
یہ آخری درخواست عقبہ کی بیوی سے بھی کی تھی قتل کا ارادہ ہوا تو اس نے ان کو آگاہ کر دیا۔ انہوں نے صفائی کے لئے اس سے استرہ مانگا۔ اس نے لا کر دے دیا۔ اس کا بچہ کھیلتا کھیلتا ان کے پاس چلا آیا انہوں نے اس کو اپنی ران پر بٹھایا۔ ماں کی نظر پڑی تو دیکھا ننگا استرہ ان کے ہاتھ میں ہے اور بچہ ان کے رانوں پر ہے یہ منظر دیکھ کر وہ کانپ گئی۔ حضرت خبیب بن علی نے فرمایا۔ تمہارا کیا خیال ہے کیا تم سمجھ رہی ہو کہ میں اپنے خون کا بدلہ اس بچے سے لوں گا۔؟ حاشا یہ ہماری شان نہیں۔ حضرت خبیب بن علی کی باتوں کا اس پر خاص اثر ہوا چنانچہ وہ کہتی تھی کہ خبیب بن علی سے بہتر کسی قیدی کو نہیں دیکھا۔ میں نے بارہا ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا حالانکہ اس زمانے میں انگور کی فصل بھی نہ تھی۔ اس کے علاوہ بندھے ہوئے تھے۔ اس لئے یقینًا وہ خدا کا دیا ہوا رزق تھا جو خزانہ غیب سے ان کو ملتا تھا۔
حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا۔ حرم سے باہر مقام تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھندا لٹکا دیا گیا۔ آدمی جمع کئے گئے۔ مرد و عورت، بوڑھے اور بچے، امیرو غریب8 وضیع و شریف غرض ساری خلقت تماشائی تھی۔ جب عقبہ کے لوگ ان کو لینے کے لئے آئے تو فرمایا: ذرا ٹھہر جاؤ دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ زیادہ پڑھوں گا تو تم لوگ کہو گے کہ میں موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ نماز سے فارغ ہو کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔
(اللهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا)[1]
’’اے پروردگار! تو ان کے شمار کر کے اور ایک ایک کر کے قتل کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ‘‘
پھر یہ پڑھتے ہوئے سولی کے نیچے پہنچے۔
(وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ اقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى اَیِّ جَنْبِ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي
وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَا يُبَارِک عَلَى أَوْ شَالِ شلوٍ مُمَزَّعٖ
’’اگر مسلمان رہ کر میں مارا جاؤں تو مجھے غم نہیں کہ کس پہلو پر خدا کی راہ میں پچھاڑا جاتا ہوں جو کچھ ہورہا ہے خدا کی محبت میں ہورہا ہے اگر وہ چاہے تو ان کئے ہوئے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گا-(1)
مولانا قاضی سلیمان صاحب منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مفہوم کو یوں ادا فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجهاد و اليسير بابهل يستاسر الرجل و من لم يستاسر(3045)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب نکلتی جان ہے اسلام پر تب نہیں پرواہ مجھ کو جان کی
کیوں نہ دوں کامل خوشی سے اپنی جاں چاہئے مجھ کو رضا رحمان کی
آرزو پنہاں مرے سینے میں تھی اس دل مشتاق پر ارمان کی
آنکھ کر لیتی زیارت وقت نزع داعی حق ہادئ ایمان کی
اے خدا پہنچا مرا ان کو سلام جان جس پر میں نے ہے قربان کی
طبری اور سیرت ابن ہشام جلد دوم اور رحمتہ اللعالمین جلد اول میں ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو جب سولی کے تختہ پر چڑھایا گیا تو ایک سخت دل نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے دل کو چھیدا اور کہا کہو اب تو تم بھی پسند کرتے ہوگے کہ محمد ﷺ پھنس جائے اور میں چھوٹ جاؤں۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ خدا خوب جانتا ہے کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچ جانے کے لئے نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چھبے۔ پھر ان سے کہا گیا کہ اسلام پھوڑ دو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا تو حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر تمام دنیا کی سلطنت بھی میرے سامنے پیش کر دو تب بھی میں اسلام نہیں چھوڑ سکتا۔ مشرکین نیزوں سے چھیدتے جاتے اور اس قسم کے سوال و جواب کرتے جاتے تھے۔ آخر کار عقبہ بن حارث اور مغیرہ عبدری نے گلے میں پھندا ڈالا اور ہمیشہ کے لئے ان کو راحت کی نیند سلا دیا۔ یہ کیسا عجیب منظر تھا اسلام کے ایک غریب الوطن فرزند پر کیسے ظلم و ستم ہو رہے تھے بطحائے کفر کا خونی و قاتل توحید کے فرزند کو کس طرح ذبح کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ تھا مگر مجسمہ اسلام اب بھی پیکر صبر ورضا بنا ہوا تھا۔ اور بغیر کسی اضطراب کے نہایت سکون سے جان دے دی آنحضرت ﷺ کو اس فاجعہ عظمی کی خبر وحی کے ذریعے ہوئی تو فرمایا: اے خبیب! تجھ پر سلام۔ [1]
اور عمر بن ربیعہ ضمری رضی اللہ تعالی عنہ کو اس شہید وفا کی لاش کے پتہ لگانے کے لئے مکہ بھیجا۔ عمرو بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ رات کو سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی جسد اطہر زمین پر گرنا چاہا کہ اتر کر اسے اٹھا لیا لیکن یہ جسم زمین کے قابل نہ تھا بلکہ ان کو فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام تک پہنچایا جہاں شہیدان راه وفا کی روحیں رہتی ہیں۔
عمرو بن ربیعہ کو سخت حیرت ہوئی بولے کیا زمین تو نہیں نگل گئی قتل کرنے وقت انہیں مشرکین نے قبلہ رخ نہیں رکھا تھا لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھا وہ کسی دوسری طرف کیوں کر پھر سکتا تھا مشرکین نے بار بار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] فتح الباري: (307/7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیرنے کی کوشش کی مگر ہر طرح انہیں ناکامی رہی۔
سعد بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عمال میں سے تھے ان کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی یکبارگی بے ہوش ہو جایا کرتے تھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے وجہ دریافت کی تو بولے مجھے نہ کوئی مرض ہے نہ کوئی اور شکایت ہے جب حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو میں اس وقت اس مجمع میں موجود تھا مجھے جس وقت حضرت خبیب بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کی باتیں یاد آ جاتی ہیں تو میں کانپ کر بے ہوش ہو جایا کرتا ہوں مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا اور فوراً ہی میں بے ہوش ہو جاتا ہوں۔ (رحمتہ للعالمین، جلد1)
اس قسم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے چند واقعات اور سنئے۔
حضرت صہیب رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو لوہے کی زریں پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیتے تھے لیکن دھوپ کی شدت سے ان کی حرارت اسلام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔ کفار مکہ حضرت ابو فکیه رضی اللہ تعالی عنہ کے پاؤں میں بیڑی ڈال کر دھوپ میں لٹا دیتے پھر پشت پر بڑے پتھر کی چٹان رکھ دیتے یہاں تک کہ آپ مختل الحواس ہو جاتے۔ ایک دن امیہ نے ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور آدمیوں کو ان کے گھسیٹنے کا حکم دے دیا اس کے بعد ان کو تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیا اتفاق سے راہ میں ایک گبریلا جا ر ہا تھا امیہ نے استہزاء کہا۔ تیرا پروردگار! یہی تو نہیں۔ بولے میرا اور تیرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہی ہے اس پر اس نے زور سے گلا گھونٹا لیکن اس کے بے درد بھائی کو جو اس وقت اس کے ساتھ تھا اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اور اس نے کہا کہ اس کو اور اذیت دو۔ (اسد الغابه تذکرہ صبيب وابو فكيهه)
حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ تھیں ایک دن کفار نے ان کو دھوپ میں لٹا دیا تھا اس حالت میں رسول اللہﷺ کا گذر ہوا تو فرمایا۔ صبر کرو، صبر۔ تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے۔ لیکن ابو جہل کو اس پر تسکین نہ ہوئی اور اس نے برچھی مار کر ان کو شہید کر دیا چنانچہ اسلام میں سب سے پہلے شرف شہادت انہی کو نصیب ہوا۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے جب خانہ کعبہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا تو ان پر کفار ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے زمین سے لگا دیا۔[2]
حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جب اول اول خانہ کعبہ میں قرآن مجید کی چند آیتیں بآواز بلند پڑھیں تو کفار نے ان کو اس قدر مارا کہ ان کے چہرے پر نشان پڑ گئے لیکن انہوں نے صحابہ کرام سے کہا کہ اگر کہو تو کل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] دلائل النبوة للبيهقى (332/3) [2] صحیح مسلم: (296؍2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اسی طرح بآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کروں۔ در حقیقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہک ہنسی خوشی ساری تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیلنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما)
ان اذیتوں کے علاوہ کفار ان غریبوں کو اور بھی مختلف طریقوں سے ستاتے تھے پانی میں غوطے دیتے تھے مارتے تھے بھوکا پیاسا رکھتے تھے یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتے تھے چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ (اسد الغابہ)
یہ وہ لوگ تھے جن میں اکثر لونڈی و غلام تھے یا غریب الوطن لیکن ان کے علاوہ بہت سے دولت مند اور معزز لوگ بھی کفار کی دست درازی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نہایت معزز شخص تھے لیکن جب اسلام لائے تو خود ان کے چچا نے ان کو رسی میں باندھ دیا۔ یہی ان کا ہر روز کا مشغلہ بنا رہتا تھا۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ جب اسلام لائے تو ان کا چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر لٹا دیتا، پھر نیچے سے ان کی ناک میں دھواں دیتا تھا۔ (ریاض النضرۃ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا زاد بھائی سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو رسی سے باندھ دیا۔ ( بخاري )
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سلمہ بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہما اسلام لائے تو کفار نے دونوں کے پاؤں کو ایک ساتھ باندھ دیا (طبقات ابن سعد)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جب اسلام لائے تو ایک تقریر کے ذریعہ دعوت اسلام دی کفار نے جب یہ نامانوس سی آواز سنی تو ان پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ قبیلہ بنو تمیم کو ان کی موت کا یقین آگیا۔ وہ ان کو اٹھا کر گھر لے گئے شام کے وقت ان کی زبان کھلی تو بجائے اس کے کہ اپنی تکلیف بیان کرتے، رسول اللہ ﷺ کا حال پوچھا۔ اب خاندان کے لوگ بھی ان سے الگ ہو گئے لیکن ان کو اسی محبوب کے نام کی رٹ لگی رہی۔ بالآخر لوگوں نے ان کو آپﷺ تک پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے یہ حالت دیکھی تو ان کے اوپر گر پڑے ان کا بوسہ لیا اور انتہائی رقت طبع کا اظہار فرمایا۔ (اسد الغابہ)
صبر واستقامت کی یہ بہترین مثالیں تھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں خود اہل کتاب تک ان کے معترف تھے۔ چنانچہ استیعاب میں ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم شام میں گئے تو ایک اہل کتاب نے ان کو دیکھ کر کہا کہ عیسی بن مریم علیہ السلام کے وہ اصحاب جو آروں سے چیرے گئے اور سولی پر لٹکائے گئے ان مسلمانوں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کرنے والے نہ تھے۔
میں اسلامی تاریخ کے لق و دق میدان میں بہت دور چلا گیا۔ اصل موضوع اصحاب الاخدود کے ذکر کے ساتھ ہی ساتھ ان کے قائد اعظم اور ہادی اکبر حضرت عبداللہ بن عامر میں ان کے استقلال و استقامت کو بیان کرنا تھا۔ کہ اس نو جوان بچے میں یہ شجاعت و بسالت اور جرات ودلیری کیسے پیدا ہوئی میں تو یہی کہوں گا کہ یہ دینی تعلیم اسلامی نصیحت سننے کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ اس نے اپنے رنگ میں ہزاروں کو رنگ دیا۔ اگر ہم اپنے بچوں کو دینی اور اسلامی تعلیم دیں اور دلائیں اور اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو حضرت عبد اللہ بن تامر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہو سکتے ہیں۔
لڑکپن اور بچپن میں اگر بچے کی صحیح تربیت ہوئی اور تہذیب واخلاق کے سانچے میں اسے ڈھالا گیا تو زندگی کے آخری لمحات تک نیکیوں میں پھلیں اور پھولیں گے اور اس عمر میں اگر ان کی صحیح تربیت نہ ہوئی تو ہمیشہ کی زندگی خراب ہو جائے گی۔ انسان کے اچھے یا برے اخلاق کی بنیاد پڑنے کا وقت بچپن کا ہی زمانہ ہے اس زمانہ میں جو بچہ اخلاق سیکھ لے گا وہ عمر بھر نیک بنا رہے گا اور جو خراب عادتیں سیکھ لے گا وہ ہمیشہ خراب ہی ہوگا۔ بچے کی مثال اک نرم شاخ کی طرح ہے کہ اس کو جس طرح اور جس طرف چاہو۔ موڑ سکتے ہو۔ مضبوط اور تخت یا خشک ہو جانے کے بعد اسے نہیں موڑ سکتے۔ والدین کا فرض ہے کہ بچے کی اسی بچپن ہی کی عمر سے اچھی پرورش کریں اچھی باتیں اور نیک عادتین سکھائیں تاکہ اخیر وقت تک نیک رہیں اور ماں باپ کے لئے بھی نیک دعائیں کریں ان کی اچھی تعلیم وتربیت کا اثر کئی پشتوں تک جاری رہے گا۔ والدین کے مرنے کے بعد بھی برابر ثواب اور اجر عظیم ملتا ر ہے گا۔ جو ماں باپ بچے کے لاڈ پیار میں آکر اس کو بالکل آزاد چھوڑ دیتے ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کہتا ہے اپنے ماحول اور بری صحبتوں میں رہ کر بدزبانی و بداخلاقی سیکھتا ہے۔ ماں باپ بچے کی نہ نگرانی کرتے ہیں نہ بری صحبتوں سے بچاتے ہیں اور نہ اچھی باتیں سکھاتے ہیں اور نہ بری باتوں سے روکتے ہیں تو وہ والدین اپنے بچے کو خود ہی بگاڑ دیتے ہیں اور اس کے خطرناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اگر ماں باپ نیک ہوتے ہیں اور بچوں کو نیک کاموں کی تلقین کرتے ہیں تو اس کا خوشگوار اثر بچوں پر پڑتا ہے اور نیک ہوتا ہے اور اگر ماں باپ برے ہوتے ہیں اور بچوں کو بھی برائی سے نہیں روکتے ہیں تو ان کا بھی اثر بچوں پر ہوتا ہے۔ اسی نکتہ کی طرف نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
(كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَاَبٰوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ..)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجنائز، باب ما قيل فى اولاد المشركين (1385)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘
ماں باپ اگر مومن موحد ہیں تو بچہ بھی مسلمان رہتا ہے۔ اگر ماں باپ یہودی یا نصرانی وغیرہ ہوتے ہیں تو بچہ بھی وہی روش اختیار کرتا ہے کیونکہ بچے نقال ہوتے ہیں ماں باپ کو جس روش پر دیکھتے ہیں وہی طریقہ اختیار کرتے ہیں اسی لئے ماں باپ کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔ دنیا میں در اصل ماں باپ کی آغوش ہی پہلا مدرسہ اور تعلیم گاہ ہے اس جگہ بچے سب سے پہلے زبان اور بول چال سیکھتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلوةِ وَهُمُ ابْنَاءُ سَبْعِ سِيْنَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ)[1]
”جب بچے سات برس کے ہو جائیں تو نماز کے پڑھنے کا حکم دو اور اگر دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو اور الگ الگ سلاؤ۔‘‘
غرضیکہ اسلام نے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں بہت ہی تاکیدی حکم دیا ہے۔ اگر مسلمان اس پر عمل کرتے اور اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالتے تو یہ بچے بڑے ہوکر دینی ودنیاوی ترقیات حاصل کر کے سعادت دارین کے مستحق ہوتے لیکن بے توجہی کی وجہ سے ان کے بچے خراب ہو گئے تو نہ وہ دنیا کے رہے نہ دین کے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
موجودہ زمانے میں اولا تو کوئی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کی جاتی اگر کسی نے کچھ تھوڑی بہت توجہ کی بھی تو دنیاوی اسکول میں داخلہ کرا دیا تو وہاں کی تعلیم اسلامی نقطہ نگاہ سے مخرب اخلاق ہے اس تعلیم کو حاصل کر کے اور زیادہ گمراہ ہو جاتے ہیں بلکہ بے پڑھے لکھے ان سے اچھے ہوتے ہیں مولانا حالی مرحوم نے اپنی مسدس میں اپنے زمانہ کے مسلمان اور شریفوں کے بچوں کا جو حال لکھا ہے اس سے کہیں زیادہ اب شرفاء کی اولاد کا برا حال ہے۔
موجودہ زمانے کے الحادودہریت کا سیلاب عالمگیر ہے اس بھنور میں مسلمان اور مسلمان بچے غرق ہور ہے ہیں۔ اس سے نجات یابی صرف اسلامی تعلیم ہی سے ہو سکتی ہے جو ہر مسلمان پر فرض عین ہے کہ خود بھی دینی اور اسلامی تعلیم سکھے اور اپنے بچوں کو سکھائے۔ یہ کام نہ کبھی کسی حکومت کا تھا اور نہ اب ہے۔ ہر زمانے کی حکومت مذہبی تعلیم دلانے اور اس کے انتظام سے سبکدوش رہی ہے۔ اگر مسلمان اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داؤد: كتاب الصلوة، باب متى يؤمر الغلام بالصلوة (495)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلانے میں غفلت اور کوتاہی کریں گے تو مسلمان بچوں کا مسلمان رہنا بہت ہی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶﴾ (التحريم: 6)
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں انہیں جو کم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم کیا جائے بجا لاتے ہیں۔‘‘
یعنی خود بھی ایسا کام کرو جس سے جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو اور اپنے اہل وعیال کو ایسی تعلیم اور ادب سکھاؤ جس سے تم ان کو جہنم کا ایندھن ہونے سے بچالو۔ والدین اور سر پرستوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اگر اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا گیا تو آخرت میں بھی سخت باز پرس ہوگی ، ماں باپ ہی اولاد کو بگاڑتے بناتے ہیں اس لئے ان سے اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا:
(اَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَّسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَ الْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلى بَيْتِ زَوْجِهَا وَ وَلَدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ اَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)[1]
سنو! تم سب اپنی رعیت کے محافظ ہو اور تم سب سے رعیت کی بابت پوچھا جائے گا تو حاکم جو لوگوں کی اصلاح کے لئے مقرر کیا گیا رعیت کا نگہبان ہے اور اس سے رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت یا اہل خانہ کی بابت پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی محافظ ہے اور اس سے ان کی بابت سوال کیا جائے گا آدمی کا غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت دریافت کیا جائے گا سنو! تم سب کے سب رائی ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کی بابت پوچھا جائے گا۔ یعنی ہر مسلمان کی ذمہ داری دہری ہے ایک تو وہ اپنے آپ کو نا پسندیدہ کاموں سے بچائے تا کہ آخرت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الاحكام، باب قول الله تعالى اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الأمر منكم.(7138)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس کی پکڑ نہ ہو سکے اور دوسرے اپنے اہل و عیال کو ہر بری بات سے بچاتا ر ہے جس سے دنیا و آخرت میں ان کو نقصان نہ پہنچے۔ اسی طرح سے ہر ایک ذمہ دار اپنے ماتحت لوگوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہے خصوصاً اولاد کی بہت بڑی ذمہ داری ہے آئندہ نسلوں کا بگاڑ اور سدھار موجودہ نسلوں کے بگاڑا اور سدھار پر موقوف ہے اس میں ہر ماں باپ اور مربی سر پرست کا امتحان و آزمائش ہے اگر ان بچوں کو بنالیا تو کامیاب ہو گئے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۴ اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۱۵ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (تغابن: 14 تا 16)
’’اے ایمان والو! تمہاری بیویاں اور بچے تمہارے دشمن ہیں خبر دار تم ان سے ہوشیار رہنا۔ اور اگر تم معاف کر دو۔ اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہی ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ اور راہ خدا میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہت بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔‘‘

موجودہ حالات میں جب کہ ایک طرف جہالت کی انتہائی ظلمت و تیرگی اور دوسری طرف حد سے بڑھی ہوئی روشنی اور آزادی ، بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت سے ماؤں کی غفلت کا باعث ہو رہی ہے میں چاہتا ہوں کہ زمانہ سلف کی مقدس خواتین کی علم دوستی کی چند ایسی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں جن سے آپ اندازہ لگاسکیں کہ ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کتنا خیال تھا کیا وہ اپنے شوہروں کی دولت ، بچوں کے عقیقے اور ختنے شادی بیاہ کی فضول رسموں میں تباہ کر دینا کمال بجھتی تھیں یا علم و فضل کا چاند و سورج بنا کر دونوں جہاں کی بہبودی وسرخروئی حاصل کرنے کا شوق رکھتی تھیں۔ حضرت امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ کے ایک بہت بڑے فاضل زبردست فقیہ اور نامور محدث گذرے ہیں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کے والد جن کا نام فروغ تھا ایک دولت مند سپاہی تھے خلافت بنوامیہ کے زمانہ میں وہ لشکر میں ملازم تھے جس زمانے میں امام ربیعہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھے۔ دمشق کے خلیفہ نے ایک فوج خراسان کی طرف روانہ کی اور اس میں فروخ کو بھی جانا پڑا۔
