﷽
بہترین کون۔۔؟
اہم عناصر :
❄ ایمان لانے والے اور عملِ صالح کرنے والے ❄ توبہ کرنے والا گنہگار
❄ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ❄عمر لمبی ، کام اچھے
❄مل جل کر رہنے والا مسلمان ❄ طاقتور مومن
❄ اہلِ خانہ سے حسنِ سلوک کرنے والا ❄ قرآن پڑھنے پڑھانے والا
❄ اچھے طریقے سے ادائیگی کرنے والا ❄جس سے خیر کی امید رکھی جائے
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ] البینہ: 7[
ذی وقار سامعین!
ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں بلند مقام و مرتبہ حاصل کرلے، اعلٰی سے اعلٰی بن جائے اور کامیاب ہوجائے۔ وہ اس کے لئے کوشش و محنت بھی کرتا ہے لیکن حقیقی کامیاب اور مقام و مرتبے والا شخص وہ ہے جسےاللہ اور اسکے رسولﷺ کامیاب و کامران کہیں۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان عظیم لوگوں کا تذکرہ کریں گے جن کو اللہ اور اسکے رسولﷺ نے "بہترین”کہا ہے۔قرآن و حدیث میں ان لوگوں کے لئے "خَيْر”کا لفظ بولا گیا ہے۔ یہ گرامر کے لحاظ سے اسم تفصیل ہے۔ خیر کا معنی ہوتا ہے سب سے بہتر اور بہترین۔ آئیے ان لوگوں کا تذکرہ سنیں اور ان جیسے بننے کی کوشش کریں:
1۔ ایمان لانے والے اور عملِ صالح کرنے والے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ] البینہ: 7[
ترجمہ: "بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وہی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔” اللہ کی زمین پر سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو مسلمان ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں. ایمان لانے کے ساتھ نیک اعمال ضروری ہیں ورنہ اکیلا ایمان فائدہ نہیں دے گا. کیونکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ "اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔” مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد نیک اعمال بہت زیادہ ضروری ہیں. اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
❄ وَالۡعَصۡرِ ۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍ۔ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ
ترجمہ: زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
❄ وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا ] الکھف: 88[
ترجمہ: اور رہا وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو اس کے لیے بدلے میں بھلائی ہے اور عنقریب ہم اسے اپنے کام میں سے سرا سر آسانی کا حکم دیں گے۔
2۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ:
قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ] بخاری: 2651[
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے(تبع تابعین)
❄ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَأْتِي زَمَانٌ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ، فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَح ُ [بخاری: 2897]
ترجمہ : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی فوج جہاں پر ہوں گی ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا فوج میں کوئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو ، کہا جائے گا کہ ہاں تو ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی ۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا اس وقت اس کی تلاش ہوگی کہ کوئی ایسے بزرگ مل جائیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت اٹھائی ہو ، ( یعنی تابعی ) ایسے بھی بزرگ مل جائیں گے اور ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی اس کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے شاگردوں کی صحبت اٹھائی ہو کہا جائے گا کہ ہاں اور ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی۔
❄ عن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ [بخاری: 3673]
ترجمہ : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔
❄ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے:
"إن اللهَ تعالى نظرَ في قلوبِ العباد، فوجدَ قلبَ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم – خيرَ قلوبِ العباد، فاصطفاهُ لنفسِه، وابتعثَه برسالتِه، ثم نظرَ في قلوبِ العباد بعد قلب محمدٍ ﷺ فوجدَ قلوبَ أصحابِه خيرَ قلوب العباد، فجعلَهم وُزراءَ نبيِّه، يُقاتِلون على دينِه”. [مسند احمد: 3600حسن]
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزرا ءبنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔
3۔ قرآن پڑھنے پڑھانے والا:
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
ترجمہ : سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔ ] بخاری: 5027[
