بے پردگی اور اظہار زینت کی ممانعت

الحمد لله العليم الحكيم، أنزل كتابه يهدي إلى الحق وإلى طريق مستقيم، هدى من شاء من عباده إلى الصراط القويم، أحمده سبحانه وأشكره شكر معترف له بالفضل العميم، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الناصح الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو علیم و حکیم ہے۔ اس نے حق کی راہ دکھانے کے لئے اپنی کتاب قرآن مجید نازل کی اور اپنے بندوں میں جسے چاہا صراط مستقیم پر گامزن کیا میں اس رب پاک کی تعریف کرتا اور اس کے بے پایاں فضل و احسان کا اقرار کر کے اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ اتو اپنے بندے اور رسول محمد – صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ رب العالمین سے ڈرو اور قرآن کریم کے اخلاق و آداب سے اپنے آپ کو سنوارو میں قرآن مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق تھے آپ اس کے حکم کی اقتدا فرماتے منہیات سے بچتے اور اس کے مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتے تھے چنانچہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:
(كان خلقه القرآن)
[سید علی نے کہا ہے۔ کہ امام احمد، امام مسلم اور امام ابوداود نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ سیوطی نے اس حدیث پر صحیح ہونے کی علامت بھی لگائی ہے۔ نیز مناوی نے کہا ہے۔ کہ اس حدیث کا استدراک کرنے میں امام حاکم کو وہم ہو گیا ہے۔ دیکھئے: فیض القدیر(170/5)]
’’آپ کے اخلاق قرآن تھے۔‘‘
لہٰذا ہر مسلمان مرد اور عورت پر آپ کی اقتد ا ضروری ہے۔
اللہ رب العالمین نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو قرآن مجید کے اندر جو آداب سکھائے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
﴿ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۝۳۲ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ۝۳۳﴾ (الاحزاب:32،33)
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پر ہیزگار رہو۔ لہٰذا کسی اجنبی شخص سے نرم باتیں نہ کرو کہ اس کے نتیجے میں وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے۔ کوئی امید پیدا کر بیٹھے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔ اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور عہد جاہلیت کی طرح اظہار زینت نہ کرو اور نماز پڑھتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے۔ کہ تم سے ناپاکی کا میل کچیل دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک و صاف کر دے۔‘‘
یہ آیات نہایت ہی عمدہ اور گرانقدر اخلاق و آداب پر مشتمل ہیں، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان عفت مآب عورتوں کو ادب سکھایا ہے۔ جو اس امت کی افضل ترین عورتیں تھیں، جن کے دل سب سے زیادہ پاکیزہ تھے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والی تھیں، جو ہر قسم کے شک و شبہ سے مبرا اور خیر و صلاح میں سب سے آگے تھیں۔ غور کرنے کا مقام ہے۔ کہ اللہ تعالٰی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین کو جب یہ تعلیم دی ہے۔ تو ان کے علاوہ عام عورتیں ان مقدس تعلیمات و توجیہات اور اخلاق و آداب کی کسی قدر ضرورت مند ہوں گی۔
لیکن آہ! قرآن مجید کی ان مقدس تعلیمات اور اسلامی اخلاق و آداب سے آج کی مسلم خواتین کو واسطہ کہاں رہا؟ یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔ کہ آج مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد شرعی اخلاق و آداب سے بیزار ہے۔ وہ مذکورہ بالا آیات میں دیئے گئے حکم الہی کی تعمیل نہیں کرتیں، شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کی چادر انہوں نے اتار پھیکی ہیں۔ اسلام کے پسندیدہ اخلاق و آداب کو چھوڑ چکی ہیں۔ عربی امتیاز اور اسلامی آداب کو پس پشت ڈال کر لباس اور عادات واطوار میں مغربی تہذیب کے پیچھے دوڑ رہی ہیں۔ اور اسی مغربیت کے نشہ میں ایسے حرام و ناجائز لباس زیب تن کرنے لگی ہیں۔ جن سے ان کی پنڈلیاں اور بانہیں کھلی ہوتی ہیں، گھروں سے بلا ضرورت سیر و تفریح کے لئے نکلتی ہیں۔ زیب و زینت میں برہنہ ہو کر راستہ چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔ اور اظہار زینت اور حسن و جمال کی نمائش کے ذرائع استعمال میں لا کر لوگوں کو اپنی جانب دعوت نظارہ دیتی اور ان کے دلوں کے اندر فتنہ کی آگ بھڑکا رہی ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے۔ کہ ہم مغربی تہذیب کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔ اور اس کو ہم نے ترقی کا نام دے رکھا ہے۔ یاد رکھو کہ یہ ترقی ضرور ہے۔ لیکن زوال کی جانب یہ ترقی ہے۔ فسق و فجور میں یہ ترقی ہے۔ گناہ و معصیت اور رذالت کے اندر یہ ترقی ہے۔ شر و فساد کے اسباب اور آوارگی و بے حیائی اور خواہشات نفسانی کی اتباع میں۔