فروخ اپنی بیوی کو تیس ہزار اشرفیوں کی ایک تھیلی دے کر اور حمل کی حالت میں چھوڑ کر مہم پر روانہ ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جنگوں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا اور فتوحات اسلامی کا سیلاب اس طرح بہتا رہا کہ فروخ کو ستائیس برس تک وطن آنے کی مہلت نہ ملی۔ ستائیس سال کے بعد اس شان سے واپس آئے کہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہیں ہاتھ میں نیزہ ہے کمر میں تلوار ہے سیدھے اپنے گھر پہنچے۔ اور نیزے کی انی سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ربیعہ نے آ کر دروازہ کھولا۔ اگرچہ باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو نہیں پہچانا لیکن گھر اپنا تھا۔ اس لئے فروخ بے کھٹکے گھر میں داخل ہونے لگے تو ربیعہ نے للکار کر کہا کہ پرائے گھر میں اس طرح کیوں گھسا پڑتا ہے۔ فروخ جو ایک سپاہی منش آدمی تھے سن کر طیش میں آ گئے اور ڈپٹ کر کہا: (أَنْتَ دَخَلْتَ عَلٰى حَرَمِي) تجھے میرے حرم سرا میں داخل ہونے کا کیا کام؟
جب باپ بیٹے کی لڑائی طول پکڑنے لگی تو محلے کے لوگ بھی جمع ہو گئے حضرت امام مالک بھی ہے کو بھی (جو ربیعہ کے شاگرد ہیں) اس جھگڑے کی خبر پہنچی تو استاد کا معاملہ سمجھ کر آئے اور فروخ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے یہی مشورہ دیا کہ بڑے میاں آپ کسی اور مکان میں ٹھہر جائیں ہم انتظام کر دیتے ہیں فروخ تعجب سے کہنے لگے جناب! میرا نام فروغ ہے میں مدینہ منورہ کا ہی باشندہ ہوں اور یہ گھر میرا ہے۔ ربیعہ کی والدہ نے نام سن کر فروخ کو پہچان لیا اور کہا ہاں یہ تو میرے شوہر اور ربیعہ کے باپ ہیں۔ اب تو باپ بیٹے گلے مل کر خوب روئے۔ جوش محبت کی حرارت جب رونے سے کم ہوئی تو اندر داخل ہوئے۔ فروخ کو جب اطمینان سکون ہو چکا اتو اپنی تیس ہزار اشرفیاں یاد آئیں۔ اور بیوی سے ان کا مطالبہ کیا۔ سمجھ دار بیوی نے کہا گھبرائیے نہیں وہ نہایت حفاظت سے رکھی ہیں۔ اس عرصہ میں حضرت ربیعہ رسول اللہﷺ کی مسجد میں جہاں شاگردوں کا ہجوم ان کا منتظر تھا درس دینے کے لئے تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ کے بڑے بڑے عالموں اور فاضلوں کے حلقے میں جن میں حضرت امام مالک اور حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگ بھی تھے بیٹھ کر درس میں مشغول ہو گئے۔ ادھر فروخ کی بیوی نے شوہر سے کہا کہ مسجد نبوی میں تشریف لے جا کر نماز پڑھ آئے۔ فروغ مسجد میں آئے تو یہ منظر تھا کہ ایک نوجوان عالم بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور شاگردوں کا ایک جم غفیر ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ان کے علمی فیض سے مستفیض ہور ہا ہے۔ شوق و حیرت سے دیر تک دیکھتے رہے امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر اس وقت ایک لمبی سی ٹوپی تھی اور انہوں نے قصداً اپنا سر جھکا لیا۔ اس لئے باپ کو پہچاننے میں ایک مرتبہ پھر دقت ہوئی آخر نہ رہا گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر مجمع سے پوچھا کہ یہ کون عالم ہیں؟ لوگوں نے کہا: (هَذَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ.)
یہ ابو عبد الرحمن ( فروغ) کے صاحبزادے امام ربیعہ ہیں۔
فروخ کی اس وقت کی دلی کیفیت کا اندازہ بجز خدائے عالم الغیب کے کون کر سکتا ہے۔ وہ فرط مسرت سے بے خود ہو کر بے ساختہ بول اٹھتے ہیں: (لَقَدُ رَفَعَ اللهُ ابْنِي)
’’اللہ نے میرے بیٹے کو بہت بڑا درجہ عطا کیا۔“
جب اسی دلی مسرت و ہمت کے ساتھ گھر لوٹ کر آتے ہیں تو بیوی سے فرماتے ہیں: (لَقَدْ رَأَيْتُ وَلَدَكِ عَلَى حَالَةٍ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ عَلَيْهَا ..)
’’باوجود ستائیس سال تک بڑے بڑے ملکوں میں پھرنے کے بھی‘‘ میں نے آج تک اس شان کا عالم وفقیہ نہیں پایا جیسا کہ تمہارے بیٹے (ربیعہ) کو دیکھا۔“
زیرک بیوی نے فوراً کہا: اچھا تو اب فرمائیے کہ وہ تیس ہزار اشرفیاں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا بیٹے کی اعلیٰ شان؟ عقلمند باپ نے کہا۔ (لا والله بل هذا والله)
’’اشرفیاں تو اس کے مقابلے میں ٹھیکرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی‘‘ مجھے تو یہی شان زیادہ پسند اور عظمت زیادہ محبوب ہے۔
پھر تو بیوی نے حقیقت حال صاف صاف کہدی کہ (اَنْفَقْتُ الْمَالَ كُلَّهُ عَلَيْهِ) میں نے آپ کی کل اشرفیاں اور سارا مال اسی تعلیم پر خرچ کر دیا۔ فروخ نے اپنی سعادت مند بیوی کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے پر جوش لہجے میں کہا: (والله ما ضيعته) خدا کی قسم تو نے میرا مال ضائع نہیں کیا۔ (ابن خلکان)
میرے عزیز و اور بزرگو! حضرت امام ربیعہ بن فروخ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا کا یہ کارنامہ ایک طرف رکھو کہ باپ کی عدم موجودگی میں اپنی نگرانی میں رکھ کر، اپنے نان نفقہ میں تنگی کر کے تیس ہزار اشرفیوں کو تعلیم میں خرچ کر کے لخت جگر کو بلند درجہ پر پہنچا دیا۔ اور دوسری طرف اس زمانے کی ماؤں کو بھی سامنے رکھ کر سوچئے۔ جو عقیقہ، ختنہ اور شادی بیاہ وغیرہ کے مواقع پر ہزاروں روپے شوق اور خوشی سے خرچ کر دیں گی لیکن تعلیم میں ایک پیسہ خرچ کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتی ہیں اس میں صرف ان ہی کا قصور نہیں ہے بلکہ ہمارا قصور ہے کہ ہم ابتداء سے اپنی لڑکیوں کو صحیح تعلیم و تربیت نہیں دیتے بلکہ جاہل مطلق رکھتے ہیں اور اگر تعلیم دلانے کی توفیق بھی ہوئی تو غیر شرعی اور غیر اسلامی تعلیم کے سانچے میں ڈھال کر ہمیشہ کے لئے زندہ درگور کر دیتے ہیں ہم نے ان کو یورپ کی عریاں تہذیب کا اس طرح دلدادہ بنا دیا ہے کہ وہ گھر کی زینت بننے کی بجائے محفل کی آرائش ہو کر جلوہ نمائی کر رہی ہے۔ وہ مغرب کے فیشن میں مست ہو کر تہذیب و تمدن کے اس کوٹھے پر جا بیٹھیں، تنور اور روشن خیالی کے اس چوراہے پر آ کر کھڑی ہو گئیں۔ کہ جہاں سے عفت و عصمت اپنی نگاہیں نیچی کر کے تہذیب و حیا اپنا دامن بچا کر ان سے دور ہٹ گئی۔ انہیں نہ اسلامی تعلیمات سے غرض اور نہ قرآنی ہدایات کی خبر۔ اسلام کی روشنی میں نہ اپنی اصلاح چاہتی ہیں اور نہ اپنے بچوں کی۔ قسمت سے دولت ہاتھ آ گئی ہے تو ان کا منتہائے کمال بس یہ ہے کہ اسے لندن اور پیرس کی عیش پرستیوں، چھیڑوں اور سینماؤں کی بے حیائیوں کی نذر کر دیا جائے یا اپنے بچوں کو جرمن اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں کا طواف کرایا جائے کہ جہاں پہنچ کر وہ نہ صرف اپنے مذہب اور اپنی معاشرت کو بلکہ قومیت اور وطنیت کو بھی ہمیشہ کے لئے دفن کر آتے ہیں۔ یہ سارا قصور سر پرستوں اور مردوں کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ﴿الرٌ جَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ.﴾