❄ سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ ( یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہو تا تھا ) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے ( وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں ۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم ( قریش ) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آگئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی ۔ پھر جب ( مدینہ ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں خدا کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آرہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نما ز اس طرح فلاں وقت پڑھاکرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو ۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یادکرنے والاا نہیں نہیں ملا ۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا ۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا ۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی ‘ جب میں سجدہ کرتا تو اوپر ہوجاتی ( اور پیچھے کی جگہ ) کھل جاتی ۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چو تڑ تو پہلے چھپا دو۔ آ خر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی ، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔ [بخاری: 4302]
❄ أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بِعُسْفَانَ وَكَانَ عُمَرُ يَسْتَعْمِلُهُ عَلَى مَكَّةَ فَقَالَ مَنْ اسْتَعْمَلْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي فَقَالَ ابْنَ أَبْزَى قَالَ وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى قَالَ مَوْلًى مِنْ مَوَالِينَا قَالَ فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى قَالَ إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّهُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ قَالَ عُمَرُ أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ [مسلم: 1897]
ترجمہ : نافع بن عبدالحارث (مدینہ اور مکہ کے راستے پر ایک منزل) عسفان آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے،(وہ استقبال کے لئے آئے) اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں مکہ کا عامل بنایا کرتے تھے،انھوں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اہل وادی،یعنی مکہ کے لوگوں پر(بطور نائب) کسے مقرر کیا؟نافع نے جواب دیا:ابن ابزیٰ کو۔انھوں نے پوچھا ابن ابزیٰ کون ہے؟کہنے لگے :ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا:تم نے ان پر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشن بنا ڈالا؟تو (نافع نے) جواب دیا:و ہ اللہ عزوجل کی کتاب کو پڑھنے والا ہے اور فرائض کا عالم ہے۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: (ہاں واقعی) تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچا گراتا ہے۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ فَقَالَ رَجُلٌ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ [بخاری: 5026 ]
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعا لی نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لئے لٹا رہا ہے ( اس کو دیکھ کر ) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتااور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔
4۔ اہلِ خانہ سے حسنِ سلوک کرنے والا:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺخَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي[ترمذی: 3895صححہ الالبانی]
ترجمہ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:’ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھروالوں کے لیے سب سے بہتر ہوں.
❄ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّﷺعِنْدَ بَعْضِ نِسَائِهِ فَأَرْسَلَتْ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِصَحْفَةٍ فِيهَا طَعَامٌ فَضَرَبَتْ الَّتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهَا يَدَ الْخَادِمِ فَسَقَطَتْ الصَّحْفَةُ فَانْفَلَقَتْ فَجَمَعَ النَّبِيُّﷺفِلَقَ الصَّحْفَةِ ثُمَّ جَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ الَّذِي كَانَ فِي الصَّحْفَةِ وَيَقُولُ غَارَتْ أُمُّكُمْ ثُمَّ حَبَسَ الْخَادِمَ حَتَّى أُتِيَ بِصَحْفَةٍ مِنْ عِنْدِ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا فَدَفَعَ الصَّحْفَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الَّتِي كُسِرَتْ صَحْفَتُهَا وَأَمْسَكَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي كَسَرَتْ [بخاری: 5225]
ترجمہ : حضرت انس نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنی ایک زوجہ ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے یہاں تشریف رکھتے تھے ۔ اس وقت ایک زوجہ ( زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ) نے آنحضرت ﷺ کے لئے ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی جن کے گھر میں حضوراکرم ﷺ اس وقت تشریف رکھتے تھے ۔ انہوں نے خادم کے ہاتھ پر ( غصہ میں ) مارا جس کی وجہ سے کٹورہ گر کر ٹوٹ گیا ۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے کٹورا لے کر ٹکڑے جمع کئے اور جو کھانا اس برتن میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے اور ( خادم سے ) فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے ۔ اس کے بعد خادم کو روکے رکھا ۔ آخر جن کے گھر میں وہ کٹورہ ٹوٹا تھا ان کی طرف سے نیا کٹورہ منگایا گیا اور آنحضرت ﷺ نے وہ نیا کٹورہ ان زوجہ مطہرہ کو واپس کیا جن کا کٹورہ توڑ دیا گیاتھا اور ٹوٹا ہوا کٹورہ ان کے یہا ں رکھ لیا جن کے گھر میں وہ ٹوٹا تھا۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ إِنْ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِلَّا تَرَكَهُ [بخاری: 3563]