آج بہت سی عورتیں اپنے شوہر یا سرپرست کے ڈر سے غیر شرعی لباس خود تو نہیں پہن سکتیں، لیکن اندر ہی اندر وہ ان کی بڑی مشتاق ہوتی ہیں، چنانچہ اپنی بیٹیوں اور چھوٹی بہنوں کو اپنی پسند کے مطابق وہی غیر شرعی لباس پہناتی ہیں۔ اسی غیر شرعی لباس میں ان بچیوں کی تربیت ہوتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ بچپن ہی سے وہ ان لباسوں کی اس قدر رسیا ہو جاتی ہیں۔ کہ سن شعور کو پہنچنے کے بعد جب کوئی واعظ انہیں سمجھاتا اور نصیحت کرتا ہے۔ تو اس کی نصیحت صد بصحر الثابت ہوتی ہے۔ اور وہ اپنا من پسند لباس چھوڑنے کے لئے ہرگز آمادہ نہیں ہوتیں۔
اس طرح کے چست اور باریک لباس کہ جس کے اندر سے حسن و جمال نظر آرہا ہو، پہن کر ایک عورت درج ذیل محرمات کی مرتکب ہوتی ہے:
اولا: وہ کفار سے مشابہت اختیار کرتی ہے۔ جو کہ سراسر حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(من تشبه بقوم فهو منهم) [مسند احمد: 50/2 (5115،5114)، سنن ابی داود: کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة (4031)]
’’جس شخص نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘
ثانیا: وہ اس طرح کے لباس پہن کر اظہار زینت کرتی ہے۔ اور اظہار زینت اس کے لئے ممنوع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ﴾ (النور:31)
’’وہ اپنی زنیت ظاہر نہ کریں۔‘‘
ثالثًا: وہ لوگوں کو فتنہ میں ڈالتی اور ان کے لئے مخش و بدکاری کی طرف مائل ہونے کا سبب بنتی ہیں۔
رابعاً: وہ خود اپنے لئے نیز اپنے ذمہ داروں کے لئے رسوائی اور ننگ و عار کا موقع فراہم کرتی ہے۔
خامساً: وہ اپنے آپ کو ایسے گرے ہوئے ذلیل مقام میں اتار لیتی ہے۔ جسے دیکھ کر اصحاب دانش کو کڑھن سی ہوتی ہے۔ اور اس کے بر خلاف کمینے اور ذلیل لوگوں کے لئے چاہت و آرزو کا باعث بن جاتی ہے۔
اللہ کے بندو! اس سلسلہ میں سب سے پہلی ذمہ داری سرپرست حضرات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کی پوری نگرانی کریں اور حرام چیزوں کے اپنانے میں انہیں قطعًا آزادی نہ دیں بلکہ شرعی اخلاق و آداب کا پابند بنائیں۔
اللہ رب العالمین نے سر پرست حضرات کو مخاطب کر کے یہ حکم دیا ہے۔ کہ احکام الٰهی کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب کر کے وہ خود کو اور اپنے اہل و عیال کو عذاب الہی سے بچائیں اور ان کی حفاظت و نگرانی کریں فرمایا:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة﴾ (التحريم:6)
’’اے اہل ایمان! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔‘‘
لہٰذا اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس دن سے ڈرو جب اللہ کے حضور پیش کئے جاؤ گے اور اس فرمان الٰہی کو ہمیشہ یاد رکھو جو اس نے عورتوں کے اخلاق و آداب کی تربیت کیلئے نازل فرمایا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۵۹﴾ (الاحزاب: 59)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہو گا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
خطبہ ثانیہ
الحمد لله الهادي إلى سبيل الرشاد، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، لا خير إلا دل الأمة عليه، ولا شر إلا حذرها منه، اللهم صل على عبدك ورسولك محمد، وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو رشد و ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔ میں اس کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد- صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہوں نے اپنی امت کو ہر خیر کی تعلیم دی اور ہر شر سے ڈرایا اور متنبہ کیا ہے۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور دنیاوآخرت کی بھلائی اور فلاح و کامرانی کے لئے احکام الٰہی کی تعمیل کرو منہیات سے بچو اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے اندر غور و فکر کرو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر زمانے میں رونما ہونے والی برائیوں کی خبر دی ہے۔ اور ہمیں ان سے بچتے رہنے کی تاکید بھی فرما دی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(صنفان من أهل النار لم أرهما: قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها النَّاسُ، وَنِسَاء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِن مَسِيرَة كَذَا وَكَذَا) [صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النساء الكاسيات….. (2128) و مسند احمد356/2 (8650)]
’’دو طرح کے جہنمی ہیں۔ جنہیں میں نے اب تک نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ جن کے ساتھ گائے کی دم کی مانند کوڑے ہوں گے اور ان سے لوگوں کو ماریں گئے۔ دوسرے وہ عورتیں جو اپنے ہوں گی مگر تنگی ہوں گی لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی ان کی طرف مائل ہوں گی ان کے سر بختی اونٹوں کے جھکے ہوئے کوہان کی مانند ہوں گے وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دور سے مل رہی ہو گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