کے معزز لقب سے یاد فرمایا ہے۔ نادار اور غربا اپنی ناداری کی وجہ سے اپنے بچے اور بچیوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ امراء اور رؤساء کو اگر تعلیم دلانے کا شوق ہے تو غیر شرعی اور غیر اسلامی تعلیم دلانے کا ہے۔ خواہ مخلوط تعلیم یا غیر مخلوط ہو۔ دونوں کے نتائج تباہ کن ہیں۔
خاکسار نے اسلامی پردہ میں اور مولانا مودودی نے اپنی مایہ ناز کتاب پردہ میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ خاکسار نے اپنی کتاب اسلامی پردہ میں کالج کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے عنوان کے تحت ص 27 میں لکھا ہے۔
’’جن بچوں میں قبل از وقت صنفی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں ان کے لئے پہلی تجربہ گاہ مدارس ہیں مدرسے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم ان مدرسوں کی ہے جن میں ایک ہی صنف کے بچے داخل ہوتے ہیں دوسری قسم ان مدرسوں کی ہے جن میں مخلوط تعلیم ہے، پہلی قسم کے مدرسوں میں صحبت ہم جنس کی وبا پھیل رہی ہے۔ کیونکہ جن جذبات کو بچپن ہی میں ابھارا جا چکا ہے اور جن کو مشتعل کرنے کے سامان فضا میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں وہ اپنی تسکین کے لئے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر ہو کر لکھتا ہے کہ اس قسم کی تعلیم گاہوں، کالجوں، نرسوں کے ٹریننگ اسکولوں اور مذہبی مدرسوں میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ایک ہی صنف کے دو فرد باہم شہوانی تعلق رکھتے ہیں اور صنف مقابل سے ان کی دلچسپی فنا ہو چکی ہے اس سلسلہ میں اس نے بکثرت واقعات ایسے بیان کئے ہیں جن میں لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ اور لڑکے لڑکوں کے ساتھ ملوث ہوئے۔ اور درد ناک انجام سے دو چار ہوئے۔
اب دوسری قسم کے مدارس کو لیجئے جن میں لڑکیاں اور لڑکے ساتھ مل کر پڑھتے ہیں یہاں اشتعال کے اسباب بھی موجود ہیں اور اس کو تسکین دینے کے اسباب بھی۔ یہاں پہنچ کر اس کی تکمیل ہو جاتی ہے بدترین قسم کا فحش لٹریچر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔ عشقیہ افسانے، نام نہاد آرٹ کے رسالے صنفی اور جنسی مسائل پر نہایت گندی باتیں اور منع حمل کی معلومات فراہم کرنے والے مضامین۔ یہ ہیں وہ چیز میں جو عنفوان شباب میں مدرسوں اور کالجوں کے طلباء وطالبات کے لئے سب سے زیادہ جاذب نظر ہوتی ہیں۔ اس لٹریچر سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں دونوں صنفوں کے جوان افراد ان پر آپس میں نہایت آزادی اور بے باکی سے مباحثے کرتے ہیں اور اس کے بعد عملی تجربات کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے لڑکے اور لڑکیاں مل کر کے نکلتے ہیں جن میں شراب اور سگریٹ کا استعمال خوب آزادی سے ہوتا ہے اور ناچ رنگ سے پورا لطف اٹھایا جاتا ہے۔
تین زبر دست محرکات
مدرسہ اور کالج میں پھر بھی ایک قسم کا ڈسپلن ہوتا ہے۔ جو کسی حد تک آزادی عمل میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ نو جوان جب تعلیم گاہوں سے مشتعل جذبات اور بگڑی ہوئی عادت لئے ہوئے زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی شورش تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتی ہیں یہاں انکے جذبات کو بھڑ کانے کے لئے ایک پورا آتش خانہ موجود ہوتا ہے۔ اور انکے بھڑ کے ہوئے جذبات کی تسکین کے لئے ہر قسم کا سامان بھی کسی دقت کے بغیر فراہم ہو جاتا ہے۔
آپ حضرات موجودہ غیر اسلامی تعلیم لڑکیوں اور لڑکوں کے دلانے کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں اورسن بھی رہے ہیں اس لئے آپ اپنے بچوں اور بچیوں کو قرآن مجید اور دینی کتابوں کی سب سے پہلے تعلیم دلاؤ تاکہ شروع ہی سے دین کا اثر پڑے۔ جس کا اثر بڑھاپے تک رہے گا جو شروع ہی سے دنیاوی علوم کی تعلیم دلاتے ہیں وہ بچے عموماً دین دار نہیں ہوتے کیونکہ ہر علم کا اثر ہوتا ہے۔
اگر بچے کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے تو اس کا اثر ہو گا اور اگر انگریزی ہندی وغیرہ کی تعلیم دی جائے تو اس کا اثر ہونا ظاہر ہے کیونکہ غیر دینی کتابوں میں بہت سی باتیں خلاف شرع ہوتی ہیں۔ بچہ اس کو پڑھ کر متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
سفید کپڑے کو جب ایک رنگ میں رنگ دیا جائے تو دوسرا رنگ نہیں چڑھتا۔ بچے فطرتا معصوم اور بہت صاف ستھرے ہوتے ہیں جس رنگ میں ان کو رنگ دیا جائے وہی رنگ ہمیشہ قائم رہتا ہے اگر نیکیوں کے رنگ میں رنگا گیا تو اس کا اثر قائم رہے گا سچ ہے۔
﴿صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبعَةً﴾ (البقرة: 138)
’’اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ اور اللہ کے رنگ سے زیادہ بہتر رنگ کس کا ہے۔‘‘
عیسائیوں کا دستور تھا کہ لڑکے کو یوم ولادت سے ساتویں دن زرد پانی سے نہلاتے تھے اور ایک رنگین حوض میں غوطہ دیتے تھے۔ اس پانی کو معمودیہ کہتے ہیں اور یہ رسم اب بھی جاری ہے۔ اسے پتسمہ (Baptism) کہتے ہیں عیسائی اس فعل کو نجات اور حصول سعادت کا ذریعہ جانتے ہیں۔ اللہ نے آیت مذکورہ میں اس کی تردید کر دی ہے۔ بہر حال والدین یا دیگر ذمہ دار حضرات بچوں کو شروع سے دینی و مذہبی تعلیم اگر دیں اور دلائیں تو یہی بچے جوان ہو کر دنیا میں بھی والدین کی خدمت کریں گے اور ان کے لئے نیک دعائیں کریں گے کیونکہ انسان جب مرجاتا ہے تو اس کے سب کام بند ہو جاتے ہیں لیکن مرنے کے بعد بھی بعض نیکیوں کا فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (اِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلتَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ . أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُولَه)[1]
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد ان کاموں کا ثواب مسلسل جاری نہیں رہتا، مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا بلکہ اس کا ثواب برابر جاری رہتا ہے صدقہ جاریہ وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے، نیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔‘‘
دینی علم سے دنیاوی اور دینی اور اخروی بہت سے فائدے ہیں اگر سب کو تفصیلی طور پر بیان کیا جائے تو علم کے سمندر میں سے ایک قطرہ بھی نہیں بیان کیا جا سکتا۔ تمام نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے علم کے زیور سے مزین فرمایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں پر علم ہی کے ذریعے سے فوقیت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمعلیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا۔ جس کے ذریعے سے توحید الہی کی طرف بلاتے رہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو علم تعبیر عطا فر مایا تھا جس کے سبب سے بادشاہ ہو گئے اور تخت و تاج کے مالک بن گئے۔ تفسیر و تاریخ میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی عفت و عصمت کے سبب ناجائز کام میں زلیخا کی اطاعت کرنے سے دور ر ہے تو زلیخا نے اس کی سزا میں اپنے شوہر عزیز کو ابھارا اور آپ کو کسی نہ کسی طرح جیل خانہ بھجوا دیا۔ ایک عرصہ تک حضرت یوسف علیہ السلام جیل خانہ میں رہے وہاں قیدیوں کے خواب کی تعبیریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته. (4223)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتائیں۔ اور جس طرح بتایا اسی طرح ہوا۔ اس کی وجہ سے آپ کے علم تعبیر خواب کا بہت چرچا ہوا۔ اسی اثناء میں بادشاہ مصر نے بھی خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جو دریائے نیل سے برآمد ہوئیں ان کے بعد سات دہلی گائیں نکل آئیں۔ ان کے دانت شیر کے دانت کی طرح نکلے ہوئے تھے انہوں نے موٹی گائیوں کو چیر پھاڑ ڈالا اور بر خلاف عادت یہ کہ گائے کو گائے کھاتی نہیں انہیں کھا بھی لیا۔ اور پھر اسی وقت یہ ابھی دیکھا کہ دریائے نیل لہریں مار رہا ہے یکا یک اس کا پانی خشک ہو گیا۔ ریت اڑنے لگی اور بیچ دریا میں سات بالیں ہری پیدا ہوئی اور سات بالیں ان کے قریب ہی سوکھی ہوئی وہ سوکھی بالیں ہوا سے ہلیں اور ہری بالوں سے لپٹ کر انہیں بھی خشک کر دیا اور جلا دیا۔ مصر کا بادشاہ اس خواب سے سخت پریشان ہوا اور گھبرا کر اٹھا۔ علی الصباح دربار میں تمام کاہنوں اور نجومیوں کو بلایا اور ان سے خواب کا ذکر کیا اور تعبیر چاہی وہ لوگ ناواقف تھے کہنے لگے بادشاہ سلامت! یہ بدخوابیاں کہلاتی ہیں بھلا ان کی تعبیر کیا ہوگی۔ سب نے تعبیر بتانے سے انکار کیا اور کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ کہیں وہ قیدی بھی وہاں دربار میں حاضر تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق جیل خانہ سے رہا ہو کر آیا تھا۔ بادشاہ مصر کو سلام کر کے یہ کہا کہ میں ایک ایسے شخص کو بتاتا ہوں جو آپکے خواب کی تعبیر بتا دے گا ذرا مجھے جیل خانہ تک جانے کی اجازت ہو جائے وہ شخص بادشاہ کی اجازت سے جیل خانہ آیا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے بادشاہ مصر کا خواب بیان کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس وقت تعبیر بیان فرمائی کہ اول سات برس تک خوب بارش ہوگی غلہ پھول پھل خوب پیدا ہوگا پھر اس کے سات سال کی بڑی سخت قحط سالی ہوگی اگلا پچھلا اندوختہ سب خرچ ہو جائے گا پھر ان سات سال کے قدر کے بعد آٹھواں سال ایسا آئے گا جس میں مینہ برسے گا اور حسب دلخواہ پیداوار ہوگی۔ جاؤ بادشاہ سے کہہ دو۔ بادشاہ اس تعبیر کے سنتے ہی بڑا فکرمند ہوا اور قحط سے بچاؤ کی تدبیریں کرنے لگا۔ پھر اس کے دل نے گواہی دی کہ جس بزرگ نے ایسے مشکل خواب کی تعبیر بیان کی ہے وہی قحط سالی سے بچنے کی تدبیر بھی اچھی طرح کر سکتا ہے۔ حکم دیا کہ جاؤ اس قیدی کو لے آؤ۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور عہدہ وزارت پر فائز ہوئے اور سارے ملک پر تاحیات مالک رہے۔ سب سیاہ اور سفید آپ ہی کے اختیار میں تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور علم کی وجہ سے ہوا غور کرنے کی بات ہے کہ صفت حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے لیکن جو قدرت اللہ تعالیٰ نے علم کو عطا فرمائی ہے اس کا پاسنگ بھی حسن کو نہیں ملی۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب تک حضرت یوسف علیہ السلام نبوت کی خلعت سے ممتاز نہیں ہوئے تھے تو آپ کی قیمت چند درہموں کی تھی۔ قرآن مجید نے خود کہا ہے۔
﴿وَشَرَوُهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ﴾ (يوسف: 20)
’’انہوں نے حضرت یوسف علیاسلام کو چند درہموں کے بدلے بیچ ڈالا۔‘‘
لیکن جب آپ علم و نبوت سے سرفراز کئے گئے تو تخت و تاج کے مالک ہو گئے تو علم کا مرتبہ سب سے اونچا بلند مرتبہ ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں، پرندوں کی بولیاں سمجھنے کا علم عطا کیا گیا۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ۝۱۶﴾ (النمل: 16)
’’حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت والد داودعلیہ السلام کی جگہ مسند نبوت و خلافت پر فائز ہوئے تو آپ کو خدا کی طرف سے ایک اور نعمت ملی جو حضرت داؤد علیہ السلام کو نہ ملی یعنی حیوانات کے باہم کلام کرنے اور ان کے اشارہ کنایہ کو سمجھ لینا۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام کے انسان جنات شیاطین اور ہر ایک جانور سے طرح طرح کے اپنے کام اور خدمت لیا کرتے تھے ہدہد کے ذریعہ شہر سبا کی خبریں منگوائیں اور پورے ملک یمن کے بادشاہ ہوئے۔ یہ سب کچھ علم نبوت اور خدا کے فضل و کرم سے ہوا۔ منٹوں میں عرش عظیم کا آجانا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ تھا موجودہ زمانے میں برقی تار ٹیلی فون اور ریڈیو وغیرہ کی ایجاد اسی علم کی بدولت ہے۔ ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریل گاڑی موٹر کار بس وغیرہ بے شمار ایجادات جو پہلے زمانہ میں نہیں تھیں اسی علم کے ذریعہ سے اب سامنے آگئی ہیں یہ سارا کا سارا علم ہی تو ہے۔ غرض مشرق سے مغرب شمال سے جنوب اور عرش سے فرش تک خدائی علم کا گویا ایک مدرسہ ہے اور ساری کائنات اس سے مستفید ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام چیزوں کا بیان فرمادیا ہے کسی شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے۔
جَمِيعُ الْعِلْمِ فِي الْقُرْآنِ لَكِن تقَاصَرَ عَنْهُ أَفنْهَامُ الرِّجَالِ
اسی قرآن مجید کی بدولت لوگ دنیا اور آخرت کی ترقی حاصل کر لیتے ہیں اور جو نہ قرآن مجید کو پڑھے نہ عمل کرے تو اس کے لئے تنزل ہی تنزل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ اخَرِيْنَ)[1]
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب یعنی قرآن مجید کے ذریعے سے ایک قوم کو بلند کرتا ہے اور دوسری قوم کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب صلوة المسافرين باب فضل من يقوم بالقرآن و يعلمه (1897)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پست کرتا ہے۔“
یعنی اس کے پڑھنے اور عمل کرنے والے کو دنیا و آخرت میں بلند درجہ عطا فرماتا ہے اور نہ پڑھنے والا دونوں جہاں میں ذلیل ہوتا ہے اور جو قرآن مجید میں ماہر ہو وہ بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَءُ الْقُرْآنَ وَيَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌ لَهُ أَجْران)[1]
’’قرآن مجید کا ماہر بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن مجید کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور پڑھنے والے کو دشواری پیش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دھرا اجر عطا فرمائے گا۔“
بہر حال قرآن مجید کے بہت فضائل ہیں اس کے مثل کوئی کلام نہیں ہے اور کیوں نہ ہو یہ اللہ تعالی کا کلام ہی تو ہے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔
جمال حسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اس کی نہیں ملتی جہاں میں ڈھونڈ کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا پاک رحماں ہے۔
اسی چاند کی روشنی میں ہمیں ہر چیز معلوم ہوتی ہے حلال و حرام کا بھی اسی سے پتہ چلتا ہے اور اسی سے صحیح اور غلط راستے میں امتیاز ہوتا ہے۔ اور یہی صحیح راستہ بتاتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ۝۹ ﴾ (بنی اسرائیل:9)