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا ، اگر آپ کو مرغوب ہوتا تو کھاتے ورنہ چھوڑدیتے۔
5۔ طاقتور مومن: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺالْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ [مسلم: 6774]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں (موجود) ہے۔ جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو (مایوس ہو کر نہ بیٹھ) جاؤ، اگر تمہیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے،اس لیے کہ (حشرت کرتے ہوئے) کاش (کہنا) شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔”
❄ غروہ خیبر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(( لَأُعْطِیَنَّ هذِہِ الرَّاْ یَة غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰهُ عَلَی یَدَیْهِ، یُحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَهُ، وَیُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ)) کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے، چنانچہ صحابہ نے اس فکر وتمنا میں رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ معلوم نہیں کون اس کا حق دار ہوگا، صبح ہوئی سب آپ ﷺ کے پاس آئے، اور ہر ایک اس سرفرازی کے لیے منتظر رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ))’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، لیکن انھیں بلایا گیا اور وہ آئے، آپ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے ان کی تکلیف ایسے دُو رہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں عَلَمْ دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اُنْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَایَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَ اللّٰہِ لِأَنْ یَہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمُرُ النَّعَمِ))’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ، اور ان سے مقابلہ میں اتر کر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے واللہ اگر تمھارے ہاتھ پر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ‘‘ ]مسلم: 6223[
چنانچہ آپ نے قدم آگے بڑھایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر فتح کیا۔ اس غزوہ میں علی رضی اللہ عنہ نے بہادری کے جوہر دکھائے اور یہودیوں کے سورما مرحب سے ٹکرلی، مرحب جب ان اشعار کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھا:
قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ
شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مَجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلْهَبُ
’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو‘‘
اس وقت علی رضی اللہ عنہ جوابًا یہ اشعار پڑھے اور آگے بڑھے۔
أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَیْدَرَه
كَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَه
أَوْ فِیْھِمْ بِالصَّاعِ كَیْلَ السَّنْدَرَهِ
’’میں وہ شخص ہوں کہ میرا نام میرے ماں نے حیدر (شیر) رکھا ہے، جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، انھیں صاع کے بدلہ نیزہ کی ناپ پوری کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مرحب کے سرپر زبردست وار کیا،اسے قتل کردیا، اور آپ کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ ]مسلم: 1807[
6۔ توبہ کرنے والا گنہگار:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّﷺقَالَ كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ
ترجمہ : انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’ سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔[ترمذی: 2499حسنہ الالبانی]
❄ عن جابر رضی الله عنه قال قال رسول الله ﷺ(مرَّ رجلٌ ممن كان قبلكُم بجُمجُمة، فنظر إليها، فحدّث نفسه بشيءٍ ثم قال: يا ربِّ! أنت أنت، وأنا وأنا، أنت العوادُ بالمغفرةِ، وأنا العوادُ بالذنوب! وخرّ للهِ ساجداً، فقيل له: ارفع رأسك، فأنت العوّادُ بالذّنوبِ، وأنا العوّادُ بالمغفرةِ، [فرفع رأسه، فغُفِر له]) سلسلہ صحیحہ: 2338
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگوں میں سے ایک آدمی (کا ذکر ہے، وہ) ایک کھوپڑی کے پاس سے گزرا، اس نے اس کی طرف دیکھا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے کہا: اے میرے پروردگار! تو بڑی عظیم ذات ہے اور میں بڑا کمزور ہوں، تو بار بار بخشنے والا ہے اور میں بار بار گناہ کرنے والا ہوں، پھر اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا، (غیبی آواز آئی ) اسے کہا گیا: اپنا سر اٹھاؤ، تو بار بار گناہ کرنے والا ہے اور میں بار بار بخشنے والا ہوں۔ سو اس نے اپنا سر اٹھایا اور (اللہ تعالیٰ نے )اسے بخش دیا۔“
❄ سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر و ہ( نادم ہوا) مسئلہ پوچھنے نکلا۔
فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ
وہ ایک درویش کےپاس آیا اوراس سے پوچھا ،کیا اس گناہ سےتوبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں ۔یہ سن کر اس نےاس درویش کوبھی قتل کردیا۔
