بچوں کو وعظ و نصیحت کرنا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَاتُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَى الْمَصِيرُ وإِن جَاهَدَاكَ عَلٰى أَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبَهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا وَاتَّبَعْ سَبِيْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَىَّ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فأَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ، يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فتَكُنْ فِيْ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرُ- يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأَمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهُ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرُ عَلٰى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ﴾ (سورة القمان: آیت:13-17)۔
ترجمہ: اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرہ (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آتا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ مانتا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کالونا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبر دار کروں گا۔ پیارے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں باز مین میں اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا اللہ تعالی بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : أَخَذَ الحَسَنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ تمرَةٌ مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كخ كخ، ارْم بِهَا أَمَا عَلِمْتَ أَنَّنَا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَة. (متفق عليه).
صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب ما يذكر في الصدقة النبيﷺ وآله، صحيح مسلم: كتاب الزكاة باب تحريم الزكاة على رسول اللهﷺ۔)
على ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکوۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ تھی بھی نکالو ا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔
وَعَنٍ عُمَرَ بنِ أَبِيْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ يَقُولُ: كُنتُ غُلَامًا فِي حجر رسول الله ﷺ وَكَانَتْ يَدَى تَطِيْسُ فِي الصَّحْفَةِ فَقَالَ لِي رَسُولُ الله ﷺ يَا غُلامُ سم الله وَكُلْ بِيَمِيْنِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِیْکَ (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب الأطعمة، باب التسمية على الطعام والأكل باليمين، صحيح مسلم: كتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب وأحكامهما.)
عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی پرورش میں تھا اور ابھی نو عمر تھا کیونکہ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آگئی تھیں) اور میرا ہاتھ (کھاتے وقت) پورے برتن میں گھوم رہا تھا تو مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اے لڑکے اللہ تعالی کا نام لے اور دائیں ہاتھ سے کھا اور اپنے سامنے سے کھا۔
وَعَن عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدْهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : مُرُوْا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمُ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوهُم عَلَيْهَا وَهُم أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (اخرجه أبو داود).
(سنن ابو داود: كتاب الصلاة، باب متى يؤمر السلام بالصلاة، وقال الألباني حسن صحيح في صحيح سنن أبي داود (1495)
عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اس پر انہیں مارو جب وه دس سال کے ہو جائیں اور انہیں الگ الگ سلایا کرو۔
تشریح:
والدین پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بین بچپن سے ہی دینی تعلیم دلائیں دینی تعلیم جب انہیں حاصل ہو جائے تو دنیاوی تعلیم کی طرف انہیں رغبت دلائیں کیونکہ دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم ضروری ہیں لیکن دنیاوی تعلیم فرض کفایہ ہے جب کہ دینی تعلیم فرض عین ہے۔ انہیں ہمیشہ دینی مجلسوں میں شرکت کے لئے ابھاریں۔ خود اپنے ساتھ مسجدوں میں نمازوں کے لئے لے جائیں۔ کم سے کم ہفتہ میں ایک یا دو دن ان کے لئے خاص کریں اور ان میں انہیں جمع کر کے کھانے کے آداب، پڑوسیوں کے آداب بھائی بہنوں کا احترام ، بڑے بوڑھوں کا احترام، والدین کا احترام ، نماز کی ترغیب اور سیرت رسول سے جیسے موضوعات کی تعلیم دیں۔ ان پر اوباش لڑکوں کے ساتھ گھومنے پر پابندی لگا ئیں ، ان سے پیار و محبت کا اظہار کریں، بچپن سے ہی ان کی نگرانی کریں کبھی یہ نہ سوچیں کہ ابھی وہ چھوٹے ہیں بعد میں خود ہی ساری چیزیں سمجھ جائیں گے کیونکہ یہی چیزیں ان کی بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ بچوں کو بچپن سے ہی وعظ و نصیحت کرنا مشروع ہے۔
٭ بچوں کی تربیت میں ان کی عمر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
٭ بچوں کو اپنے سامنے سے اور داہنے ہاتھ سے کھانے کی تعلیم دیں۔
٭٭٭٭