’’یقینًا یہ قرآن مجید وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور نیک عمل کرنے والے ایمان والوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا ثواب ہے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے قرآن مجید کو نازل فرما کر اس کی حفاظت اور نگرانی بھی اپنے ذمہ لے لی ہے جیسا کہ ارشا در بانی ہے۔
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَوَانَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (سورة حجر:9)
’’ہم نے قرآن مجید کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی نگرانی کرنے والے ہے۔‘‘
تو اللہ تعالی نے بذریعہ رسول اللہ ﷺ کے اس کی حفاظت فرمائی کہ آپ ﷺ کے دل میں محفوظ کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري کتاب التفسير باب سورة عبس (4937)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی اسے یاد کیا تو دنیا میں بہت سے حافظ قرآن ہوئے اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ اور دیکھ کر پڑھنے والے بہت سے ہیں جن میں مرد عورت بوڑھے جوان بچے عجمی عربی سبھی شامل ہیں اور بہت سے لوگوں کو تفسیر تفہیم وغیرہ کا شوق دیا کہ اس کے معانی و مطالب کو بڑی بڑی کتابوں میں بیان کیا اور فصاحت و بلاغت کے علماء نے بہت ہی عرق ریزی کر کے اس کی باریکیوں کو بیان کیا۔ نحویوں اور صر فیوں کو بھی اس کا جذبہ دیا اور محدثین و متکلمین کو اس کا شوق و یا خوشخط لکھنے والوں اور چھپوانے والوں کو بھی اس کی توفیق دی کہ مختلف لوگوں سے اللہ تعالی نے قرآن مجید کی نگرانی فرمائی ہے یہاں تک کہ قرآن مجید کے لفظوں اور ایک ایک حرف زیر زبر کو بھی گن ڈالا ہے۔
اور رسول اللہﷺ نے اللہ تعالی کی طرف سے اس کے پڑھنے سے دس دس نیکی کے ثواب کا وعدہ فرمایا جیسا کہ ارشاد ہے: (مَنْ قَرَأَ حَرفاً مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِه حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرٍ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولَ المَ حرف۔ الف حرف لام حَرْفٌ مِيمٌ حَرف)[1]
’’جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکی کے برابر ہے الم ایک حرف نہیں ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، میم ایک حرف ہے تو ان تین حرفوں کے بدلے تیس نیکیاں ملیں گی۔‘‘
اور پورے قرآن مجید میں تین لاکھ بائیس ہزار چھ سو ستر (322670) حروف ہیں تو پورے قرآن مجید کے پڑھنے کا ثواب بتیس لاکھ چھبیس ہزار سات سو (3226700) نیکیاں ملیں گی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَه.)[2]
’’وہ شخص تم سے اچھا ہے جو قرآن مجید کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اقرءوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيمَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ)[3]
’’قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن قرآن مجید پڑھنے والوں کے لئے شفیع بن کر آئے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب فضائل القرآن باب من قرأ حرفا من القرآن ما له من الاجر (2910)
[2] بخاري: کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن و علمه. (5027)
[3] مسلم: كتاب صلوة المسافرين، باب فضل قراءة القرآن وسورة البقرة (1874)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اِقْرَأْ وَارْقَ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلِ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ اٰخِرِ آيَةٍ تَقْرَأْهَا)[1] .
’’قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ تم قرآن مجید پڑھتے جاؤ اور اونچے اونچے درجات پر چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہوگا جہاں تم پڑھتے پڑھتے تھہر جاؤ گے۔“
بہر حال قرآن مجید کے فضائل و برکات و حسنات بہت زیادہ ہیں لیکن یہ پڑھنے اور عمل کرنے سے حاصل ہوں گے آج کل ہم نے قرآن مجید کو پڑھنا اور پڑھانا بھی چھوڑ دیا ہے اور عمل کرنا اور کرانا بھی چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے مصیبتوں میں گرفتار ہیں قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ خدا کے سامنے شکایت کریں گے خدایا میری امت نے قرآن چھوڑ دیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَقَالَ الرَّسُولُ يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا﴾ (فرقان: 30)
’’میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا (اس پر عمل نہیں کیا۔ پھر میرا کیا قصور ہے۔)‘‘
یعنی پہلے اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوال ہوگا کہ تمہاری امت کیوں گمراہ ہو گئی تو آپ ﷺ یہ جواب دیں گے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے:
﴿ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ ۗ بِحَقٍّ ؔؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ ؕ وَ اَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۱۷ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۱۸﴾ (مائده: 116 تا 118)
’’وہ وقت قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرما دیں گے کہ اے عیسی ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے کو اور میری ماں کو بھی خدا کے علاوہ معبود قرار دے لو۔ تو حضرت عیسی عرض کریں گے کہ میں تو آپکو منزہ سمجھتا ہوں مجھ کو کسی طرح زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جسکے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہوگا تو آپ کو اس کا علم ہو گا آپ تو میرے دل کی باتیں بھی جانتے ہیں اور جو کچھ آپ کے علم میں ہے میں اسے نہیں جانتا ہوں تمام غیبوں کے جاننے والے آپ ہیں میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا سوائے اس کے جو آپ نے کہنے کو فرمایا تھا۔ کہ تم اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو جو میرا ابھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو آپ ان پر مطلع رہے اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ بہت زبر دست حکمت والے ہیں۔‘‘
بخاري شریف اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! قیامت کے روز تم ننگے اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے جیسے کہ پیدائش کے وقت تھے سب سے پہلے حضرت ابراهیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔ اب میری امت کے چند لوگ لائے جائیں گے جنہیں دوزخ کی نشانی کے طور پر بائیں طرف رکھا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میری امت ہے۔ تو کہا جائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد تمہاری سنت کو چھوڑ کر ان لوگوں نے کیا کیا بدعتیں جاری کیں۔ تو میں ایک بندہ صالح کی طرح یہی کہوں گا کہ جو حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہا جائے گا کہ تمہارے بعد یہ لوگ مرتد اور بدعتی ہو گئے تھے۔ (بخاري و مسلم)
ہماری بداعمالیوں کی شکایت رسول اللہ ﷺ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے بنص قرآن تو کریں گے لیکن موجودہ حالت میں بہ زبان ماہر القادری قرآن مجید یوں شکایت کرتا ہے۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں آنکھوں میں لگایا جاتا ہوں!