پھر وہ ( دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کوایک درویش نےبتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا( وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھاکہ) اس کوموت واقع ہوگئی ۔مرتےمرتے اس نے اپناسینہ اس بستی کی طرف جھکادیا۔ آخر رحمت کےفرشتوں اورعذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔ (کہ کون اسے لے جائے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو(جہاں وہ توبہ کےلیے جارہاتھا) حکم دیا کہ وہ اس کی نعش سےقریب ہو جائے اوردوسری بستی کو(جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سےدور ہوجا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سےفرمایا کہ
قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ [بخاری:3407 ]
اب دونوں کافاصلہ دیکھوں اور(جب ناپا تو) اس بستی کو(جہاں سے وہ توبہ کےلیے جارہا تھا) ایک بالشت نعش سےنزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیاگیا۔
7۔ اچھے طریقے سے ادائیگی کرنے والا:
عن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ ﷺسِنٌّ مِنْ الْإِبِلِ فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ فَقَالَ أَعْطُوهُ فَطَلَبُوا سِنَّهُ فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا فَقَالَ أَعْطُوهُ فَقَالَ أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً [بخاری: 2305]
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے ( اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا ( مل سکا ) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔
❄ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی صفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری ( کشتی وغیرہ ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ ( اور اس کا قرض ادا کردے ) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک ( اس مضمون کا ) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف ( یہ دینار بھیجے جارہے ہیں ) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور ( تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک ( مدت مقررہ میں ) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں ( کہ تو اس تک پہنچا دے ) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب ( قرض دار ) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں ( بندرگاہ ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینا رنکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ ( کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے ) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور ( یہ خیال کرکے کہ شادی وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھرانہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
8۔ جس سے خیر کی امید رکھی جائے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَفَ عَلَى أُنَاسٍ جُلُوسٍ فَقَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِكُمْ مِنْ شَرِّكُمْ قَالَ فَسَكَتُوا فَقَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ رَجُلٌ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنَا بِخَيْرِنَا مِنْ شَرِّنَا قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ يُرْجَى خَيْرُهُ وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَى خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ [ترمذی: 2263صححہ الالبانی]
ترجمہ : ابوہریرہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ کچھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس آکرٹھہرے اور فرمایا: ‘کیا میں تمہارے اچھے لوگوں کو تمہارے برے لوگوں میں سے نہ بتادوں؟’ لوگ خاموش رہے ، آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا، ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ ہمارے اچھے لوگوں کو برے لوگوں میں سے بتادیجئے، آپ نے فرمایا:’تم میں بہتروہ ہے جس سے خیرکی امیدرکھی جائے اورجس کے شرسے مامون(بے خوف) رہاجائے اورتم میں سے براوہ ہے جس سے خیرکی امیدنہ رکھی جائے اورجس کے شرسے مامون(بے خوف) نہ رہا جائے’۔
9۔ مل جل کر رہنے والا مسلمان:
عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنْ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ
ایک بزرگ صحابی سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’ جومسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے ‘۔
[ترمذی: 2507صححہ الالبانی]
10۔ عمر لمبی ، کام اچھے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺأَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ قَالَ فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ
ترجمہ : ابوبکرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا :اللہ کے رسول ﷺ ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا:’ جس کی عمر لمبی ہو اورعمل نیک ہو’، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدترشخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا:’ جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو۔ [ترمذی: 2330صححہ الالبانی]
❄❄❄❄❄