تعویذ بنایا جاتا ہوں دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں!
جزو دان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے خوشبو میں بسایا جاتا ہوں!
جس طرح طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں اس طرح سکھایا جاتا ہوں!
جب قول و قسم لینے کے لئے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں!
دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ تم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں!
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
ایک بار ہنسایا جاتا ہوں سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے قانون یہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ایسے بھی ستایا جاتا ہوں!
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی اکیلا رہتا ہوں مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
رسول الله ﷺ کی اور قرآن مجید کی شکایت تو اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن اپنی اولاد بھی اپنی بے توجہی اور غفلت کی وجہ سے شکایت کرے گی کیونکہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے اور صحیح تعلیم و تربیت نہیں کی گئی۔ قیامت کے روز یہی اولا د دامن گیر ہوگی اسی طرح سے اور لوگ بھی دامن گیر ہوں گے جن کو (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) نہیں کیا گیا ہے۔
نیکی کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا ضروری ہے خواہ گھر کا آدمی ہو یا پاس پڑوس کا ہوا اگر خود نمازی ہے اور گھر والوں کو یا پڑوس والوں کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں کرتا ہے اور ان کو دیگر برائیوں سے نہیں روکتا ہے تو قیامت کے دن یہ بے نمازی پڑوسی کا دامن پکڑ کر خدا کے سامنے پیش ہوگا اور کہے گا۔ خدایا اس نے میری خیانت کی ہے اور میری حق تلفی کی ہے یہ بے نمازی پڑوسی اپنی صفائی میں کہے گا خدایا نہ میں نے اس کی خیانت کی ہے اور نہ میں نے اس کی حق تلفی کی ہے وہ بے نمازی کہے گا کہ خدایا یہ سچ کہتا سے لیکن اس نے مجھے گناہوں سے نہیں روکا اس لئے میری خیانت اور حق تلفی کی ہے،
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کتاب الصلوة و ما یلزم لہا کے ص 42 میں فرماتے ہیں:
(قَالَ يَجِيءُ الرَّجُلُ يَوْمَ الْقِيمَةِ مُتَعَلَّقًا بِجَارِهِ فَيَقُولُ يَارَبِّ هَذَا خَانَنِي فَيَقُولُ يَارَبِّ وَعِزَّتِكَ مَا خُنْتُهُ فِى أَهْلٍ وَلَامَالٍ فَيَقُولُ صَدَقَ یَا رَبٍ وَلِكِنَّهُ رَاٰنِي عَلَى مَعْصِيَةٍ فَلَمْ يَنْهَنِي عَنْهَا)
’’قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کے دامن کو پکڑ کر خدا کے سامنے فریاد کرے گا کہ اے پروردگار اس نے میری خیانت کی ہے وہ کہے گا تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اسکے اھل وعیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی یہ وہ کہے گا یہ سچ تو کہتا ہے لیکن جب اس نے مجھ کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے روکا نہیں تھا۔“
اسی طرح اولاد بھی باپ کا دامن گیر ہو کر کہے گی کہ خدایا مجھے اس نے بچپن میں نہ قرآن مجید پڑھایا اور نہ اسلامی تعلیم دی۔ مجھے اسلامی تعلیمات سے بالکل ناواقف رکھا اور کوئی دینی بات نہیں سکھائی۔ آج کل ہمارے بچے کتاب وسنت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بہت ہی زیادہ کمزور اور بزدل ہو گئے ہیں نہ ان میں شجاعت و بہادری ہے نہ وہ سیاہ گیری اور جنگ کے لائق ہیں اس لئے دوسروں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم آپ کے سامنے حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں جو اسلامی تاریخوں میں نہایت بسط و تفصیل سے لکھا ہے۔ اور اسمائ الر جال میں بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ غور سے سنئے اور بچوں کو بھی سنائیے تاکہ ان میں جرات و شجاعت پیدا ہو اور اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کی کوشش کریں۔
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا مشہور شاعرہ ہیں۔ اپنی خوشی سے اپنی قوم کے ساتھ آ کر مدینہ میں مسلمان ہوئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے زمانے میں قادسیہ کی مشہور جنگ ہوئی ہے اس لڑائی میں اپنے چاروں بیٹوں سمیت شریک ہوئیں ان نوجوان لڑکوں کو جنگ سے ایک دن پہلے بہت نصیحت کی اور لڑائی کی شرکت کی ترغیب دی۔ فرمانے لگیں۔
میرے پیارو بیٹو! تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ہو اپنی ہی مرضی سے تم نے ہجرت کی ہے ان کاموں کے لئے کسی نے تم کو مجبور نہیں کیا۔ خدا کی قسم جس طرح ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اسی طرح تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو یہ میں نے نہ تمہارے باپ کی خیانت کی اور نہ تمہارے ماموؤں کو رسوا کیا ہے اور نہ تمہاری شرافت میں کوئی دھبہ لگایا ہے اور نہ تمہارے نسب کو خراب کیا ہے تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑنے کا ثواب اور کتنا درجہ ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آخرت باقی رہنے والی ہے اور دنیا فنا ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران: 200)
’’اے ایمان والو! تکلیفوں میں صبر کرو اور کافروں کے مقابلہ میں جمے رہو اور تیار رہو۔ تا کہ تم فلاح پاؤ۔)
کل صبح جب صحیح سالم اٹھو اور لڑائی کی جلتی ہوئی آگ دیکھو تو اس کے انگاروں میں گھس جاؤ اور کافروں کا خوب مقابلہ کرو خدا نے چاہا تو جنت میں نہایت عزت واکرام سے داخل ہو گے۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور لڑائی کی آگ خوب تیز ہوگئی تو چاروں لڑکوں میں سے ایک ایک لڑکا نمبر وار آگے بڑھتا اور اپنی ماں کی نصیحت کو اشعار میں پڑھ کر جوش پیدا کرتا اور جنگ کی آگ میں کود پڑتا اور بہادری کے جوہر دکھا کر شہید ہو جاتا اسی طرح یکے بعد دیگرے جنگ میں شہید ہو گئے۔ جب ماں کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ان کی شہادت سے مشرف دو مکرم بنایا۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی کے سایہ میں ان لڑکوں کے ساتھ رہوں گی۔ (اسد الغابہ )
اس واقعہ سے ہمیں عبرت اور نصیحت پکڑنی چاہیے کہ ہم بھی اپنے بچوں کو بچپن ہی سے ایسی تعلیم دیں اور دلائیں نیز ایسی تربیت سے انہیں آراستہ کریں کہ جس سے مرتے دم تک اسلام ہی پر رہیں اور نہایت بہادرانہ عزت کی زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر ہی قائم رکھے اسلام کی شکل وصورت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے۔ آمین۔
(رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنَ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